• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدارس کا طریقہ تعلیم وتربیت

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
مدارس کا طریقۂ تعلیم وتربیت

مولانا محمد اعظمی، مؤ ناتھ بھنجن
الحمد للہ آج ہمارے اسلامی مدارس وجامعات میں وسائل کی کثرت، انتظامات کی وسعت اور جدید ضروریات کی کفالت کے جو گوناگوں مظاہر دیکھے جارہے ہیں ماضی میں ان کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اسی طرح تعلیمی نصاب ونظام کو جدید سے جدید تر بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں وہ بھی دینی وعلمی بیداری کی عمدہ علامت ہیں، لیکن ان مادی ترقیوں وسہولتوں اور اصلاحی کوششوں کے باوجود جب مقصدی نتائج وفوائد کی طرف نظر جاتی ہے تو حیرت وحسرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ یہ مدارس جو ماضی میں پھونس کی جھونپڑیوں یا مسجد کے حجروں میں خاک نشینوں کو دینی علوم وفنون کا امام، امت مسلمہ کا قائد، انسانیت کا معلم اور مرجع خلائق بنایا کرتے تھے ان میں رجال سازی کی یہ شاندار روایات وخدمات آج تمدنی ترقیوں کی گردراہ میں کیوں گم ہوگئیں؟ ترقیات کے مقابل رجال سازی کا تناسب روز بروز زوال پذیر اور قحط الرجال کی شکایت روز افزوں کیوں ہوتی جارہی ہے؟ مدارس کی جدید کاری کے لیے شور وغوغا تو بہت ہورہا ہے، لیکن مدارس کے اصل راس المال کے فقدان کی فکر کسی کو نہیں ستارہی ہے۔
انہیں حالات کے پیش نظر ہم نے’’مدارس کا طریقۂ تعلیم وتربیت‘‘ کے موضوع کو اپنے اس مضمون کے لیے منتخب کیا ہے، اس تنبیہ کے ساتھ کہ قیام مدارس کا مقصد اساسی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے جو امت مسلمہ کی مشترکہ امانت ہے، اس میں استخفاف ومداہنت کا عمل یا استبدال وامتزاج کی کوئی کوشش مدارس کے ساتھ خیانت کرنے کے مترادف ہے، اس لیے آج ملت اسلامیہ کے لیے مدارس کی مقصدیت کا اضمحلال اور قحط الرجال کا بڑھتا ہوا گراف سب سے اہم اور فوری توجہ طلب مسئلہ ہے۔
ہم اپنے دیرینہ تجربات کی روشنی میں غوروفکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذکورہ مسئلہ کا بنیادی سبب موجودہ طریقۂ تعلیم وتربیت کی کمزوری اور ماضی کے طریقۂ تعلیم وتربیت سے دوری ہے، اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ تقریباً نصف صدی پہلے تک تمام مدارس میں جو نصاب تعلیم رائج تھا وہ درس نظامی کے نام سے موسوم تھا اور زیادہ تر عقلی وتقلیدی علوم وفنون پر مشتمل تھا، اس میں خالص اسلامی علوم کا حصہ اتنا ہی تھا جتنا آج کل مدارس میں دیگر علوم کاحصہ ہے، بایں ہمہ اس کے مفید نتائج موجودہ دور کے جدید تعلیمی نصاب ونظام کے مقابل میں کہیں زیادہ رہتے رہے، مثلا درس نظامی کے فضلاء میں مفسر، محدث، فقیہ، مفتی، ادیب، مؤلف ، مترجم، صحافی وداعی اور ماہرین تدریس کی جو تعداد منظر عام پر آتی رہی، اس کے دینی وعلمی نقوش زندہ وپائندہ ہیں ،اور آج کا ترقی یافتہ علمی طبقہ ان کی افادیت سے مستغنی نہیں ہے، ماضی میں کامیابی کا یہ تناسب بول رہا ہے کہ رجال سازی، ترقی پذیری اور قحط الرجال کے علاج کے لیے صرف عمدہ وجامع جدید نصاب ونظام تعلیم کافی نہیں ہے، بلکہ قدیم طرز کے مؤثر وجاندار طریقۂ تعلیم وتربیت اور معلم کی صالحیت وبلوغیت کو بنیادی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔
