• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مراقبے اور اذکار و سماع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تصوف کے فنون لطیفہ مشاہد ۂ حق کے لیے

میں نے سوچا شیخ کامل طرح طرح کے روحانی تجربوں سے گزرے ہیں سلوک کی مختلف منزلیں سر کی ہیں کیوں نہ ان سے پچھلے تجربوں کی بابت پوچھا جائے ۔

سلفی فکر سے وابستگی کے بعد اب ان مراقبوں اور اذکار و سماع کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ میں نے ان سے جاننا چاہا۔

گمرا ہی ہے گمرا ہی، سراب ہے سراب جس کے پیچھے یہ بے وقوف بھاگتے ہیں۔ اہل صفا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کے لہجہ کا تشدد کسی قدر نمایاں ہوگیا ۔

میں نے پوچھا: آپ تو ان مراحل سے بنفس نفیس گزرے ہوں گے، ذکر کی مجلسوں میں حق و ہوکی آواز نکالی ہوگی ۔ کیا اس تجربے میں سالک کو واقعی یہ لگتا ہے کہ وہ کسی روحانی تجربے سے گزر رہا ہے؟

جی ہاں! میں نے کہا نا! وہ ایک سراب ہے جس پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔ آواز میں بڑی قوت ہے اور خاموشی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ جو لوگ آواز کی دھار سے زخمی نہیں ہوتے وہ خاموشی کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ بہت سے لوگ خاموشی کی بے پناہ قوت سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ انہیں اس کا تجربہ نہیں ہوتا۔ مراقبے میں اچانک انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جس مصنوعی شور و غل کے سہارے اب تک جیا کرتے تھے اس نے اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ایک ہلا مارنے والی تنہائی میں انہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کا وجود تحلیل ہوتا جارہا ہو اور وہ وجود کے نقطۂ صفر کی طرف سفر کررہے ہوں ۔ بعض لوگ اس قسم کے تجربے سے مشاہدۂ حق کی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

میں جن دنوں نائجیریا میں تھا اہل حق کی ایک مجلس میں ذکر کے لیے جایا کرتا تھا ۔ واللہ کیا بتاؤں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جھٹکے سے ہوُ ہوُ کی مسلسل آواز نکالتے رہنے سے دل و دماغ معمولات شور و شغب سے دور جا پڑتے تھے ۔ یہ بیک وقت ایک جسمانی ورزش بھی تھی جس میں ہوُ کی آواز کے ساتھ بہت سی ہوا مسلسل پھیپھڑے سے نکلنے کے سبب دماغ پر ایک خواب آسا کیفیت طاری ہوتی ۔ ہم لوگ سمجھتے شاہد مشاہد ۂ حق کی کیفیت کا ابتدائی ظہور ہو۔

تو کیا کبھی آپ کو دو ضربی اور سہ ضربی نفی اثبات کے ذکر کا بھی موقع ملا؟

جی ہاں نقشبندیوں کے بعض گروہ میں یہ ذکر خاصا مقبول ہے ۔ یہ بھی دراصل ایک جسمانی ورزش ہے ۔ نفی اور اثبات کے ذکر میں بھی پھیپھڑے کو ہوا سے خالی کرنے اور پھر اس کو مکمل سانس سے بھرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ شیخ نے اپنا بیان جاری رکھا۔

