جزاکم اللہ کفایت بھائی !
مجھے محسوس ہوا کہ اس بات پر ہمارا اتفاق ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ ضعف شدید جمع ضعف شدید وغیرہ کی حجیت کے قائل نہیں ہیں ۔
اب رہا مسئلہ صرف ضعف غیر شدید جمع ضعف کا کہ اس کو شیخ البانی حسن لغیرہ کے باب میں حجت مانتے ہیں کہ نہیں ؟
آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس میں بھی (ضعف غیر شدید میں بھی) بعض جگہ حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل نہیں ہیں اور بطور مثال کے آپ نے ان جریج کا عنعنہ پیش کیا ہے ۔
آپ کا اس مثال سے استدلال اس وقت مستقیم ہے جب یہ ثابت کردیا جائےکہ ابن جریج کے عنعنہ کو شیخ البانی ضعف غیر شدید سمجھتے ہیں ۔ جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ شیخ البانی نے صرف معنعن روایت ہونے کی وجہ سے اس کو رد نہیں کیا بلکہ ابن جریج چونکہ کذا ب رایوں سے تدلیس کرتا ہے اس لیے اس کی معنعن روایت ضعف شدید ہوگی کیونکہ احتمال ہے کہ محذوف راوی ضعیف جدا یا کذاب وغیرہ ہو ۔
اور آپ نے جو یہ لکھا ہےکہ :
- یہ ضروری نہیں کہ مدلس نے اپنی معنعن روایت میں تدلیس ہی کیا ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ عن سے روایت کرنے کے باوجود بھی اپنے شیخ کو ساقط نہ کیا ہو۔
- اوراگرتدلیس بھی کیا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ کذاب راوی ہی کوساقط کیا ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ثقہ راوی کو ساقط کیا ہو اوراگرضعیف ہی کو ساقط کیا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ مسقوط سخت ضعیف ہو۔
یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے لیکن احتمال تو ہے نا ؟
اور اس احتمال کو ختم کرنا یہ اس سے حجت پکڑنے والے کے ذمہ ہے نہ کہ اس کو رد کرنے والےکے ذمے ۔ اور اگر ان دونو ں باتوں کی نفی ثابت نہ ہوئی تو ضعف باقی رہے گا ۔
ہاں اگرکسی روایت سے متعلق معلوم ہوجائے کہ اس میں مدلس نے واقعۃ تدلیس کی ہے اوراس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس میں مسقوط راوی سخت ضعیف ہے تو ایسی روایت حسن لغیر ہ کے باب میں حجت نہیں ہوتی ،
مدلس کے بارے میں یہ قاعدہ ہے کہ
والمدلس إذا قال عن لا یحتج بحدیثہ إلا إذا صرح بالسماع کمانقل النووی عن الشافعی فی شرح مقدمۃ صحیح مسلم ۔یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ مدلس کی ہر ہر روایت میں تدلیس ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے عنعنہ کو قبول کرنے کے لیے ہر ہر روایت میں تصریح بالسماع کی ضرورت ہے ۔
چونکہ ابن جریج کی تدلیس عن الضعفاء والکذابین ثابت ہے لہذا اب ہر روایت میں یہ ثابت کرنے کی حاجت نہیں ہے ۔ واللہ أعلم
حافظ ابن حجررحمہ اللہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسن لغیر ہ کی بابت فرماتے ہیں:
ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه، وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإسناد المرسل، وكذا المدلَّس إذا لم يُعْرف المحذوف منه صار حديثُهم حسناً، لا لذاته، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المجموع، [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ( ت: الرحيلي -ط: سفير ) ص: 130]
ملون حصہ پرغورکریں حافظ ابن حجررحمہ اللہ مدلس کی معنعن روایت کو حسن لغیرہ میں لینے کے لئے یہ شرط لگارہے ہیں کہ محذوف راوی معلوم نہ ہو،
یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ابن جریج کے عنعنہ کو ضعف غیر شدید سمجھتے ہیں اور اسکی بنیاد حافظ ابن حجر کا مذکورہ قول ہے ۔
مدلس کی روایت کی دو صورتیں ہیں اس میں محذوف معلوم ہے یا نہیں
