• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ - پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
صرف نام کے مسلمان


اگر کوئی غیرمسلم نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کردے یا قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کرے توہر مسلمان سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔اور اگر کسی مسلمان کو موقع مل جائے تو ایسے گستاخ اور خبیث کوقتل کرکے جہنم واصل کرنے کو اپنے لئے سعادت جانتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی حرمت کی پامالی کا بدلہ لینے پر اللہ اس سے راضی ہوجائے گا اور اس کی تمام خطاؤں کو معاف فرما کر جنت میں داخل فرمادے گا۔بات صحیح بھی ہے کہ نبی ﷺ کی ناموس کے لئے یا اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید کی توہین کا بدلہ لینے کے لئے اگر کوئی مسلمان کسی گستاخ کی جان لے لے یا اپنی جان قربان کردے تو ایک طرف تویہ مسلمانوں کے لئے فخر کی بات ہے اور دوسری طرف گستاخوں کے حوصلے پست کرنے کا باعث بھی ہے۔اللہ ہمیں اپنی راہ میں جانیں قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین

اب اس اصل مسئلہ کی طرف آتے ہیں جس کے لئے یہ مختصر تمہید باندھی گئی ہے۔

یہ قابل فخر جوش،لڑنے مرنے کا ارادہ اور جذبہ غیرت ایمانی ہمیں اس وقت مسلمانوں میں کہیں نظر نہیں آتی جب یہی کافروں والی حرکت کسی مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والا نام نہاد عالم کرے۔ ایسا شخص اسلام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کرلینے کے بعد پھر چاہے نبی مکرمﷺ کی گستاخیاں کرے، چاہے اللہ کو گالیاں دے یا پھر قرآن مجید کی توہین و بے ادبی کرے مسلمانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔وہ غیرت اور غصہ جو کسی کافر اور غیرمسلم کے خلاف مسلمانوں کا دیکھنے میں آتا ہے و ہی غیرت وغصہ اس وقت کہاں چلا جا تا ہے جب کافروں جیسی گستاخی کرنے والا اسکا اپنا ہم مسلک ہو یا اسکے مذہب کا مولوی یا اکابرنکل آئے۔جب بات اپنے مسلک و مذہب پر آجائے توفرقہ پرست مسلمان بے غیرت کیوں ہوجاتا ہے؟؟؟

کیا جس وقت ایک غیرمسلم نبی کی ناموس پر انگلی اٹھاتا ہے اللہ کو گالیاں دیتا ہے قرآن مجیدکی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت تو نبی ﷺ ہمارے نبی،اللہ ہمارا رب اور قرآن ہماری الہامی اور مقدس کتا ب ہوتی ہے اور مسلمان اس توہین کا بدلہ لینے پر بے چین اور بے قرار ہوجاتا ہے۔لیکن یہی اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھکر نبی ﷺ اللہ اور قرآن کی گستاخیاں جب ان لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں جو ہمارے ہی مسلک کے مولوی کہلاتے ہیں تو کیا اس وقت نہ محمد ﷺ ہمارے نبی رہتے ہیں نہ اللہ ہمارا رب اور نہ قرآن ہماری مقدس کتاب؟؟؟ ایسے وقت میں ایک فرقہ پرست مسلمان اپنے نبی ، اپنے رب اور اپنی مقدس کتاب کی توہین کا بدلہ لینے کے بجائے انتہائی بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گستاخ مولوی کے دفاع میں سرگرم ہوجاتا ہے۔گستاخ تو گستاخ ہوتا ہے چاہے کافر ہو یا مسلمان ۔آخر ایک گستاخ کافر کے لئے الگ پیمانہ اور ایک مسلمان گستاخ کے لئے الگ پیمانہ کیوں؟؟؟ جبکہ کچھ صورتوں میں کافر کے بجائے خود کو مسلمان کہنے والی کی گستاخی شدید تر ہوتی ہے۔کیا کبھی کسی فرقہ پرست مسلمان نے اپنے اس دوہرے معیار اور منافقت پر غوروفکر کیا ہے؟؟؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ ہم واقعی مسلمان ہیں یا پھر صرف دیوبندی ، بریلوی ،قادری ،چشتی ،سہروردی، نقشبندی، حنفی، شافعی ،مالکی ،حنبلی وغیرہ

اگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ کے متعلق صرف ائمہ محدیثین کی گواہی ہی نقل کردے تو حنفی حضرات اسے اپنے تئیں گستاخی سے تعبیر کرکے آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور مخالفین کو گستاخ کہتے انکی زبان نہیں تھکتی۔لیکن فقہ حنفی کی چھتری تلے چاہے صحابہ کرام کی کردار کشی کی جاتی رہے، نبی کریم ﷺ کی احادیث کا مذاق اڑا کر انہیں بے دردی سے مسترد کرکے اپنا سینہ ٹھنڈا کیا جاتارہے یا قرآن مجید کو نشانے پر رکھا ہوا ہو،ایک حنفی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔کسی کی گستاخی ہوتی ہے تو ہو لیکن حنفی اکابرین اور حنفی مذہب کی مذمت میں ان کی زبان خاموش رہے گی۔

فقہ حنفی کی معتبر کتاب سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی انتہائی توہین پر مبنی حنفی مذہب کا ایک مفتی بہا فتوی جو کہ مفتی تقی عثمانی دیوبندی نے اپنی کتاب فقہی مقالات،جلد چہارم میں نقل کیا ہے،اسلام اور قرآن سے محبت رکھنے والوں کی پرکھ و آزمائش کے لئے پیش خدمت ہے ۔اب معلوم ہوگا کہ کون مسلمان ہے اور کون صرف حنفی؟!
جو مسلمان ہوگا وہ اس توہین پر تڑپ اٹھے گا اور اس فتویٰ کی مذمت کرے گا اور جو حنفی ہوگا وہ یا تو خاموش رہنے میں بہتری جانے گا یہ پھر مغالطہ دے کر موضوع سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرے گا یا پھرباطل تاؤیلات کرنے کے لئے اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جائینگے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
’’السلام علیکم!
بہت عرصہ قبل مفتی تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات جلد چہارم کے حوالے سے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کے فتویٰ پر ایک مضمون تیار کیا تھا جسے ہمارے بھائی ابن آدم نے پاک نیٹ پر پیش کیا تھا پھر اس پر سہج اور ملنگ جیسے ہٹ دھرم دیوبندیوں سے بحث مباحثے کا آغاز ہوا۔ ان سے کوئی معقول جواب تو نہیں بن پڑا البتہ انہوں نے مغالطہ دینے کی خوب خوب کوشش کی جسے اللہ کی توفیق سے میں نے بے اثر کردیا۔ چونکہ یہ دیوبندی حضرات مفتی تقی عثمانی کے اس فتویٰ پر ایک ہی قسم کی باتیں کرتے ہیں تو میں نے ضروری سمجھا کہ ان کے اعتراضات اور اپنے جوابات یہاں پیش کردوں۔تو ملاحظہ فرمائیں پہلے مضمون پھر اس پر بحث ومباحثہ۔ ‘‘
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
یہ اس مضمون کا سہج صاحب کی جانب سے جواب ہے جبکہ یہ انکی اپنی کاوش نہیں بلکہ ملنگ دیوبندی کے اگلے ہوئے نوالے ہیں جسے سہج صاحب نے چبایا ہے۔ملاحظہ فرمائیں

آخر کار وہی گسا پٹا طریقہ اختیار کر ہی لیا گیا جو غیر مقلدین کا خاصا ھے ، کوئی بات نہیں جناب ابن آدم صاحب بے فکر رہیں جواب الحمداللہ پہلے بھی دیا جاچکا ،اور اب بھی دیا جائے گا ، اہل سنت والجماعت حنفی مزھب ھوا میں معلق نہیں مضبوط بنیادوں پر قائم ھے ، ابن آدم صاحب آپ کے لئے جوابی سوال بھی تیار رکھا ھے جو آپ کو اونٹھ کے پیشاب کو پینے اور نہانے پر مجبور کردے گا۔ (ایسے الفاظ آپ کو اب برداشت کرنے ہی پڑیں گے)

