- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
تصوف کے فنون لطیفہ مشاہد ۂ حق کے لیے
میں نے سوچا شیخ کامل طرح طرح کے روحانی تجربوں سے گزرے ہیں سلوک کی مختلف منزلیں سر کی ہیں کیوں نہ ان سے پچھلے تجربوں کی بابت پوچھا جائے ۔
سلفی فکر سے وابستگی کے بعد اب ان مراقبوں اور اذکار و سماع کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ میں نے ان سے جاننا چاہا۔
گمرا ہی ہے گمرا ہی، سراب ہے سراب جس کے پیچھے یہ بے وقوف بھاگتے ہیں۔ اہل صفا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کے لہجہ کا تشدد کسی قدر نمایاں ہوگیا ۔
میں نے پوچھا: آپ تو ان مراحل سے بنفس نفیس گزرے ہوں گے، ذکر کی مجلسوں میں حق و ہوکی آواز نکالی ہوگی ۔ کیا اس تجربے میں سالک کو واقعی یہ لگتا ہے کہ وہ کسی روحانی تجربے سے گزر رہا ہے؟
جی ہاں! میں نے کہا نا! وہ ایک سراب ہے جس پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔ آواز میں بڑی قوت ہے اور خاموشی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ جو لوگ آواز کی دھار سے زخمی نہیں ہوتے وہ خاموشی کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ بہت سے لوگ خاموشی کی بے پناہ قوت سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ انہیں اس کا تجربہ نہیں ہوتا۔ مراقبے میں اچانک انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جس مصنوعی شور و غل کے سہارے اب تک جیا کرتے تھے اس نے اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ایک ہلا مارنے والی تنہائی میں انہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کا وجود تحلیل ہوتا جارہا ہو اور وہ وجود کے نقطۂ صفر کی طرف سفر کررہے ہوں ۔ بعض لوگ اس قسم کے تجربے سے مشاہدۂ حق کی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
میں جن دنوں نائجیریا میں تھا اہل حق کی ایک مجلس میں ذکر کے لیے جایا کرتا تھا ۔ واللہ کیا بتاؤں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جھٹکے سے ہوُ ہوُ کی مسلسل آواز نکالتے رہنے سے دل و دماغ معمولات شور و شغب سے دور جا پڑتے تھے ۔ یہ بیک وقت ایک جسمانی ورزش بھی تھی جس میں ہوُ کی آواز کے ساتھ بہت سی ہوا مسلسل پھیپھڑے سے نکلنے کے سبب دماغ پر ایک خواب آسا کیفیت طاری ہوتی ۔ ہم لوگ سمجھتے شاہد مشاہد ۂ حق کی کیفیت کا ابتدائی ظہور ہو۔
تو کیا کبھی آپ کو دو ضربی اور سہ ضربی نفی اثبات کے ذکر کا بھی موقع ملا؟
جی ہاں نقشبندیوں کے بعض گروہ میں یہ ذکر خاصا مقبول ہے ۔ یہ بھی دراصل ایک جسمانی ورزش ہے ۔ نفی اور اثبات کے ذکر میں بھی پھیپھڑے کو ہوا سے خالی کرنے اور پھر اس کو مکمل سانس سے بھرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ شیخ نے اپنا بیان جاری رکھا۔
مجھے یاد آیا کہ مشاہدۂ حق کی ان ہی کیفیات کا ذکر ایک بار ایک روسی ڈپلومیٹ نکولائی نے بھی مجھ سے کیا تھا ۔ نکولائی نے سوویت یونین کی پالیسیوں سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے دیا تھا جب میری اس سے ملاقات ہوئی اس وقت وہ ہالینڈ میں قیام امن کی ایک تنظیم کا روح رواں تھا ۔ کہنے لگا کہ جن دنوں میں نیویارک میں اپنی ملازمت پر متعین تھا، روز علی الصباح سولہ کلو میٹر جاگنگ کےلیے جایا کرتا تھا ۔ بارہ کلو میٹر دوڑ نے کے بعد میرا وجود اس قدر چارج ہو جاتا کہ میں خود کو کائنات کے ذرے ذرے سے Connected محسوس کرتا، ایسا لگتا جیسے مجھ پر وحی آنے والی ہو۔ بعد میں پتہ لگا کہ یہ سب دراصل مسلسل دوڑتے رہنے سے آکسیجن کی کمی کے سبب ہے۔
اب شیخ نےاپنے ذاتی تجربے سے اس خیال کی مزید توثیق کردی۔