مسئلہ روٴیت ِہلال اور مطالع کا اختلاف
مقالہ نگار: مولانا ابوالسلام محمدصدیق سرگودھا
﴿یسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِی مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾ (البقرہ:189)
”آپ سے ہلالوں (چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ لوگوں کے لئے اوقات (معلوم کرنے) کاذریعہ ہیں اور حج کے لئے۔“
کواکب:
علم ہیئت میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کواکب میں سے بعض سیارے ایسے ہیں جو آسمان میں گردش کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو گردش نہیں کرتے بلکہ اپنی جگہ پر ثابت ہیں۔گردش کرنے والے کواکب کی تعداد سات ہے :
(1) زحل (2) مشتری (3) مریخ(4) شمس (5) زہرہ (6) عطارد(7) قمر
شمس اور قمر کے ماسوا باقی پانچ کواکب کو خُنَّس،جَوَار، کُنَّس کے نام سے تعبیرکیا جاتاہے۔ اس بحث کا تعلق در اصل علم الافلاک سے ہے جس کا ہمارے موضوع سے تعلق نہیں۔ صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ علم الافلاک کے ماہرین کا یہ نظریہ ہے کہ قمر بھی دوسرے سیاروں کی طرح آسمان میں گردش کرتاہے اور ﴿کُلٌّ فِی فَلَکٍ یسْبَحُوْنَ﴾کی آیت بھی بتارہی ہے کہ سورج چاند وغیرہ آسمان میں تیر رہے ہیں۔
ہلال اور قمر
’ہلال‘ واحد ہے أَہِلَّة کی۔ پہلی یا دوسری رات کا چاندہو تو اسے ’ہلال‘ کہا جاتاہے۔ ابوہیثم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مہینہ کے آخری دو رات کے چاند کو بھی ’ہلال‘ کہا جاتا ہے جبکہ نصف ماہ کے چاند پر’ قمر‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔
ہلال نام کی وجہ: لہٰذا پہلی اوردوسری تاریخ کے چاند کو ’ہلال‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ چاند نظر آنے پر بغرضِ اطلاع لوگ آواز بلند کرتے ہیں۔ ہلال کا لغوی معنی آواز بلندکرنا ہے، کہاجاتا ہے:
استهلّ الصبی حین یولد یعنی ”پیدائش کے وقت بچہ نے آواز بلند کی“
یو م
رات دن کے مجموعہ کا نام ’یوم‘ ہے۔ عربوں کے نزدیک یہ دورانیہ غروبِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ اہل روم اور اہل فارس کے نزدیک طلوعِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک ہے۔ فرق یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک رات پہلے اور دن بعد میں اور اہل روم، اور اہل فارس کے نزدیک دن پہلے اور رات بعد میں آتی ہے۔
چاند کا بتدریج بڑا ہونا اورکم ہونا
پہلی تاریخ کو چاند چھوٹا ہوتاہے، روشنی بھی کم ہوتی ہے۔ پھر بتدریج بڑا ہوتا جاتا اور روشنی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ چودھویں رات تک چاند تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر پندرھویں رات سے گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آخر میں کھجور کی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
چاند کا یہ چکر ایک مہینہ میں پورا ہوتا ہے اور سال میں بارہ چکر ہوتے ہیں۔﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاه مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ﴾ (سورة یٰسین :39)
”چاند کے لئے اس کی منزلوں کا ہم نے اندازہ لگایا ہے ۔ حتی کہ وہ اپنی منزل طے کرتا ہوا کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے“
آیت کا شانِ نزول
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ثعلبہ رضی اللہ عنہ دونوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ شروع میں جب چاند نکلتاہے تو دھاگے کی طرح باریک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج بڑھتے بڑھتے گول ہوجاتاہے، پھر بتدریج گھٹتا گھٹتا پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ سورج کی طرح یہ ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
یہ آیت بتاتی ہے کہ چاند کا بڑا چھوٹا ہونا، اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔﴿یسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِی مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾
”یعنی چاند کے بڑا چھوٹا ہونے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے: یہ لوگوں کیلئے اور حج کے لئے اوقات ہیں“۔
مہینے کے دن
قمری مہینے تیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور اُنتیس کے بھی، لیکن زیادہ انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
بخاری کی ایک اور روایت میں ہے:ما صُمتُ مع النبی ﷺ تسعا وعشرین أکثر مما صُمنا ثلثین
” میں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جتنے ماہ روزے رکھے ہیں، ان میں انتیس دن والے مہینے تیس دن والے مہینوں کی نسبت زیادہ تھے۔“ (ترمذی)
