ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 177
- پوائنٹ
- 77
مرزا جہلمی کا وسوسہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بارہ منافق
مرزا جہلمی چونکہ صحابہ کرام کا بدترین دشمن یے اور اس نے ایک پلاننگ کے تحت لوگوں کو اپنے قریب کیا اور اب وسوسے دے دے کر انکو صحابہ کرام سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اسی مقصد کے لیے مرزا جہلمی صحیح مسلم 7035 کا حوالہ دیتا یے جس میں یے کہ
فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا
ترجمہ: میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں۔ اسکے بعد شیطانی وسوسہ دیتا یے کہ انکے نام اپنے علماء سے پوچھ لو لیکن وہ تمکو بتائیں گے نہیں!
اب کچھ لوگ اس شیطانی وسوسے میں آ جاتے ہیں کہ
پتہ نہیں کون ہیں وہ لوگ جنکے نام اہلسنت علماء بتائیں گے نہیں!
پہلی بات اصحاب کا لفظ آ گیا تو اس سے مراد ضروری نہیں کہ اصل صحابی ہی مراد ہو کیونکہ بخاری کی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمر ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ :
دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه
کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابہ کو قتل کرتا ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب التفسیر
بتائیے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟
اور ہاں حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور کتاب "الإصابة في تمييز الصحابة" میں "صحابی" کی تعریف یوں کی ہے، اس تعریف کو مرزا جہلمی خود بھی سب سے صحیح تعریف تسلیم کر چکا یے مسلہ 157 پارٹ 2 وقت 24:44 پر کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ٹھیک کہتے ہیں کہ
الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم | مؤمنا به ، ومات على الإسلام
صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا۔
اور صحیح مسلم 7035 فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا
میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں۔
علامہ النووی ؒ اس حدیث کے تحت شرح میں لکھتے ہیں :
أما قوله صلى الله عليه وسلم في أصحابي فمعناه الذين ينسبون إلى صحبتي كما قال فى الرواية الثانية فى أمتى
نبی مکرم ﷺ نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ سے بارہ منافق ہیں، تو اس کا مطلب صرف صحبت سے منسوب ہونا ہے (نہ کہ اصل صحابی ) جیسے دوسری سند (صحیح مسلم:7036) سے یہاں لفظ ( میری امت سے ) ہے ‘‘
یعنی یہاں صحابی کے لفظ سے مراد سچے اور عادل صحابہ نہیں، بلکہ اس دور میں اسلام سے منسوب ، اور ایمان کا دعوی رکھنے والے منافقین ہیں جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے بھی لفظ اصحابی ہی استعمال ہوا ہے لیکن اسے کوئی بھی صحابی کا درجہ نہیں دیتا۔
لیکن اگر صرف صحیح مسلم 7035 کی بات کریں تو یہ حدیث بیان کرتے وقت بھی مرزا جہلمی نے ایک بہت بڑا دھوکہ دیا یے اور اپنا خناس ہونا ثابت کیا ہے
کیونکہ خناس کا کام ہوتا ہے وسوسہ دینا اس نے کونسا مسئلہ حل کرنا ہوتا یے اس لیے یہ مرزا جہلمی ہمیشہ صحیح مسلم 7035 کا حوالہ دے گا پروپیگنڈہ کرے گا، وسوسہ دے گا اور بھاگ جائے گا اس سے اگلی حدیث صحیح مسلم 7036 کا حوالہ کبھی نہیں دے گا کیوں کہ اس میں الفاظ ہیں :
فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا
ترجمہ: میری امت میں بارہ منافق ہیں۔
یعنی میری امت میں 12 منافق
نہ کہ صحابہ کرام میں سے
اور پھر اس سے اگلے نمبر کی حدیث یعنی صحیح مسلم 7037 جو مرزا جہلمی کے تمام وسوسے کو تہس نہس کر دیتی یے اس میں موجود ہے کہ وہ بارہ منافق، اصحاب عقبہ تھے
اصحاب عقبہ وہ ہیں جنہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک گھاٹی میں حملہ کرنے کی کوشش کی تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام حضرت حذیفہؓ کو بتلا دیے تھے۔ ان اصحاب عقبہ کا ذکر سورہ التوبہ میں بھی ہے:
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُو۔
ترجمہ: وہ قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کہی جبکہ وہ ایسے کفریہ کلمات کہہ چکے اور اپنے اسلام لانے کے بعد کفر کر چکے اور انہوں نے وہ ارادہ کیا جو وہ پا نہ سکے۔
یعنی
1: صحیح مسلم 7035
2: صحیح مسلم 7036
3: صحیح مسلم 7037
ان تینوں آحادیث کو بیان کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ بارہ منافق اصحاب عقبہ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک گھاٹی میں حملہ کر کے قتل کرنے کی سازش کی تھی یہ وہ منافق تھے نہ کہ صحابہ تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف پروپیگنڈہ سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