• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مزارات پر ہونے والی خرافات

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مزارات پر ہونے والی خرافات


سندھ میں پیر لٹن شاہ کا مزار اور مکلی پیروں کی خرافات
یہ 1993 ءکا رمضان المبارک ہے اور میں کراچی شہر سے باہر ”منگا پیر “ کے دربار پہ کھڑا ہوں -پچھلے سال 1992 ءکے رمضان المبارک میں- میں ایران کے شہر ”شیراز“ میں تھا -یہ وہ شہر ہے کہ جس میں تیرہ صدیاں قبل اسلام کا ایک جرنیل محمد بن قاسم خیمہ زن تھا -ناگہاں اس کے چچا حجاج بن یوسف کا پیغام اسے کچھ اس طرح موصول ہوا :
”دیبل کی بندر گاہ (کہ جو اب کراچی میںپورٹ قاسم کہلاتی ہے)کے قریب مسلمان تاجروں اور بیو گان ویتامی کا مال لوٹ لیا گیا ہے -لہٰذا ان لٹیروں اور ان کے سرپر ست راجہ داہر کو شمشیر جہاد سے سبق سکھادو-“
محمد بن قاسم رحمہ اللہ ”شیراز شہر “ سے چلا -بلوچستان کے علاقے مکران میں آیا -یاد رہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور 22 ہجری میں حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ وکے خاران پر قبضے کے ساتھ ہی مکران میں بھی اسلام آیا -چنانچہ اس حوالے سے بعض م رخین نے برصغیر میں ”مکران “ کو ”باب الاسلام“ کہا ہے- چنانچہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ جب مکران میں آیا تو یہاں کے پانچ ہزار جوان اس نے اپنے لشکر میں شامل کئے اور وہ دیبل کی جانب چل کھڑا ہوا -پھر اس نے خشکی اور سمندر دونوں جانب سے راجہ داہر کی ہندو فوج پر حملہ کیا- یہ رمضان المبارک ہی کا مہینہ تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے دیبل کو فتح کیا اور یوں رمضان کے مہینے میں جہاد کی برکت سے سندھ کو باب الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا -
بلوچستان میں اسلام نے قدم رکھا تو جہاد کے زور سے -سندھ میں اسلام داخل ہوا تو قتال کی قوت سے اور قرآن و حدیث کی دعوت سے -اب حالات نے رخ بدلا-ایک لمبی مدت گزر گئی اور پھر جب سندھ سے عرب حکومتوں کا وجود مٹا اور باطنی فرقوں کو عروج ہوا تو اگلے مرحلے میں ان کی قوت کو جس نے توڑا --اور وسطی ہند میں سومنات اور متھرا وغیرہ کو تاراج کرکے‘ ہندوں کی قوت ختم کرکے‘ اسلام کا راستہ ہموار کیا‘ تو غزنی کے سلطان محمود نے جہاد کے زور سے کیا -سلطان محمودکے بعد سلطان شہاب الدین غوری کو نکال کر برصغیر میں یہ المیہ رونما ہو اکہ ان کے بعد غوری ‘ لودھی اور مغل حکمران آئے تو یہ اپنی اپنی بادشاہتو ں اور سلطنتوں کے لئے کشور کشائی کرتے رہے - اس کیلئے وہ ہندوں سے بھی لڑتے رہے اور آپس میں بھی برسر پیکار رہے ‘ جبکہ اس دور میں انہیں جو دین ملا تو وہ صوفیوں سے ملاجو خانقاہوں میں ذکرو اذکار ‘ چلہ کشیوں‘ تعویزوں اور لنگر خانے جاری کرنےکی حد تک محدود تھا -چنانچہ مذکورہ بادشاہ بھی دین دار بننے کے لئے یہ کرتے کہ ان خانقاہوں کے نام جاگیریں وقف کردیتے -گدی نشینوں کے حضور حاضر ہو کر دعا کروا لیتے اور بس !....چنانچہ وہ دین جو جہاد کی برکت سے بلوچستان اور سندھ میں آیا تھا‘ اب وہ دین نہ رہا تھابلکہ اب دین تو حید کی بجائے دین تصوف رائج ہورہا تھا -مسجدوں کے ساتھ علم حدیث کے مدرسوں کی بجائے اب خانقاہیں بن گئی تھیں-
حدیث کی کتابیں صحاح ستہ کے دروس کی بجائے اب تصوف کے سلسلے قادریہ ‘ چشتیہ ‘ سہر وردیہ اور نظامیہ کی مشقیں جاری ہوگئی تھیں -اب صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ بزرگوں کے مزارات اور مقبرے ہی مرجع خلائق بن گئے تھے-جبکہ ان کے ساتھ مسجدیں محض علامت کے طور پر باقی تھیں --اس صورتحال کے بعد لوگوں کی زبانوں پہ یہ کلمہ جاری ہوگیا کہ” برصغیر میں اسلام پھیلا یا ہی ان اولیا ئے کرام نے ہے -“ انہی خانقاہوں اور درباروں سے اسلام پھیلا ہے اور چونکہ سندھ ان بزرگوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا- اس لئے آج تک یہی کہا جاتا ہے کہ سندھ اور ملتان ولیوں کی سرزمین ہے- یہ صوفیوں کا وطن ہے- یہ گدی نشینوں کی وادی ہے -
سچ ہے یہ موجودہ خانقاہی دین انہی صوفیوں نے پھلایا ہے- انہی خانقاہی بزرگوں نے اسے رواج دیا ہے اور برصغیر میں ہنوز اسی کا راج ہے-
قارئین کرام ! میں اس خانقاہی دین کے چشم دید حالات و واقعات آپکی نذر کرتا رہتا ہوں -؟بیشتر احباب کے اصرار پر آج پھر میں” منگا پیر “کے دربار پہ ہوں -میں کراچی شہر سے باہر بلوچستان کو جانے والے اس راستے پہ کھڑا ہوں کہ جہاں سے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی عرب فوج گزری تھی -ہاں تو یہی ہے وہ رمضان کا مہینہ -مگر اب اس رمضان کے مہینے میں مکران کا علاقہ جو کہ باب الاسلام ہونے میں سندھ سے بھی سبقت رکھتا ہے ‘ اس کے ڈویژنل صدر مقام پر ”تربت“ شہر کے دامن میں - میں نے وہ جگہ دیکھی کہ جہاں ”ذکری فرقہ“ کوہ مراد ( پہاڑ) پر رمضان کے مہینے میں حج کرتا ہے- اس سے آگے لسبیلہ کے علاقے میں- میں نے ایک ایسا دربار بھی دیکھا ہے کہ جو” لامکان “کے نام سے معروف ہے -
صوفیوں نے کتاب وسنت کے عقیدہ کے برعکس اللہ کو لامکان کہہ کر یہ بھی مشہور کیا کہ وہ ہر جگہ خود موجود ہے‘ حالانکہ قرآن میں صاف طور پر اللہ نے فرمایا ہے :
اَلرَّحمٰنُ عَلٰی العَرشِ استَوٰی
ترجمہ : رحمن عرش پر جلوہ افروز ہے - (طٰہٰ 20 :5)
باقی وہ اپنی صفات کے اعتبار سے علیم بھی ہے ‘ خبیر بھی ہے اور علام الغیوب بھی ہے جبکہ اللہ کو لامکان اور ہر جگہ حاضر کہنا تو کتاب وسنت کے عقیدہ کے منافی ہے -مگر ان صوفیوں نے اپنا یہ غلط نظریہ جو انہوں نے اللہ کے بارے میں اپنا رکھا ہے ‘ اسے ایک صاحب قبر بزرگ پر بھی چسپاں کردیا ہے اور اسے لامکان اور ”نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے “ کہہ کر اپنا رب بنا لیا ہے -(نعوذ باللہ من ذالک)
لسبیلہ کے بعد دیبل کی طرف آئیں کراچی کی طرف سفر اختیار کریں تو راستے میںمنگا پیر کا دربار آئے گا -منگا پیر کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ ایک ڈاکو تھا- اس نے کراچی شہر سے دور اپنا ڈیرہ لگایا تھا اور پھر اس کے مرنے کے بعد اس کا مزار بنا دیا گیا-اب شیدی قوم اس کی مرید ہے- بلوچستان سے بے شمار لوگ یہاں آتے ہیں-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مگر مچھوں کی دنیا :
اس دربار میں جو خاص شئے دیکھنے والی ہے ‘ وہ یہاں تالاب میں موجود مگر مچھ ہیں -مرید کہتے ہیں : یہ بابا پیر کی جوئیں ہیں اور اب یہ بڑی ہوگئی ہیں -ان لوگوں نے اللہ کی مخلوق مگر مچھ کو بابا منگو کے نام منسوب کردیا ہے -
میلے کے موقع پر شیدی لوگ بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور پھر اس کا گوشت مگر مچھوں کے سردار مگر مچھ کے منہ میں ڈالتے ہیں-پھر اسے پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی مگر مچھ مرجاتا ہے تو اسے باقاعدہ غسل دیا جاتا ہے -خوشبوئیں لگائی جاتی ہیں اور غسل دے کر منگھو پیر کی قبرکی چادر کا کفن پہنایا جاتا ہے ‘ اور پھر تالاب کے خشک حصے میں اس کی تدفین کردی جاتی ہے -
چٹا گانگ میں ” کچھوا “ کی پرستش کے مناظر
ہندو ‘ مسلمان اور بدھ مت ایک ہی دربار پر!!
