• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرسل کی اقسام اور حکم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مرسل کی اقسام:

مرسل کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ صحابہ کی مراسیل ۲۔ تابعین کی مراسیل ۳۔ ان کے بعد آنے والوں کی مراسیل

اس کی تفصیل پیش ِ خدمت ہے:

صحابی کی مرسل روایت: یہ کہ صحابی کہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے یوں فرمایا حالانکہ اس نے یہ بات نبی کریمﷺ سے سنی نہ ہو۔

صحابی کا نبی کریمﷺ سے اس بات کو نہ سننے کا پتہ اس بات سے چل جاتا ہے کہ وہ صحابی دیر سے مشرف بااسلام ہوا تھا اور جس معاملے کے بارے میں وہ خبر دے رہا ہے وہ پہلے کی ہے اور وہ اپنے اسلام سے قبل نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر بھی نہیں ہوا تھا۔یا پھر صحابی چھوٹی عمر کا ہو اور اپنی ولادت سے بھی پہلے کے واقعات کی خبر دے۔ تو اس بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ اس نے یہ حدیث نبی کریمﷺ کی زبانی نہیں سنی بلکہ کسی اور واسطہ سے سنی تھی، اور گمان غالب یہی ہوتا ہے کہ وہ واسطہ کوئی صحابی ہی ہوسکتا ہےجو اس سے عمر میں بڑا تھا یا اسلام لانے میں مقدم تھا۔ جیسا کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی سن سات ہجری سے پہلے کے واقعات کے بارے میں احادیث ہیں کیونکہ وہ سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے ۔ اسی طرح ابن عباس ، ابن عمر اور ان جیسے چھوٹے صحابہ کی شروع اسلام کے بارے میں روایات ہیں کیونکہ یہ تو پیدا ہی بعد میں ہوئے تھے۔تو اس طرح کی مرسل روایات مقبول ہوں گی کیونکہ صحابہ سارے کے سارے عدول ہیں۔ لہٰذا ان روایات کا وہی حکم ہے جو مسند روایات کا ہے۔

تابعی کی مرسل روایت: اور جب کوئی تابعی مرسل روایت بیان کرتا ہے اور اسے براہ راست رسول اللہﷺ سے منسوب کردیتا ہے تو یقیناً وہ اپنے اور رسول اللہﷺ کے درمیان کوئی واسطہ گراتا ہے ۔ اور یہ واسطہ صحابی کا بھی ہوسکتا ہے اور تابعی یا اس سے بھی کم درجے کے راوی کا۔

اگر وہ گمشدہ واسطہ صحابی کا ہے تو صحابہ کا عادل ہونا تو سب جانتے ہیں اگرچہ صحابی کا نام معلوم نہ بھی ہو، اور اگر وہ واسطہ کسی تابعی کا ہے تو اس پر تو کوئی حکم لگ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ مجہول ہے اور کسی انسان پر حکم لگانا اس کی پہچان کی فرع ہے۔یعنی پہچان ہوگی تو حکم لگے گا۔

سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مراسیل کو جمہور نے اس سے مستثنی کیا ہے کیونکہ ان کی مراسیل کی جب بھی جانچ پڑتال کی گئی تو اس میں گمشدہ واسطہ صحابی ہی پایا گیا، تو گویا کہ ان کی مراسیل مسند کی طرح ہیں کیونکہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں۔

غیر صحابی اور غیر تابعی کی مرسل روایت: یہ وہ روایت ہے جسے سند کے درمیان میں کوئی شخص اس شخص سےروایت کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات ہی نہیں ہوئی تو اس طرح وہ اپنے اور اس شخص کے درمیان ایک واسطہ کو گراتا ہے جس سے وہ روایت کرتا ہے۔

مرسل کا حکم:

صحابہ کی مراسیل کے بارے میں ہم جان چکے ہیں کہ وہ مسند کے حکم میں ہیں ، لہٰذا حجت ہیں اور جس شخص نے اس مسئلہ میں سختی کی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس بات کے دلائل یہ ہیں:

۱۔ تمام ائمہ کا ابن عباس اور ان جیسے صغار صحابہ کرام کی مراسیل قبول کرنے پر اتفاق کرنا ، یہ بات جاننے کے باوجود کہ یہ صحابہ کثرت روایت سے مشہور ہیں اور ان کی نبی کریمﷺ سے بعض روایات مرسل ہیں۔

۲۔ اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ تمام صحابہ کی عدالت جانی پہچانی ہے اور وہ اکثر طور پر کسی صحابی سے ہی بیان کرتے ہیں ۔ اگر کبھی وہ کسی غیر صحابی سے روایت کربھی لیں تو اسی سے کرتے ہیں جن کی عدالت کو وہ جانتے ہیں۔

رہی بات تابعین اور ان کے بعد والوں کی مراسیل کی تو وہ روایات امام مالک ، امام احمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حجت ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور محدثین کے نزدیک سوائے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مراسیل کےباقی مراسیل حجت نہیں ہیں۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top