• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ توھین رسالت اور قانون کو ہاتھ میں لینا

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مسئلہ توھین رسالت اور قانون کو ہاتھ میں لینا

تحریر : مولانا ابو معاویہ حفظہ اللہ

الحمد للہ کفی والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحیم​

قال الله تعالى:"إن نكثوا أيمانهم من بعد عهدهم و طعنوا في دينكم فقاتلوا أئمة الكفر إنهم لا أيمان لهم لعلهم ينتهون [التوبة:آيت2]

أما بعد:


یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کر فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

معزز قارئین کرام! آج کا موضوع ایک اھم مسئلے کی توضیح کے متعلق ہے جسے متنازعہ فیہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں. وہ مسئلہ ہے"گستاخ رسول کو سٹیٹ اور حاکم کی اجازت کے بغیر قتل کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا"

میرا یہ پیغام بالخصوص ان علماء سوء اور داعیان دین کے نام ہے جو دین کے نام پر الحاد کا پرچار کرتے ہوئے "مسلمان مرد اور عورت کو اپنے رب اللہ اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے گستاخ سے انتقام لینے پر کنڈم کرتے ہیں اور ان کے اس فعل کو دھشت گردی اور انتہا پسندی کہتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لے لینے سے تعبیر کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایسے علماء سوء گستاخوں کو لعنت ملامت کرتے ہوئے گستاخوں کو قتل کرنے والے شیروں کی تائید کریں الٹا یہ گستاخوں کے قتل پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھنے والے ان غیرتمند عاشقوں کو سب و شتم اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے اس عالی شان کارنامے کو متنازعہ فیہ اور مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں. اور حیلوں میں ان یہودیوں سے بھی سبقت لے جاتے ہیں جن میں سے بعض کو اللہ عزوجل نے ان حیلوں کے ذریعے دین کے احکامات کو بدلنے کی وجہ سے بندر بنا دیا تھا. اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے.

ان حیلوں اور چالوں میں ان علماء سوء کی ایک چال یہ ہے کہ وہ "گستاخ رسول کے قتل کے لیے سٹیٹ کے حاکم کی اجازت کو لازم ٹھہراتے ہیں" اور حاکم کی اجازت کے بغیر کسی مسلمان کے گستاخ رسول کو قتل کرنے کو دھشت گردی اور انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں.

انہی الحاد کے پرچاروں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہے جس نے اسلامک سٹیٹ کے ہاتھوں 2014 سن عیسوي ميں فرانس کے اشاعتی ادارے چارلی ھیبڈو پر حملہ کو دھشت گردی سے تعبیر کیا اس کے علاوہ فرانس میں گستاخ رسول کے قتل کے پیش آنے والے حالیہ واقعے کو بھی دھشت گردی سے تعبیر کیا جب روس سے تعلق رکھنے والے فرانس میں موجود ایک غیور روسی مسلمان یونیورسٹی سٹوڈنٹ نے پروفیسر کو قتل کرتے ہوئے چھری کے ساتھ اس کو ذبح کر کے اس کا سر تن سے جدا کر دیا.

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ اس لڑکے کا یہ فعل قانون کا ہاتھ میں لينا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ اسلام سے منسوب ایک شخص کے ایسے فعل سے پورے اسلام کو متہم کرنا یا اس فعل کو اسلام سے منسوب کرنا یہ جائز نہیں ہے.
کیا واقعی ایسا ہے؟! اس کا جواب ہم آج کی اس بحث میں جانیں گے.

تو آئیے سب سے پہلے جائزہ لیتے ہیں قرآن کریم کی روشنی میں جو کہ رب العالمين کا کلام ہے۔

قرآن کی روشنی میں مسئلہ کا جائزہ:
قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے مطلق طور پر بغیر کسی حاکم کی قید کے ہر مسلمان کو اس بات کا حکم دیتے ہوئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ معاہدے توڑنے والے اور دین میں طعن کرنے والے کفر کے سرغنوں کو قتل کیا جائے۔

سورۃ التوبۃ جو کہ اپنے نزول کے اعتبار سے آخری نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اس کی آیت 12 میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

إن نكثوا من بعد عهدهم و طعنوا في دينكم فقاتلوا أئمة الكفر إنهم لا أيمان لهم لعلهم ينهون[التوبة:12]

"اگر عہد و پیمان کرنے کے بعد وہ اپنا عہد و پیمان توڑ دیں اور دین کے معاملے میں تمہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے تو قتل کرو کفر کے ایسے سرغنوں کو ان کا کوئی عہد و پیمان نہیں شاید کہ اس طور پر یہ باز آ جائیں."


❐ فقاتلوا جمع کا صیغہ ہے جس سے خطاب تمام مسلمانوں کو ہو رہا ہے۔
❐ اس کے علاوہ ایسے حربی کفار کو قتل کرنے کی آیت میں حاکم یا سٹیٹ کی کوئی قید نہیں اور نا ہی آیت کے سیاق و سباق میں ایسی کوئی قید ہے۔ اور نا ہی معتمد اور مستند مفسرین نے اپنی تفاسير میں ایسی کسی قید کا ذکر کیا ہے.

امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

استدل بعض العلماء بهذه الآية على وجوب قتل كل من طعن في الدين ، إذ هو كافر . والطعن أن ينسب إليه ما لا يليق به ، أو يعترض بالاستخفاف على ما هو من الدين،لما ثبت من الدليل القطعي على صحة أصوله واستقامة فروعه.وقال ابن المنذر :أجمع عامة أهل العلم على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم عليه القتل. وممن قال ذلك مالك والليث وأحمد وإسحاق،وهو مذهب الشافعي.

"بعض علماء نے اس آیت سے دین کے معاملے میں طعن کرنے والے ہر فرد کے وجوب قتل کا استدلال کیا ہے، کیونکہ وہ کافر ہے یا ہو جاتا ہے، اور طعن یہ ہے کہ دین کی طرف ایسی چیز کی نسبت کی جائے جو اس کے شایان شان نا ہو اور جس سے دین کی تخفیف لازم آتی ہو، جب دلیل قطعی سے اصولوں کی صحت اور فروع کی درستگی کے ساتھ ثابت ہو جائے. ابن منذر نے کہا ہے: اھل علم کا اجماع ہے کہ شاتم رسول کو قتل کیا جائے گا. مالک، لیث، احمد، اسحاق اور شافعی سب کا یہی مذھب ہے".

بلکہ اس سے پہلے آیت 5 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے:

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (توبہ-الآية:5)
"جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔"

امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

" قوله تعالى فاقتلوا المشركين عام في كل مشرك ، لكن السنة خصت منه ما تقدم بيانه في سورة ( البقرة ) من امرأة وراهب وصبي وغيرهم. وقال الله تعالى في أهل الكتاب : حتى يعطوا الجزية . إلا أنه يجوز أن يكون لفظ المشركين لا يتناول أهل الكتاب ، ويقتضي ذلك منع أخذ الجزية من عبدة الأوثان وغيرهم"

"اللہ کا یہ فرمان "فاقتلوا المشركين" ہر مشرک کو شامل ہے چاہے عرب کے مشرکین ہوں یا عجم کے، لیکن سنت نبوی نے جنگ میں حصہ نا لینے والی عورت، راھب اور بچوں وغیرہ کو اس حکم سے خاص کیا ہے جن کا ذکر سورۃ البقرۃ میں گزر چکا ہے اس کے علاوہ وہ اھل کتاب(یہود و نصاری) خاص ہیں جو جزیہ دیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : "حتی یعطوالجزية" اور یہ جائز ہے کہ یہاں مشرکین کا لفظ اھل کتاب کو شامل نا ہو، تو پھر یہ چیز تقاضا کرتی ہے کہ بتوں کی عبادت کرنے والے اور دیگر مشرکین سے جزیہ نہیں لیا جائے گا بلکہ اسلام یا قتل کا آپشن ہو گا."

ایک جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا :
مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الأحزاب:61)
"لعنت کیے ہوئے اور پھٹکار ہوئے ہیں.جہاں کہیں ملے پکڑو اور چن چن کر قتل کرو."


❐ یہ آیات اور اس جیسی دیگر آیات واضح کرتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی گستاخی کے ذریعے معاہدہ امان کو توڑنے والوں اور دین میں طعن کرنے والوں کے متعلق اللہ کا قانون یہ ہے کہ ہر مسلمان شرعا مکلف ہے کہ ایسے کسی فرد کو جہاں پائے وہی پکڑے اور قتل کرے اسے حاکم کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ "احکم الحاکمین" اسے یہ اجازت مطلقا دے رہا ہے.

اب آئیے سنت رسول اور صحابہ کے تعامل کی طرف

احادیث کی روشنی میں مسئلہ کا حل
سنت قرآن کی تفسیر ہے۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صحابہ نے حاکم جو کہ اس وقت نبی علیہ السلام تھے ان کی اجازت کے بغیر شاتم رسول کو قتل کیا ہے کہ نہیں؟!
اور اگر قتل کیا ہے تو نبی علیہ السلام کا ان کے اس فعل پر ردعمل کیا تھا؟!

1- گستاخ ام ولد [وہ لونڈی جس سے بچے ہوں] کا قتل:

و عن ابن عباس قال:«أَنَّ أَعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ»

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نابینا صحابی تھا اس کی ایک ام ولد تھی جس سے اس کے دو بیٹے بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ لونڈی بہت زیادہ بکواس کرتی تھی اور نبی علیہ السلام کو گالیاں دیتی تھی۔ صحابی اپنی اس لونڈی کو ڈانٹتا پر اسے اثر نا ہوتا، اسے منع کرتا پر وہ باز نا آتی. ایک رات اس نے نبی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا متعلق بکواس شروع کر دی پس صحابی سے مزید صبر نا ہو سکا اپنے خنجر کی طرف بڑھا اور لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اسے قتل کر دیا. صبح قتل کی خبر پھیل گئ. نبی علیہ السلام سے اس کا ذکر کیا گیا تو نبی علیہ السلام نے منادی کرا کر لوگوں کو اکٹھا کیا اور مجمع سے مخاطب ہو کر کہا:"میں اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں اس آدمی کے لئے. اس پر میرا حق ہے اس کام کے بدلے جو اس نے کیا پس وہ کھڑا ہو جائے". پس ایک نابینا لرزتے ہوئے آگے بڑھا اور کہا:"اے اللہ کے رسول قتل میں نے کیا ہے. وہ میری ام ولد تھی اور میرے معاملے میں بہت نرم اور مہربان ساتھی تھی. میرے اس سے موتیوں کی مانند دو بیٹے بھی ہیں لیکن آپ کے متعلق بہت زیادہ بکتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی میں نے اسے بہت منع کیا پر وہ باز نا آئ اور بہت ڈانٹا پر اس پر اس کا اثر نہیں ہوا. پچھلی رات اس نے آپ کے متعلق بکنا شروع کیا تو میں اپنے خنجر کی طرف اٹھا اسے اس کے پیٹ پر رکھا اور اوپر سے اپنا بوجھ ڈالا یہاں تک کہ میں نے اسے مار ڈالا".
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" خبردار گواہ ہو جاؤ، اس لونڈی کا خون رائیگاں ہے"۔