جس طرح پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ کراچی شہر ہے ‘ اسی طرح بنگلا دیش کا سب سے بڑا ساحلی شہر اور بندر گاہ چٹاگانگ شہر ہے - جب راقم بنگلہ دیش کے دورے پر گیا تو اسی طرح چٹا گانگ میں احباب مجھے ایک درگاہ پر لے گئے - اس درگاہ میں مدفون بزرگ کانام ” بابا یزیدسبطامی ہے - یہ چٹاگانگ شہر کی ایک بڑی درگاہ ہے- ہم جب اس میں داخل ہوے تو اس کے بڑے صحن میں لوگ قطار میں بیٹھے تھے - میں نے سوچا کہ یہ سب وضو کرنے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں مگر جب قریب ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بڑے بڑے کچھوے جن کو ہمارے ہاں بعض لوگ ” پلیتر “بھی کہتے ہیں ‘ وہ تالاب کے کنارے پر تیر رہے تھے اور لوگ انہیں طرح طرح کے کھانے کھلا رہے تھے -
عجیب تبرک عجب لوگ!:
یہ منظر دیکھنے کے لئے ہم یہاں رک گئے - اب کیا دیکھتے ہیں! ایک عورت جس کے ماتھے پر تلک لگا ہوا تھا ‘ وہ بھی پلیتر کو ڈبل روٹی کھلا رہی تھی -اس کی پشت پر محبت اور پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی- تالاب کے پانی سے چلو بھرکر پلیتر کے اوپر ڈال رہی تھی - وہ پانی جب پھسل کر دوبارہ تالاب میں گرتا تو وہ وہیں سے دوبارہ چلو بھرتی اور اسے اپنے منہ پر ڈال لیتی - یہ پانی اس کے ہاں متبرک پانی تھا - اس کا منہ اب پو تر ( پاک ) ہوچکا تھا -غرض تلک لگائے ہوئے ہندو عورت اگر یہ سوانگ رچارہی تھی تو مسلمان عورتیں بھی ایسا ہی کررہی تھیں کہ ان کی تو پھر یہ اپنی درگاہ تھی -ایک مسلمان عورت اس پانی کے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مار کر آنکھوں کی بینائی تیز کر نے کی کوشش کررہی تھی - اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہ یہی عمل دہرا رہی تھی - پلیتروں کوکھلا رہی تھی اور ان کا تبرک حاصل کررہی تھی- بدھ متوں کا ایک جوڑا بھی یہاں آیا ہوا تھا- یہ جوڑا پلیتر کے سامنے سے پانی اٹھاتا - چلو بھر کر پی جاتا - غرض یہ ایسی درگاہ تھی کہ جس کے پلیتروں کی پوجا ہو رہی تھی اور نام نہاد مسلمان ‘ہندو اور بدھ مشرک سب ہی اس درگاہ کے پلیتروں کی پوجا میں مصروف عمل تھے -
یہ تینوں جب پلیتروں سے پیار کرلیتے - انہیں کھلا پلا لیتے - ان کے منہ سے ڈبل روٹی لگا کر بطور تبرک کے کھا لیتے- ان کے سامنے سے پانی پی لیتے تو اب اٹھ کر چل دیتے حضرت کی زیارت کو - اب حضرت با با یزید بسطامی کی قبر تک جانے کا اپنا اپنا طریقہ ہے - ہندو کا اپنا طریقہ ہے - بدھ متئیے کا اپنا انداز ہے- جبکہ مسلمان.... پلیتروں کے تالاب سے اس متبرک پانی سے وضو کرلیتا ہے -
ایک آدمی پلیتروں کے درمیان پانی سے وضو کررہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وضو کس قدر پاکیزہ عمل ہے مگر یہ عمل ادا ہورہا ہے کیسی نجاست انگیز جگہ سے - یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی باتھ روم میں نماز پڑھنا شروع کردے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باتھ روم میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا- غرض پلیتروں کے تالاب سے وضو کرنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی بھنا ہو ا تیتر اور گرم گرم حلوہ لیٹرین میں بیٹھ کر کھانا شروع کردے -
اب یہ شخص وضو کرنے کے بعد ہندوں اور بدھوں کے درمیان سے اٹھا -درگاہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی کہ اس ظالم کو بیت اللہ کا رخ بھی بھول گیا ہے - غرض قبر کو قبلہ بناکر اس نے نماز پڑھ لی -اور اب ہندووں اور بدھ متوں اور دوسرے لوگوں کی بھیڑ میں چھوٹی سی پہاڑی پر بنی ہوئی درگاہ کی سیڑھیا ں چڑھنے لگ گیا -
با یزید کے مزار پر حاضری کی شرائط:
یہاں پیشہ ور بھکاری ملنگوں کا ایک ٹولہ بھی کھڑا تھا - ایک ملنگ سے ہم نے پوچھ لیا کہ یہاں ہندوبھی ہیں اور بدھ مت بھی- اس کی کیا وجہ ہے اور پلیتروں کی اس قدر تعظیم کا کیا مطلب ہے ؟ تو منلگ بولا : بابا! تم کیا جانو!.... جس کو تم پلیتر کہتا ہے یہ تو آدم سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے - حضرت با یزید کی درگاہ پر حاضری قبول نہ ہو گی جب تک سرکار کے ان پیاروں سے پیا ر نہ کیا جائے گا - سرکار کی درگاہ پر سب ایک ہو جاتے ہیں - یہاں ہندو ‘ مسلم ‘ بد ھ سب ہی آتے ہیں اور خیر پاتے ہیں -
پلیتروں سے پیار کرکے لوگ یا یزید بسطامی کی قبر کی طرف رواں دواں تھے - ہم بھی وہاں پہنچے -
تالاب عشق میں 80سال تک غسل معرفت :
وہاں ملنگوں کا ایک غول دکھائی دیا -بدبوکے ان سے بھبھوکے اٹھ رہے تھے
ایک ملنگ کے بارے میں بتلایا گیا کہ وہ غالباً اسی ( ۰۸) سا ل کی عمر میں فوت ہوا - وہ کبھی نہایا ہی نہیں تھا - بس وہ سرکار کا مرید تھا- وہ سرکار کے تالاب عشق میں ہر وقت غوطے لگایا کرتا تھا - لہٰذااسے نہانے کی کیاحاجت تھی
اور اب ایسا ہی غول یہاں بیٹھا ہوا تھا - جس کا کام بس سرکار کے تالاب عشق میں غوطے لگانا ہے - معرفت کی دنیا میں نہانا ہے - حقیقت میں بالکل نہیں نہانا - یہی وجہ ہے کہ بدبو کے ان سے بھبھو کے اٹھ رہے ہیں-
کچھوے کی جہادی اورعسکری فلاسفی :
اب ہم اس درگاہ سے واپس ہوئے - تالاب کے قریب سے گزرے - پلیتروں اور کچھوں سے پیا رکے مناظر اسی طر ح جوبن پرتھے - میں کچھ دیر کے لئے وہاں رک گیا -- ان کی طرف دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگا....
واہ رے کچھوے اور پلیتر!! قربان جں میں تیرے بنانے والے پر کہ جس نے تجھے بکتر بند گاڑی کی طرح تیرے اوپر گول اور مضبوط خول بنایا- غرض جس طرح بکتر بند گاڑی کے پہیوں اور دیگر چیزوں کو ہر جانب سے بند کرکے اسے بیرونی حملہ آور سے محفو ظ و مامون بنایا اسی طرح اے پلیتر اور کچھوے ! تو جب بیرونی حملہ کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اپنی گردن اور سر کو اپنے محفوظ اور مضبوط خول کے نیچے لے جاتا ہے - اپنے پں کو اوپر چڑھا لیتا ہے- غرض تو ایک چھوٹی سی بکتر بند گاڑی ہے جو پانی میں تیرتی پھرتی ہے اور خشکی پر چلنا پڑجائے تو وہاں بھی اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے - انگریز انجینئروں نے تیری طرف دیکھ کر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بنا ڈالیں - انہوں نے یہ ایجاد یں کیں اور میدانوں میں مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا اور جب شہری آبادیوں نے اٹھنے کی کوشش کی تو بکتر بند گاڑیوں نے سڑکوں پر گشت کرکے مشین گن کی گولیوں کا چھڑک کرکے آڑے آنے والوں کو بھون کر رکھ دیا - تجھ سے کافروں نے تو یہ سبق لے لیا جبکہ ہمارے لوگ آہ! کہ اے اللہ کی بکتر بند گاڑی ! تجھے پوجنے میں لگ گئے.... اور ایسے لگے کہ پوجتے چلے جارہے ہیں - رکنے کا نام ہی نہیں لیتے- لہٰذا ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے جارہے ہیں ....
اچھا ! ہم ان شاءاللہ ! تیری اور تیرے ہم جنس مگر مچھ ‘ بندر ‘ گائے ‘ کتے ‘ کوے‘ بلے‘ گھوڑے وغیر ہ کی پوجا سے حضر ت انسان کو ہٹانے کی مقدور بھر کوششیں کرتے رہیں گے -
کچھوں کی دنیا کی مختصر جھلک کے بعد اب ہم آپ کو دوبارہ پیر منگوکے دربارپر مگر مچھوں کی دنیا میں لئے چلتے ہیں....
