• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ روٴیت ِہلال اور مطالع کا اختلاف

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مسئلہ روٴیت ِہلال اور مطالع کا اختلاف

مقالہ نگار: مولانا ابوالسلام محمدصدیق سرگودھا

﴿یسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِی مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾ (البقرہ:189)
”آپ سے ہلالوں (چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ لوگوں کے لئے اوقات (معلوم کرنے) کاذریعہ ہیں اور حج کے لئے۔“

کواکب:
علم ہیئت میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کواکب میں سے بعض سیارے ایسے ہیں جو آسمان میں گردش کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو گردش نہیں کرتے بلکہ اپنی جگہ پر ثابت ہیں۔گردش کرنے والے کواکب کی تعداد سات ہے :
(1) زحل (2) مشتری (3) مریخ(4) شمس (5) زہرہ (6) عطارد(7) قمر

شمس اور قمر کے ماسوا باقی پانچ کواکب کو خُنَّس،جَوَار، کُنَّس کے نام سے تعبیرکیا جاتاہے۔ اس بحث کا تعلق در اصل علم الافلاک سے ہے جس کا ہمارے موضوع سے تعلق نہیں۔ صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ علم الافلاک کے ماہرین کا یہ نظریہ ہے کہ قمر بھی دوسرے سیاروں کی طرح آسمان میں گردش کرتاہے اور ﴿کُلٌّ فِی فَلَکٍ یسْبَحُوْنَ﴾کی آیت بھی بتارہی ہے کہ سورج چاند وغیرہ آسمان میں تیر رہے ہیں۔

ہلال اور قمر
’ہلال‘ واحد ہے أَہِلَّة کی۔ پہلی یا دوسری رات کا چاندہو تو اسے ’ہلال‘ کہا جاتاہے۔ ابوہیثم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مہینہ کے آخری دو رات کے چاند کو بھی ’ہلال‘ کہا جاتا ہے جبکہ نصف ماہ کے چاند پر’ قمر‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔

ہلال نام کی وجہ: لہٰذا پہلی اوردوسری تاریخ کے چاند کو ’ہلال‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ چاند نظر آنے پر بغرضِ اطلاع لوگ آواز بلند کرتے ہیں۔ ہلال کا لغوی معنی آواز بلندکرنا ہے، کہاجاتا ہے:
استهلّ الصبی حین یولد یعنی ”پیدائش کے وقت بچہ نے آواز بلند کی“

یو م
رات دن کے مجموعہ کا نام ’یوم‘ ہے۔ عربوں کے نزدیک یہ دورانیہ غروبِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ اہل روم اور اہل فارس کے نزدیک طلوعِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک ہے۔ فرق یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک رات پہلے اور دن بعد میں اور اہل روم، اور اہل فارس کے نزدیک دن پہلے اور رات بعد میں آتی ہے۔

چاند کا بتدریج بڑا ہونا اورکم ہونا
پہلی تاریخ کو چاند چھوٹا ہوتاہے، روشنی بھی کم ہوتی ہے۔ پھر بتدریج بڑا ہوتا جاتا اور روشنی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ چودھویں رات تک چاند تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر پندرھویں رات سے گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آخر میں کھجور کی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے

﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاه مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ﴾ (سورة یٰسین :39)
”چاند کے لئے اس کی منزلوں کا ہم نے اندازہ لگایا ہے ۔ حتی کہ وہ اپنی منزل طے کرتا ہوا کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے“
چاند کا یہ چکر ایک مہینہ میں پورا ہوتا ہے اور سال میں بارہ چکر ہوتے ہیں۔


آیت کا شانِ نزول
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ثعلبہ رضی اللہ عنہ دونوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ شروع میں جب چاند نکلتاہے تو دھاگے کی طرح باریک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج بڑھتے بڑھتے گول ہوجاتاہے، پھر بتدریج گھٹتا گھٹتا پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ سورج کی طرح یہ ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
﴿یسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِی مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾
”یعنی چاند کے بڑا چھوٹا ہونے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے: یہ لوگوں کیلئے اور حج کے لئے اوقات ہیں“۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ چاند کا بڑا چھوٹا ہونا، اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔


مہینے کے دن
قمری مہینے تیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور اُنتیس کے بھی، لیکن زیادہ انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما صُمتُ مع النبی ﷺ تسعا وعشرین أکثر مما صُمنا ثلثین
” میں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جتنے ماہ روزے رکھے ہیں، ان میں انتیس دن والے مہینے تیس دن والے مہینوں کی نسبت زیادہ تھے۔“ (ترمذی)
بخاری کی ایک اور روایت میں ہے:

الشهر هکذا وهکذا وخنس الإبهام فی الثالثة
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ اتنے (دس دن)، اتنے (دس دن) دن کا ہے۔ تیسری مرتبہ انگوٹھے کونیچے کرلیا یعنی نو دن ۔ کل انتیس دن کا ہے۔“
اس سے یا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ماہِ رواں انتیس دن کا ہے یا یہ کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:
الشهر یکون تسعة وعشرین ویکون ثلاثین
” مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے او رتیس دن کا بھی۔“

اُنتیس دن والے مہینے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نو برس روزے رکھے ہیں، ا ن میں دو رمضان تیس تیس دن کے تھے… امام نووی نے بیان کیا ہے کہ پے در پے دو، تین یا حد چار مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ مسلسل چار سے زیادہ مہینے انتیس دن کے نہیں ہوتے۔

قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں
قمری مہینے کا آغاز اور اس کی انتہا روٴیت ِہلال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں۔ مہینہ کا انتیس یا تیس دن کا ہونا، یہ اختلاف بھی طبعی ہے۔