❐ اس حدیث میں تین باتیں اس بات پر دلیل ہیں کہ نبی علیہ السلام جو کہ ریاست کے حاکم تھے ان کی اجازت کے بغیر یہ کام ہوا

(1) نبی کا لوگوں کو جمع کرنا اور پوچھ گچھ کرنا. نبی علیہ کی اجازت سے ہوتا تو صحابی خود آکے کہہ دیتا کہ جس کام کی اجازت آپ نے دی تھی یا جسے کرنے کے لیے مجھے بھیجا تھا میں نے وہ کر لیا ہے.

(2) اس آدمی کا لرزتے ہوئے آگے بڑھنا "فأقبل الأعمى يدلدل" (نابینا لرزتے گرتے پڑتے آگے آیا) اگر نبی علیہ السلام کی اجازت سے ہوتا تو کیا خوف سے اسے لرزنے اور کانپنے کی ضرورت ہوتی؟!

(3) نبی علیہ السلام کا لونڈی کا، خون باطل قرار دے کر نابینا صحابی کو باعزت بری کرنا" اگر نبی علیہ السلام کی اجازت کے ساتھ یہ کام ہوتا تو نبی علیہ السلام کے پاس مقدمہ لانے کی ضرورت ہی نا پڑتی اور پھر خون باطل کرنے کی ضرورت ہی نا پڑتی.

کیونکہ قرآن میں اللہ کا حکم موجود ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول ایک کام کا حکم یا فیصلہ کردے تو پھر کسی کو کوئی حق نہیں اس سے اختلاف کرے.

میرے عزیزو! جو شخص نابینا تھا اس نے تو اپنی گستاخ عورت کو جو کہ اس کے بچوں کی ماں بھی تھی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، نبی علیہ السلام کے ناموس کے لئے انتقام لیا_ذرا ان صحابی کے الفاظ پر غور کریں، ان کے دو بچے تھے اور وہ انہیں موتیوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ عورت میرے لیے بہت رحم دل تھی، و نابینا تھے جنہیں ایسی رحمدل عورت کی ضرورت بھی تھی جو ان کے ساتھ حسن سلوک کرتی تھی لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ذات سے بڑھ کر محبت ہونی چاہئے، اپنے گھر والوں سے بڑھ کر دنیا کہ ہر چیز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہونی چاہیے اسی لیے انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ صرف اور صرف رسول اللہ کی خاطر ان کی محبت میں۔ درحقیقت ہر مسلمان کو اپنے اللہ نبی کے معاملے میں اسی طرح ہونے چاہئے۔

افسوس تو ہم آنکھوں والوں پر ہے جنہیں کچھ نظر نہیں آتا. گستاخان اللہ اور رسول نظر نہیں آتے، آپ کے خلاف خاکے بنانے والے، لکھنے والے اور بولنے والی زبانیں نظر نہیں آتیں۔ کچھ اللہ اور رسول سے محبت کے دعویدار تو ایسے بھی ہیں جن کی آنکھوں، عقلوں اور دلوں پر اس حد تک پردے اور تالے پڑ گئے ہیں کہ وہ گستاخوں کے لیے نرم پہلو اور درد رکھتے ہیں اور ان کے قتل پر خوش ہونے کے بجائے ان کے قتل کو دھشت گردی، انتہاپسندی کہتے ہیں. اس پر افسوس کا اظہار خیال کرتے ہوئے ان کو قتل کرنے والے مجاھدین ملت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں دھشت گرد، انتہا پسند، خوارج اور داعش کے القابات سے موسوم کرتے ہیں.

واقعی اللہ عزوجل نے سچ فرمایا: تَعْمَى الْـقُلُوْبُ الَّتِىْ فِى الصُّدُوْرِ "درحقیقت وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں"

یہاں صحابہ اللہ اور اسکے رسول کی محبت میں اپنے خونی رشتوں تک کا پاس بھی نہیں رکھتے اور ہم پرائے گستاخان رسول پر روتے ہیں اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں پھر خود کو اللہ اور اس کے رسول کا ولی سمجھتے ہوئے جنت کی امید بھی رکھتے ہیں. بلاشبہ اس منافقانہ رویہ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں "و ما یخدعون إلا أنفسهم"

معزز قارئین! اللہ کے لیے دوستی اور دشمنی یعنی عقیدہ الولاء والبراء جو کہ ایمان کی بنیاد ہے اس کا ذکر اور اسی طرح دشمن کے لئے بددعا کرنے اور اس کی موت پر خوشی کا اظہار کرنے کے مسئلے کے متعلق ہم کسی اور نشست میں بات کریں گے.إن شاء الله.