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ہم کراچی میں اس تالاب کے کنارے منگو بابا کے دربار پر کھڑے ان مگر مچھوں کو دیکھ رہے تھے -دربار کے زائرین بھی یہاں موجود تھے -وہ دعائیں کرنے میں مصروف تھے-
وہ انسانیت جو پانی کی ایک مخلوق کو بابے کی جوئیں قرار دے کراس کی پوجا کرنے میں مگن ہے ‘ یہ وہ انسانیت ہے کہ جس پہ جانور بھی جو کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت بجالاتے ہیں‘ ہنستے ہوں گے‘ کہ یہ کیسے انسان ہیں جو ہم جانوروں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مانے ہوئے ہیں-
سچ کہا قرآن نے ’’بَل ھُم اَضَلُّ‘‘
ترجمہ :یہ (انسان )تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں-
جہادی راہوں پہ خانقاہی نشانات:
محمد بن قاسم رحمہ اللہ کا جو لشکر شیراز سے مکران آیا اور پھر مکران سے دیبل (موجودہ کراچی)میں خشکی کے راستے ساحل کے ساتھ ساتھ آیا ‘ اب اس راستے پر قبر پرستی کا چلن ہے -کراچی شہر میں داخل ہونے سے چار پانچ کلومیٹرپہلے ”جوں والے منگا پیر“ سے واسطہ پڑتا ہے -تب کراچی شہر میں داخلہ ہوتا ہے ....اسی طرح محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے لشکر کے جس حصے نے سمندر کے راستے دیبل پہ حملہ کیا اب وہاں کلفٹن ایسے خوبصورت تفریحی مقام میں ایک پہاڑی چٹان پر عبداللہ شاہ غازی کا دربار بنا دیا گیا ہے -جن کا میلہ 21 اور 22 ذی الحجہ کو لگتا ہے یعنی جو سمندر سے باب الاسلام میں داخل ہو ‘ 10 ذی الحجہ کو مکہ میں حج کرکے دیبل کے ساحل پہ آئے تو 20 ذی الحجہ کو منائے جانے والے عرس سے اس کا واسطہ پڑے....اور پھر ہر کوئی کیوں نہ یہی سمجھے کہ اسلام تو صوفیا ءنے پھیلایا ہے اس لئے کہ ہر موڑ پر اور ہر اہم مقام پر یہی دربار اور خانقاہیں ہیں جو دکھلائی دیتی ہے -تو یہ ہے اسلام اور اسلام کی چوٹی (جہاد)کے خلاف سازش جو علامہ اقبال کے بقول ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیار ہوئی اور اس سازش کو کامیاب کرنے کے لئے ابلیس نے اپنے ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا کہ
مست رکھو ذکر وفکر و صبحگاہی میں اسے ....... پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
سوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں
کراچی میں ولیوں اور ان کے مزاروں کا کوئی شمار نہیں ‘ ایک سے دوسرا بڑھ کر ہے-مگر ہم نے سب سے بڑے ان دو درباروں کے ذکرہی پر اکتفا کیا ہے کہ جو محمد بن قاسم کے بری اور بحری دو جہادی راستوں پہ طریق تصوف کے ناکے لگائے ہوئے ہیں -اب ہم ٹھٹھہ شہر کے قریب برلب سڑک ایک ایسے قبر ستان میں موجود ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے -یہ قبرستان تقریبا چودہ پندرہ کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے -بڑا قدیم قبرستان ہے -اس کے صدر دروازے پر لکھا ہوا ہے ”مکلی کا شہر خموشاں- “مکلی “ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بزرگ حج پر جارہے تھے -جب انہوں نے راستے میں ایک رات یہاں سوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں سیر کی اور تجلیات و انوار کا مشاہدہ کیا تو ان کی زبان پر بیساختہ یہ کلمہ جاری ہوگیا ”ھذا مکة لی“ میرا تو یہی مکہ ہے -چنانچہ ”مکة لی“ کثرت استعمال سے مکلی ہوگیا -جس کا مطلب یہی ہے کہ ” میرا تو مکہ یہی ہے“ یعنی جو یہاں آجائے سوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں تو اسے اب مکہ جانے کی کیا ضرورت ہے!! وہ اسی وسیع و عریض قبرستان میں قبروں کو پوجتا رہے -اور ایسے بد قسمت جب کہیں مکہ پہنچ بھی جاتے ہیں تو وہاں بھی پرستش کے لئے قبریں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں -یہ قبرپرستی ان کے ذہنوں پہ اس قدر سوار ہوتی ہے کہ کئی لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے بھی یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ یہ کس بزرگ کا دربار ہے کہ جس کے گرد ہم گھوم رہے ہیں -(استغفر اللہ)
مکلی کا سب سے بڑا ولی عبداللہ شاہ اصحابی:
ہمارا وفد پانچ ساتھیوں پہ مشتمل تھا -جمیل راہی ‘ منظور احمد ‘ محمد اسلم ‘ بھائی محمداور راقم جبکہ حیدر آباد سے کچھ ساتھی بھائی ہارون وغیرہ بھی ہمارے ساتھی بنے- ان میں برادرم ابو آفتاب -عبداللہ اصحابی کے دربار پہ بہت آیا کرتے تھے -اب اللہ نے ان کے سینے کو کتاب وسنت کے نور سے منور کردیاہے- آفتاب کو ہدایت کیسے ملی ؟ یہ سوال جب میںنے اپنے اس بھائی سے کیا تو کہنے لگے” میری ہدایت کا باعث یہی دربار بنا -“میں نے تعجب سے پوچھا” وہ کیسے ؟ “ تو کہنے لگے- ”یہاں جو حرکات دیکھتا تھا ‘ فحاشی کے مناظر ملاحظہ کرتا تھا اور اوٹ پٹانگ قصے کہانیاں سنتا تھا توآخر ایک روز انہی خرافات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا وہ دین جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور جس نے پوری دنیا میں انقلاب بپا کردیا تھا -وہ یہی ہے ؟....اور اگر وہ دین یہی ہے تو پھر اسے ماننے سے میں رہا- چنانچہ اس کے بعد میں نے تحقیق شروع کی ‘ قرآن کا مطالعہ شروع کیا اور پھر اللہ نے میری ہدایت کے دروازے کھول دئیے اور اب الحمدللہ کتاب وسنت کا متبع ہوں -“
ابو آفتاب کہنے لگا-” جب میں اس دربار پہ آیاکرتا تھا تب میں حیدر آباد کے شاہی محلے میں بھی گھوما کرتا تھا -اب جب اللہ نے مجھے ہدایت دی تو میں نے دعوت کا کام بھی شروع کردیا اور میں نے اپنے کام کی ابتداءشاہی محلے میں انہی چوبارے والیوں سے کی کہ جن کے پاس میں جایا کرتا تھا -
یہ اللہ کا خاص احسان ہے کہ میں اپنی اس دعوت سے کئی لڑکیوں کو اس گندے ماحول سے نکال چکا ہوں- ایک لڑکی کی شادی پنجاب کے ایک شہر میں ہو چکی ہے - ایک لڑکی کراچی میں ہے- اس کے پاس اب بچے بھی ہیں اور یہ سب نہ صرف یہ کہ اس گندے شیطانی ماحول سے نکلی ہیں بلکہ انہوں نے درباری اور خانقاہی مذہب کو چھوڑ کرکتاب وسنت کے صاف ستھرے عقیدے کو بھی اپنا لیا ہے -اگر آپ چاہیں تو کراچی میں- میں آپ کی ملاقات ان کے خاوندوں سے بھی کرواسکتا ہوں جو کہ موحدنوجوان ہیں -“
قارئین کرام ! اب مکلی کے سوا لاکھ ولیوں کی داستانیں ملاحظہ فرمائیں -سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی یہ داستانیں جو لوگوں میں مشہور ہیں ‘ ہمیں ان میں سے بعض تو بھائی ابو آفتاب کی زبانی معلوم ہوئی ہیں ‘ کچھ یہاں آنے والوں کے ہاں سے ....اور اکثر اس دربار کے خطیب مولوی طفیل احمد سے کہ جنہوں نے بعض باتیں تو زبانی بتلائیں اور مزید تفصیلات کے لئے انہوں نے مکلی کے ولیوں کے حالات پہ مشتمل اپنی کتاب دی‘ کہ جس کے پانچ حصے ہیں اور اس کا نام ”تحفت الزائرین“ ہے- تو لیجئے ! شرک کے بے سروپا پٹے اور جھوٹ کے یہ پلندے ملاحظہ کیجئے ! شاید کہ ابو آفتاب کی طرح یہ کسی اللہ کے بندے کی ہدایت کاباعث بن جائیں!
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رسول اللہ کے نو سو سال بعد پیدا ہونے والا جب صحابی بن گیا :
جناب طفیل صاحب لکھتے ہیں :
آپ( پیر عبد اللہ شاہ ) 927 ہجری میں بغداد شریف سے گجرات کے راستے سے سرزمین سندھ میں تشریف لائے- آپ چودھویں پشت میں غوث صمدانی شیخ عبدالقادرجیلانی سے جاملتے ہیں-شہنشاہ مکلی سید عبداللہ شاہ اصحابی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص قرب حاصل تھا - جس مسئلہ کی تحقیق مطلوب ہوتی یا جس حدیث شریف کی تصحیح کی ضرورت محسوس ہوتی تو براہ راست حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ عرض کرکے تحقیق اور تصحیح کرلیتے -
پیر کے استقبال کے لئے رسول اللہ سندھ پہنچ گئے!!
