• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد وزن کی مساوات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرد وزن کی مساوات


مرد وزن کی مساوات کے بارے دو بیانیے موجود ہیں: ایک مذہبی اور دوسرا لبرل۔ اور باقی بیانیے انہی دو کے بچے ہیں۔ مذہبی بیانیے میں نہ تو مرد وزن مساوی ہیں بلکہ مرد کو خلقی اور خُلقی دونوں طرح سے فوقیت بھی حاصل ہے۔ اللہ عزوجل نے آدم کو پہلے پیدا کیا نہ کہ حواء کو۔ مسجود ملائک آدم کو بنایا نہ کہ حواء کو۔ حواء کی پیدائش، آدم کی پسلی سے کی یعنی اسے آدم کی ایک فرع کے طور پر وجود بخشا نہ کہ مستقل وجود۔ مرد کو جسمانی طور مضبوط اور قوی بنایا جبکہ عورت کو کمزور۔ یہ تو خلقی اعتبار سے فضیلت ہوئی جبکہ
خُلقی اعتبار سے فضیلت کے دلائل یہ ہیں کہ نبوت اور رسالت مردوں میں جاری فرمائی، عورتوں میں نہیں۔ دوران حیض نماز روزہ نہ کرنے کی وجہ سے عورتوں کے دین کو ناقص کہا جبکہ مردوں کے لیے یہ نقص نہیں ہے۔ جہنم کے مشاہدے میں یہ کہا کہ وہاں عورتیں زیادہ دکھائی جا رہی ہیں نہ کہ مرد۔ وغیرہ وغیرہ
اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی عورت اخلاقی اعتبار سے مرد سے افضل نہیں ہو سکتی۔ ہم نوع مرد اور نوع عورت کی بات کر رہے ہیں۔ مرد اپنی نوع میں پیدائشی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے عورت کی نوع سے افضل رہا ہے اور ہے۔ آپ زندگی کا کوئی شعبہ لے لیں اور اس میں مردوں اور عورتوں کا تقابل کر لیں تو مرد افضل نظر آئیں گے۔
آپ اخلاق اور دینداری کا ہی شعبہ لے لیں، افضل البشر بعد الانبیاء، ایک مرد ہی ہے۔ عشرہ مبشرہ مرد ہی ہیں۔ تصوف سے لے کر جہاد تک کی تاریخ کے مطالعہ تک میں ہر صدی میں ہر طرف مرد ہی مرد نظر آئیں گے جو قطب بھی ہیں، غوث بھی اور ابدال بھی۔ فقہاء بھی ہیں، محدثین بھی ہیں، متکلمین بھی۔ فلسفی بھی ہیں، شاعر بھی ہیں، ادیب بھی۔ غازی بھی ہیں، مجاہد بھی اور سپہ سالار بھی۔ عورتیں بھی ہوں گی لیکن ہم اس وقت تناسب کی بات کر رہے ہیں کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
لیکن یہ افضلیت تفاخر اور ظلم کے لیے نہیں ہے بلکہ انکساری اور عدل کے لیے ہے۔ یہ ہمارے خیال میں اصلاح کا وہ نکتہ ہے کہ جسے نطر انداز کیے جانے کی وجہ سے مذہبی بیانیہ متاثر ہو رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل لیکن اپنا احساس تواضع کیا ہے کہ مجھے یونس ابن متی پر بھی فضیلت نہ دو۔ پس اللہ نے مرد کو عورت سے افضل بنایا لیکن اسے اس افضلیت کے تفاخر میں مبتلا رہنے سے منع فرمایا کہ افضل پیدا کرنے کا مقصد ماتحت کا دھیان تھا۔
بھئی ساری دنیا کا نظام اسی طرح چل رہا ہے کہ کوئی افسر ہے اور کوئی ماتحت۔ ملازمت میں تو عورت کا باس اگر مرد ہو تو کوئی مطالبہ نہیں کرتا کہ اسے برابر کے حقوق دے دو؟ گھر کا نظام بھی ایسے ہی چلنا ہے۔ پس بڑوں میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کرو کہ چھوٹوں سے شفقت کریں، ان پر ظلم نہ کریں، ان کے حقوق پورے کریں۔ عورت، مرد سے چھوٹی بن کر جتنی مطئمن رہ سکتی، مرد کے برابر کھڑی ہو کر کبھی بھی نہیں۔ یہ نفسیاتی تجریہ ہے، کر کے دیکھ لیں۔ جس دن عورت کو یہ احساس ہو گیا کہ میرا مرد مجھ سے بہتر نہیں ہے، اس دن وہ اسے اپنے دل سے نکال باہر کرے گی۔
اور جہاں تک لبرل بیانیے کا معاملہ ہے تو اس کی انتہا اس بات پر ہو گی کہ مردوں کو بچے بھی پیدا کرنے چاہییں کیونکہ اس کے بغیر مساوات کا کوئی لبرل تصور مکمل نہیں ہو سکتا۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے کہ کس رستے پر چل پڑے ہیں۔
بشکریہ محترم شیخ @ابوالحسن علوی
 
Top