• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

ڈاکٹر حافظ محمد اسحق زاہد
مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں ۲۰ تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں، پھر بیت اللہ میں کیوں ۲۰ تراویح پڑھائی جاتی ہیں؟ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ ح م
1۔صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہﷺ کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
’’ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرۃ رکعۃ‘‘ (صحیح بخاری: ۲۰۱۳)
’’رسو ل اللہﷺ رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ‘‘
2۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ ‘‘ (صحیح ابن خزیمہ :۱۰۷۰،ابن حبان۲۴۰۱، ابویعلی ۳؍۳۳۶، صحیح بخاری ۲۰۱۲ )
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی ؒ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہؒ اورابن حبان ؒنے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔
3۔امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘ (موطأ: ۱؍۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۱)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
1۔رسول اللہﷺکی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
2۔یہی گیارہ رکعات آپﷺنے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
3۔پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تراویح ہی ماہِ رمضان میں تہجد ہے
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپؐ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا،یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپؐ نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی، پھر چوبیسویں رات کو آپﷺ نے قیام نہیں پڑھایا، پھر پچیسویں رات کو آپؐ نے قیام پڑھایا،یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ ؐنے قیام نہیں پڑھایا، پھر ستائیسویں رات کو آپؐ نے اتنا لمبا قیام پڑھایا کہ ہمیں سحری فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔‘‘(سنن ترمذی:۸۰۶حسن صحیح،سنن ابی داود:۱۳۷۵،ابن خزیمہ: ۲۲۰۶)
تواس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے رمضان میں نمازِ تراویح پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد نمازِ تہجد نہیں پڑھی، کیونکہ سحری تک تو آپﷺ نمازِ تراویح ہی پڑھاتے رہے، اور اگر اس میںاور نمازِ تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپﷺ تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نمازِ تہجد ہے،اورعام دنوں میںجسے نمازِ تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ ؓ کی (پہلی) حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نمازِ تہجد مراد لینا ،اور پھر اس میں اورنمازِ تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا حضرت عمرؓنے بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟
ہم نے موطأ اور مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے سائب بن یزید کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امام مالکؒ نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے، ا س کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ یزید بن رومان کا کہنا ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات رمضان میں پڑھا کرتے تھے۔ (موطا:۱؍۷۳) لیکن یہ دوسرا اثر منقطع یعنی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد ِعمرؓ کو پایا ہی نہیں، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہوگا کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے دو صحابیوں کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ توجس کام کا عمرؓنے حکم دیا، وہی راجح ہوگا، کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔
نوٹ: حضرت عمرؓ کے متعلق بیس تراویح والے تمام آثار ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح ثابت نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصۂ کلام
گزشتہ مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح کے سلسلے میں رسول اکرمﷺ کی صحیح سنت گیارہ رکعات ہے، اور حضرت عمرؓ نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا اور گیارہ رکعات کا التزام کیا۔ جہاں تک کچھ ائمہ کرام کا یہ موقف ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جاسکتی ہے، تو یہ اس بنا پر نہیں کہ زیادہ رکعات سنت ِنبویؐ سے ثابت ہیں، بلکہ محض اس بنا پر کہ چونکہ یہ نماز نفل ہے، اور نفل میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،اس لئے گیارہ سے زیادہ بیس یا اس سے بھی زیادہ رکعات پڑھی جاسکتی ہیں، اور ہمارا خیال ہے کہ کم از کم اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ سنت اور افضل کیا ہے؟ تو جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی کہ آپﷺ گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے اور رات کی جو نفل نماز عام دنوں میں آپؐ پڑھا کرتے تھے، وہی نماز رمضان میں تراویح کہلاتی ہے، تو یقینی طور پر نمازِ تراویح کے مسئلے میں سنت ِرسولﷺ گیارہ رکعات ہی ہے، باقی نفل سمجھ کر کوئی شخص اگر گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے تو اس پر کوئی نکیر نہیں ہونی چاہئے،البتہ اسے سنت تصور نہیں کیا جاسکتا،اور اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے اور سعودی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔
مسئلہ تراویح اور سعودی علما
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔ شیخ ابن بازؒ
’’والأفضل ما کان النبيﷺ یفعلہ غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینۃ وترتیل القراء ۃ، لما ثبت فی الصحیحین من عائشۃ رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرۃ رکعۃ…‘‘
(فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ ۷؍۲۱۲)
’’اور افضل وہ ہے جو نبیﷺ اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپﷺ رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے…‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
’’صلاۃ التراویح سنۃ سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلۃ علی أنہ ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرۃ رکعۃ‘‘ (فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ : ۷؍۱۹۴)
’’نماز تراویح رسول اللہﷺ کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپﷺ رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں:
شیخ عبداللہ بن قعود، شیخ عبداللہ بن غدیان، شیخ عبدالرزاق عفیفی، شیخ ابن باز
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔شیخ محمد بن صالح عثیمین ؒ
’’واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاۃ التراویح والوتر معہا، فقیل: إحدی وأربعون رکعۃ، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرۃ، وقیل: ثلاث عشـرۃ، وقیل: إحدٰی عشرۃ، وقیل: غیر ذلک، وأرجح ھذہ الأقوال أنہا إحدی عشرۃ أوثلاث عشرۃ لما في الصحیحین عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا… وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال: کانت صلاۃ النبي ﷺ ثلاث عشرۃ رکعۃ، یعنی من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضی اﷲ عنہ قال: أمر عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بـإحدی عشرۃ رکعۃ‘‘ (مجالس شہر رمضان: ص۱۹)
’’سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔‘‘
سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ
1۔یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں۔
2۔مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپﷺ سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
3۔سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوٹ:
شیخ ابن عثیمین ؒنے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپﷺ نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپﷺرات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپﷺ نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ اعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز ِوتر اور دعائے قنوت

نمازِ وتر
نمازِ تراویح (یا نمازِ تہجد) کے بعد سب سے آخری نفل نماز ’وتر‘ کہلاتی ہے۔ نمازِ وتر کے بارے میں خود آنحضرتﷺنے فرمایا:
’’ أوتروا قبل أن تصبحوا ‘‘ (صحیح مسلم:۷۵۴)’’صبح (فجر طلوع) ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ ’’وتر (کا وقت) نماز عشاء کے بعد سے طلوعِ فجر تک ہے۔‘‘ (صحیح ابن ما جہ:۵۹۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمازِ وتر کی رکعات
نمازِ وتر طاق عدد کی نماز ہے اور یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو تک پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ احادیث میںایک وتر سے لے کر نو تک کا ثبوت ملتا ہے۔مثلاً
’’حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے (ایک مرتبہ وتر کی) نو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں سے صرف آٹھویں رکعت پر تشہد کے لئے بیٹھے … پھر نویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔‘‘ (مسلم:۷۴۶)
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ الوتر حق علیٰ کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل‘‘ (صحیح ابوداود للالبانیؒ :۱۲۶۰)
’’وتر پڑھنا ہرمسلمان پر حق ہے لہٰذا جو پانچ وترپڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھ لے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
حضرت اُمّ سلمہؓ سے مروی ہے کہ
’’اللہ کے رسولؐ جب پانچ یا سات وتر پڑھتے تو ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ فاصلہ نہیںکرتے تھے۔‘‘(صحیح ابن ماجہ:۹۸۰)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
’’اللہ کے رسولؐ جب پانچ وتر پڑھتے تو ان میں صرف آخری رکعت پربیٹھتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۳۷)
 
Top