حسی علامت
چاندبذات ِخود تاریخ اور مہینہ کے لئے حسی علامت ہے۔ ہر واقف اور ناواقف چاند دیکھ کر تاریخ اور مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ بآسانی لگا سکتا ہے۔ ا س کے برعکس سورج، مہینہ اور سال معلوم کرنے کی غیرحسی علامت ہے۔ اس سے سال اورمہینہ کا اندازہ ایک باخبر انسان تو حساب سے کرسکتا ہے مگر جو شخص ناواقف اور بے علم ہے، اس کے لئے مہینہ کی تاریخ اور سال سے خود بخود باخبر ہونا ایک مشکل امر ہے، اس لئے قیاس یہ چاہتا ہے کہ ابتداے آفرینش میں لوگ چاند ہی کے مہینے جانتے تھے اور بارہ مہینوں کا سال شمار کرتے تھے۔چنانچہ تقویم تاریخی کے مصنّفین میں سے بعض نے لکھاہے :

”قمری سال حقیقی ہے یعنی چاندکے بارہ مرتبہ عروج و زوال کو ایک سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں موسم کا کوئی لحاظ نہیں، کبھی یہ سال سردیوں سے شروع ہوتا ہے اورکبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں۔ چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، وہ دائرہ جس پر چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، بالکل گول نہیں ہے۔ اس لئے چاند کبھی زمین سے قریب تر ہوتا ہے اورکبھی بعید تر۔ اسی طرح چاند کی رفتار ہرجگہ برابر نہیں ہوتی، کبھی تیز ہوتی ہے کبھی سست۔ اس لئے زمین کے گرد چاند کا چکر کبھی تیس دن میں مکمل ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن میں۔ اسی طرح چاندکے مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں اور کبھی تیس دن کے۔ زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت قریباً تین سو چون دن ہوتی ہے، اس لئے ہر قمری سال اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی حسابی کے زحمت اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ کسی ایک مقام پر تیرہویں بار چاند اس سے کم مدت میں نظر آہی نہیں سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ مطلع غبار آلود ہو یابادل چھائے ہوں تو چاندوقت پر نظر نہ آئے لیکن یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس سے کم مدت میں چاند نظر آجائے۔ (تقویم تاریخی ، مرتبہ: ہاشمی)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی کِتَابِ اللّٰهِ یوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیمُ﴾ (التوبہ:37)
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس دن سے مقرر ہیں جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہی دین قیم ہے۔“
روٴیت اور شہادت
اَحادیث میں یہ بات واضح ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا انحصار روٴیت ِہلال پر ہے۔دیکھے بغیر نہ روزہ رکھا جائے او رنہ افطار یعنی ترک کیا جائے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

صوموا لروٴیته وأفطروا لروٴیته فان غُمّٰی علیکم فأکملوا عدة شعبان ثلاثین
”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر چاند پوشیدہ ہوجائے تو شعبان کی گنتی تیس دن پوری کرو۔“ (منتقیٰ)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”لیس المراد به أنه لا یصومه أحد حتی یراه بنفسه‘‘
یعنی اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص خود چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھے بلکہ اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ لا یصومہ أحد حتی یراہ أویراہ غیرہ یعنی ”کوئی شخص روزہ نہ رکھے جب تک خودچاند نہ دیکھ لے یا کوئی دوسرا معتبر آدمی چاندنہ دیکھ لے۔ اگر حدیث کا یہ مفہوم ہو کہ جو شخص چاند دیکھے وہی روزہ رکھے تو نابینا یا وہ شخص جو نگاہ کی کمزوری کی بنا پر چاندنہیں دیکھ سکتا، وہ روزہ رکھنے کا مکلف نہیں ہوگا جبکہ ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیصُمْه﴾ والی آیت کا تقاضا ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ “
مختصر یہ کہ جن کو چاند نظر نہ آئے، شہادت ملنے سے روزہ اور اِفطار ان پر لازم ہوجاتا ہے۔اگر مطلع ابر آلود ہو یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کی ہدایت ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے: فأکملوا عدة شعبان ثلاثین

نصابِ شہادت
ہلالِ رمضان کی شہادت :جمہور ائمہ کا قول ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کی شہادت پر روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
فأخبرت النبیﷺ أنی رأیته فصام وأمرالناس بصیامه (ابوداود)
”میں نے نبیﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ نے روزہ رکھااور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ (اس حدیث کو ابن حبان او رحاکم نے صحیح کہا ہے)
(2)۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر بیان کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو کلمہ توحید اور رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ اس نے اعتراف کیا ،آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ وہ اعلان کرے کہ لوگ روزہ رکھیں (منتقیٰ: ج 4/ ص184) اس حدیث کو ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔

ہر دو احادیث سے ظاہر ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

ہلالِ عید کی شہادت :
ہلالِ عید کی شہادت کے لئے کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے۔چنانچہ آخر رمضان میں ہلالِ عید کے متعلق جھگڑا ہوا۔ دو اعرابی آئے اورانہوں نے شہادت دی کہ بخدا ہم نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ رسول خدا ﷺ نے حکم دیا کہ روزہ افطار کرلیں اور صبح عید گاہ کی طرف نکلیں۔
عید کے بارے میں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں ایک شہادت کا ذکر ہو۔