اور جناب اویسی صاحب آپ کو بھی یہی جواب ھے جو ابن آدم کو ھے ۔ اپنے مفتی کا بھی فتویٰ پڑھ لینا آخر میں اور جو اس نے کہا ھے اس کا جواب بھی دے دینا۔


 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
یہ سہج صاحب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔

دھوکے باز
مجھے حیرت ہے کہ مقلدین دھوکہ دہی اور کذب بیانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اب کیا کریں کہ بیچارے مجبور ہیں کیونکہ شیطانی ہتھکنڈوں کے علاوہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں جس سے یہ اپنے مذہب اور علماء سوء کا دفاع کرسکیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال یہاں بھی ہے کہ پہلے ہمارے ذمہ ایک ایسی بات لگائی گئی جس کے ہم قائل ہیں اور نہ ہی دعویدار ، پھر اس کے بعد اس من گھڑت بات کو بنیاد بنا کر اور اس پر کچھ دلائل فراہم کرکے ہمیں جھوٹا قرار دینے کی سعی کی۔اور اس پر متزادسہج صاحب کا یہ جھوٹا دعویٰ کے حنفی مذہب ہوا میں معلق نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ابھی آپ دیکھئے گا کہ یہ ٹھوس بنیادیں کسطرح کھوکھلی ہوکر حنفی مذہب کی عمارت کو زمین پر لے آئیں گی۔ان شاء اللہ

مان نہ مان میں تیرا مہمان​
کیا سہج صاحب ہمیں یہ بتانا پسند کرینگے کہ ہم نے یہ دعویٰ کہاں کیا ہے کہ مذکورہ فتویٰ تقی عثمانی صاحب کا ذاتی ہے؟! نہ تو یہ دعویٰ ہماری تحریر میں موجود ہے اور نہ ہی فقہی مقالات کے اسکین شدہ صفحات میں ایسی کوئی بات کہی گئی ہے۔ جب ہم نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا تو جواب میں تقی عثمانی صاحب کی وضاحت پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟! ہاں! مگر ایک ضرورت تھی وہ یہ کہ حنفی مذہب کے اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانی تھی۔ لیکن ہمیں افسوس ہے آپ اپنی اس کوشش میں نامراد رہے ہیں۔ اگر تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے اس مسئلہ کو پیش کرنے کی وجہ سے آپ نے یہ تصور کر لیا کہ ہم اسے تقی عثمانی صاحب کا ذاتی فتوی سمجھ رہے ہیں تو اپنی عقل شریف پر ماتم کیجئے۔ ہم نے تقی عثمانی کی کتاب سے اس مسئلہ کو صرف اور صرف اس لئے پیش کیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حنفیوں کہ مذہبی کتابوں میں موجود یہ گستاخانہ مسئلہ صرف گزرے ہوئےحنفی فقہاء تک ہی محدودتھا اورآج کا حنفی اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا قرآن کا ادب و احترام کل کے جاہل اور بے دین حنفی فقہاء میں تھا آج کا حنفی بھی اتنا ہی قرآن کا ’’احترام ’’کرنے والا ہے۔کیا کوئی حنفی اتنی بھی جراءت اپنے اندر نہیں رکھتا کہ غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ اقرار کر لے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں قرآن کے ’’احترام’’ میں موجود پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا مسئلہ گستاخانہ اور کافرانہ ہے!!!

