• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری مترجم۔’’ التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح ''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَائِ
علماء (کی باتیں سننے) کے لیے چپ رہنا (چاہیے)​

(101) عَنْ جَرِيرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ اسْتَنْصِتِ النَّاسَ فَقَالَ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ *
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا :’’تم لوگوں کو چپ کرا دو۔‘‘ (جب لوگ خاموش ہو گئے تو) اس کے بعدآپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اے لوگو!) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ
عالم کو کیا چاہیے جب کہ اس سے پوچھا جائے کہ تمام لوگوں میں زیادہ جاننے والا (عالم) کون ہے ؟ تو وہ علم کی نسبت اﷲ کی طرف کردے​

(102) عَنِ أُبيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ يَا رَبِّ وَكَيْفَ بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَإِذَا فَقَدْتَّهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلاَ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُئُوسَهُمَا وَنَامَا فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ { فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا } وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمِهِمَا فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ { آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا } وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ { أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلاَّ الشَّيْطَانُ } قَالَ مُوسَى { ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا } فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ فَقَالَ أَنَا مُوسَى فَقَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ { هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا} قَالَ { إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا} يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لاَ تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لاَ أَعْلَمُهُ { قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَآئَ اللَّهُ صَابِرًا وَلاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا } فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَجَائَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَّ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا { قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا} قَالَ فَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلاَمٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلاَهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَى { أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ } { قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا } قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَوْكَدُ { فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ } قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى { لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَ بَيْنِكَ } قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ‘‘ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا ‘‘
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں :’’موسیٰ علیہ السلام (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہوگی ؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) اس مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ علیہ السلام جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے ، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی)۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا )بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں(یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں)موسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں۔ خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ ( علیہ السلام ) انھوں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیامیں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھا دو؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہر گز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ!بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہاکہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر ( علیہ السلام ) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کرایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثناء میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر ( علیہ السلام ) بولے کہ اے موسیٰ! میرے اورتمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر ( علیہ السلام ) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں ۔ خضر( علیہ السلام ) نے کہا ’’کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبرنہ کر سکو گے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا ۔ خضر ( علیہ السلام ) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بے گناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر ( علیہ السلام ) نے کہا : کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے؟‘‘ ابن عیینہ (راوی ٔ حدیث)نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت)اس میں زیادہ تاکید تھی۔پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے(صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر( علیہ السلام ) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر ( علیہ السلام ) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبی ﷺ نے (اس قدر بیان فرما کر ) ارشاد فرمایا :’’اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے ۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَنْ سَأَلَ وَهُوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا
جس شخص نے کھڑے ہو کر کسی بیٹھے ہوئے عالم سے (کوئی مسئلہ) دریافت کیا​

(103) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ قَالَ وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلاَّ أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا فَقَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ *
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے؟ اس لیے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب سے لڑتا ہے اور کوئی (ذاتی و گروہی) حمیت کی خاطر جنگ کرتا ہے۔ پس آپ ﷺ نے اپنا سر (مبارک) اس کی طرف (متوجہ ہونے کے لیے ) اٹھایا اور (راوی کہتا ہے کہ) آپ ﷺ نے سر اسی سبب سے اٹھایا چونکہ وہ کھڑا ہوا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے (اور اسی کا بول بالا ہو)تو وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے ۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى { وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلًا }(بني اسرائيل>85)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔‘‘​

(104) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ تَسْأَلُوهُ لاَ يَجِيئُ فِيهِ بِشَيْئٍ تَكْرَهُونَهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنَسْأَلَنَّهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا الرُّوحُ فَسَكَتَ فَقُلْتُ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ فَقُمْتُ فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ قَالَ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي } وَمَا أُوتِيتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً *
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی ایک چھڑی کو (زمین) پر ٹکا کر چل رہے تھے کہ اتنے میں یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے آپ ﷺ گزرے، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ ﷺ سے روح کی بابت سوال کرو۔ اس پر بعض نے کہا کہ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ اس کے جواب میں آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار لگے۔ پھر بعض نے کہا کہ ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو القاسم ! روح کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں کھڑا ہو گیا۔ پھر جب وہ کیفیت آپ ﷺ سے دور ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’ اور یہ لوگ آپ ( ﷺ ) سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، تو آپ انھیں جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔‘‘ اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا *
اس بات کو برا سمجھ کر کہ وہ لوگ نہ سمجھیں گے جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لیے مخصوص کر لیا۔​