نصاب شہادتِ رمضان کے بارے میں اعتراض :
امام مالک رحمہ اللہ، لیث رحمہ اللہ، اوزاعی رحمہ اللہ، ثوری رحمہ اللہ او رامام شافعی رحمہ اللہ سے مروی (ایک قول میں)ہے کہ ہلالِ رمضان کے لئے ایک شہادت کافی نہیں بلکہ دو کی شہادت کا اعتبار ہوگا۔ ان ائمہ رحمہم اللہ نے اپنے موقف کے بارے میں جو احادیث بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جو عبدالرحمن بن زیدسے مروی ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
فإن شهد شَاهِدَانِ مُسْلِمَانِ فصوموا واَفطروا (مسند احمد)
”اگر دو مسلمان شہادت دیں تو روزہ رکھو اور افطار کرو“
دوسری حدیث وہ ہے جو امیر مکہ حارث بن حاطب سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فإن لم نره وشهد شاهد عدل نَسَکْنَا بشهادتهما (ابوداود) ”اگر ہم چاند نہ دیکھ پائیں اور دو عادل گواہ شہادت دے دیں تو ان کی شہادت پر شرعی احکام یعنی روزہ/ عید ادا کریں گے“ اور دارقطنی نے روایت کرکے اس کی سند کو متصل صحیح کہا (منتقی: 2/159)
بظاہر ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلالِ رمضان کے لئے بھی کم ا زکم دو گواہ ہوں۔ جن احادیث میں ایک گواہ کا ذکرہے، ان میں دوسرے گواہ کی نفی نہیں ہے۔ اس با ت کا احتمال ہے کہ اس سے پہلے کسی دوسرے شخص سے بھی روٴیت ِہلال کا علم ہوگیا ہو۔
جواب:اس اعتراض کا ابن مبارک رحمہ اللہ او رامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا ہے کہ جن احادیث میں دو گواہوں کی تصریح ہے، ان سے زیادہ سے زیادہ ایک شہادت سے ممانعت بالمفہوم ثابت ہوتی ہے۔ مگر ابن عمر رضی اللہ عنہ اورابن عباس رضی اللہ عنہ ہر دو کی احادیث میں ایک شہادت کی قبولیت کا بالمنطوق بیان ہے اور مسلمہ اُصول ہے کہ دلالت ِمفہوم سے دلالت ِمنطوق راجح ہے۔ اس لئے یہی قول درست ہے کہ روٴیت ِہلال کے بارے میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔

پھر یہ احتمال پیدا کرنا کہ کسی دوسرے شخص سے روٴیت ِہلال کا علم ہوگیا ہو، شریعت کے بیشتر احکام کو معطل کردینے کے مترادف ہے۔البتہ عبدالرحمن اورامیر مکہ کی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہلالِ عید کے لئے بہرحال کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ہلالِ شعبان کی نگرانی
رمضان کی یکم تاریخ معلوم کرنے کے لئے ہلالِ شعبان کی نگرانی اور اس کا تحفظ کیا جائے۔بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
احصوا ہلال شعبان لرمضان (ترمذی: رقم 487)
”رمضان کے لئے شعبان کے ہلال کا احاطہ کرو۔“
مشکوک دن کا روزہ
چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ شعبان کی تیسویں تاریخ ہے یا نہیں؟ بعض لوگ احتیاط کے طور پر شکی روزہ رکھتے ہیں جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا
من صام الیوم الذی شک فیه فقد عصی أبا القاسمﷺ (دارقطنی : 2/157)
”جس شخص نے شکی دن کا روزہ رکھا، اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ “
شهرا عید لاینقصان
یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ بروایت ِابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
شهرا عید لاینقصان: رمضان وذوالحجة (صحیح سنن الترمذی: رقم 558)
” عید کے دو مہینے کم نہیں ہوتے، ایک رمضان اور دوسرا ذوالحج“
امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں رمضان اور ذوالحج کا مہینہ دونوں ایک ساتھ کم نہیں ہوتے، اگر ایک انتیس دن کا ہے تو دوسرا تیس دن کا ہوگا۔

امام اسحق رحمہ اللہ نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ”اگر مہینہ انتیس دن کا ہوا توبھی اس پر لفظ تمام کا اطلاق ہوگا، اسے نقص کی طرف منسوب نہیں کیاجائے گا۔“ یعنی امام اسحق رحمہ اللہ کے قول کے مطابق دونوں مہینے ایک ساتھ کم ہوسکتے ہیں۔ ا س کمی کی وجہ سے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ ”فضیلت میں دونوں مہینے برابر ہیں، خواہ ایک مہینہ انتیس دن کا ہو، دوسرا مہینہ تیس دن کا۔“

امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک راجح معنی یہ ہے کہ ”ان کے اجر میں کمی واقع نہیں ہوگی“۔ حدیث میں ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور حصولِ ثواب کی غرض سے رکھتا ہے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے اس مہینہ کو بھی شامل ہے جو تیس دن کا ہے اور اس کوبھی شامل ہے جو انتیس دن کا ہو۔ فضیلت ہر دو کی یکساں ہے۔

ٹیلیفون، ریڈیو،تار کے ذریعے شہادت
ٹیلیفون، ریڈیو اور تار یہ سب خبر رسانی کے جدید ذرائع ہیں۔ ان کے بارے میں ہماری تحقیق یہ ہے کہ جو خبر ٹیلیفون، ریڈیو کے ذریعہ موصول ہو اور یہ معلوم ہوجائے کہ خبر دہندہ مسلمان اور عادل یعنی متدین ہے تو اس طرح ملنے والی خبر کا اعتبار ہوگا۔ اگر یہ پتہ نہ چل سکے تو پھر ایسی خبر کااعتبار نہ ہوگا۔ اس لیے کہ شریعت نے گواہ کے لئے اسلام اور اس کے عادل ہونے کی شرط لگائی ہے جیسا کہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔

تارِ برقی: کے ذریعہ آنے والی خبر کااعتبار اس لئے نہیں کہ ایک تو اس میں آواز کو کوئی دخل نہیں کہ اس سے خبر دہندہ کی پہچان ہوسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ درمیان میں کئی واسطے پڑتے ہیں جن کے متعلق یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم، عادل ہیں یا غیر عادل، البتہ اگرمختلف مقامات سے متعدد تاروں کے ذریعہ خبر آئے جو تواتر کی حد کو پہنچ جائے تو اس وقت واسطہ کیسا ہی ہو، خبر معتبر ہوگی۔ تواتر کے لئے کوئی عدد معین نہیں بلکہ جتنے عدد سے علم یقین حاصل ہوجائے، وہی تواتر ہے۔