کیا تقی عثمانی کی طرف اس فتویٰ کی نسبت واقعی غلط ہے؟
ہاں! البتہ اگر آپ اسکین شدہ اخبار ضرب حق کی مین ہیڈنگ پر نظر ڈالیں تو اخبار والوں نے ضرور اس فتویٰ کو تقی عثمانی صاحب کی طرف براہ راست منسوب کیا ہے اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو تقی عثمانی کی طرف اس فتوی ٰ کی نسبت غلط بھی نہیں کیونکہ تقی عثمانی صاحب نے صاحب ہدایہ کے فتویٰ کو نقل کرنے کے بعد اس پر کسی قسم کا رد یا اعتراض نہیں کیااس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب اس فتوے سے بالکل متفق اور اس پر راضی ہیں وگرنہ وہ ضرور اپنی کتاب میں اس فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے صاحب ہدایہ کے اس فتوے کو غلط ، توہین قرآن پر مبنی اور حرام وغیرہ قرار دیتے۔

تقی عثمانی کے اس فتویٰ کو اپنی کتاب میں درج کرنے کی اصل وجہ
تقی عثمانی صاحب نے اس مسئلہ میں اصلی حنفی مذہب کو بیان کرنے کے لئے اپنی کتاب میں صاحب ہدایہ کے حوالے سے یہ فتویٰ درج کیا ہے ۔یاد رہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا یہی فتویٰ حنفیوں کی معتبر کتاب فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ عالمگیری، البحرالرائق اور الرد المختارمیں بھی موجود ہے۔

تقی عثمانی صاحب کی تصنیف فقہی مقالات کئی جلدوں پر مشتمل ہے جس کی چوتھی جلد میں یہ متنازعہ اور شرمناک مسئلہ مفتی صاحب نے درج کیا ہے اور اس کتاب میں انداز یہ اپنایا ہے کہ پہلے ایک عنوان قائم کرتے ہیں اس کے بعد اس عنوان سے متعلق مذاہب اربعہ کا زکر کرتے ہیں۔اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۳۷ پر پہلے حرام اشیاء سے علاج کا حکم کا عنوان قائم کرتے ہیں اس کے بعد اس مسئلہ میں سب سے پہلے حنابلہ کا مذہب بیان کرتے ہیں اسکے بعد شوافع کا مذہب اور ان کی دلیل کا زکر کرنے کے بعد مالکی مذہب کی طرف آتے ہیں اور آخر میں احناف کے مذہب کو بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۴۲ پر لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں علماء احناف کے اقول مختلف ہیں یہاں مفتی صاحب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسئلے میں احناف کے اقوال اس قدر مختلف اور مخالف ہوتے ہیں کہ مسئلہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک فقہی کا رخ مشرق کی طرف تو دوسرے کا مغرب کی طرف تو تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف ہوتا ہے۔ اسی سے اندازہ کرلیں کہ حنفی فقہاء میں آپس ہی میں مسائل کے تعین میں کس قدر اختلاف ہے۔ تقی عثمانی صاحب اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تداوی بالمحرم یعنی حرام اشیاء سے علاج جائز نہیں۔ پھر صفحہ ۱۴۴پر اکثر مشائخ حنفیہ کا فتویٰ اور ان کے دلائل کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں کہ اکثر مشائخ حنفیہ نے حرام سے علاج کرنے کے جواز کا فتوی دیا ہے۔آگے چل کر لکھتے ہیں : اسی طرح صاحب ہدایہ نے تجنیس میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا کہ اگر کسی کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔اس سلسلے میں صفحہ ۱۴۷ پر تقی عثمانی صاحب اس مسئلہ میں حنفی مذہب بیان کرنے کے لئے فیصلہ کن بات لکھتے ہیں کہ: اوپر کی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ مشایخ حنفیہ نے تداوی بالمحرم کے جواز میں امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر فتوی دیا ہے۔

خصوصی نوٹ: تقی عثمانی صاحب نے اپنے وضاحتی بیان میں جو کہ روزنامہ اسلام ،۱۲ اگست،۲۰۰۴ میں شائع ہوا ،واضح الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا احناف کا اصل مسلک ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