اب آتے ہیں اس سلسلے کی دوسری حدیث کی طرف

2- گستاخ بہن کا قتل:

عمیر ابن امیہ کا اپنی گستاخ بہن کو قتل کرنا اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے جو حاکم یا سٹیٹ کی اجازت کے بغیر سر انجام پایا.

عمیر ابن امیہ کی ایک بہن تھی، جب کبھی بھی عمیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کی طرف جانے کا ارادہ کرتے تو وہ انہیں رسول اللہ کے بارے میں تکليف دیتی اور نبی علیہ السلام کو گالیاں دیتی تھی اور تھی بھی مشرک. ایک دن عمیر نے تلوار اٹھائ اس کے پاس آئے اور تلوار کا وار کر کے اسے قتل کر دیا. عمیر وہاں سے نکل گئے.بیٹوں نے جب اپنی ماں کو قتل شدہ حالت میں پایا تو شوروغل کیا اور کہنے لگے:"ہمیں معلوم ہے کہ کس نے قتل کیا ہے،کیا صلح کر کے بھی دھوکہ سے قتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباؤ اجداد اور مائیں مشرک ہیں". قریب تھا کہ اس بنا پر وہ کسی اور کو شک میں ناحق قتل کر دیں عمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور خبر دی تو آپ نے کہا: "أقتلت أختك"(کیا تو نے اپنی بہن کو قتل کیا ہے) ؟" قال نعم"(تو عمیر نے کہا:ہاں) نبی علیہ السلام نے پوچھا" لم قتلت"(کیوں قتل کیا
تو عمیر نے جواب دیا:"إنها كانت تؤذينى فيك" (آپ کے معاملے میں مجھے تکلیف پہنچاتی تھی
نبی علیہ السلام نے ان کے بیٹوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کسی اور کو قاتل بتایا. <<فأخبرهم النبي و أهدر دمها>>
نبی علیہ السلام نے انہیں سارے معاملے کی خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قرار دیا۔ تو انھوں نے کہا:"سمعنا و أطعنا" (ہم نے سنا اور مان لیا).
"

[المعجم الطبراني:جلد17 صفحہ 164-165 حدیث نمبر 124،مجمع الزوائد:جلد 6 صفحہ 287حدیث نمبر 10570کتاب الحدود، باب فیمن سب نبیا او غیرہ.
اسد الغابۃ:جلد 4 صفحہ 273، الإصابة:جلد 4 صفحہ 590]


❐ اس حدیث میں تین باتیں دلیل ہیں حاکم یا سٹیٹ کی اجازت کے بغیر قتل کی

(1) عمیر کا نبی علیہ السلام کے سامنے اس فعل کا اقرار اس خوف سے کرنا کہ کوئی ناحق قتل نا ہو جائے اور دو قوموں میں عدوات پھوٹ پڑے.

(2) نبی علیہ السلام کا عمیر سے قتل کرنے کی وجہ پوچھنا

(3) اس کی بہن کا خون رائیگاں قرار دینا.

سبحان اللہ! یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی اعلی مثال اور عمدہ دلیل کہ بھائی نے گستاخ بہن کو قتل کر دیا اور بیٹوں نے بھی ایسی ماں کی پروا تک نہیں کی جو اللہ کے رسول کو سب و شتم کرتی تھی.

اللہ عزوجل نے سچ فرمایا :

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِء وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة:24)
"بتا دو ان کو! اگر تمہیں اپنے والدین، بچے، بہن بھائی، بیویاں، خاندان والے، بینک بیلنس جو تم جمع کرتے ہو، بزنس جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور رہائشی مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جھاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ فاسق قوم کی رہنمائی نہیں کرتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

والذي نفسي بيده لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده و ولده والناس أجمعين
[بخاري كتاب الايمان، باب حب الرسول من الإيمان:14]

"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری روح ہے! تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان، مال، والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عزیز نا ہو جاؤں۔"


محبت رسول ایمان کی بنیاد ہے۔ اور رسول کی محبت ان کی اطاعت ہے. اللہ عزوجل نے فرمایا :"قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله" [بتا دو ان کو! اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔]

یہ ہے عقیدة الولاء والبراء جس کا ذکر تفصیلا ہم الگ نشت میں کریں گے۔ ان شاء اللہ

اب آتے ہیں اس سلسلے کی تیسری حدیث کی طرف جس میں حاکم کی اجازت کے بغیر گستاخ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا گیا.