پہلی صورت میں راوی دو حال سے خالی نہیں یاتو ثقہ ہوگا یا پھر ضعیف اور پھر ضعیف ہونے کی بھی دو صورتیں ہیں ضعف غیر شدید یا ضعف شدید ۔
یعنی کل تین صورتیں بنتی ہیں
محذوف راوی جس کے حالات معلوم ہوگئے ہیں
ثقہ ہوگا تو روایت صحیح
ضعیف غیر شدید حسن لغیرہ
ضعیف شدید تو روایت مردود ہی رہے گی ۔
اگر محذوف معلوم نہیں ہے تو پھر راوی کے حالت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ دیکھا جائےگا کہ جو تدلیس کر رہا ہے عام طور پر اس کی تدلیس کی نوعیت کیا ہے ؟ بعض رواۃ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ لا یدلس إلا عن ثقۃ جیسا کہ سفیان بن عیینہ
بعض رواۃ ضعفاء و متروکین اور کذابین سے تدلیس کرنے میں معروف ہوتے ہیں ۔ جیساکہ ابن جریج وغیرہ
تو اب دوسری قسم کے مدلس (عن الکذابین و المتروکین ) کی روایت کو کس طرح ضعف غیر شدید تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ احتمال ہے کہ گرنے والا راوی کذاب و متروک وغیرہ ہو ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ عبارت میں ضعف غیر شدید کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں
ان میں سے ایک صورت مدلس روایت کی بھی ہے اور اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں ۔ کیونکہ تدلیس کے مختلف مراتب ہیں کچھ ضعف شدید میں شمار ہوتے ہیں کچھ غیر شدید میں ،تو اب اگر ضعف شدید والی صورت کو بھی مذکورہ صورتوں میں داخل کیا جائے گا تو یہ ضعف، جدا کی روایت کو بھی حسن لغیرہ کہنے والی بات ہوگی ۔ واللہ أعلم
یعنی اگر محذوف راوی کا علم ہوجائے (یعنی وہ سخت ضعیف نکلے)تو وہ روایت حسن لغیرہ کے باب میں مقبول نہ ہوگی اورمحذوف راوی کے بارے میں علم کے لئے درج ذیل دو چیزیں لازم ہیں:
- اول: یہ بات معلوم ہو کہ مدلس نے تدلیس کی ہے یعنی راوی کوساقط کیا ہے۔
- دوم: جس کو ساقط کیا ہے اس کے حالات بھی معلوم ہوں۔
دونوں چیزوں کا نہ پایا جانا دلیل کا محتاج ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ۔
اس اصول کی روشنی میں حافظ ابن حجرکے نزدیک ابن جریج کا وہ عنعنہ جس میں تدلیس کا ثبوت نہ ہو یا تدلیس کا ثبوت ہو لیکن محذوف معلوم نہ ہو وہ حسن لغیرہ کے باب میں مقبول ہوگا ۔
دونوں چیزوں کا نہ پایا جانا دلیل کا محتاج ہے
لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ ایسی روایت کو بھی حسن لغیرہ کے باب میں قبول نہیں کرتے ۔
میں نے شیخ کی صنیع کا استقراء تو نہیں کیا کہ کیا وہ ہر طرح کے مدلس کی روایت کو رد کردیتے ہیں یا پھر ایسی تدلیس کو ہی رد کرتے ہیں جو ضعف شدید کا باعث بنتی ہے البتہ پیش کردہ مثال سے یہی سمجھ آرہی ہے کہ وہ ضعف شدید کا سبب بننے والی تدلیس کو رد کرتے ہیں ۔
البتہ اگر آپ کوئی ایسی مثال پیش کردیں جہاں تدلیس ضعف شدید کا سبب نہ بن رہی ہو اور شیخ نے اس کو رد کیا ہو تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہوگی کہ شیخ البانی حسن لغیرہ کی بعض صورتوں کو نہیں مانتے ۔
یعنی مدلسین کی بعض ایسی معنعن روایات جن میں مسقوط روای کا پتہ چلنا تو دور کی بات ، یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں مدلس نے ساقط کیا بھی ہے یا نہیں ، اس قسم کی بھی بعض روایات کو علامہ البانی حسن لغیرہ کے لئے قبول نہیں کرتے، اوپر یہی بتایاگیا ہے، اور یہ موقف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف سے مختلف ہے ۔
یہی بات اوپر بتائی گئی ہے ، امید ہے کہ فرق واضح ہوگیا ہوگا۔
جو مفہوم آپ نے حافظ ابن حجر کے قول کا لیا ہے اس کے مطابق واقعتا شیخ البانی اور حافظ ابن حجر کا اختلاف بنتا ہے ۔
لیکن جو میں سمجھا ہوں (اگرچہ جسارت ہے )اس طرح دونوں کا موقف ایک ہی رہتا ہے ۔