جب بابا صحابی کی زندگی کی آخری گھڑیاں تھیں اور کئی دن آپ بستر علالت پر صاحب فراش رہے تو آپ نے حجرہ شریف کو دھلوانے اور خوب اچھی طرح فرش کو صاف کرنے اور پورے حجرے کو خوب اچھی طرح معطر کرنے کا حکم دیا -حجرہ شریف سجانے کے بعد آپ اور آپ کے دونوں صاحبزادوں کے علاوہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دی گئی-صرف آپ مع دونوں صاحبزادوں کے خلوت پذیر ہوئے -اچانک فخر موجودات علیہ السلام اپنے کبار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور نواسگان مختار رضی اللہ تعالی عنہ اور حضور غوث الاعظم سمیت حجرہ شریف کے اندر جلوہ افروز ہوئے -بابا صحابی اپنے صاحبزادوں سمیت کھڑے ہوئے اور قدم بوسی کاشرف حاصل کیا اور عرض کیا کہ:
” زہے نصیب اس غلام کے غمکدہ کو اپنے مبارک اور نورانی قدموں سے منور فرمایااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدوم میمنت لزوم نے میرے نصیب کو بالا کردیا “........تو سرکار دوجہاں نے فرمایا ”بیٹا میں تیرے استقبال کے لئے آیا ہوں “
اس واقعہ کی اتنی شہرت ہوئی کہ بجائے عبداللہ شاہ جیلانی کے لوگوں کی زبان پر سید عبداللہ شاہ ا صحابی مشہور ہوگئے -“
قارئین کرام ! مولوی محمد طفیل صاحب کی تحریر کہ جسے انہوں نے سندھ کے مرخ میر شیر علی فاتح ٹھٹھوی کی کتاب سے نقل کیا ہے‘ اس پہ غور فرمائیں -
تو پہلی بات یہ معلوم ہوگی کہ یہ صوفیا صحاح ستہ اور حدیث کی صحیح ترین کتابیں بخای اور مسلم سے بے نیاز ہیں-اسماءالرجال کی انہیں ضرورت نہیں‘ کیونکہ ان کو سب کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آکر بتلا جاتے ہیں اور وہ بھی خواب میں نہیں بلکہ حالت بیداری میں -اب کھلی چھٹی مل گئی کہ ولایت کا دعویٰ کرکے جو کوئی چاہے اپنا دین بنائے اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردے -
اور پھر ظلم یہ کہ وہ صحابی بن جائے ‘ مزید گستاخی یہ کہ جب وہ تصوف کی زبان میں پردہ کرنے لگے یعنی مرنے لگے تو اس کے استقبال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے آئیں -پھر یہ گستاخیاں کتابوں میں چھپ جائیں -زبان زدعام ہوجائیں اور جب ہم جیسا کوئی ان گستاخیوں پہ متنبہ کرے- کتاب و سنت کی طرف لوٹنے کی دعوت دے تو وہ وہابی قرار پاجائے -جی ہاں ! گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگوں کو نہ ماننے کے لقب سے نوازا جائے -
اذالم تستحی فاصنع ماشئت ..... جو چاہے تیر ا حسن کرشمہ ساز کرے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ تو دین ودنیا کے مسائل کے لئے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کریں- باہم مشورے کریں ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس نہ آئیں ‘ مگر نو سو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بابا عبداللہ کو آ کر سب مسائل بتلا جائیں اور وہ بھی حالت بیداری میں!!!
جب” مزار“ زمین سے اوپر کو ابھرنا شروع ہوا:
تصوف جو کہ کرشموں اور طلسمات کی دنیا ہے‘ اس کا ایک کرشمہ ملاحظہ ہو :

”بابا صحابی کے پردہ کرنے کے بہت عرصہ بعد آپ کا مزار شریف منہدم ہو کر ناپید ہو چکا تھا - اس اثنا ءمیں حافظ عبد اللہ شاہ گجراتی کو ( عبدالقادر جیلانی) کی بشارت ہوئی کہ” میری اولاد کی مبارک قبر مکلی ٹھٹھہ میں واقع ہے‘ اس کو نمودار کرو -“
چنانچہ مراقبہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پورے مکلی کے اولیا ئے کرام کی محفل لگی ہوئی ہے اور سب کی صدارت سیدالاولیا ءسید عبداللہ شاہ اصحابی فرما رہے ہیں -مراقبہ سے فارغ ہو کر آپ سب کو لیکر مکلی کی طرف روانہ ہوئے اور آکر ( اپنے ) مزار مقدس کو نمودار کیا - جب قد آدم کے برابر ہوا تو اور بڑھنا شروع ہوا -“
قارئین کرام ! یہ مزار تو بقول ان کے ابھر چکا ‘ نمودار ہو چکا -مگر اب یہاں جو کچھ نمودار ہوتا ہے اس سے شاید شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگاکہ جب 15-14-13 شعبان کو یہاں باباکا عرس ہوتا ہے -مگر آج جب ہم بابا کے دربار پہ پہنچے تو یہ عرس کا دن نہ تھا -ایک عام دن تھا‘ اس کے باوجود کافی تعداد میں لوگ موجود تھے -
بال کھولے گریبان چاک کئے اک لڑکی:
ایک نوجوان لڑکی اپنے بال کھولے ہوئے‘ گلہ چاک کئے ہوئے‘ دیوانہ وار بابے کے دربار پہ کبھی اس طرف دوڑ کر چلی جاتی ‘ کبھی کھڑکی کے سریے کو تھام لیتی اور صحابی بابا کانام چیخ کر پکارتی -لوگ یہ منظر ملاحظہ کررہے تھے -اس کے علاوہ جنہیں جادو اور جنات کا مرض ہوتا ہے ‘وہ بھی یہاں آتے ہیں‘ اور کیا مرد اور کیا نوجوان عورتیں سب مداریوں کی طرح بازیاں لگاتے ہیں‘ اور پھر ایک جم غفیر ہوتا ہے جو یہ بازیاں ملاحظہ کرتا ہے-
لڑکی یہاں چھوڑ جاو ! جن نکال دیں گے - مجاوروں کی یقین دھانی :
ہم نے دیکھا کہ ایک اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ اپنی نوجوان بچی کو یہاں لایا اور دربار کے مجاوروں سے کہا کہ” اس بچی کو جنات کی کسر ہے“ انہوں نے کہا کہ” یہاں چھوڑ جا!! ٹھیک ہوجائے گی-“ محکمہ اوقاف کی ایک ملازمہ عورت بھی یہاں موجود تھی- جب ہم نے اس سے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا تووہ کہنے لگی” یہاںایسے ہی ہوتا ہے اور جو بھی آتی ہے -یہاں رہ کر ٹھیک ہوجاتی ہے -“ اس خرانٹ عورت کے اشارے اور انداز تکلم یہ بتلا رہا تھا کہ یہ لڑکیاں پھر ہٹے کٹے مجاوروں کے ہاتھوں ٹھیک ہوتی ہیں -
آہ !....آج سے تیرہ سوسال قبل جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ یہاں آیا تھا توہندوں کے مندروں سے اس نے ہزاروں ہندو لڑکیوں کو آزاد کیا کہ جنہیں ہندوں نے مندروں کی نذر کردیا تھا -اور پھر پنڈت انہیں دیوداسیاں قرار دے کر ان کی عزت و آبرو کے مالک بن بیٹھتے تھے ....آج پھرابن قاسم رحمہ اللہ کے دیس میں تقدس کے پردے میں ....مگر اسلام کے نام پر ہم وہی حرکتیں دیکھ رہے تھے- خانقاہی دربار کی نمودار ی کے ابھار ملاحظہ کررہے تھے کہ جنہیں ہم نے ابن قاسم بن کر مٹایا تھا -
درباری چلن یہ ہے کہ صاحب دربار کے درباری صحن میں اس کی اولاد جو کہ تقدس کا روپ دھار کر خانقاہی خلافت کی وارث اور سجاد ہ نشین بن کر فوت ہو تی ہے ‘ اس کی قبریں بھی موجود ہوتی ہیں- زائرین بڑی قبر کے بعد ان چھوٹی قبروں کی خاک بھی چھانتے ہیں کہ شاید یہیں سے کچھ مل جائے اور اس” شاید“ کے چکر میں وہ بیسیوں دربار گھومتے ہیں اور ہر چوکھٹ پہ اپنا سرجھکاتے چلے جاتے ہیں -
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شرک کی دلد ل میں لت پت ایک عورت کو جب دعوت توحید دی تو ....:
صحن میں ایسی ہی چھوٹی قبروں میں سے ایک قدرے بڑی قبر تھی -ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اس قبر کے جنگلے کے ساتھ ایک بارہ چودہ سالہ بچہ لوہے کے سنگل کے ساتھ بندھا ہوا ہے - اب میں اپنے ساتھیوں سمیت اس بچے کی جانب چل دیا اس سے بات کرتا مگر وہ کوئی بات نہ کرتا تھا ....آخر اس نے پیسے مانگے‘ اسے پیسے دے دئیے اور جب ہم نے کہا” تیرا سنگل اتاردیں ؟“ تو وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگا -شاید وہ کہہ رہا تھا کہ میں بھلا آزاد بھی ہوسکتا ہوں !!؟ اتنے میں اس کا ایک بھائی اور ماں بھی آگئی -اب اس کی ماں سے میں نے پوچھا کہ ”اسے کیوں باندھ رکھا ہے ؟“ تو اس کی ماں کہنے لگی ”یہ پاگل ہوگیا ہے -کسی نے حسد کرکے ہم پہ جادو کردیا ہے -تعویذ ڈال دیا ہے -اسے بابا کے پاس لائی ہوں -تین ماہ سے اسے باندھ رکھا ہے -یہ ٹھیک ہوجائے گا-“ میں نے اسے سمجھایا- اسے ہسپتال لے جا ڈاکٹر کو دکھا مگر وہ نہ مانی -پھر میں نے اسے کہا کہ