مجھے یاد آیا کہ مشاہدۂ حق کی ان ہی کیفیات کا ذکر ایک بار ایک روسی ڈپلومیٹ نکولائی نے بھی مجھ سے کیا تھا ۔ نکولائی نے سوویت یونین کی پالیسیوں سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے دیا تھا جب میری اس سے ملاقات ہوئی اس وقت وہ ہالینڈ میں قیام امن کی ایک تنظیم کا روح رواں تھا ۔ کہنے لگا کہ جن دنوں میں نیویارک میں اپنی ملازمت پر متعین تھا، روز علی الصباح سولہ کلو میٹر جاگنگ کےلیے جایا کرتا تھا ۔ بارہ کلو میٹر دوڑ نے کے بعد میرا وجود اس قدر چارج ہو جاتا کہ میں خود کو کائنات کے ذرے ذرے سے Connected محسوس کرتا، ایسا لگتا جیسے مجھ پر وحی آنے والی ہو۔ بعد میں پتہ لگا کہ یہ سب دراصل مسلسل دوڑتے رہنے سے آکسیجن کی کمی کے سبب ہے۔
اب شیخ نےاپنے ذاتی تجربے سے اس خیال کی مزید توثیق کردی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
پچھلے دنوں نیو رو سائنس میں جو تحقیقات ہوئی ہیں اس نے بھی تصوف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ اب ملائے اعلیٰ کی سیر کے لئے نفی و اثبات کی ورزش کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی رگِ کیماس پکڑ کر مرغ کی طرح اللہ ہوُ کی بانگ دینے کی ضرورت ہے، بس ہیروئن کا ایک انجکشن لیجئے اور چشم باطن سے ارض و سماوات کی سیر کر آئیے ۔ دماغ میں سیر و ٹونین کی سطح اگر بلند رہے تو سرشاریٔ اعتماد کی اس کیفیت میں سلطانی ما اعظم شانی یا مافی جبتی الااللہ یا براہِ راست انا الحق کا نعرہ بلند کیجئے اور اگر سطح نیچے چلی گئی تو خود کو حقیر فقیر سراپا تفصیر ملامتی فرقہ کا ایک رکن جانیے ۔ گویا ادویات نے ان مشکل روحانی تجربات کو جس میں سالک کو ایک عمر گزارنی پڑتی تھی اب آپ کی دہلیز پر لاکر رکھ دیا ہے۔ میں ابھی ان ہی خیالات میں گم تھا کہ مصطفیٰ اوغلو کی کار میں نغمے کی سحر انگیز لئے کچھ اس طرح بلند ہوئی :

یا من یرانی فی علاوہ و لا اراہ
یا من یجیر المستجیر اذا دعاہ


حمزہ شکور ........ ارے یہ تو حمزہ شکور کی آواز ہے ۔ ایسا لگا جیسے شیخ کامل کو اپنے پرانے دن یاد آگئے ہوں ۔

جی ہاں! حمزہ شکور کو سنئے اور سر دھنیے ۔ واللہ حمزہ شکور کا جواب نہیں مصطفیٰ اوغلو نے تحسینا کہا ۔

یا من یجود علی العباد بفضلہ
جل القدیر و جل ماصنعت یداہ

یا من لہ الا لاء فی اکوانہ
و اذا سالنا العفولم نسال سواہ

ھبني رضاک فانت اکرم واھب
واغفر العبدک یا عظیما فی علاہ


میں نے پہلی بار حمزہ شکور کو فِض ( مراکش) کے ایک بڑے مجمعے میں سنا تھا ۔ شیخ مغنّیوں کا پورا طائفہ لے کر آئے تھے ۔ گلو کاروں کے مخصوص مشرقی لباس میں ایسا لگتا تھا کہ خوش شکل نوجوان لڑکے لڑکیوں کا طائفہ تمجید و تمحید کے لیے آسمانوں سے اتر آیا ہو ۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن جب طبلے کی تھاپ پر یا رسول اللہ مد د کی صدا بلند ہوتی یا شئیاً للہ یا رسول اللہ کا نعرہ لگتا تو میں بار بار سوچتا کہ موسیقی کے سحر میں ہم راسخ العقیدگی کو کتنی آسانی سے خیر باد کہہ رہے ہیں۔

شیخ نےاپنے پرانے ایام کی یاد تازہ کرتےہوئے کہا : نغمے کی زبان بڑی با جبروت ہوتی ہے، بسا اوقات یہ عقل و خرد کو بہالے جاتی ہے۔ آج بھی جب یہ نغمے میرے کانوں سے ٹکراتے ہیں تو پر مسرت لمحات کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ۔ کیف و جذب میں ڈوبے ہوئے لمحات ۔

بات یہ ہے کہ جب مشرق کا مغنی اپنی غلوئے فکری میں مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے تو یہ سب کچھ ایک پیچیدہ داخلی عمل کا حصّہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے نغمے کی زبان انسان کے وجود میں سرایت گر گئی ہو۔ اس کا رُواں رُواں موسیقی کے لَے پر بربط بن گیا ہو ۔ مذہبی موسیقی کا یہ داخلی تجربہ جب کبھی اہل مغرب کے مشاہدے میں آتا ہے تو وہ چیخ پڑتے ہیں ۔ واللہ یہ ہوئی بات۔ ان میں سے بعضے ایمان بھی لے آتے ہیں گو کہ ان کا یہ ایمان اسلام پر کم اور مشرق کی مسلم ثقافت پر زیادہ ہوتا ہے۔