3- بنو خطمہ کی شاتمہ عصما بنت مروان کا قتل

عصما بنت مروان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کرتے ہوئے انہیں تکلیف پہنچاتی تھی، لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ابھارتی اور اکثر ہجویہ اشعار پڑھا کرتی۔ اس قبیلے کے ایک نابینا فرد عمیر بن عدی خطمی تک جب یہ گستاخانہ اشعار پہنچے تو انہوں نے اپنی قوم کی اس گستاخ عورت کو قتل کرنے کی نذر مان لی۔ جنگ بدر سے واپسی کے بعد ایک رات عمیر نے اس عورت کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ نبی علیہ السلام کو بذریعہ وحی اس کی خبر ہوئی گئی ۔ عمیر نے فجر کی نماز ادا کی۔ تو بعد نماز نبی علیہ السلام نے اسے کہا: بالآخر تم نے اسے قتل کر ہی دیا؟ تو انہوں نے جواب دیا :ہاں
عمیر بن عدی کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں میں نے کچھ غلط نا کیا ہو، مجھے پہلے اجازت لے لینی چاہیے تھی، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولی الامر تھے۔ چنانچہ انہوں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا:یا رسول اللہ میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا؟!اس پر نبی علیہ السلام کا جواب کیا تھا؟ کیا انہوں نے یہ کہا کہ ہاں اجازت لینی چاہئے تھی یا تم نے بہت غلط کیا. نہیں میرے عزیزو بلکہ فرمایا :"لا ينتطع فيها عنزان"(اس معاملے میں دو بکریاں بھی آپس میں سینگ نہیں ماریں گی) یعنی یہ معاملہ اتنا واضح ہے کہ دو بکریوں کے درمیان بھی اس پر اختلاف نہیں ہو گا، جانوروں کی رائے بھی اس بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہو گی۔ لیکن آج سبحان اللہ! ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے.علماء سوء نے اس مسئلے کو مختلف فیہ بنا دیا ہے۔ نبی علیہ السلام کہ رہے ہیں کہ یہ بات تو جانوروں کی سمجھ میں بھی آتی ہے وہ بھی اس پر نہیں جھگڑیں گے تو آخر ایسا کیوں ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ اس پر اختلاف کر رہے ہیں۔ اتنی صاف اور سیدھی بات میں اختلاف کیونکر ہو سکتا ہے حالانکہ اس پر اجماع ہے).
اچھا عزیزو! اس کے بعد نبی علیہ السلام نے اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا:"إذا أحببتم أن تنظروا إلى رجل نصرالله و رسوله بالغيب فانظروا إلى عمير إبن عدي"(اگر تم ایسے شخص کی طرف دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے غیب سے اللہ اور اسکے رسول کی مدد کی ہے تو عمیر ابن عدی کو دیکھ لو)

اسی موقع کی مناسبت سے شاعر رسول حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہت:


بنی وائل و بنی واقف و خطمة دون بني الخزرج
متى ما دعت أختكم ويحها بعولتها والمنايا تجي
فهزت فتي ماجدا عرقه كريم المداخل والمخرج

عمر ابن الخطاب بولے:"اس نابینا شخص کو دیکھو رات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نکلا۔"
اس پر نبی علیہ السلام نے فرمایا :"لا تقله الأعمى ولكنه بصير"(اسے اندھا مت کہو یہ تو بصیرت والا ہے)

افسوس آج بہت سے لوگ اندھے ہیں۔ جب عمیر واپس پلٹے تو اس عورت کے بچے اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ ملکر اسے دفنا رہے تھے۔ وہ ان کے پاس آکر ان کو دھمکانے لگے "اے عمیر تم نے اس کو مارا ہے"؟ ذھن میں رکھیں یہ انتہائی جنگجو عصبیت سے بھرے ہوئے لوگ تھے، اوس و خزرج نے اپنی آنکھیں ہی جنگوں میں کھولی تھیں. عمیر نے جواب دیا :"ہاں تم سب مقابلے کے لیے آ جاؤ! اگر تم میں سے کوئی اس جیسی بات کرے گا تو میں تم سب سے بھی لڑوں گا یہاں تک کہ تمہیں ختم کر دوں یا خود ختم ہو جاؤں".

[کتاب الأموال از ابو عبيد قاسم، طبقات سعد، المغازي للواقدي:جلد 1صفحه147،الصارم المسلول لابن تيمية]

اس عمل کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا لوگ اسلام سے دور بھاگ گئے؟ کیونکہ یہ تو ھجرت کے فورا بعد کا واقعہ ہے. غزوۃ بدر کے فورا بعد یہ واقعہ پیش آیا جبکہ تمام انصار مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح کے فعل سے تو لوگوں کو دور ہو جانا چاہئے تھا؟ لیکن ہوا کیا...؟

علامہ واقدی کے مطابق اس کے بعد ان لوگوں میں اسلام رائج ہو گیا کیونکہ جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے

اپنی قوم کے لوگوں کی وجہ سے اسے چھپائے بیٹھے تھے، جب انہوں نے اسلام کی یہ قوت اور شان دیکھی تو اپنے ایمان کو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔

اب آتے ہیں چوتھی روایت کی طرف

4- ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گستاخِ رسول پر اپنے بوڑھے باپ کو تھپڑ رسید کرنا:

وقال ابن جريج : حدثت أن أبا قحافة سب النبي صلى الله عليه وسلم فصكه أبو بكر ابنه صكة فسقط منها على وجهه ، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له ، فقال : أو فعلته ، لا تعد إليه فقال : والذي بعثك بالحق نبيا لو كان السيف مني قريبا لقتلته"فنزلت قوله:[ا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلة:22)
[تفسير قرطبي سورة المجادلة آيت 22]