” اچھا تم یوں کرو کہ پانچ وقت نماز پڑھو -مشکل کشا صرف اللہ کو سمجھو- کسی سے امید یں مت لگ- پچھلی رات اٹھ کر تہجد پڑھو -اللہ کے حضور رو رو کر دعا مانگو اور کہو کہ اے اللہ! سب درباروں سے مایوس ہوگئی ہوں -اب صرف تیری جناب میں آگئی ہوں‘ ہمارے گناہ معاف کردے اور اسے ٹھیک کردے‘ اور پھر ”معوذتین “ پڑھ کر اسے دم کردیا کر -یہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوجائے گا-“
........ میری اتنی تقریر کے بعد وہ اللہ کی بندی کہنے لگی -“ اچھا ! وہ بابا فضل کا دربار کہاں ہے ؟“ اف اللہ ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ....کہ اس عورت کے ذہن میں نہ جانے کتنے بابے ہیں کہ کچھ بھی کہا جائے مگر اسے بابا ہی یاد آتا ہے -بہر حال اب ہم اس دربار سے نکل کھڑے ہوئے کہ جسے لوگ اصحابی بابا کہتے ہیں -دربار پر بھی اصحابی لکھا ہوا ہے -حالانکہ عربی میں یہ جمع کا لفظ ہے‘ جس کا مطلب بنتا ہے ”میرے صحابہ“ مگر طریقت کا علم سے کیا تعلق کہ اس کے اپنے طریقے اور اپنے ہی چلن ہیں -اور اب ہم چل دیئے ایک ایسے دربار کی جانب کہ جسے ننگ دین اور ننگ انسانیت کہنا چاہیئے -یہ دربار ہے جس بابا کا ‘ اس کا نا م ہے
لٹن شاہ
سوالاکھ ولیوں کے مسکن میں اب ہم ”حضرت لٹن شاہ“ کے دربار عالیہ کی جانب چل دئیے -گاڑی کا اس طرف جانا تو مشکل دکھلائی دیا -چنانچہ پیدل ہی چل دئیے اور کافی دیر بعد ہم لٹن شاہ کے دربار پرپہنچ گئے- بعد میں بھائی محمد بھی گاڑی کو لیکر جھاڑیوں اور پتھریلی زمین سے راستہ بناتا ہوا ہمارے پیچھے پہنچ ہی گیا کیونکہ اس ہستی کی صفات ہی کچھ ایسی سنی تھیں کہ اسے دیکھے بغیر چارہ نہ تھا-
بہر حال! انہیں دیکھ تو لیا- سجادہ نشین سے باتیں بھی کرلیں‘ ہنس ہنس کر ہم سب لوٹ پوٹ بھی ہولئے -مگر اب جو وقت آیا ہے قلم تھامنے کا اور جو دیکھا اور سنا- اسے صفحہ قرطاس پہ لکھنے کا ....تو اب قلم بار بار دانتوں میں دبا لیتاہوں اور سوچتا ہوں کہ لکھوں تو کیسے لکھوں !!میں فحاشی کو حیا کا لباس کیسے پہناؤں !!بے شرمی کو شرم کا جامہ کیونکر زیب تن کروں !!میں لٹن شاہ کی وہ کرامت آخر کیسے لکھوں کہ جس سے شرف انسانیت لٹ جائے اور ہندوں کے بارے میں میرا وہ جملہ بہت ہلکا ہوجائے کہ جس کا ذکر کرتے ہوئے آج میرا بھائی محمد کہنے لگا کہ” آپ جو اپنی تقریروں میں یہ کہتے ہیں کہ ہندو وہ گندا مشرک ہے کہ جو انسان کے مخصوص عضو کو بھی اپنا دیوتا مانے ہوئے ہے -مگر یہاں لٹن شاہ کودیکھو اور ہندوں کی پرستش کو بھول جا-“
میں واقعی بھول گیا ہوں -اب میں لٹن شاہ کے ذکر سے اپنی قلم کی عصمت کو لٹنے سے بچاتا ہوں ....اور درباروں پہ جانے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ان درباروں پہ جانے سے رک جاؤ - اپنا ایمان ‘ مال اور عزت بچا لو -
قارئین کرام ! افطاری کا ٹائم ہوا چاہتا ہے- اس دربار سے غیر اللہ کی نیازوں کا کھانا کیا! پانی پینے کو بھی دل نہیں چاہا- ہم نے ”ون “ کے درخت دیکھے -ان کا سفید سیاہ پھل جسے پنجابی میں ”پیلو “ کہتے ہیں‘ ان سے ہی روزہ افطار کیا اور غیر اللہ کی درباری نذر ونیاز سے اپنے شکم کو اللہ کی تو فیق سے بچالیا -
مکلی- سندھ کے دیگر ولیوں کی حیران کن باتیں
قارئین کرام ! ان درباروں کی پوجا ناممکن ہے جب تک کہ مافوق الفطرت ‘ مافوق الادراک اور دیو مالائی کہانیاں ان صاحبان دربار کے ساتھ وابستہ نہ کردی جائیں -چنانچہ یہ کام کرامت کے نام پر خوب کیا گیا ہے -اب ان کرامتوں پر ایک سرسری نظر ڈالئے جو ”تحفتہ الزائرین “ کے نام سے محکمہ اوقاف کے مولوی محمد طفیل صاحب نے لکھی ہیں اور لوگوں میں مشہور ہیں -
اشرفیوں کی بارش
بابا اصحابی کے بڑے فرزندحضرت سید حسن سے ملاقات کے لئے جب کابل کا امیر آیا تو پیر صاحب نے امیر کابل کے دل کا حال معلوم کرلیا اور پھر فرمایا:اے امیر تو ہمارے امتحان کےلئے آیا ہے -اور اس کے ساتھ ہی آسمان سے اشرفیوں کی بارش ہونے لگی اور صحن بھر گیا-
انہی پیر صاحب نے جب دریا پار کیا ‘ آپ کی کتاب جو خادم کے ہاتھ میں تھی‘ وہ دریا میں گر گئی - شاہ صاحب نے مرید کو دریائے اٹک پر واپس بھیجا اور کہا: دریا کے پاس جا اور کہو-اے دریا! سید حسن اپنی کتاب مانگ رہے ہیں-ادھر یہ الفاظ نکلے ادھر کتاب سطح آب پر نمودار ہوگئی -خادم نے فورا کتاب اٹھالی- تعجب کا مقام یہ تھا کتاب جو ں کی توں خشک تھی !
بارہ برس دریا میں :
ایک دوسرے بزرگ جناب یحییٰ نقش بندی المعروف حضرت جی تھے- یہ سانس روکنے میں درجہ تام رکھتے تھے- اتنی ریاضت تھی کہ پوری رات میں صرف ایک یا دو مرتبہ سانس لیتے تھے ....ریاضت میں آپ کی نظیر نہیں ملتی -دریا میں بارہ برس تک نفی اثبات کا ذکر کیا‘ جب پانی سے باہر نکلے تو صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں تھیں‘ گوشت کو پانی کھا گیا تھا -
کوہ مکلی میں حضرت کانٹے والے پیر بھی ہیں -کہ جس کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے وہ اس پیر کے دربار کا تیل لگائے تو کانٹا نکل جاتا ہے -
سوالاکھ ولیوں کے مسکن مکلی میں حضرت جمن جتی کا بھی مزار ہے جو بابا اصحابی کے دربار کے شمالی جانب ہے‘ ان کی کرامت بارش برساناہے -
یہاں ایک بزرگ شاہ دھنو بھی ہیں‘ جو دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات بھرجاگتے رہتے تھے-
چلّہ گاہ کے اوپر سے گزرنے والے پرندے جل جاتے ہیں :
حضرت شاہ کمال ”غوث الآ فاق “ یعنی آسمانی کناروں پر لوگوں کی فریادیں سننے والے پیر صاحب کے جلال کا دوران ریاضت یہ عالم ہوتا تھا کہ آپ کی ریاض گاہ کے اوپر سے اڑتے ہوئے پرندے جلنے لگتے اور زمین پر گرتے ہی راکھ ہو جاتے -حضرت شاہ فضیل نے اپنے مریدوں کو متنبہ کرایا تھا کہ دیکھو! آپ کی عبادت گاہ سے چالیس چالیس قدم دور رہنا ورنہ ان کے عشق کی آگ کی تپش کوئی برداشت نہیں کرسکے گا -
(غرض آپ کا جلال اس قدر زبردست تھا )کہ آپکے خاندان کے افراد بھی آپ کے جلال سے نہیں بچ سکے -آپ کے تین صاحبزادے مجاہدات وریاضات اور قوت کشفیہ میں بے حد تیز اور لاثانی تھے -ایک دن آپ کے بڑے صاحبزادے عماد الدین حجامت بنوارہے تھے کہ انہیں کشف سے معلوم ہوا کہ کوئی جہاز بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے مسافر مدد کے لئے ”شاہ کمال ....شاہ کمال“ پکار رہے ہیں -آپ نے وہیں سے زمین پر ہاتھ مارا جہاز فورا بھنور سے نکل گیا -اسی لمحہ شاہ کمال اپنے حجرہ سے باہر آئے اور پوچھا کہ” عماد! یہ تم نے کیا غضب کیا -“آپ نے عرض کیا -”ابا جان! جہاز والے آپکو پکار رہے تھے -میں نے شرم محسوس کی کہ آپ کو پکاریں -کیونکہ اتنے میں تووہ ڈوب جائیں گے-“آپ نے سینہ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا:”تم نے میرے پکارنے والے کی آوازیں تو سن لیں مگر لوح محفوظ پر نظر نہ ڈال سکے کہ وہاں کاتب تقدیر نے کیا لکھا ہے -“ یہ فرماتے ہی عماد الدین کی تمام صلاحیتیں سلب ہوگئیں -
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دیوار چل پڑی اور..