بھئی آواز میں بڑا دم ہے یہ چاہے تو صائقہ بن جائے اور چاہے تو مضراب داؤ د پر مسرت و سکنیت کی لے بن کر چھا جائے ۔

شیخ نے مزید وضاحت کی ۔

اور کُن بھی تو ایک آواز ہی تھی جس کے بارے میں صوفیاء کہتے ہیں کہ اگر آج بھی کلمۂ کُن کو اپنی تمام ابعاد کے ساتھ برتا جاسکے تو ہر لمحہ ایک نئی کائنات وجود میں آسکتی ہے۔ میں نے شیخ کی رائے جاننا چاہی ۔

میں نہیں سمجھتا کہ واقعی ایسا ہے، میرے خیال میں صوفیاء سخت مغالطے کا شکار ہیں ۔ وہ اپنے ہنگامہ ہاؤ ہو کی آواز سے متاثر ہو کر بلکہ اس کے سحر میں خود ہی مبتلا ہوجانے کے سبب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کُن بھی کوئی دو ضربی ، سہ ضربی ذکر ہو جو سامع پر ایک کیفیت مرتب کرتا ہو یا اس کی دماغی رَد کو مسحور یا کنٹرول کرنے پر قادر ہو ۔ حالانکہ دونوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ کُنْ حقیقی تخلیق کا استعارہ ہے جب کہ ہمارے نطق کی آواز یں ایک مصنوعی حقیقت تخلیق کرتی ہیں۔ وہ ہمیں ایک ایسی خواب آسا دنیا میں لے جاتی ہیں جس پر ہمیں چند لمحے کے لیے حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ شیخ نے اس نکتہ کی مزید و ضاحت کی۔

تو کیا جو لوگ نغموں سے شغل رکھتے ہیں یا مضراب و بربط کے شائق ہیں یا اعلیٰ شاعری کو پسند کرتے ہیں ، وہ سب کے سب جی ہاں بڑی حد تک ایسا ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
میرا بھی یہی خیال ہے۔ مصطفیٰ اوغلو نے گاڑی چلاتے ہوئے کن انکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ اب مجھ ہی کو لیجئے میں اہل تصوف کے فکری سراب سے خوب واقف ہوں لیکن میرے پاس مختلف صوفی نغموں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ عربی زبان گو کہ مجھے کم آتی ہے لیکن جب میں حمزہ شکور اور شیخ حبّوش جیسے لوگوں کو سنتا ہوں تو دل کے مضراب بج اٹھتے ہیں ۔ یہ الفاظ بڑے قاتل ہوتے ہیں آوازوں کے سحر اور اس کے جال میں اگر کوئی ایک بار پھنس جائے تو اس سے رہائی کچھ آسان نہیں ہوتی۔

شیخ کامل تو مدتوں آوازوں کے سحر گزیدہ رہے ہیں ۔ مصطفیٰ اوغلو اپنے تمام دانشورانہ تحلیل و تجزیے کے باجود آج بھی صدا گزیدہ ہیں ۔ انہوں نے نغمے کی زبان سے ہیروئن کا انجکشن لیا اور تائب بھی ہوئے تو اس طرح کہ پرانی لذتوں کے ذکر سے اب بھی مشام جاں معطر ہوجاتے ہیں ، روح میں بالیدگی آجاتی ہے ۔ بقول غالب :

پیتا ہوں روزِ ابرو شبِ ماہتاب میں

بلکہ اگر بنظر غائر دیکھیں تو آوازوں کے سحر کا یہ سلسلہ پوری امت پر محیط ہے۔ اگر صوفیاء کی محفلوں کی رونق ہاؤ ہوُ کی طربناک آوازوں کے سہارے قائم ہے تو اہلِ تشیع کے ہاں جذبات کی گرم بازاری کا سارا کاروبار دراصل منقبتِ حسین رضی اللہ عنہ، نوحوں اور مرثیوں کے دم سے چل رہا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی شاعری اور مختلف قسم کا Devotional music نہ ہو تو مختلف فرقوں کا روحانی کاروبار اچانک ٹھپ پڑجائے ۔ ذرا غور کیجئے ! عرس کے موقع پر اگر قوالی کا اہتمام نہ ہو ، وجد و حال کے ماحول میں دھمال ڈالنے کا سلسلہ بند ہوجائے یا عاشورہ اور چہلم کے موقع پر نوحہ و منقبت اور ذکر کی مجلسوں میں مقرر اور شاعر الفاظ کے جادو نہ جگائیں تو فکری التباسات کے یہ مختلف خیمے جو شعر و نغمہ کی بدولت قائم ہیں اپنی جاذبیت کھو دیں۔