قدیم طریقۂ تعلیم یہ تھا کہ پہلے مرحلہ میں علوم آلیہ (اصول ونصوص) کی ایک ایک کتاب مکمل طور پر اس طرح پڑھائی اور یاد کرائی جاتی تھی کہ ذہن میں ہمیشہ نقش رہا کرتی اور کتاب کا ہر مسئلہ وقاعدہ زبان زد رہتا، پھر اگلے مرحلے کی کتابوں میں پہلے مرحلے میں پڑھے ہوئے اصول وقواعد کا اجراء کراتے ہوئے تعلیم دی جاتی اور ان کے حوالے سے عبارت خوانی اور عبارت فہمی کی طرف رہنمائی کی جاتی، اس طرح ثانویہ تک طلبہ میں اتنی صلاحیت واہلیت حاصل ہوجاتی کہ معلم کو عبارت کا ترجمہ ومعنی بیان کرنے میں زیادہ کاوش نہیں کرنی پڑتی تھی۔
اس کے بعد والے مراحل میں تعلیم وتدریس کا مرکزی رخ کتابوں کے مضامین، مباحث کی تحقیق وتوضیح اور حل مشکلات کی طرف ہوا کرتا تھا، اس سے ہر طالب کو اپنے ذوق علم وفن کے مطابق درجہ تخصص تک پہنچنا آسان ہوجاتا اور فراغت کے بعد کوئی علمی منصب سنبھالنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی تھی۔
درس نظامی کے فضلاء ایم اے اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے علم وفن پر اس قدر بصیرت وقدرت رکھتے تھے کہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں ضخیم مجلدات کی تالیف اور رسائل وجرائد کے اعداد وترتیب کے میدانوں میں ان کا اشہب قلم بے تکلف رواں دواں ہوتا تھا، یہ ثمرہ تھا مذکورہ طریقۂ تعلیم کا جس میں محنت ومسؤلیت اور دماغ سوزی وجانفشانی جیسے کٹھن مراحل سے گزرنا ناگزیر ہے۔
رہا طریقۂ تربیت تو ماضی میں صالح اساتذہ اور مخلص وباعمل شیوخ کے کردار واخلاق کو تربیت صالحہ کے اسباب وعوامل میں اولیت حاصل تھی ، حال کے مدارس کی معینہ حدود وقیود اور ان کے مقرر کردہ اصول وقواعد کی پابندی جیسا کوئی تربیتی نظام پہلے رائج نہیں تھا، بلکہ دینی مواد ومضامین کی تعلیم کے ساتھ ہی ان کی عملی تطبیق کا اہتمام بھی کیا جاتا اور متعلمین کو اسلامی تعلیمات کا مظہر ومصداق بنایا جاتا تھا، گویا تعلیم ہی تربیت ہوتی تھی۔ اس طریقۂ تعلیم وتربیت کی تاثیری قوت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، کیونکہ درس نظامی کے فضلاء کی اکثریت اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی ایسی مضبوط فکر وکردار کی حامل ہوتی تھی کہ کسی اجنبی فکر ونظر ،جدید تہذیب وتمدن اور غیر اسلامی ماحول وسوسائٹی سے متاثر ہونے کے بجائے خود ان پر اثر انداز ہوا کرتی تھی، ان فضلاء میں بعض خوش بخت تنہا ہی ایک انجمن،ا یک مدرسہ، ایک ادارہ، ایک مکتبہ، ایک جمعیۃ ہوتے تھے ، ان کی شناخت کسی ادارہ یا جمعیۃ کے تعلق سے نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ ادارے ان کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ اس قسم کے رجال محتاج تعارف نہیں ہیں۔
ماضی قریب میں جب سے طریقۂ تعلیم وتربیت نے نئی کروٹ لینی شروع کی تعلیم وتعلم کی ساری قدریں بتدریج الٹنے لگیں، یہاں تک کہ رجال سازی کے مجرب وکامیاب آلوں وپیمانوں کو دقیانوسی اور بنیادپرستی کا الزام دے کر محنت ومسؤلیت کے بار سے آزادی اور سہولت طلبی کی راہ ڈھونڈ لی گئی، گویا عہد حاضر نے مدارس کو اس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ ان میں افراد ہیں رجال نہیں، فوج ہے مگر اسلحہ نہیں ہے، اگر اسلحے ہیں تو قوت استعمال نہیں ۔
