محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,116
- ری ایکشن اسکور
- 6,780
- پوائنٹ
- 1,069
مختلف مذاہب میں آخری رسومات ادا کرنے کے دلچسپ مگر ظالمانہ طریقے
خالد اقبال پير 23 فروری 2015
دنیا بھر میں مرنے والوں کی آخری رسومات مختلف مذاہب میں مختلف طریقے سے ادا کی جاتی ہے فوٹو:فائل
موت کا مزہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن مرنے کے بعد انسان کی آخری رسومات کس طرح اداکی جائے اس کا تصور مختلف مذاہب میں مختلف ہے اور لوگ اسے اپنی مذہبی، ثقاتی اور روائتی انداز سے ادا کرتے ہیں اور بہت سے انداز سے تو عام طور پر لوگ واقف ہی ہیں لیکن کچھ طریقے ایسے دلچسپ اور ظالمانہ ہیں کہ جنہیں جان کر آپ نہ صرف حیران بلکہ کچھ پریشان بھی ہوجائیں گے۔
مردہ کو ممیز میں تبدیل کرنا:
آج سے ہزاروں سال قبل قدیم مصر میں امرا اور بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اس طریقے میں دل اور دماغ سمیت لاش کے مختلف حصوں کو کو الگ کردیا جاتا تھا جس کے بعد خالی جسم کو کیمیکل لگے لکڑی کے برادے سے بھر دیا جاتا تھا اورپھر پورے جسم کو سوتی کپڑے سے لپیٹ کر محفوظ کردیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح اگلے سفر تک محفوظ رہتی ہے، دنیا کی قدیم ترین ممی 6 ہزار سال پرانی ہے۔
کریانوکس:
قدیم زمانے میں لوگ مردہ انسان یا جانور کو انتہائی کم درجہ حرارت پر یعنی برف میں دبا کر کافی عرصے تک رکھ دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے مستقبل کوئی ایسی دوائی مل جائے جس کا استعمال کر کے اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔
خلیوں کو پلاسٹک میٹریل سے تبدیل کر کے:
زمانہ قدیم میں دنیا کے ان علاقوں میں جہاں سائنس کی ترقی اپنے عروج پر تھی وہاں مردہ انسان کے جسم سے خلیوں کے مرکزہ میں موجود سیال مائع اور چکنائیوں کو نکال کر اس کی جگہ پر پلاسٹک اور سیلی کون کے مصنوعی اعضا لگادیئے جاتے تھے جس سے لاش ایک طویل عرصے تک محفوظ رہتی اور اس میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں آتی تھی۔
بحری جہاز پر آخری رسومات:
دسوی صدی میں یورپی ساحلوں پر راج کرنے والے بحری قزاقوں کے سرداروں کی لاشوں کو ایک بحری جہاز پر رکھ کر اس کے ساتھ سونا، کھانا، اور کبھی کبھار غلاموں کوبٹھا کر سمندر کے بیچ پہنچا کر آگ لگادی جاتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح پرسکون رہتی ہے۔
درختوں پر رکھ کر:
آسٹریلیا، برطانیہ، کولمبیا اور سربیا میں بھی کچھ قبائل لاش کو درخت کی جڑوں اور شاخوں سے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے۔
خالد اقبال پير 23 فروری 2015

موت کا مزہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن مرنے کے بعد انسان کی آخری رسومات کس طرح اداکی جائے اس کا تصور مختلف مذاہب میں مختلف ہے اور لوگ اسے اپنی مذہبی، ثقاتی اور روائتی انداز سے ادا کرتے ہیں اور بہت سے انداز سے تو عام طور پر لوگ واقف ہی ہیں لیکن کچھ طریقے ایسے دلچسپ اور ظالمانہ ہیں کہ جنہیں جان کر آپ نہ صرف حیران بلکہ کچھ پریشان بھی ہوجائیں گے۔
مردہ کو ممیز میں تبدیل کرنا:
آج سے ہزاروں سال قبل قدیم مصر میں امرا اور بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اس طریقے میں دل اور دماغ سمیت لاش کے مختلف حصوں کو کو الگ کردیا جاتا تھا جس کے بعد خالی جسم کو کیمیکل لگے لکڑی کے برادے سے بھر دیا جاتا تھا اورپھر پورے جسم کو سوتی کپڑے سے لپیٹ کر محفوظ کردیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح اگلے سفر تک محفوظ رہتی ہے، دنیا کی قدیم ترین ممی 6 ہزار سال پرانی ہے۔

قدیم زمانے میں لوگ مردہ انسان یا جانور کو انتہائی کم درجہ حرارت پر یعنی برف میں دبا کر کافی عرصے تک رکھ دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے مستقبل کوئی ایسی دوائی مل جائے جس کا استعمال کر کے اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔

زمانہ قدیم میں دنیا کے ان علاقوں میں جہاں سائنس کی ترقی اپنے عروج پر تھی وہاں مردہ انسان کے جسم سے خلیوں کے مرکزہ میں موجود سیال مائع اور چکنائیوں کو نکال کر اس کی جگہ پر پلاسٹک اور سیلی کون کے مصنوعی اعضا لگادیئے جاتے تھے جس سے لاش ایک طویل عرصے تک محفوظ رہتی اور اس میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں آتی تھی۔

دسوی صدی میں یورپی ساحلوں پر راج کرنے والے بحری قزاقوں کے سرداروں کی لاشوں کو ایک بحری جہاز پر رکھ کر اس کے ساتھ سونا، کھانا، اور کبھی کبھار غلاموں کوبٹھا کر سمندر کے بیچ پہنچا کر آگ لگادی جاتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح پرسکون رہتی ہے۔

آسٹریلیا، برطانیہ، کولمبیا اور سربیا میں بھی کچھ قبائل لاش کو درخت کی جڑوں اور شاخوں سے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے۔