(105) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَكَانَ مُعاذٌ رَدِيفَهُ عَلَى الرَّحْلِ قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ ! قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰـہَإِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلاَّ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُونَ قَالَ إِذًا يَتَّكِلُوا وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا *
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اس حال میں کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔فرمایا :’’اے معاذ بن جبل !‘‘ انھوں نے عرض کی حاضر ہوں یارسول اللہ اور مستعد ہوں۔ (پھر) آپ نے فرمایا کہ اے معاذ ! انھوں نے عرض کی کہ حاضر ہوں یارسول اللہ اور مستعد ہوں۔ (پھر) آپ نے فرمایا :’’اے معاذ ! انھوں نے عرض کی کہ حاضر ہوں یارسول اللہ اور مستعد ہوں۔‘‘ تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) پھر آپ نے فرمایا : ’’جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘ تو اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کر دوں تاکہ وہ (بھی) خوش ہوجائیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس وقت (جب تم ان کو خبر کرو گے) تو لوگ (اسی پر) بھروسہ کر لیں گے (اور عمل سے باز رہیں گے) ۔‘‘اور معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت(علم کو چھپانے کے) گناہ کے خوف سے بیان کر دی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الْحَيَائِ فِي الْعِلْمِ
علم میں شرمانا (بری بات ہے)​

(106) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ جَائَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِيْ مِنَ الْحَقِّ فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَأَتِ الْمَائَ فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا وَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَوَ تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ قَالَ نَعَمْ تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا *
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! اللہ حق بات سے نہیں شرماتا تو (یہ بتایے کہ) کیا عورت پر جبکہ وہ محتلم ہو غسل (فرض) ہے ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا (ہاں) جب کہ وہ پانی (یعنی منی) کو (اپنے کپڑے یا شرمگاہ پر) دیکھے تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے (مارے شرم کے) اپنا منہ چھپا لیا اور کہا کہ یارسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں تمہارا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو جائے (اگر عورت کی منی نہیں خارج ہوتی) تو اس کا لڑکا اس کے مشابہ کیوں ہوتا ہے ؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَنِ اسْتَحْيَا فَأَمَرَ غَيْرَهُ بِالسُّؤَالِ
جو شخص خود شرمائے اور دوسرے کو (مسئلہ) پوچھنے کا حکم دے​

(107) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ رَجُلاً مَذَّائً فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَهُ فَقَالَ فِيهِ الْوُضُوئُ *
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری مذی بہت نکلا کرتی تھی تو میں نے مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی ﷺ سے (اس کا حکم) پوچھیں۔ چنانچہ انھوں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس (کے نکلنے) میں صرف وضو (فرض ہوتا) ہے ۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ ذِكْرِ الْعِلْمِ وَالْفُتْيَا فِي الْمَسْجِدِ
مسجد میں علم کا ذکر کرنا اور فتویٰ صادر کرنا​

(108) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلاً قَامَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الْجُحْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ وَ يُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ *
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ ! آپ ہمیں احرام باندھنے کا کس مقام سے حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’مدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام کے لوگ جحفہ سے احرام باندھیں اور نجد کے لوگ مقام قرن سے احرام باندھیں۔‘‘ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، لوگ گمان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا کہ یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں۔‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے صاف اور صحیح طور پر یہ بات نہیں سنی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَنْ أَجَابَ السَّائِلَ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَأَلَهُ
جو شخص سائل کو اس سے کہیں زیادہ بتا دے جس قدر اس نے پوچھا ہے​

(109) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَهُ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ فَقَالَ لاَ يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلاَ الْعِمَامَةَ وَلاَ السَّرَاوِيلَ وَلاَ الْبُرْنُسَ وَلاَ ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ أَوِْ الزَّعْفَرَانُ فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسِ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا تَحْتَ الْكَعْبَيْنِ *
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ محرم (حج یا عمرہ کرنے والا) کیا پہنے؟ تو آپ نے فرمایا :’’ نہ کرتا پہنے اور نہ عمامہ اور نہ پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگ گئی ہو، پھر اگر نعلین (چپلیں) نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انھیں کاٹ دے تاکہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کتاب الوضوء
وضو کا بیان


بَاب لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ
کوئی نماز طہارت(وضو) کے بغیر قبول نہیں ہوتی​

(110) عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ قَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ مَا الْحَدَثُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ فُسَائٌ أَوْ ضُرَاطٌ *
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔حضرموت (شہر) کے ایک شخص نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! ’’حدث‘‘ کیا چیز ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا :’’ے آواز یا با آواز ریح خارج ہونا ۔‘‘
 
Top