ماضی اور حال کے تعلیمی نصاب ونظام اور طریقہ تعلیم وتربیت کے تناظر میں اس بات کے اعتراف سے مفر نہیں ہے کہ معیار تعلیم وتربیت کے انحطاط اور قحط الرجال کے اضافے میں قدیم وجدید نصاب اور دینی وعصری علوم کے امتزاج کا کوئی عمل دخل نہیں، اصل مسئلہ طریقۂ تعلیم وتربیت کی خرابی و بے راہ روی کا ہے، معیار تعلیم وتربیت کی بہتری اور رجال سازی کی تمام کوششوں میں اگر طریقۂ تعلیم کی اصلاح کو اولیت دی جائے تو امید ہے کہ کامیابی وبارآوری کے تناسب میں حوصلہ افزا اضافہ ہوگا، ان شاء اللہ تعالی۔ یہ اصلاحی کوشش کسی جدید سامان یا نئے آلات کی محتاج نہیں ہے، اس کے لیے ماضی کا تجربہ اور آزمودہ طریقہ جاری ونافذ کرنے کی ضرورت ہے جو نظری وشفوی تعلیم وتربیت کے ساتھ عملی وتطبیقی تعلیم وتربیت کا جامع ہے۔
اس سلسلے کی ایک کڑی طریقۂ امتحان بھی ہے، ماضی میں اپنی تعلیم کا امتحان آپ ہی لینے کا رواج نہیں تھا، بلکہ خاص طور پر سالانہ امتحان کے لیے ماہرین علم وفن کو بلایا جاتا تھا، جیسے جامعہ عالیہ عربیہ مؤ میں مولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری اور مولانا سید سلیمان ندوی وغیرھما، اسی طرح جامعہ فیض عام مؤ میں مولانا حفیظ اللہ سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور شیخ الادب مولانا عبد المجید حریری بنارسی وغیرھما، رحمہم اللہ،جیسے اساطین علم ممتحن ہوا کرتے تھے، مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی جیسی مرکزی درسگاہ کے ممتحن خاص جامع المعقول والمنقول مولانا عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ تھے، آزادی کے بعد کچھ عرصے تک طریقۂ امتحان یہ رہا کہ ایک مدرسہ کے اساتذہ دوسرے مدرسہ کے ممتحن مقرر ہوتے تھے۔
طریقۂ امتحان کا یہ بلند معیار جس طرح طریقۂ تعلیم وتعلم کے معیار کی بلندی کا ضامن ہے اسی طرح بین المدارس افادہ واستفادہ کے خوش گوار روابط کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
اس ضمن میں ایک قابل غور وفکر مسئلہ فارغین مدارس کے مستقبل کا ہے، بالخصوص ان حالات میں کہ جدید علوم وفنون نے اقتصادی زندگی کو اپنا غلام بنا دیا ہے،اب اس مسئلے سے مزید چشم پوشی اس حد تک نقصان کا باعث ہو سکتی ہے کہ دینی تعلیم کی اہمیت وضرورت کا احساس ختم ہوجائے۔
اس سلسلے میں ہماری ناقص سوچ یہ ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم کے جزوی اضافہ کو اس حد تک مفید بنایا جائے کہ فراغت کے بعد ہونہاروں کی علمی وفنی ترقی اور اعلیٰ تعلیم گاہوں میں پیشہ ورانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے معاون ثابت ہو، دوسرے یہ کہ فوری طور پر ایک ایسے ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی کی جائے جو جدید علوم وفنون کا مرکز ہو اور اس کے نصاب میں دینی مواد بھی جزوی طور پر شامل ہوں، اس میں مدت تعلیم دو سے تین سال تک ہو۔
اس اہم اور اولین ضرورت کی تکمیل کا انحصار اسی بات پر ہے کہ ماہرین تعلیم، دانشوران ملت، اہل ثروت اور بااثر شخصیات اپنی اجتماعی کوشش بروئے کار لائیں، نیز اصحاب مدارس اور ارباب جمعیات وتنظیمات اپنی جہود متواصلہ کی قربانی پیش کریں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں رجال سازی کا راز اسی انقلاب میں مضمر ہے کہ طریقۂ تعلیم وتربیت کو عملی شکل دینے کی کوشش اس طرح کی جائے کہ تعلیم ہی تربیت کو مستلزم اور کتابی علم کی عملی تفسیر کی حامل ہو، پھر امتحانات کو بین المدارس سطح پر لانے اور متبادل ممتحنین کے طریقہ کو اپنایا اورآزمایا جائے، یعنی ماضی بعید کے طریقۂ تعلیم وتربیت اور طریقۂ امتحان کے اعادہ کی مہم چلائی جائے اور ساتھ ہی متخرجین مدارس کے اچھے مستقبل کے لیے عملی قدم اٹھایا جائے۔
 
Top