ایک مرتبہ آپ کے فرزند نور الدین جن کی عمر تقریبا گیا رہ برس تھی‘ دیوار پر کھیل رہے تھے جس طرح گھوڑے پر سواری کرتے ہیں ‘ اس طرح کی حرکتیں کررہے تھے ‘ اچانک ان کے منہ سے نکلا” چل میرے گھوڑے ‘ آگے چل “ تو دیوار فورا چلنے لگی-آپ نے یعنی شاہ کمال نے اسی وقت صاحبزادے کو حجرہ میں طلب کیا اور فرمایا -”جسے گھوڑے اور دیوار کا فرق نہیں معلوم‘ اسے سواری زیب نہیں دیتی-“ اتناکہا اور سید نور الدین کی روح پرواز کرگئی -
(پرندے مار اور بچے مار‘ یہ ولی) ہمیشہ سرخ لباس پہنتے -جب ایک بار سفید لباس پہنا تو وہ بھی سرخ ہوگیا -آپ اپنے حجرہ سے کئی کئی ماہ باہر نہیں نکلا کرتے تھے -ایک دفعہ چار ماہ تک نہ نکلے تو آپ کے صاحبزادے کو فکر لاحق ہوئی- دیکھا تو آپ سجدہ ریز ہیں اور روح پرواز کرچکی ہے -لہٰذا غسل دیا جانے لگا تو ....آپ نے آنکھیں کھول دیں!! تمام لوگ خوفزدہ ہوگئے-ایک خادم نے ہمت کرکے آپ کے حضور سارا ماجرا کہہ سنایا یعنی موت کا ذکر کیا تو جواب میں آپ نے فرمایا:” چونکہ ہماری موت کا چرچا ہوچکا ہے لہٰذا اب زندہ رہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا -“یہ کہہ کر آپ نے آنکھیں بند کرلیں اور پھر لیٹ گئے -آخری الفاظ آپ نے یہ کہے: ”غسل جاری رکھو“
مکلی میں ایک مزار سید علی ثانی شیرازی کا ہے -لوگوں نے ان کے سیدہونے کا انکار کیا تو یہ مدینہ منورہ میں گئے اور روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ کھڑے ہو کر پکارا- ” اے میرے نانا جان “ آواز آئی- ”اے میر ے بیٹے میں حاضر ہوں “
غور فرمائیں !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی گستاخی خانقاہی اور قبروں کے درباری بریلوی مولوی کریں اور پھر بھی گستاخ اہل حدیث کو کہیں کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت پہ فدا ہوتے ہیں-
حضرت میاں” متو“ جو اس مکلی کے قبرستان میں مدفون ہیں ‘ اپنی زندگی کے دوران اکثر و بیشتر کہا کرتے تھے کہ ....” ہم اس کوہ مکلی کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر بہشت میں پھینک دیں گے -“ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ
” جو ہمارے مزارات کے درمیان سے گزرے گا وہ بلا حساب داخل جنت ہوگا -“
یہ مقولہ میاں متو اور حضرت میاں رتو (دونوں بھائیوں ) کا ہے -
لو ح محفوظ کو بے اثر کرنیوالا ”ولی“ :
حضرت شیخ میاں اربعائی کہ جن کا مزار مکلی میں عبداللہ اصحابی کے مزار سے تقریبا ایک فرلانگ شمال میں ہے ‘ یہ تقدیر بدلتے تھے -شیخ محمد اعظم نے تحفتہ الطاہرین صفحہ 40 پر لکھا ہے کہ ایک خاتون جو ناامیدی کی عمر کو پہنچ چکی تھی ‘ اس نے اپنے وقت کے مشہور بزرگ جمعہ جلالی کی خدمت میں جاکر عرض کیا (بیٹا مانگا) ‘مخدوم صاحب نے جو سمندر حقیقت میں غوطہ زن تھے ‘ لوح محفوظ کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ” اولاد تیری قسمت میں نہیں ہے اس کی تمنا سے ہاتھ کو تاہ رکھ -“خاتون یہ جواب سن کر بڑی مایوسی کے عالم میں واپس ہوئیں تو راستے میں حضرت شیخ محمد اسحاق اربعائی اپنے مرید ین کے ہمراہ تشریف لارہے تھے -خاتون کی جب ان پر نظر پڑی تو غصہ کے عالم میں اس طرح کہنے لگی:” یہ ایسے درویش ہیں جو مکروریا سے جہان میں پھر رہے ہیں -جبہ ودستار سے آراستہ ہوکر لوگوں کی نظر میں جلوہ دکھاتے ہیں لیکن کسی درد مند کا کام ان کے ہاتھ سے نہیں ہوسکتا -“یہ سن کر شیخ جو ش میں آگئے اور فرمایا:” مخدوم جمعہ کا کہنا صحیح تھا-تیری تقدیر میں اولاد نہیں تھی- لیکن تیرے اضطراب کی وجہ سے اب تیرے درخت پر امید کا پھل عنقریب ظہور پذیر ہوگا-“ اور قدرت نے اسے ایک پھول جیسا بچہ دیا -
آپ نے فرمایا تھا کہ میرا وصال بھی 975 ھ بروز بدھ کو ہوگا کیونکہ پیدائش بھی بدھ کے دن تھی‘ مگر وصال منگل کو ہوگیا - جب جنازہ اٹھنے لگا تو ٹھٹھہ کی ایک عورت نے شیخ اربعائی کو اس کی بات یاد دلادی‘ جس کے مطابق وصال بدھ کو ہونا تھا -اب سنتے ہی پیر اربعائی اٹھ کر بیٹھ گئے !!اور مسلسل بیٹھے رہے -پھر جب بدھ کی رات آئی تو لیٹ گئے اور وصال کرگئے-
(مکلی میں مدفون ایک بزرگ کریم شاہ بخاری کی جانب سے ) ایک ہندو کو خواب میں حکم ہوا کہ میرے مزار کونمودار کردیا جائے -آپ کی نمایاں کرامت یہ ہے کہ چوپائے یا مال میں بیماری پڑتی ہے تو آپ کے مزار شریف کا دھاگہ باندھنے سے صحت یاب ہوجاتا ہے -
درد زہ سے مت چلّا - صبر کر بچہ قرآن پڑھ رہا ہے ...
قطب الاقطاب حضرت شاہ مراد شیراز سے مکتہ الاولیاءیعنی ولیوں کے مکہ -شہر ٹھٹھہ میں تشریف لائے -آپ کی پیدائش سے قبل ہی حضرت” لنگوٹی شاہ “ نے آپ کی بشارت دے دی تھی -
جس شب آپ کی ولادت ہورہی تھی ‘ ان لمحات میں آپ کی والدہ شدید درد زہ میں مبتلا تھیں- جب آپ کے والد گرامی سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے وضو کرکے نماز شروع کی اور رفع تکلیف کے لئے بار گاہ خدا وندی میں دعا کرنے لگے -اسی اثنا میں ان پر اونگھ سی طاری ہوگئی -دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے -” آپ کا بچہ اپنی ماں کے شکم میں پورا قرآن اور اس کے علوم پڑھ رہا ہے -صرف ایک سبق باقی رہ گیا ہے-تھوڑی دیر صبر کرو! وہ خود بخود اس جہان میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں -“
تذکرة المراد کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ مسجد کے محراب میں تشریف فرماتھے کہ اچانک آپ نے مصلے کے نیچے دایاں ہاتھ مبارک ڈالا اور پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا اور پیراہن مبارک بھی پسینہ سے شرا بور تھا -جب مصلے کے نیچے سے ہاتھ ہاہر نکالا تو اس سے بھی پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے -مریدین نے جب پوچھا تو فرمایا:” ایک مرید کی کشتی دریا میں ڈوب رہی تھی ‘ وہ مجھے پکار رہے تھے -“
اسی طرح حضرت شاہ مراد کا یک مرید ایک دوسرے” پیر حضرت پٹھہ “ کا مرید ہوگیا -بہن نے بھائی کو روکا مگر وہ نہ رکا -بالآخر اس نافرمانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شخص مر گیا -
مکلی کے ایک اورولی جن کا مزار عبداللہ شاہ اصحابی کے مزار سے شمال کی جانب ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ‘ انہوں نے ایک دفعہ سندھ کے موجود حکمران جام جود کی بجائے جام تماچی کی حکومت کا اعلان کردیا- جب جام جود کو پتہ چلا تو وہ حضرت صاحب کے در پہ حاضر ہوا اور کہا کہ” درویشوں کو حکومت کے امور سے کیا واسطہ ؟“ آپ نے جواب دیا -”زمین کے وارث ہم ہیں -ہم جسے چاہیں اس کے گلے کا ہار بنالیں “
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضرت گرناری شاہ کی کرامت :
مکلی کے ایک اور ولی حضرت شاہ گرناری جب 580 ھ میں پیدا ہوئے تو وہ ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے -یہ رمضان کا مہینہ تھا -وہ روزے سے تھے مادر زاد ولی تھے -
سوالاکھ ولیوں کے مسکن میں جو ایک اور کا اب اضافہ ہوا ہے تو یہ حضرت قاسم علی شاہ بخاری ہیں‘ جنہوں نے 17 مئی1980 ءکو وصال فرمایا ہے - یہ خوشگوار مزاج میں ہوتے تو فرماتے -
” میں جب دربار خواجہ پر حاضر ہوا تو خواجہ سرکار نے فرمایا :میں عطائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور تم میری عطا ہو -“
چنانچہ آپ عطاءخواجہ اجمیری کے نام سے معروف ہیں -