اس سے یا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ماہِ رواں انتیس دن کا ہے یا یہ کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:الشهر هکذا وهکذا وخنس الإبهام فی الثالثة
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ اتنے (دس دن)، اتنے (دس دن) دن کا ہے۔ تیسری مرتبہ انگوٹھے کونیچے کرلیا یعنی نو دن ۔ کل انتیس دن کا ہے۔“
الشهر یکون تسعة وعشرین ویکون ثلاثین
” مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے او رتیس دن کا بھی۔“
اُنتیس دن والے مہینے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نو برس روزے رکھے ہیں، ا ن میں دو رمضان تیس تیس دن کے تھے… امام نووی نے بیان کیا ہے کہ پے در پے دو، تین یا حد چار مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ مسلسل چار سے زیادہ مہینے انتیس دن کے نہیں ہوتے۔
قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں
قمری مہینے کا آغاز اور اس کی انتہا روٴیت ِہلال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں۔ مہینہ کا انتیس یا تیس دن کا ہونا، یہ اختلاف بھی طبعی ہے۔
حسی علامت
چاندبذات ِخود تاریخ اور مہینہ کے لئے حسی علامت ہے۔ ہر واقف اور ناواقف چاند دیکھ کر تاریخ اور مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ بآسانی لگا سکتا ہے۔ ا س کے برعکس سورج، مہینہ اور سال معلوم کرنے کی غیرحسی علامت ہے۔ اس سے سال اورمہینہ کا اندازہ ایک باخبر انسان تو حساب سے کرسکتا ہے مگر جو شخص ناواقف اور بے علم ہے، اس کے لئے مہینہ کی تاریخ اور سال سے خود بخود باخبر ہونا ایک مشکل امر ہے، اس لئے قیاس یہ چاہتا ہے کہ ابتداے آفرینش میں لوگ چاند ہی کے مہینے جانتے تھے اور بارہ مہینوں کا سال شمار کرتے تھے۔چنانچہ تقویم تاریخی کے مصنّفین میں سے بعض نے لکھاہے :
”قمری سال حقیقی ہے یعنی چاندکے بارہ مرتبہ عروج و زوال کو ایک سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں موسم کا کوئی لحاظ نہیں، کبھی یہ سال سردیوں سے شروع ہوتا ہے اورکبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں۔ چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، وہ دائرہ جس پر چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، بالکل گول نہیں ہے۔ اس لئے چاند کبھی زمین سے قریب تر ہوتا ہے اورکبھی بعید تر۔ اسی طرح چاند کی رفتار ہرجگہ برابر نہیں ہوتی، کبھی تیز ہوتی ہے کبھی سست۔ اس لئے زمین کے گرد چاند کا چکر کبھی تیس دن میں مکمل ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن میں۔ اسی طرح چاندکے مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں اور کبھی تیس دن کے۔ زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت قریباً تین سو چون دن ہوتی ہے، اس لئے ہر قمری سال اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی حسابی کے زحمت اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ کسی ایک مقام پر تیرہویں بار چاند اس سے کم مدت میں نظر آہی نہیں سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ مطلع غبار آلود ہو یابادل چھائے ہوں تو چاندوقت پر نظر نہ آئے لیکن یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس سے کم مدت میں چاند نظر آجائے۔ (تقویم تاریخی ، مرتبہ: ہاشمی)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
روٴیت اور شہادت﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی کِتَابِ اللّٰهِ یوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیمُ﴾ (التوبہ:37)
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس دن سے مقرر ہیں جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہی دین قیم ہے۔“
اَحادیث میں یہ بات واضح ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا انحصار روٴیت ِہلال پر ہے۔دیکھے بغیر نہ روزہ رکھا جائے او رنہ افطار یعنی ترک کیا جائے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صوموا لروٴیته وأفطروا لروٴیته فان غُمّٰی علیکم فأکملوا عدة شعبان ثلاثین
”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر چاند پوشیدہ ہوجائے تو شعبان کی گنتی تیس دن پوری کرو۔“ (منتقیٰ)