ابن جريج کی روایت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لے آئے تھے) نے ایک بار نبی علیہ السلام کا برا بھلا کہا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو ایسا زوردار تھپڑ رسید کیا کہ جس سے وہ منہ کے بل مدہوش ہو کر گر پڑے۔ ابوبکر نبی علیہ السلام کے پاس آئے اور اس بات کا ذکر کیا تو نبی علیہ السلام نے کہا: "کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟! یہ کافی ہے دوبارہ اس معاملے میں اس سے باز پرس نہیں کرنا۔ تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا! اگر اس وقت تلوار میرے ہاتھ میں ہوتی تو اسے قتل کر دیتا". اس بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری :"اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والی قوم کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے اگرچہ وہ ان کے والدین، بچے، بہن بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں. یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو راسخ کر دیا ہے اور ان کی حمایت اپنی روح سے کی ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ جنتوں میں داخل کرے گا جن کے اندر نہریں بہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے. اللہ ان سے خوش ہیں اور یہ اللہ سے۔ یہ اللہ کی فوج ہے. خبردار کامیابی اللہ کے لشکر ہی کے لیے ہے۔


❐ اس حدیث میں ابو بکر نے نبی علیہ السلام سے اجازت لیے بغیر ہی اپنے والد کو تھپڑ مارا گستاخی پر اور تلوار سے قتل کر دینے کے ارادے کا ذکر کیا اگر ہاتھ میں ہوتی.

اس سلسلے کی پانچویں حدیث کا ذکر کرتے ہیں:

5- یہودیہ کا قتل:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے أن:"يهودية كانت تشتم النبيﷺوتقع فيه فخنقهارجل حتى ماتت فأبطل رسول اللهﷺدمها"
(ابوداود:4362 السنن الكبرى:7/60' 9/200'9/375 أسناده صحيح على شرط الشيخين''اس کی سندبخاری ومسلم کی شرط پرصحیح ہے)

ایک یہودیہ عورت نبی علیہ السلام کو گالیاں دیا کرتی تھی اور ان کے متعلق بکواس کرتی تھی. ایک آدمی نے گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا. نبی علیہ السلام کے پاس اس کا مقدمہ لایا گیا تو نبی علیہ السلام نے فیصلہ کرتے ہوئے اس کا خون رائیگاں قرار دیتے ہوئے اس آدمی کو باعزت بری کر دیا۔


❐ نبی علیہ السلام کے پاس اس کے مقدمے کو لایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام نبی علیہ السلام کی اجازت کے بغیر ہوا تھا.

اس سلسلے کی چھٹی حدیث

6- جنات صحابہ کا گستاخِ رسول جنات کو قتل کرنا:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "السیف المسلول علی من سب الرسول"میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے کہ
مسلمان جنات نے نبی علیہ السلام کو خبر دی کہ کچھ کفار جنات آپ کو برا بھلا کہتے تھے اس لئے ہم نے ان کو قتل کر دیا تو آپ نے ان کے عمل کو درست قرار دیا۔


❐ مسلمان جنات نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے اجازت کے بغیر ہی گستاخ جنات کو قتل کر دیا. لیکن اشرف المخلوقات کہلانے والی مخلوق انسان کو اس معاملے میں اعتراض ہے.

❐ یہ تو تھے وہ واقعات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں پیش آئے اس حال میں کہ نبی علیہ السلام مدینہ کی اسلامک سٹیٹ کے حاکم تھے اور ان کی اجازت کے بغیر یہ واقعات پیش آئے.

ہم نے ان بہت سے واقعات کا ذکر نہیں کیا جس میں نبی علیہ السلام کی اجازت سے گستاخوں کو قتل کیا گیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، ابن خنطل، کعب ابن اشرف یہودی وغیرہ کیونکہ یہ ہمارے اس مسئلے سے متعلق نہیں یعنی گستاخ رسول کو بغیر حاکم کی اجازت کے قتل کرنے سے متعلق.

اب مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں نبی علیہ السلام کے بعد خیرالقرون کے دور کے کسی واقعہ کی روشنی میں

بعد وفات نبی خیرالقرون دور میں بغیر حاکم کی اجازت کے گستاخ رسول کے قتل کے واقعات:

سیدنا عمر ابن خطاب کے دور میں بحرین کے بشپ کا قتل:

أن غلمانامن أهل البحرين خرجوايلعبون بالصوالجة وأسقف البحرين قاعدفوقعت الكرة على صدره فأخذهافجعلوايطلبونهامنه فأبى فقال غلامهم سألتك بحق محمدصلى الله عليه وسلم إلارددتهاعلينافأبي لعنه الله وسبّ رسول الله فأقبلواعليه بصواليجهم فمازالوايخبطونه حتى مات فرفع ذالك إلى عمربن الخطاب فوالله مافرح بفتح ولاغنيمة كفرحه بقتل الغلمان لذلك الأسقف وقال:الآن عزّالإسلام إن أطفالاصغاراشتم نبيهم فغضبوا له وانتصروا

(ربيع الابراراز زمخشرى:1/403، المتطرف فى كل فن مستطرف:ج1/ص462)

"اہالیانِ بحرین کے بچے باہر نکل کرصوالجہ کے ساتھ کھیل رہے تھے (ہاکی جیسا کھیل جس میں گیند کو ڈنڈے سے مارا جاتا ہے) بحرین کا بڑا پادری وہاں بیٹھا ہوا تھا. اچانک گیند اس کے سینے پر جا کر لگی. اس نے اسے پکڑ لیا. بچے اس سے گیند مانگنے لگے اس نے دینے سے انکار کر دیا. بچوں نے محمد رسول اللہ کا واسطہ دے کر گیند مانگی لیکن اس نے انکار کیا اور نبی علیہ السلام کو گالی دی. سارے بچے اپنی لاٹھیوں سمیت اس پر ٹوٹ پڑے اس وقت تک زدوکوب کرتے رہے یہاں تک کہ مر گیا. یہ قضیہ عمر ابن خطاب کی طرف مدینہ تک اٹھایا گیا تو اللہ کی قسم آپ فتح یا مال غنیمت سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنا بچوں کے اس بشپ کو قتل کرنے پر مسرور ہوئے اور آپ نے کہا:"آج اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے کہ بچوں نے اپنے نبی کی گستاخی پر پر غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے انتقام لیا."