مطالع کا ا ختلاف
مطالع کا اختلاف ایک فطرتی اورطبعی شے ہے اس لئے کہ سورج اور چاند کے طلوع کا محل آسمان ہے جو گول ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
﴿وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ﴾ (الرحمٰن) فقد قیل: هو من الحساب وقیل: بحسبان کحسبان الرحی وهو دوران الفلک فإن هذا لاخلاف فیه، بل قد دل الکتاب والسنة واجمع علماء الأمة علی مثل ما علیه أهل المعرفة من أهل الحساب من أن الأفلاک مستدیرة لا مسطحة“ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ: ج25،ص142)
”والشمس والقمر بحسبان آیت کی تفسیرکرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض کے نزدیک حُُسبان حساب سے ہے اور بعض کا قول ہے چکی کے گھومنے کو کہتے ہیں۔ حسبان دورانِ فلک کا نام ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ کتاب وسنت اورامت کے علما کا اجماع ہے۔ سب اسی بات کی تائید کرتے ہیں جو بات آج کے ماہرین نجوم کہہ رہے ہیں کہ افلاک گیند کی طرح گول ہیں، ان کی سطح برابر نہیں ہے۔“
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اسی مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والأرض جسم کالکرة وقیل لیست بکریه الشکل وهی واقفة فی الهواء بجمیع جبالها وبحارها وعامرها وغامرها والهواء محیط بها من جمیع جهاتها کالمخ فی البیضة وبعدها من السماء متساومن جمیع الجهات (ذکر صورة الارض: ص47)
”زمین جسم ہے جوگیند کی طرح گول ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گیند کی شکل پر نہیں۔ وہ اپنے تمام پہاڑوں، سمندروں، آباد اور بنجرزمینوں سمیت ہوا میں ٹھہری ہوئی ہے اور ہوا اس کی تمام سمتوں کو اس طرح گھیرے ہوئے ہے جس طرح انڈے کی سفیدی زردی کو محیط ہوتی ہے۔ اور آسمان سے اس کی مسافت تمام سمتوں سے برابر ہے۔اس حالت میں سورج اور چاند کی روشنی بیک وقت زمین کو منور نہیں کرسکتی بلکہ زمین کا جو قطعہ سورج اور چاند کے سامنے ہوگا، وہ پہلے روشن ہوگا۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ سورج اور چاند کے مطالع میں اختلاف ایک فطرتی اور طبعی ہے۔“

ایک علاقہ کی روٴیت، دوسرے علاقہ کے لئے
روٴیت ہلال کے متعلق جتنے پیش آمدہ مسائل ہیں، ان میں یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک علاقہ یا ایک ملک کی روٴیت دوسرے علاقہ یا ملک کے لئے معتبر ہے یا نہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے حسب ِذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے :

  1. ملک ایک ہے، ا س کے کسی ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند تمام ملک کے لئے کافی ہے۔
  2. ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
  3. مطالع کا اختلاف، روٴیت اور عدم روٴیت میں کس حد تک موٴثر ہے۔
پہلی صورت
پہلی صورت میں عکرمہ رحمہ اللہ، قاسم رحمہ اللہ، سالم رحمہ اللہ، اسحق رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ملک کے ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند اس ملک کے دوسرے شہر کے لئے کافی نہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بعض اہل علم کا یہ مذہب نقل کیا ہے کہ إن لکل بلد روٴیتھم یعنی ہر شہر کے لئے ان کے اہالیان کی روٴیت کارآمد ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے انہی الفاظ سے باب باندھا ہے۔ ان ائمہ نے جس حدیث سے اپنے اس نظریہ کا استدلال کیا ہے وہ کریب رحمہ اللہ تابعی سے مروی حدیث ہے جس کو بخاری رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ کے سوا اَئمہ کی ایک جماعت نے تخریج کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ حسب ِذیل ہیں:

عن کریب أن أم الفضل بعثته إلی معاویة بالشام فقال فقدمت الشام فقضیت حاجتها واستهل علی رمضان وأنا بالشام فرأیت الهلال لیلة الجمعة ثم قدمت المدینة فی اٰخر الشهر فسألنی عبدالله بن عباس ثم ذکر الهلال فقال متی رأیتم الهلال فقلت رأیناه لیلة الجمعة فقال أنت رأیته؟ فقلت نعم وراٰه الناس وصاموا وصام معاویة فقال لکنا رأیناه لیلة السبت فلا نزال نصوم حتی فکمّل ثلاثین أونراه فقلت ألا تکتفی بروٴیة معاویة وصیامه؟ فقال: لا هکذا أمرنا رسول الله ﷺ (صحیح سنن الترمذی : رقم 559/نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار)
”کریب رحمہ اللہ تابعی سے روایت ہے کہ اُمّ الفضل رضی اللہ عنہ نے مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ملک شام میں (کسی کام کے لئے) بھیجا، میں نے اس کام کو سرانجام دیا۔ میں ابھی شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیااور جمعہ کی رات کو میں نے خود چاند دیکھا۔ پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ واپس آیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے (وہاں کا حال) پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے چاند کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ہے ۔ پوچھا:کیا تو نے خود دیکھا ہے، میں نے کہا: ہاں میں نے خود دیکھا ہے اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے روزہ رکھا اور معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے توہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم تو روزہ رکھیں گے حتیٰ کہ تیس روزے پورے ہوجائیں یا اس سے پہلے چاند دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت او ران کے روزوں پراکتفا نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں کیونکہ رسول خدا ﷺ نے ہم کو اس طرح حکم دیا ہے۔“
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے لکھاہے
هذا بظاهره یدل علی أن لکل بلد روٴیتهم ولا تکفی رویة أهل بلد لأهل بلد اٰخر (تحفة الاحوذی: ج2، ص35)
”یہ حدیث بظاہر دلالت کرتی ہے کہ ہرعلاقہ کے لئے ان کے باشندگان کی روایت ہے، اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل علاقہ کے لئے کفایت نہیں کرتی۔“