مقابلہ ولایت بازی :
قارئین کرام ! ولیوں کے اختیارات وتصرفات کہ جن کی جھلکیاں آپ نے ملاحظہ کیں‘ ان کے مقابلے بھی ہوتے تھے -جی ہاں ! ولیوں کے درمیان مقابلے اور مسابقے -ان کی تعداد تو بہت ہے مگر ہم نمونے کے طور پر دو مقابلوں پرہی اکتفا کرتے ہیں-
مونچھوں والی سرکار
حضرت مخدوم ابو القاسم نے اپنے دور میں ایک صاحب دل بزرگ ولی کی مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا.... تو مذکورہ ولی جلال میں آگئے اور غضبناک ہو کر کہا:” ہم تیری خبر لیں گے-“ اور پھر ایک روز نماز عصر کے بعد جبکہ مخدوم ابو القاسم چٹائی پر بیٹھ کر درس دے رہے تھے تو ” مونچھوں والے ولی “ نے توجہ کے ذریعہ حضرت مخدوم پر وار کیا - مخدوم صاحب بھی باطنی فراست سے سمجھ گئے -ہاتھ جھاڑ کر حسبنا اللہ کہا -فورا چٹائی میں سوراخ ہوا اور وار زمین چیر کر اندر چلا گیا (یعنی وار کرنٹ کی طرح ارتھ ہوگیا )
خون کی بجائے جسم سے راکھ نکلنے لگی :
مخدوم جمعہ جلالی اور بابا اصحابی کے مابین ایک بار اس طرح مقابلہ ہوا کہ اصحابی بابا نے جمعہ جلالی کی جانب اشارہ کیا کہ ابتدا آپ کریں- تو مخدوم جمعہ جلالی نے ایک چھری اپنے بازو پر چلائی ‘ بازو کٹتا چلا جارہا تھا -اور خون کی بجائے بدن سے جلی ہوئی راکھ نکل رہی تھی ....اب وہی چھری بابا اصحابی نے لی -اپنے مبارک بازو پر چلائی تو فورا نوار کی کرن نمودارہوئی جس کی روشنی سے پوری مکلی جگمگا اٹھی -(یہ دیکھ کر )مخدوم جمعہ جلالی عرض کرنے لگے :میری ڈیوٹی ختم ہوئی آپ کاانتظارتھا -اب زمین مکلی کو آپ نے بسانا ہے -
مکلی کی زمین عرش سے بھی افضل ہے :
اور یہ جو مکلی کی زمین ہے اس کے بارے میں حکمران سندھ جام نظام کے دور 914-866 ءمیں مخدوم احمد اور حضرت مخدوم محمد نے فرمایا تھا : ”یہ وہ جگہ ہے جس کو عرش پر بھی فوقیت ہے “ اور حضرت میاں متواور میاں رتو اولیائے مکلی فرماتے تھے:
روز قیامت ہم اس کو ہ مکلی کو اپنی جگہ سے اکھاڑ کر بہشت میں پھینک دیں گے-“ (نعوذ باللہ من ذالک)
یعنی یہ بزرگ مکلی کے پہاڑ کو تو بہشت میں پھینکیں گے جبکہ ان کے جو مزارات مکلی کے میدان میں ہیں وہ تو عرش سے بھی فوقیت رکھتے ہیں -اس سے اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ پھر وہ کہاں ہونگے.... ؟(اللہ کی پناہ ان خرافات سے )
ایران کا آتش کدہ کیسے ٹھنڈا ہوا ؟
قارئین کرام ! آہ ....آج مسلمان امت ‘ توحید و جہاد کی وارث امت مردوں کے شکنجے میں ہے -خرافات کے چکر میں کولھو کا بیل بن چکی ہے -غیر مسلم مشرکوں کے دیوتں کی طرح آج ان کی خوشی وغمی اور کرب والم کا الگ الگ بزرگ موجود ہے -آج یہ امت توحید کے آسمان سے گر کر شرک کے اس ویرانے میں بھٹک رہی ہے کہ جس ویرانے میں کبھی ہندو‘ عیسائی اور مجوسی بھٹکا کرتے تھے -آج انہوں نے مکلی کے بزرگوں کے ساتھ وہی عقیدہ وابستہ کرلیا ہے جو غیر مسلموں نے اپنے اپنے دیوتں اور بزرگوں سے وابستہ کیا تھا -تب تو ہم نے توحید وجہاد کی ضرب سے ان غیر مسلم قوموں کو توحید کا سبق سکھایا تھا ....
تو ہاں ! تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلمان جب ایران کے آتش پرستوں پر حملہ آور ہوئے -گھمسان کا رن پڑا تو مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آتش پرستوں کا وہ قدیم آتش کدہ کہ جس کے مینار پر ہزار سال سے مقدس آگ جل رہی ہے- ان کا عقیدہ ہے کہ جب تک یہ جلتی رہے گی ہمیں شکست نہیں ہوسکتی- تب مسلمانوں کے ایک جانباز دستے نے جان پر کھیل کر ہزار سالہ آگ کو ٹھنڈا کردیا ....آگ کا ٹھنڈا ہونا تھا کہ اس کے ساتھ ہی اہل کسریٰ کے مذہبی جذبات سرد پڑگئے -فرزند ان توحید آگے بڑھے اور دنیا کی دو میں سے دوسری سپر پاور کو قدموں تلے روندڈالا -
راجہ داہر کا مقدس پرچم کس طرح تار تار ہوا؟
محمد بن قاسم جب دیبل کے ساحل پہ اترا ‘ راجہ داہر کے ساتھ مقابلہ شروع ہوا تو اسلامی فوج کو معلوم ہوا کہ راجہ کے محل پر جو پر چم لہرا رہا ہے ‘وہ مقدس مذہبی پرچم ہے اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ‘ راجہ قائم ہے اور جب یہ نہ رہے گا توراجہ نہ رہے گا-چنانچہ الہٰ واحد کے سپاہیوں میں سے چند نے اس جھنڈے پر اپنی سپاہیانہ سرگرمیوں کو مرکوز کیا -اور اسے اتار کر تار تار کردیا -جھنڈے کا تار تار ہونا تھا کہ ہندوں کا مذہبی عقیدہ تار تار ہو کر رہ گیا ....ہندوں کی فوج بکھر چکی تھی اور مسلمان عقیدہ تو حید کی بنیادپر جہاد کی برکت سے سرزمین ہندوستان کے وارث بنادئیے گئے تھے-
اسی ہندوستان پر غزنی کے مسلمان محمود غزنوی نے 16 حملے کئے -ستر ھواں حملہ کرتے ہوئے سلطان جب سومنات کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ سومنات کے مندر میں ہندوں کا دیوتا جو سونے کا بنایا گیا ہے اور اس مندر کے درمیان چاروں طرف مقناطیس لگانے کی وجہ سے فضا میں معلق ہے‘ اس کے بارے میں ہندو راجہ اور پرجا(عوام) کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک یہ دیوتا ہم سے راضی ہے ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا ....چنانچہ سلطان نے سب سے پہلے اس مندر کو فتح کیااور اندر داخل ہوئے -دیوتا پر تلوار کا وار کیا -وہ ٹوٹا اور اس کے اندر سے ہیرے جواہرات فرش پر گرنے لگے ....اب ہندوں نے جب اپنے مشکل کشا کو ٹوٹتے اور گرتے دیکھا تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے اور سلطان جس کی طرف رخ کرتا ‘ یہ اس کے سامنے بچھ بچھ کر گرنے لگے -
عیسائیوں کی جہالت:
اسی طرح یورپ کے عیسائی جو بیت المقدس پر قابض ہو چکے تھے-ان سے بیت المقدس واپس لینے کیلئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جہاد کی تیاریاں شروع کردیں -تب یورپین ملکوں کے تمام عیسائی اپنی افواج سلطان کے مقابل لے آئے -ان افواج کی قیادت برطانیہ کے رچرڈ -فرانس کے بادشاہ فلپ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک کررہے تھے ....سلطان نے اللہ کی مدد سے ان سب کو شکست دی اور بیت المقدس عیسائیوں سے چھین لیا -بیت المقدس کے لئے جو جنگیں عیسائیوں سے لڑی گئیں انہیں صلیبی جنگیں کہا جاتا ہے -ان جنگوں میں یورپین ملکوں کی تباہی کااندازہ اس سے لگائیے اور ساتھ ہی ان کی اخلاق باختگی اور جہالت کا بھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ہماری ساری افواج تو سلطان کے مقابلے میں تباہ ہوگئی ہیںتو انہوں نے یہ سوچ کر کہ بڑے لوگ چونکہ گناہوں کے کام کرتے ہیں ‘ اس لئے اللہ ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں کرتا -چنانچہ انہوں نے معصوم بچوں کی ایک فوج 1212 ءمیں فرانس سے بھیجی لیکن مارسلز کی بندر گاہ تک پہنچتے پہنچتے یہ بچے تتر بتر ہوگئے اور خود راستے میں عیسائیوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ‘ لوٹ مار کی اور غلام بنا کر بیچ ڈالا -
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
یہ تھی کفار کی مشرکانہ ضعیف الاعتقادی....تو ہم پرستی اور جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ....جس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس توحید کا اجالا تھا اور اس اجالے اور روشنی کی معیت میں انہوں نے تلوار چلائی تو اندھیرے چھٹتے گئے اور روشنی پھیلتی گئی....مگر ....آہ کہ آج وہی اندھیرا ہے وہی ضعیف الاعتقادی....توہم پرستی ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے ان کا شکار ہیں-
