• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝


ان الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ، ونستغفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا، ومن سیئات أعما لنا، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضلل فلاھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ ۔ { یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللہ حَقَّ تُقَا تِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ }(آل عمران:۱۰۲) { یَاأَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الذِّیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمُا رِجَا لًا کَثِیْرًا وَّنِسَا ئً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامِ اِنَّ اللہ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا } (النساء: ۱ ) { یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللہ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِ یْداً یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَا لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا} (الاحزاب:۷۰،۷۱) أما بعد:

مکی مدنی ایتوں کی شناخت
ابوالقاسم حسن بن محمد بن حبیب نیشاپوری اپنی کتاب(التنبیہ علی فضل علوم القران)میں لکھتے ہیں کہ علوم القران میں سب سے اشرف علم نزول قران،اس کی جہات اور مکہ مدینہ میں نازل ہونے والی سورتوں کی ترتیب کا علم ہے۔اس بات کا جاننا کہ کون سی سورت مکہ میں نازل ہوئی مگر اس کا حکم مدنی ہے۔کون سی سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کا حکم مکی ہے۔اور یہ کے مکہ میں اہل مدینہ کی بابت کیا حکم نازل ہوا اور مدینہ میں اہل مکہ کی نسبت کیا بات اتری۔نیز جو اس عمر کے مشابہ ہے کہ مکی آیت مدنی کے حق میں اور مدنی آیت مکی کہ حک میں نازل ہوئی ہو۔حجف،بیت المقدس،طائف اور حدیبیہ میں نازل ہو نے والی سورتوں کا علم رکھنا اور اس بات سے واقف ہونا کے کون سی سورت رات کے وقت اتری تھی اور کون سی دن کے وقت۔کون سی سورت فرشتوں کی جماعت کی مشایعت کے ساتھ اتری اور کس سورت کا نزول تنہا جبریل امین کے معرفت ہوا۔پھر مکی سورتوں میں مدنی آیتوں کا علم رکھنا اور مدنی سورتوں میں مکی آیتوں سی واقف ہونا۔اس بات کا جاننا کے مکہ سے مدینہ کس قدر قران لایا گیا۔مدینہ سے مکہ کو کتنا حصہ قرآن کا لے جایا گیا۔کتنا حصہ قرآن کا مدینہ سے ملک حبش کو لے گئے تھے اور کون سی آیت مجمل اتری اور کس آیت کا نزول اس کی تفسیر کے ساتھ ہوا اور کن سورتوں میں اس بات کا اختلاف ہے کہ بعض اشخاص انہیں مکی بتلاتے ہیں اور بعض ان کو مدنی کہتے ہیں۔غرض یہ کہ پچپیس و جہیں ایسی ہیں کے جو شخص ان کا باخوبی نا جانتا ہو۔ان میں باہم امتیاز نہ کر سکے اس کے لیے ہر گز جایز نہ ہوگا کہ وہ کتاب اللہ کے متعلق کچھ کلام کر سکے۔(الا تقان)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
فرشتوں کی حفاظت
ابن جریر ضحاک سے راوی ہے کہ،کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حامل وحی فرشتہ بھیجا جاتا تھا تو خدا وند کریم اس کے ہمراہ اور بھی کئی فرشتے ارسال کرتا،تا کہ وہ حامل وحی کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ہر طرف سے اس لئے حفاظت کرتے رہیں کہ کہیں شیطان فرشتے کی صورت بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نہ پہنچے۔(الا تقان)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
قرآن کے اتارے جانے کی کیفیت
حاکم بیہہقی اور دیگر راویوں نے منصور کے طریق پر بواسطہ سعید بن جبیر ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا۔قران شب قدر میں اکھٹا اور ایک ہی مرتبا آسمان دنیا میں نازل کر دیا گیااور پھر خدا وند کریم اس کا ایک ٹکڑا دوسرے حصہ کے بعد پے در پے نازل فرمایا کرتا تھا اور حاکم نیز بیہہقی اور نسائی نے داود بن ابی ہند کے طریق سے با روایت عکرمہ از ابن عباس نے بیان کیا ہےانہوں نے کہا:قران قدر کی رات یکبار گی مکمل آسمان دنیا پر نازل کر دیا گیا اور اس کے بعد بیس سال میں نازل کیا گیا۔اور اسی حدیث کو ابن ابی حاتم نے بھی اسی وجہ سے روایت کیا ہے مگر ابن ابی حاتم کی روایت کے آخر میں اتنی بات زائد ہے۔پھر جس وقت مشرک لوگ کوئی نئی بات کرتے تھے تو اس وقت خدا بھی ان کے لئے نیا جواب دیتا تھا۔
اور حاکم ابن ابی شیبہ نے حسان بن حریث کے طریق پر بواسطہ سعید بن جبیر ابن عباس سے رویت کی ہے کہ انہوں نے کہا:قران زکر سے جدا کر کے آسمان دنیا کے بیت العزہ میں لا کر رکھا گیا اور پھر جبریل علیہ السلام اسے لے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کرنے لگے۔اس حدیث کی تمام اسناد صحیح ہیں۔اور طبرانی دوسری وجہ پر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:قران ماہ رمضان اور قدر کی رات میں آسمان دنیا پر یکبارگی اتارا گیا اور پھر اس کا نزول متفرق طور سے ہوتا رہا۔اس حدیث کی اسناد قابل گرفت نہیں ہیں۔اور طبرانی اور بزار دونوں ایک دوسری وجہ پر انہیں سے روایت کی ہے کہ:قران کا نزول ایک ہی مرتبا ہوا یہاں تک کے وہ آسمان دنیا کے بیت العزۃ میں لا کر رکھ دیا گیا اور جبریل علیہ السلام نے اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بندوں کے کلام اور اعمال کے جوابوں میں نازل کیا۔(الاتقان)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
مصحف کی وجہ تسمیہ
مظہری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قران کو جمع کیا تو انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اس کا کوئی نام رکھو۔بعض لوگوں نے اس کا نام انجیل تجویز کیا مگر اکثروں نے اس کو نا پسند کیا۔پھر کسی نے سفر نام رکھنے کی صلاح دی وہ بھی ناپسند ہوئی کہ یہودی لوگ اپنی کتاب کا یہ نام رکھتے ہیں۔آخر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے حبش کے ملک میں ایک کتاب دیکھی ہے جس کو لوگ مصحف کہتے تھے۔لہذا قران کا نام بھی مصحف رکھ دیا گیا۔(الاتقان)
 
Top