بعض آئمہ نے کریب کی اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ روٴیت کے بارے میں ایک شہادت معتبر نہیں، اسی لئے توابن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب رحمہ اللہ کی شہادت پرعمل نہیں کیا مگر ان کا یہ استدلال اس لئے درست نہیں کہ حدیث سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ روٴیت کا حکم بعید کے حق میں ثابت نہیں ہوتا۔ اس بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب کی شہادت کو قبول نہیں کیا۔ حدیث ِکریب اور مختلف مذاہب :ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں (نووی)۔ اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس میں علماء کے مختلف مذاہب ہیں۔
ہربلد کی روٴیت انہی کے لئے ہے جووہاں کے باشندے ہیں، دوسرے بلد کے لئے نہیں ہے۔
جب ایک بلد میں چاند نظر آجائے تو اس کی روٴیت تمام بلاد کے لئے لازم ہوتی ہے۔ مالکیہ کے نزدیک یہ مشہور مذہب ہے۔
  1. ملک مختلف ہیں تو ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے کافی نہیں۔
  2. جن شہروں میں چاند کے طلوع ہونے کا امکان ہے، صرف بادل یا غبار چاند کے خفا کا باعث ہے، ایسے تمام شہروں میں سے ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند سب شہروں میں معتبر ہے، ان کے علاوہ دیگر شہروں میں طلوعِ چاند کا حکم نافذ نہیں ہوگا، یہ قول سرخسی کا ہے۔
  3. ابن ماجشون کا قول ہے کہ اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے کفایت نہیں کرتی۔ البتہ اگر وقت کا حاکم کسی ثبوت کی بنا پر روٴیت ِہلال کا اعلان کردے، اس لئے کہ اس کے حق میں جملہ بلاد ایک ہی بلد کے حکم میں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ا س کا حکم تمام ملک میں نافذ ہے تو ایسی روٴیت جملہ بلاد پرموٴثر ہوگی۔
  4. اگر علاقہ کی ایک جہت پہاڑی ہے۔ دوسری میدانی تو اس صورت میں ایک جہت کی روٴیت دوسری جہت کے لئے کافی نہیں۔
تبصرہ:کریب کی اس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں کہ ایک شہر کی روٴیت اسی شہر کے باشندگان کے لئے ہے، دوسرے شہروں کے لئے نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن شہروں کے درمیان اتنی مسافت ہو جس قدر مدینہ اورشام کے درمیان ہے تو ان میں سے ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہر کے لئے کافی نہیں۔ اگر اس سے کم مسافت ہو تو اس حدیث کی رو سے ایسے شہروں میں ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہروں کے لئے کافی ہونے میں ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔ پھر اس معنی کی بنا صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر ہے اور یہ معنی اسی وقت قابل اعتماد ہوسکتا ہے جب اجتہاد کو حجت تسلیم کرلیا جائے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اُمتی کا اجتہاد حجت نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جہاں اس میں صواب کا امکان ہے، وہاں خطا کا بھی احتمال ہے۔

حدیث ِکریب اور امام شوکانی رحمہ اللہ
امام شوکانی رحمہ اللہ ان تمام اقوال کا ذکرکرکے لکھتے ہیں کہ ان لوگوں کی دلیل کریب کی مذکورہ بالاحدیث ہے جس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام کی روٴیت پرعمل نہیں کیا اور انہوں نے فرمایا: ھکذا أمرنا رسول اللہﷺ یعنی رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اسی طرح حکم دیا ہے۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے کہ ایک علاقہ کے لوگوں کے لئے دوسرے علاقہ کی رؤیت پر عمل کرنا ضروری نہیں۔ لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ کریب کی حدیث جس سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر نہیں، دراصل ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد ہے جسے حجت قرار نہیں دیاسکتا۔ حجت تو مرفوع حدیث ہوتی ہے اور ابن عباس نے جو یہ کہا ہے کہ ھکذا أمرنا رسول اللہﷺ۔ تو اس ھکذا کا مشارالیہ ان کا وہ قول ہے جس میں انہوں نے بیان کیا:
فلانزال نصوم حتی نکمل ثلاثین
”ہم روزے رکھتے ہی رہیں گے حتیٰ کہ تیس پورے کریں“۔
اورابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول دراصل رسولِ خدا ﷺ کے ا س حکم کی روشنی میں ہے جس کو بخاری رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے

لاتصوموا حتی تروا لهلال ولا تفطروه حتی تروه فإن غم علیکم فأکملوا العدة ثلاثین یعنی
”چاند دیکھے بغیر نہ روزے رکھو او رنہ دیکھے بغیر افطار کرو۔ اگر بادل یاغبار کی وجہ سے چاندپوشیدہ ہو تو پھر تیس روزے پورے کرو“
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کا یہ حکم کسی ایک علاقہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ اس حکم کا مخاطب ہر وہ مسلمان ہے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے حدیث سے یہ استدلال کرنا زیادہ واضح ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل بلد کے لئے معتبر ہے۔ بہ نسبت اس استدلال کے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل بلد کے لئے قابل قبول نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ جب کسی علاقہ کے لوگوں نے چاند دیکھا ہے تو گویا مسلمانوں نے چاند دیکھا ہے چنانچہ جو بات چاند دیکھنے والے مسلمانوں پر لازم آتی ہے، وہی دوسرے مسلمانوں پر لازم آتی ہے۔
اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام میں اشارہ کو اس طرف متوجہ کرلیا جائے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل بلد کے لئے قابل عمل نہیں تو پھر اس مفہوم کو عقلی دلیل کے ساتھ مقید کرنا پڑے گا۔ یعنی اگر ہر دوشہروں کے درمیان اتنی لمبی مسافت ہے کہ اس سے ہر دو شہروں کا مطلع اتنا مختلف ہوجاتا ہے کہ اس سے تاریخ بدل جانے کا احتمال ہے تو اس صورت میں ایک بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے کافی نہیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اہل شام کی روٴیت
اگر یہ کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام کی روٴیت پر عمل نہیں کیا حالانکہ شام اور مدینہ کے درمیان اتنا بُعد نہیں کہ اس کی وجہ سے ان کے درمیانی مطلع کاکوئی زیادہ اختلاف ہو۔ توجواب میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت معاویہ کی روٴیت اور ان کے روزوں پراکتفا نہ کرنا، ان کا اجتہادی عمل ہے جو مرفوع حدیث کے مقابلہ میں حجت نہیں بن سکتا۔نیزاس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ جمیع احکام شرعیہ میں قرب و بُعد کے لحاظ کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی شہادت کو قبول کرتے ہیں۔روٴیت ہلال کا مسئلہ بھی احکام شرعیہ میں داخل ہے۔ اس کے قابل اعتماد ہونے میں کون سی رکاوٹ ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ بحث کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں:
”اگر ھکذا کا مشار الیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کو قرار دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن شہروں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی مسافت شام اور مدینہ کے درمیان ہے تو ان میں ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہر کے لئے کافی نہیں ہوگی۔ مگر جن شہروں کی مسافت اس سے کم ہے، ان پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ کی روٴیت پرجو عمل نہیں کیا، اس میں کوئی اور حکمت ہوگی جس کا ہمیں علم نہیں۔“
امام شوکانی رحمہ اللہ کا فیصلہ:
روٴیت ِہلال کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والذی ینبغی اعتماده هو ما ذهب إلیه المالکیة وجماعة من الزیدیة واختاره المهدی منهم وحکاه القرطبی عن شیوخه أنه إذا راٰه أهل بلد لزم أهل البلاد کلها (نیل الاوطار: ج6، ص196)
”روٴیت ِہلال کے بارے میں قابل اعتماد وہی بات ہے جومالکیہ اور زیدیہ کی ایک جماعت نے اختیار کی ہے۔ مہدی نے ان سے اورقرطبی نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ جب ایک اہل بلد چاند کو دیکھ لیں تو تمام اہل بلاد پر اس کا اعتبار لازم ہوجاتا ہے“

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے
روٴیت ِہلال کی بحث کے وقت ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ
”جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک بلد کی روٴیت جمیع بلاد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ اکثر اصحابِ شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسافت ِقصر کی حد تک بلاد میں، ایک بلد کی روٴیت دوسرے بلاد کے لئے کافی ہے اور جو بلاد مسافت ِقصر کی حد سے باہر ہیں، ان کے لئے کافی نہیں۔ اور ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے کافی نہیں۔ انہوں نے ہر دو نظریوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ طلوعِ ہلال کا مسافت ِقصر سے کوئی تعلق نہیں اور دو ملکوں کا الگ الگ ہونا بھی ایک دوسرے کے لئے روٴیت کے ناکافی ہونے کا باعث نہیں۔“
دوسری وجہ: ان ہر دو نظریوں کے غلط ہونے کی جو دوسری وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر روٴیت ہلال کے لئے مسافت قصر کو یا ملک کے مختلف ہونے کو حد تصور کرلیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جو شخص مسافت قصر کی حد کے اندر یا ملک کے آخری کنارہ پر ہوگا، وہ توروزہ رکھنے اور عید کرنے کا پابندہوگا لیکن جو شخص مسافت قصر سے تھوڑے فاصلے پر ہے یا دوسرے ملک کے آخری کنارے پر ہے جو اس ملک سے متصل ہے، وہ روزہ رکھنے اور عید کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ تو اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وهذا لیس من دین المسلمین (فتاویٰ ابن تیمیہ: ج25/ ص105)
”یہ صورتِ حال مسلمانوں کے دین میں شمار نہیں ہوتی“۔
چنانچہ اس بارے میں درست بات وہی ہے جس کاپتہ یہ حدیث بتاتی ہے
صومکم یوم تصومون إفطارکم یوم تفطرون وأضحاکم یوم تضحون
یعنی ”تمہارا روزہ اسی دن ہے جب تم سب روزہ رکھتے ہوں، تمہارا افطار اسی دن ہے جب تم سب افطارکرتے ہو۔ اور قربانی تمہاری اس دن ہے جب تم سب قربانی کرتے ہو۔پس جب کوئی شخص شعبان کی تیسویں رات کو روٴیت ِہلال کی شہادت کسی جگہ سے دے دے، وہ جگہ قریب ہو یا بعید تو روزہ سب پر واجب ہوجاتاہے۔“

خلاصہٴ کلام بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے لکھا ہے کہ جس شخص کو روٴیت ِہلال کی خبر ایسے وقت میں ملے کہ اس میں روزہ یا عید یا قربانی ادا کی جاسکتی ہو توبلاشبہ اس شہادت پر اعتبار کرنا واجب ہے، آثارِ سلف سے یہ بات ثابت ہے۔