بحث مختصر کرتے ہوئے یہ ایک واقعہ کافی ہے.

❐ ان مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کا دفاع ہر مسلمان پر فرض ہے اس میں ریاست کی اجازت کا کوئی عمل دخل نہیں.اگر مقدمہ حاکم کی طرف لے جایا گیا اور ثابت ہو گیا کہ واقعی قتل اللہ اور اسکے رسول کے دفاع میں ہوا ہے تو ایسے شخص کو پروٹوکول دیتے ہوئے باعزت بری کیا جائے گا۔ شریعت اسلامی قانونی طور پر بغیر حاکم کی اجازت کے ہر مسلمان کو دین میں طعن کرنے والے کو قتل کرنے کا شرعا مکلف بناتی ہے. اور کیوں نا ہو شریعت اسلامی اور نیچر تو ہر انسان کو اپنی عزت، جان، مال کے دفاع کا حق دیتی ہے جس کے لئے سٹیٹ کی اجازت کی کوئی شرط نہیں ہوتی.


سٹیٹ کی اجازت کے بغیر ہر انسان کا اپنے دفاع کا فطری قانون :
میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر کوئی آپ پر حملہ کرے، آپ کے گھر پر حملہ کرے اور آپ کو مارنا اور لوٹنا چاہے یا آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی عزت پامال کرنا چاہے تو اس بارے میں آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟! کیا آپ اپنی دفاع کے لئے حاکم کی اجازت کا انتظار کریں گے؟ یا اپنے طور پر اپنا دفاع کریں گے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"من قتل دون دینه فهو شهيد من قتل دون دمه فهو شهيد و من قتل دون ماله فهو شهيد و من قتل دون اهله فهو شهيد"(متفق علیہ)
(جو اپنے دین، مال، جان اور اھل و عيال کی حفاظت کرتے ہوئے مرے وہ شھید ہے)

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آ کر کہنے لگا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص آئے اور وہ مجھ سے میرا مال چھیننے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اسے اپنا مال مت دو۔ اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑ پڑے تو میں کیا کروں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا :تم اس سے لڑو۔ اس نے کہا اگر وہ مجھے مار ڈالے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا :تو شہید ہو گا۔ وہ کہنے لگا اگر میں اسے مار ڈالوں؟ آپ نے فرمایا :وہ دوزخ کی آگ میں جائے گا تجھ پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔

اسی طرح ابو ھریرۃ سے ایک دوسری حدیث روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا اگر تیرے گھر میں کوئی جھانکے اور تیری اس کو اجازت نا ہو تو کنکر لے کر اس کی آنکھ پھوڑ دو "ما كان عليك جناح" [اس کی آنکھ کا تجھ پر کوئی گناہ اور تاوان نہیں ہو گا](متفق علیہ)

سھل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ کے درواز کے سوراخ سے جھانکا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا سر کھجلانے والی لکڑی تھی۔ اس شخص کو کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو مجھے بغیر اجازت کے جھانک کے دیکھ رہا ہے تو یہ لکڑی میں تیری آنکھ میں چبھو دیتا۔ (متفق علیہ)

محدثین فقہاء نے حدیث اور فقہ کی کتابوں میں "باب لا يضمن من الجنايات" کے نام سے ابواب باندھے ہیں جس کا معنی ہے :"وہ جنایات جن میں تاوان واجب نہیں ہوتا" انہی جنایات میں گستاخ رسول کے قتل کو بھی شمار کیا ہے.


یقینا آپ ان احادیث سے واقف ہوں گے. اب اگر کوئی شخص دیوار پھلانگ کر آپ کے گھر آ جاتا ہے اور آپ کے سر پر پستول لے کر کھڑا ہے اور آپ کو قتل کرنے لگا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اس سے اپنا دفاع کریں جسے فقہ اسلامی میں "دفع الصائل" کہتے ہیں، تو کیا آپ کو حاکم وقت سے اجازت لینے کی ضرورت ہو گی؟!

وہ آپ پر پستول تانے کھڑا ہے اور آپ صدارتی محل میں یا بادشاہ کے محل میں فون کرتے ہیں اس کے سینکڑوں سیکریٹریوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس تک رسائی ہوتی ہے اور آپ پوچھتے ہیں :برائے مہربانی میں اپنا دفاع کر سکتا ہوں؟ یہاں کوئی مجھے مارنے کی کوشش کر رہا ہے. اس کی کوئی تک نہیں بنتی. اگر آپ کو اپنے دفاع کے لئے حاکم وقت سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے تو کیا رسول اللہ کے دفاع کے لئے امام سے اجازت لینے پڑی گی جن کا دفاع ہم پر اپنی جان مال سے زیادہ ضروری ہے اور ایمان کی بنیاد ہے؟!

