• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس کی عن والی روایت ضعیف

Mehtab080

مبتدی
شمولیت
دسمبر 24، 2017
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
3
الرد علی الرضاخانی ارسلان الحلیق ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
اصول حدیث اور مدلس کی عن والی روایت کا حکم ۔
اصول حدیث کا مشہور و معروف مسلہ ہے کہ مدلس راوی کی عن والی روایت نا قابل حجت یعنی ضعیف ہے ۔
اس سلسے میں محدثین ۔علماء حدیث ۔اور دیگر علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں۔
[emoji1543] ١) امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی ؒ ۔ نے فرمایا۔
” فقلنا لا نقبل من مدلس حدیثا حتی یقول فیہ حدثنی او سمعت“
پس ہم نے کہا ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے حتیٰ کی وہ حدثنی یا سمعت کہے \ یعنی سماع تصریح کرے ۔
(کتاب الرسلہ طبع المطبعتہ الکبری الامیر یہ ببولاق ص ٣٥)
کتاب الرسلہ اصول فقہ اور اصول حدیث بلکہ اصول دین کی قدیم اور عظیم الشان کتابوں میں سے ہے اور متعد علماء نے اس کی شروح لکھی ہیں۔

٢) امام عبدالرحمان بن مہدی ؒ کتاب الرسلہ کو پسند کرتے تھے۔
دیکھے الطیوریات ( ج ٢ص ٧٦١ وسند صحیح )
ثابت ہوا کی عبدالرحمان بن مہدیؒ کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

٣) امام احمد بن حنبل ؒ کتاب الرسلہ سے راضی تھے۔
دیکھے کتاب الجرح والتعدیل ( ٧\ ٢٠٤ )
اور فرماتے تھے کہ یہ ان کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے۔ ( تاریخ دمشق لا ابن عساکر ( ٥٤ \ ٢٩١)

٤) امام اسمال بن یحییٰ المزنی ؒ بھی کتاب الرسلہ کے موید تھے ( مقدمتہ الرسلہ ص ٧٣ رولیتہ ابن الاکفانی ٥٤)

٥) امام البیہقی ؒ نے امام شافعی کا مزکورہ کلام دیکھے معرفقہ السنن والآثار ( ١\ ٧٦ )
٦) امام مسلم ؒ نے فرمایا ۔
” وانما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواة الحدیث ممن روی عنھم اذا کان الراوی ممن عرف بالتدلیس فی الحدیث وشھربہ فحینئذ یجثون عن سماعہ فی روایت و یتفقدون ذلك منه كی تنزاح عنھم علة التدلیس “
جس نے بھی روایان حدیث کا سماع تلاش کیا ہے تو اس نے اس وقت تلاش کیا ہے جب راوی حدیث میں تدلیس کے ساتھ معرف ہو اور اس کے ساتھ مشہور ہو تو اس وقت روایت میں اس کا سماع دیکھتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں تاکہ روایوں سے تدلیس کا ضعیف دور ہو جاے ۔ ( مقدمہ صحیح مسلم ص ٢٢)
اس عبارت کی تشریح میں ابن رجب حنبلی نے لکھا ۔
” ھذا یحتمل ان یریدنہ کثرة التدلیس فی حدیثہ ویحتمل ان یرید بہ ثبوت ذلك عنہ وصحتہ فیکون کقول الشافعی “
اور اس میں احتمال ہے کہ اس سے حدیث میں کثرت تدلیس مراد ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے تدلیس کا ثبوت مراد ہو یہ شافعی کے قول کی طرح ہے ۔
( شرح علل الترمزی ج١ ص ٣٥٤)

٧) خطیب بغدادی ؒ نے فرمایا ۔
۔وقال آخرون خبر المدلس لا یقبل الا ان یوردہ علٰی وجہ مبین غیر محتمل الایھام فان اور دہ علیٰ ذلك قبول وھذا ھو الصحیح عندنا ۔
اور دوسروں نے کہا مدلس کی خبر روایت مقبول نہیں ہوتی الا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور پت تصریح بالسماع کے ساتھ بیان کرے اگر وہ ایسا کرتے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔
( الکفایہ فی علم الروایہ ص ٣٦١)
الکفایہ اصول حدیث کی مشہور کتاب ہے۔

٨) حافظ ابن حبان البستی ؒ نے فرمایا۔
پس جب تک مدلس اگر ثقہ ہو حدثنی یا سمعت نہ کہے تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جاز نہیں ہے اور یہ ابو عبداللہ محمد بن ادرس الشافعی ؒ کی اصول ہے اور ہمارے استزہ کا اصول ہے جنھوں نے اس میں ان کی اتباع کی ہے۔
( کتاب المجروحین ج١ ص ٩٢ )

٩) حافظ ابن الصلاح الشہر زوری الشافعی ؒ نے لکھا ہے۔
اور حکم یہ ہے کہ مدلس کی روایت تصریح سماع کے بغیر قبول نہ کی جاۓ اسے شافعی ؒ نے اس شخص کے بارے میں جاری فرمایا ہے جس نے ہمارے معلومات کے مطابق صرف ایک دوفعہ تدلیس کی ہے۔
( مقدمہ ابن الصلاح مع والایضاح للعراقی ص ٩٩)

١٠) علامہ یحییٰ بن شرف النووی ؒ نے فرمایا۔
پس وہ مدلس راودی ایک لفظ سے روایت بیان کرے جس میں احتمال ہو سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ مرسل ہے اور یہ حکم اس بارے میں جاری ہے جو ایک دفعہ تدلیس کرے ۔
(التقریب للنووی اصول الحدیث ص ٩) ۔

مہتاب خان السلفی ۔

Sent from my C103 using Tapatalk
 
Top