عقل اور شرع کی مخالفت
جو شخص روٴیت ِہلال کے بارے میں قصر مسافت یا ملک کے مختلف ہونے کی قید لگاتا ہے، اس کا یہ قول عقل کے بھی خلا ف ہے اور شرع کے بھی ۔
بروایت ِابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والأضحی یوم تضحون (صحیح سنن ترمذی: 561) کہ
جس دن تم روزہ رکھتے ہو (اللہ کے نزدیک) وہی روزہ ہے۔ جس دن افطار کرتے ہو، وہی افطار ہے اور جس دن قربانی کرتے ہو وہی قربانی ہے
اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور اس کو غریب حسن کہا ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی بیان کیا کہ شہادت کی بنا پر اگر تمام مسلمان یا ان کی اکثریت روٴیت ِہلال کے فیصلہ پرمتفق ہوجائے تو باقی لوگوں کو ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے، وہ ان کے ساتھ ہی روزہ رکھیں، اور ساتھ نمازِعید ادا کریں۔

محمد بن حسن شیبانی نے بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کیا ہے کہ روٴیت ِہلال کے بارے میں منفرد آدمی جماعت کے تابع ہے۔ (تحفة الاحوذی)
شیخ الاسلام سے مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص اکیلا چاند دیکھتا ہے کیا وہ اپنی روٴیت کی بنا پر روزہ رکھے اور افطار کرے یا لوگوں کے ساتھ روزہ اور عید ادا کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس بارے میں تین قول ہیں :
  1. ایک قول یہ ہے کہ وہ روزہ رکھے اور افطار کرے مگر پوشیدہ کرے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کامذہب ہے۔
  2. دوسرا قول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اور نمازِ عید ادا نہ کرے، یہ مذہب امام احمد رحمہ اللہ، مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
  3. تیسرا قول یہ ہے کہ روزہ بھی لوگوں کے ساتھ رکھے اور نمازِ عید بھی لوگوں کے ساتھ پڑھے۔ شیخ الاسلام نے تیسرے قول کو الصوم یوم تصومون والی حدیث کی روشنی میں ترجیح دی ہے کہ روزہ وہی ہے جس دن تم روزہ رکھتے ہو۔ افطار اور قربانی بھی وہی ہے جس دن تم افطا راور قربانی کرتے ہو۔ شیخ الاسلام نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ شہادت ملنے پر تمام مسلمانوں کو روزہ اور نمازِ عید ادا کرنی چاہئے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ: ج25، ص116)
شوافع میں سے بعض آئمہ کا یہ قول ہے کہ جو بلاد ایک دوسرے کے قریب ہیں، ان میں سے ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کیلئے کافی ہوجائے گی۔ اگر ان میں بُعد ہے تو اس صورت میں دو قول ہیں:
  1. ایک قول یہ ہے کہ ایسے بلاد میں سے ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے لازم نہیں۔
  2. دوسرا قول وہ ہے جوابوطیب اور ائمہ کی ایک جماعت کا ہے کہ جو بلاد ایک دوسرے سے دور ہیں، ان میں سے ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کیلئے کافی ہے۔یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔
بُعد کی تعریف
بُعد کی تعریف کیا ہے، اس میں بھی آئمہ کے کئی اقوال ہیں۔
بعض نے مطالع کے اختلاف کو بُعد کی بنیاد قرار دیا ہے یعنی جن بلاد کے مطالع میں اختلا ف ہے، وہ ایک دوسرے سے دور شمار ہوں گے۔ عراقی علما کے نزدیک بُعد کی یہ تعریف بھی قابل اعتماد ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بھی روضہ میں اس تعریف کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

بُعد کی تعریف میں دوسرا قول یہ ہے کہ مسافت ِقصر تک جتنے بلاد ہیں وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں اور جو اس حد مسافت سے باہر ہیں، ان پر بُعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔یعنی وہ ایک دوسرے سے دورشمار ہوں گے، یہ قول امام بغوی رحمہ اللہ کا ہے۔ رافعی رحمہ اللہ نے صغیر میں اس کو صحیح کہا ہے۔ (تحفة الاحوذی: ج2 ص36)

خلاصہ


تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے :

1۔ چاند کا چھوٹا بڑا ہونا لوگوں کے لئے اوقات اور حج کا وقت معلوم کرنے کی علامت ہے۔
2۔ رمضان کی ابتدا اور اس کی انتہا روٴیت ِہلال یا شہادت پر مبنی ہے۔
3۔ مطالع کا اختلاف ایک بدیہی اور فطری امر ہے۔
4۔ ہلالِ رمضان کے لئے ایک مسلمان کی شہادت اور ہلالِ شوال (عید) کے لئے کم ا زکم دو مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے۔
5۔ رمضان کی خاطر ہلالِ شعبان کا تحفظ ایک ضروری امر ہے۔
6۔ ریڈیو، ٹیلیفون، تار اورخبررسانی کے دیگر ذرائع سے ملنے والی خبر قابل اعتبار ہے۔ بشرطیکہ یہ معلوم ہو کہ خبردہندہ مسلمان ہے …اور تار کے ذریعہ پہنچنے والی خبر حد ِتواتر کو پہنچ چکی ہے۔
7۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف روٴیت ِہلال کے بارے میں یہ ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر ہے۔مسافت ِقصر اور ممالک کے مختلف ہونے کی قید ان کے نزدیک عقلاً و شرعاً درست نہیں۔
8۔ ہمارے نزدیک علامہ شوکانی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام کا نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر ہے۔ اوران پر روزہ لازم ہوجاتاہے جب کہ ہر دو بلاد کا مطلع ایک ہو یا اتنا فرق ہو کہ اگر ایک بلد میں چاند طلوع ہوا ہے تو دوسرے بلد میں بھی اس کا طلوع ممکن ہو۔
اگر ہر دو بلد کے مطالع میں اتنا فرق ہے کہ جب دونوں میں سے ایک بلد میں چاند طلوع ہو اور دوسرے میں طلوع نہ ہو بلکہ اس فرق سے تاریخ بدل جائے تو ایسے ہر دو بلاد میں سے ایک بلد میں دیکھا ہوا چاند دوسرے بلد کے لئے قطعاً کافی نہیں ہوگا۔ روزہ اور عید ادا کرنے میں وہ ایک دوسرے کے پابند نہیں ہوں گے۔