نہیں میرے عزیزو بالکل بھی نہیں. لہٰذا امام سے اجازت لینے کا یہ مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اور شان اس سے بہت اونچا ہے. آپ ہر امام سے بڑھ کر ہیں. آپ کے معاملے میں کسی حاکم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے. کسی حاکم کا اتنا مرتبہ نہیں کہ وہ اس معاملے میں اپنی کوئی بات کہے.

میرے عزیزم! یہ ذھن نشین کر لیں کہ ہم کس کی بات کر رہے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کر رہے ہیں. وہ جن کا مرتبہ بہت بلند ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے دفاع کے لئے کسی کی اجازت ضروری نہیں ہے. آپ تو وہ ہیں جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں آپ بہت خاص ہیں اور یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آپ کی ذات اقدس سب سے الگ ہے اور ان کے لیے خاص احکام ہیں. یہ اجازت کے اصول ان کی ذات کے لیے نہیں ہیں.

شریعت اسلامی میں "امر بالمعروف والنهي عن المنكر" کا عمومی قانون:
اس کے علاوہ شریعت اسلامیہ کا ایک اصولی قانون "امر بالمعروف والنهي عن المنكر" کا بھی ہے. ہر مسلمان شرعا مکلف ہے کہ بھلائیوں کا حکم کرے اور برے کاموں سے منع کرے.

اللہ عزوجل نے فرمایا: "كنتم خير امة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر" (تم بہترین امت ہو جو اس لئے نکالی گئی ہو تاکہ بھلائیوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو)

آیت میں لفظ" امت" ہے جو ہر مسلمان مرد عورت کو شامل ہوتا ہے.

نبی علیہ السلام نے فرمایا:" من رآى منكم منكرا فإن استطع أن يغيره بيده فليفعل، وإلا فبلسانه و إلا فبقلبه، و ذلك أضعف الإيمان [صحيح مسلم:70]
"تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اگر بزور بازو اسے بدلنے کی استطاعت ہو تو ایسا کرے ورنہ زبان کے ساتھ کرے اور اگر اس کی استطاعت بھی نا ہو تو پھر دل کے ساتھ اسے بدلے اور یہ ایمان کی سب سے پست ترین حالت ہے( اس سے نیچے ذرہ برابر ایمان کا بھی کوئی تصور نہیں)"


حدیث میں"من رآى منکم منکرا"سے خطاب اور حکم ہر عاقل بالغ مسلمان مرد اور عورت کو ہے. اور برائی کے انسداد کے لیے زور بازو کو مقدم رکھا جس میں تلوار بھی داخل ہے جب بعض برائیوں کو روکنے کے لیے اس کی ضرورت پڑے جیسا کہ دین میں طعن کرنے والے کے قتل کے لیے.

مغربي قانون کی رو سے جرم کے انسداد کی ذمہ داری صرف پولیس پر عائد ہوتی ہے جبکہ شریعت اسلامی میں برائی کے انسداد کی ذمہ داری ہر مسلمان پر ہے.

خلاصہ: بحث کو سمیٹتے ہوئے آپ کو بتاتے چلیں کہ مذکورہ بالا بحث اس حالت سے متعلق ہے جب اسلامک سٹیٹ کا وجود ہو اور دین میں طعن کا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو اس صورت میں ایک مسلمان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔

اب بات کرتے ہیں اس حالت کی جب اسلامک سٹیٹ کے بجائے ایسی سٹیٹ ہو جہاں ناموس رسالت کا کوئی قانون نا ہو بلکہ اس کے برعکس اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دین اسلام میں طعن کو جائز رکھنے اللہ اور اسکے گے رسول کی گستاخی کو روا رکھنے کا قانون ہو۔

تو ایسی سٹیٹ میں تو قانون کو ہاتھ میں لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. ایسے قانون کو تو پاؤں تلے روند کر گٹر میں پھینکا جائے گا. اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کو نافذ کرنے والوں اور اس کی تائید کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا جائے گا۔

اگر انہیں ایسا کرنے کی آزادی ہے تو ہمیں بھی یہ آزادی حاصل ہے اور اسی اظہار رائے کی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے لوگوں کے لیے قتل کا فتویٰ جاری کریں گے اور سب سے بڑھ کر ہم شرعا اس کے مکلف ہیں. ہم اللہ کے غلام ہیں کفار کے نہیں. انہیں ہمارے سامنے ذلیل ہو کر جھکنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ اس مسئلے کو بھی سمجھ لیں کہ ان دیار کفر کے پاسپورٹ کی موجودگی کسی مسلمان کو اس بات کا پابند نہیں کرتی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی گستاخی کرنے والوں اور دین میں طعن کرنے والوں کو قتل نا کرے جیسا کہ اپنی جان، مال اور عزت کی دفاع میں اسے پابند نہیں کرتی۔

اللہ عزوجل کا حکم ہے:
"فاقتلوا المشركين حیث وجدتموهم واخذوهم واقعدوا لهم كل مرصد"(مشرکین کو جہاں پاؤ انہیں قتل کردو ان کو پکڑو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو)


امید ہے علماء سوء اور الحاد کے داعیوں کی دوغلی پالیسی، منافقت اور دجل و فریب نمایاں ہو گیا ہو گا. اور ان کے دعوی ایمان کی کلی کھل گئی ہو گی۔


اپنی بحث کا خاتمہ اس شعر پر کرتا ہوں:

"کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں"

و ما علينا إلا البلاغ.
 
Top