”لیس المراد به أنه لا یصومه أحد حتی یراه بنفسه‘‘ یعنی اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص خود چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھے بلکہ اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ لا یصومہ أحد حتی یراہ أویراہ غیرہ یعنی ”کوئی شخص روزہ نہ رکھے جب تک خودچاند نہ دیکھ لے یا کوئی دوسرا معتبر آدمی چاندنہ دیکھ لے۔ اگر حدیث کا یہ مفہوم ہو کہ جو شخص چاند دیکھے وہی روزہ رکھے تو نابینا یا وہ شخص جو نگاہ کی کمزوری کی بنا پر چاندنہیں دیکھ سکتا، وہ روزہ رکھنے کا مکلف نہیں ہوگا جبکہ ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیصُمْه﴾ والی آیت کا تقاضا ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ “
مختصر یہ کہ جن کو چاند نظر نہ آئے، شہادت ملنے سے روزہ اور اِفطار ان پر لازم ہوجاتا ہے۔اگر مطلع ابر آلود ہو یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کی ہدایت ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے: فأکملوا عدة شعبان ثلاثین
نصابِ شہادت
ہلالِ رمضان کی شہادت :جمہور ائمہ کا قول ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کی شہادت پر روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
(2)۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر بیان کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو کلمہ توحید اور رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ اس نے اعتراف کیا ،آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ وہ اعلان کرے کہ لوگ روزہ رکھیں (منتقیٰ: ج 4/ ص184) اس حدیث کو ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔فأخبرت النبیﷺ أنی رأیته فصام وأمرالناس بصیامه (ابوداود)
”میں نے نبیﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ نے روزہ رکھااور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ (اس حدیث کو ابن حبان او رحاکم نے صحیح کہا ہے)
ہر دو احادیث سے ظاہر ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔
ہلالِ عید کی شہادت :
ہلالِ عید کی شہادت کے لئے کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے۔چنانچہ آخر رمضان میں ہلالِ عید کے متعلق جھگڑا ہوا۔ دو اعرابی آئے اورانہوں نے شہادت دی کہ بخدا ہم نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ رسول خدا ﷺ نے حکم دیا کہ روزہ افطار کرلیں اور صبح عید گاہ کی طرف نکلیں۔
عید کے بارے میں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں ایک شہادت کا ذکر ہو۔
نصاب شہادتِ رمضان کے بارے میں اعتراض :
امام مالک رحمہ اللہ، لیث رحمہ اللہ، اوزاعی رحمہ اللہ، ثوری رحمہ اللہ او رامام شافعی رحمہ اللہ سے مروی (ایک قول میں)ہے کہ ہلالِ رمضان کے لئے ایک شہادت کافی نہیں بلکہ دو کی شہادت کا اعتبار ہوگا۔ ان ائمہ رحمہم اللہ نے اپنے موقف کے بارے میں جو احادیث بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جو عبدالرحمن بن زیدسے مروی ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
دوسری حدیث وہ ہے جو امیر مکہ حارث بن حاطب سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:فإن شهد شَاهِدَانِ مُسْلِمَانِ فصوموا واَفطروا (مسند احمد)
”اگر دو مسلمان شہادت دیں تو روزہ رکھو اور افطار کرو“
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بظاہر ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلالِ رمضان کے لئے بھی کم ا زکم دو گواہ ہوں۔ جن احادیث میں ایک گواہ کا ذکرہے، ان میں دوسرے گواہ کی نفی نہیں ہے۔ اس با ت کا احتمال ہے کہ اس سے پہلے کسی دوسرے شخص سے بھی روٴیت ِہلال کا علم ہوگیا ہو۔فإن لم نره وشهد شاهد عدل نَسَکْنَا بشهادتهما (ابوداود) ”اگر ہم چاند نہ دیکھ پائیں اور دو عادل گواہ شہادت دے دیں تو ان کی شہادت پر شرعی احکام یعنی روزہ/ عید ادا کریں گے“ اور دارقطنی نے روایت کرکے اس کی سند کو متصل صحیح کہا (منتقی: 2/159)
جواب:اس اعتراض کا ابن مبارک رحمہ اللہ او رامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا ہے کہ جن احادیث میں دو گواہوں کی تصریح ہے، ان سے زیادہ سے زیادہ ایک شہادت سے ممانعت بالمفہوم ثابت ہوتی ہے۔ مگر ابن عمر رضی اللہ عنہ اورابن عباس رضی اللہ عنہ ہر دو کی احادیث میں ایک شہادت کی قبولیت کا بالمنطوق بیان ہے اور مسلمہ اُصول ہے کہ دلالت ِمفہوم سے دلالت ِمنطوق راجح ہے۔ اس لئے یہی قول درست ہے کہ روٴیت ِہلال کے بارے میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔
پھر یہ احتمال پیدا کرنا کہ کسی دوسرے شخص سے روٴیت ِہلال کا علم ہوگیا ہو، شریعت کے بیشتر احکام کو معطل کردینے کے مترادف ہے۔البتہ عبدالرحمن اورامیر مکہ کی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہلالِ عید کے لئے بہرحال کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