الفاظ میں بڑی قوت ہے حتیٰ کہ بے معنی الفاظ بھی کم قتیل نہیں ہوتے ۔ صائفہ ہے صائفہ ، شیخ نے اپنی متفکر انہ خاموشی توڑی ۔ مشرق کی منقبت اور قوالی ہو یا مغرب میں روشنی کی اسٹیج پر وحشیانہ اور دلخراش ہنگامۂ ہاؤ ہوُ ، یہ سب آوازوں کا طلسم ہی تو ہے جس نے انسانوں کو گرفتار رکھا ہے۔ کہیں یہ سب کچھ محض Entertainment کے نام پر ہے اور کہیں مذہب کے حوالے سے اسے داخلی کیفیت کا حصّہ بنا دیا گیا ہے۔

گل محمد جواب تک کبھی بے اعتنائی اور کبھی شوق و تجسس کےساتھ ہماری گفتگو سنتے اور کبھی نیم بند آنکھوں سے، ایسا لگتا جیسے چشم تصور میں ریل کے کسی رومانوی سفر پرروانہ ہوجاتے ہوں، اب انہوں نے مداخلت کے انداز میں پہلو بدلا۔ کہنے لگے صوت و ساز کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو صوفی مجلسوں، سماع کی محفلوں اور نوحہ و عزا کے جلسوں میں ہمارے حواس معطل کیے دیتی ہے اور وہ ہے رنگ و آہنگ کے امتزاج سے ایک خواب آسا یا نیم کرشماتی ماحول ۔ جرمنی میں اکثر مولوی فرقے کے صوفیاء اور مغنیوں کا گروہ آتا رہتا ہے ۔ بلکہ اب تو یہ لوگ پیرس، لندن بلکہ امریکہ تک جاتے ہیں جہاں ان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ رومی کی شاعری پر یورپ اور امریکہ میں مسلسل کتابیں شائع ہو رہی ہیں ۔ مجھے میونخ کے ایک ناشر نے بتایا کہ یہ کتابیں ہزار، دس ہزار نہیں چھپتیں بلکہ امریکہ میں شائع ہونے والی بعض مقبول عام کتابوں کی تعداد تو ڈھائی لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ رومی ایک اس مقبولیت کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ جب رنگ و نور کے ہالے میں سماع زن اپنا نغمہ بکھیرتا ہے اسی اثناء نیم تاریک گوشوں سے محفل پر سحاب کی بارش ہوتی ہے اور پھر رقاص کے چھتری نما اسکرٹ محفل پر ایک وجُد کی سی کیفیت طاری کر دیتے ہیں ۔ جو لوگ شعر و نغمے کی زبان سے واقف نہیں ہوتے ان کے لیے بھی یہ طلسماتی منظر کچھ کم قتیل نہیں ہوتا۔

تو کیا یہ سب کچھ جسے ہم مذہبی میوزک یا رقص و سماع سمجھے بیٹھے ہیں ان کی حیثیت ایک طرح کے فنونِ لطیفہ کی ہے۔ میں نے گل محمد سے وضاحت چاہی۔

جی ہاں با لکل صحیح فرمایا آپ نے۔ ہم مذہب کے نام پر دراصل ایک طرح کے فنونِ لطیفہ کے سحر میں گرفتار ہیں۔

گفتگو کا سلسلہ شاید ابھی کچھ اور دیر تک جاری رہتا لیکن آگے راستہ مسدود تھا ۔ ہماری کار رینگتے رینگتے اب تقریباً حالتِ سکوت میں آگئی تھی ۔ ہمارے بائیں طرف آبنائے باسفورس کی لہروں کے مچلنے اور بل کھانے کا منظر تھا اور دوسری جانب ہوٹل کی عمارت نظر آرہی تھی ۔ خیال آیا کہ اس ٹریفک جام میں وقت ضائع کر نے کے بجائے کیوں نہ پیدل سڑک عبور کر لوں ۔ بالائی سڑک سے ہوٹل کا راستہ چند ثانیے کا ہے ۔ سو میں نے مہمانوں کو یہیں الوداع کہا اور اپنے میزبان مصطفیٰ اوغلو سے اجازت چاہی۔

روحانیوں کے عالمی پایہء تخت استنبول میں گیارہ دن۔
 
Top