جب 65 ءکی جنگ ہوئی‘ اللہ تعالیٰ نے انڈیا کے خلاف مسلمانوں کی مدد کی‘ تو خانقاہی لوگ کہہ اٹھے کہ” یہ جنگ تو مزاروں میں مدفون سبز پوشاک والے بزرگوں نے جیتی ہے -وہ بموں کے گولے زمین پر پہنچنے سے قبل ہی کیچ کرلیا کرتے تھے -اور وہی گولے پھر دشمن پر پھینک دیتے تھے -“ چنانچہ اللہ کو غیرت آئی اور 1971 ءکی جنگ میں ہماری ایک لاکھ فوج ہندو کے نرغے میں تھی اور جنرل اروڑہ ‘ جنرل نیازی کے تمغے اتار رہا تھا- سادہ لفظوں میں ہندو اس کے سر پر جوتے مار رہے تھے -
جہادی خلافت سے خانقاہی خلافت تک :
خلیفہ اور خلافت وہ الفاظ ہیں کہ جن کے رعب سے کفر کانپ جایا کرتا تھا -اس لئے کہ خلافت مسلمانوں کی یکجہتی کی علامت تھی اور خلیفہ پوری مسلم دنیا کا حکمران ہوتا تھا‘ جو ہمہ وقت جہاد کیلئے برسرپیکار رہتا تھا ....مگر پھر ہوا یہ کہ سبائی اور مجوسی سازش کے تحت قبروں پر خلافت قائم ہونے لگی اور قبروں کے سجادہ نشین ‘ بادشاہ ‘ سید زادے اور شہزادگان ولائت کہلانے لگے -باپ کے مرنے کے بعد بیٹا قبر کا خلیفہ بننے لگا -خلافت کی اجازت سند حاصل کرنے لگا -یہ سند بالآخر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچا کر کہا جاتا تھا کہ انہوں نے یہ سند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی ہے-ولی حضرات تصوف کی ولائتیں بھی بانٹنے لگے کہ قطب ابدال اور غوث نے فلاں ولی کو اپنا خلیفہ بنا کر فلاں علاقے کی ولایت دے دی کہ تم جاکر وہاں خانقاہ قائم کرو- اب اس خانقاہ میں یہ شخص مرجاتا تو اس کا دربار بن جاتا اور پھر اس کی اولاد” سید“ کہلاکر قبر کی وارث بن کر شاہان ولائت بن جاتی ....جہادی خلفاءتو انصاف کےلئے اپنا دربار لگایا کرتے تھے مگر اب یہ قبریں دربار اور مزار بن کر پھیلتے گئے -حتیٰ کہ یہ جو چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوئے یہ اس قدرپھیلے کہ دوتین سو سال میں سارا عالم اسلام ان سے بھر گیا -الہٰ واحد کو جاننے والی امت قبروں کی پجاری بن گئی -خلافت کے پرچم تلے جہاد کرنے والی امت بے شمار ان گنت اور لاتعداد قبوری خلافتوں کی نذرہوگئی -
اس امت کا حال کس قدر بگڑ چکا تھا ‘ اس کا اندازہ ہمیں ابن بطوطہ کے سفر نامے سے ہوتا ہے کہ جب ہم اس کا سفر نامہ پڑھتے ہیں تو ابن بطوطہ جو ساری اسلامی دنیا گھومتا ہے ‘ ہر علاقے میں جہاں بھی جاتا ہے یہ لکھتا ہے کہ میں فلاں دربار پہ گیا تو خرقہ خلافت پہنا- فلاں خانقاہ پہ گیا تو اس کے سجادہ نشین نے مجھے دستار فضیلت پہنائی اور فلاں مزار پہ گیا تو اس کے گدی نشیں نے مجھے خلعت خلافت سے نوازا -غرض ابن بطوطہ کے سفر نامے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہادی خلافت اب مردوں کی درباری خلافت کے شکنجے میں جکڑی جاچکی تھی -اور یہ خانقاہی خلافت اس قدر اپنے پھن پھیلائے ہوئے تھی کہ یہی ابن بطوطہ جب دمشق میں جاتا ہے تو کہتا ہے: وہاں کی جامع مسجد میں میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہے کہ جس کا عقیدہ سارے عالم اسلام سے منفرد ہے اور اس کے ناپسندیدہ مسائل میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتا ہے -
یاد رہے یہ شخص امام احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ تھا کہ جو ابن بطوطہ کو اچھا نہیں دکھائی دیا....وہ اچھا کس طرح د کھلائی دیتا کہ وہ اس قبوری خلافت کے خلاف تھا- اس نے اس شرک وبدعت کے خلاف چہار سو جہاد شروع کر رکھا تھا -امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کازمانہ727--661 ہجری کا ہے ....یہ زمانہ شرک اور قبر پرستی کے عروج کا زمانہ تھا -چنانچہ یہی وہ دور ہے کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا اور چنگیز اور ہلاکو خان کی صورت میں سارا عالم اسلام برباد کردیا گیا -صرف دمشق اور مصر کا علاقہ ہی بچ سکا کہ جہاں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جہاد کیا تھا -
قارئین کرام ! آج پھر اسلامی دنیا کا یہی حال ہے -ایران ‘عراق ‘مصر اور شام قبر پرستی کے گڑھ بن چکے ہیں -افغانستان میں بھی قبر پرستی کم نہیں جبکہ انڈیا ‘ پاکستان اور بنگلہ دیش تو اس شعبے میں سب سے ممتاز اور نمایاں ہیں -یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا ذلت ورسوائی کا شکار ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ عزت وعظمت سے ہم کنار ہوں تو اس کاا یک ہی طریق ہے کہ عقیدہ درست کیا جائے ....جہاد کے راستے پہ چلا جائے ....قبوری خلافت اور اس کے مراکز کو ختم کرکے ”خلافت علی منہاج النبوة“ کو قائم کیا جائے ....خلافت کا پر شکوہ لفظ جو آج قبروں اور مردوں سے متعلق اور معلق ہو کر مردہ ہوچکا ہے.... اسے توحید وجہاد سے وابستہ کرکے پھر سے زندہ اور شوکت وشکوہ کا آئینہ دار بنادیا جائے
حیدر آباد میں”ولی“ کے بت کی پوجا
محمد بن قاسم کا قافلہ دیبل سے ٹھٹھہ آیااور یہاں سے حیدر آباد کو روانہ ہوا-ا ب بھی ٹھٹھہ اور حیدرآباد کے درمیان ان مجاہدین کی قبریں ”سوڈا“ کے مقام پر موجود ہیں - وہ مجاہدین کہ جو ہندو سے دو دو ہاتھ کرنے آئے تھے-
حیدر آباد میں دو قلعے ہیں- ایک ”کچا قلعہ“ ہے اور دوسرا پکا--کبھی وہ وقت تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی سپاہ نے یہ قلعے ہندوں سے چھینے اور یہاں توحید وجہاد کے پرچم لہرائے -مگرآج ان قلعوں پہ نہ کوئی توحید کا نشان ہے اور نہ جہاد کی علامت!!!”کچے قلعے“ پر جب ہم چڑھے تو آج وہاں ایک دربار تھا‘ جسے پیر مکی کا دربار کہا جاتا ہے-ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی‘ وہ متواتر رو رہی تھی -ا ب وہ دربار کی کھڑکی پر جاتی ‘ الٹے قدموں پیچھے چلتی ا ور پھر دوڑ کر”’بابے “ کی قبر کے پاس پہنچ جاتی- ہاتھ جوڑ کر بابے سے فریادیں کرتی- ہٹ ہٹ کر دیوار سے ٹکریں مارتی -وہ کہہ رہی تھی-” بابا میری بیٹی کا آپریشن ہسپتال میں ہو چکا - تو اسے ٹھیک کر دے-“
مدینے کو جانیوالا خفیہ راستہ
پیر مکی کی قبر پر یوں ٹکریں مار کر پھر لوگ اس دربار کی پشت پر ایک تنگ سی کوٹھری میں پہنچ جاتے ہیں- وہاں ایک کھڑکی ہے کہ جس کے ساتھ لوگ تالے اور دھاگے باندھتے ہیں- اس کھڑکی کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ اس کا راستہ مدینے کو جاتا ہے-
دیوار کے ساتھ لوہے کی ویلڈ کی ہوئی پیر مکی کی اس کھڑکی کا راستہ مدینے کو جاتا ہے کہ نہیں‘ البتہ مکے کو جاتا ضرور نظر آتا ہے- وہ مکہ کہ جہاں سے دو راستے نکلے‘ ایک تو وہ راستہ تھا کہ جس پر اہل مکہ کچھ اس طرح سے گامزن تھے کہ صحیح مسلم میں ہے:
حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :یہ (مکی مشرک) کہا کرتے تھے ”اے اللہ(تیرے دربار میں ) حاضر ہیں- تیرا کوئی شریک نہیں ( یہ سن کر) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے ‘ تم پر افسوس ہے یہیں رک ج- یہیں ٹھہر جا-- مگر وہ نہ رکتے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا عامر بھائی!
بہت چشم کشا تصویر ہے، درباروں مزاروں کی! اللہ ہمیں معاف فرمائیں!
اگر کوئی صاحب اس کی فارمیٹنگ کر دیں تو بہت بہتر ہوگا۔
 
Top