مغنی ابن قدامہ سے بھی ہمارے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے :
” اہل بلد کی روٴیت سے تمام اہل بلاد کے لئے روزہ لازم آتا ہے اور بعض نے یہ قید بھی لگائی ہے کہ بلاد ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوں کہ ان کے مطالع میں اختلاف واقع نہ ہو مثلاً بغداد اور بصرہ کے درمیان مطالع میں کوئی بڑا ا ختلاف نہیں۔لہٰذا ان میں سے ایک روٴیت دوسرے کے لئے کافی ہے او رجن بلاد میں بُعد اس قدر زیادہ ہو کہ ان کا مطلع مختلف ہوجائے تو ان میں سے ایک کی روٴیت باقی بلاد کے لئے کافی نہیں۔ مثلاً عراق، حجاز، شام ان میں ہر ایک بلد کی روٴیت انہی کے لئے ہے، دوسروں کے لئے نہیں ہے۔ عکرمہ کے اس قول لکل بلد روٴیتهم کا یہی مطلب ہے کہ ایسے بلاد کی روٴیت اپنی اپنی ہے۔“ (مغنی ابن قدامہ: ج3/ص88)
ایک غلط نظریہ
آخر میں اس غلط نظریہ کا اِزالہ کردینا بھی ضروری ہے کہ سعودی عرب جو اسلامی ممالک کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے ساتھ ہی تمام اسلامی ملکوں میں روزہ اور عید کو ادا کرنا چاہئے۔
یہ نظریہ اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اس لئے کہ روزہ او رعید کا انحصار روٴیت ِہلال پر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :
صوموا لروٴیته واَفطروا لروٴیته کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ نیز مطالع کا اختلاف بھی ایسی حقیقت ہے کہ اس کا انکار ناممکن ہے، ا س لئے یہ نظریہ سرے ہی سے غلط ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک روزہ رکھیں اور عید اور دیگر مناسک ادا کریں۔


جغرافیائی اور علم ہیئت کا نظریہ
جغرافیائی لحاظ سے زمین کی حد بندی سے روٴیت ِہلال کا کوئی تعلق نہیں، جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے یا ایک بلدکی روٴیت دوسرے بلاد کے لئے معتبر ہے یا نہیں؟ البتہ یہ حقیقت ہے کہ زمین کا جو حصہ طلوعِ ہلال کے وقت اس کے سامنے ہوگا، اس تمام حصہ میں روٴیت ِہلال کا تصور ہوگا، اس علاقہ میں ایک ملک شامل ہو یازیادہ، ایک بلد ہو یازیادہ بلاد ہوں۔ ان سب کا مطلع ایک شمار ہوگا۔ ملکوں کے مختلف ہونے یامسافت ِقصر وغیرہ کی حد بندی کرنا شریعت اور عقل کی رو سے درست نہیں۔ علم ہیئت اور جغرافیہ دان حضرات نے اپنے تجربہ کی بنا پر کہا ہے کہ ”غروبِ آفتاب کے وقت چاند اگر کسی بلد میں آٹھ درجے بلند ہے تو غروبِ آفتاب کے بعد تیس منٹ تک رہے گا تو ایسا چاند مشرقی علاقہ میں پانسو ساٹھ میل تک ضروری موجود ہوگا۔ “

اسی طرح ان کا کہناہے کہ جس بلد میں چاند آٹھ درجے بلند ہو، اس بلد سے جو بلد ستر میل مشرق میں ہے، وہ سات درجے پر ہوگا او رجو بلد اس بلد سے مغرب میں ہے وہاں چاند نو درجے پر ہوگا۔
جب ایک بلد میں چاند نظر آجائے تو اس کے قریب جتنے بلاد ہیں، ان میں چاند طلوع ہوچکتا ہے۔ یہ بات علم ہیئت کی مسلمات میں سے ہے اور اس بلد کے مشرق کی جانب پانسو ساٹھ میل تک طلوعِ ہلال کااعتبار ہوگا لیکن مغربی بلاد میں روٴیت ِہلال کا مطلق اعتبار ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
”مشرق میں چاند نظر آجائے تو مغرب میں ا س کا طلوع ضروری ہے لیکن مغرب میں دیکھنے سے مشرق میں دیکھا جانا ضروری نہیں۔“

چھ ماہ یا کم بیش مدت کے دن؟
بعض ایسے علاقے ہیں وہاں چھ ماہ کا دن اورچھ ماہ کی رات ہوتی ہے بلکہ بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں غروبِ آفتاب کے تھوڑی دیر بعد فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں جو ان علاقوں کے ہمسایہ ملک یا علاقے ہیں، ان کے اوقات کے مطابق اندازہ کرکے نماز پڑھی جائے اور روزے رکھیں جائیں، چنانچہ جامع ترمذی میں نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ ”دجال زمان میں چالیس دن قیام کرے گا۔ ایک دن سال بقدر دوسرا دن مہینہ بقدر تیسرا دن جمعہ بقدر ہوگا اور باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں گے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول کہ جب دن سال بقدر ہوگا تو اس میں صرف ایک دن کی نمازیں کفایت کریں گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اندازہ کرکے سال بھر کی نمازیں پڑھی جائیں۔ “


تمت بالخیر۔
 
Top