صحیح مسلم شریف میں حدیث عرنیین کے تحت بند ے نے حرام چیزوں سے علاج (تداوی بالمحرم) کے موضو ع پر بھی ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں حنابلہ کا مسلک علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ کے الفاظ میں شافعیہ کا مذہب علامہ نووی رحمہ اللہ کے الفاظ میں اور مالکیہ کا مذہب علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے الفاظ میں نقل کرنے کے بعد پہلے حنفیہ کا اصل مسلک علامہ
سرخسی رحمہ اللہ اور علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔
( روزنامہ اسلام ،۱۲ اگست،۲۰۰۴ بحوالہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق مفتی تقی عثمانی کی وضاحت اور اصل حقیقت از ابو الاسجد ،صفحہ نمبر۲)

تقی عثمانی صاحب کے ان الفاظ پر غور کریں: حرام چیزوں سے علاج (تداوی بالمحرم) کے موضو ع پر بھی ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں۔ یعنی تقی عثمانی صاحب اعتراف فرمارہے ہیں کہ فقہی مقالات میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے اپنے خیالات یا فتوے نہیں ہیں بلکہ تمام ترمسائل خود ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں۔ اور پیشاب سے سورہ فاتحہ کا مسئلہ بھی احناف کی کتابوں سے خود انہی کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔

تقی عثمانی صاحب کی وضاحت سے ثابت ہوا کہ پیشاب اور خون سے سورہ فاتحہ لکھنا اصلی حنفی مذہب ہے اور حنفیوں کے ہاں اسی پر فتوی ہے۔ اب کوئی مقلد ہمیں بتائے کہ کیا اس سے بڑھکر بھی قرآن کی توہین اور گستاخی ممکن ہے؟ امریکی پادری کے قرآن جلانے کی مہم پر سیخ پا ہونے والے دوغلے حنفیوں کو فقہ حنفی کے آئینہ میں حنفیت کا مکروہ اور خبیث چہرہ دیکھنا چاہیے اور عیسائیوں سے پہلے اپنے علماء کی خبر لینا چاہیے جو عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی بد تر ہیں۔

مقلدوں کا دجل وفریب
سہج صاحب کا یہ فرمانا کہ تقی عثمانی صاحب نے لیکن یہ بات منقول نہیں لکھ کر اس فتوے کو خود ہی رد کردیا ہے ان کی خالص مقلدانہ کذب بیانی ہے۔ شاید یہ دوسروں کو بھی اپنی طرح اندھا مقلد اور جاہل سمجھتے ہیں جو ان کی ہر الٹی سیدھی اور جھوٹی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینگے۔ فقہی مقالات جلد چہارم کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر تقی عثمانی صاحب نے فقہ حنفی کی معتبر کتاب البحرالرائق سے اصل عبارت عربی میں پیش کی ہے اس کے بعد اس عبارت کا ترجمہ صفحہ نمبر ۱۴۶ پر پیش کیا ہے ۔ فقہی مقالات کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر موجود البحرالرائق کی اصل عبارت(اسکین صفحہ نیچے دیکھئے) یہ ہے:
وقد وقع الاختلاف بین مشائخنا فی التداوی بالمحرم، ففی النھایۃ عن الذخیرۃ الا ستشفا، بالحرام یجوز اذاعلم ان فیہ شفاء ولم یعلم دواء آخر اھ وفی فتاوی قاضیخان معذیاالی نصر بن سلام: معنی قول علیہ السلام: ان اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم، انما قال ذلک فی الاشیاء التی لایکون فیھا شفاء فاما اذاکان فیھا شفاء فلاباس بہ، الاتری ان العطشان یحل لہ شرب الخمر للضرور اھ وکذااختار صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: اذاسال الدم من انف انسان یکتب فاتحۃ الکتاب بالدم علی جبھتہ وانفہ یجوز ذلک للا ستشفاء والمعالجۃ ولو کتب بالبول ان علم ان فیہ شفاء لاباس بذلک لکنہ لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء الاتری ان لعطشان یجوزلہ شرب الخمر والجائع یحل لہ اکل المیتۃاھ (البحرالرائق ج۱ ص ۱۱۶)

اصل عبارت میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہلکنہ لم ینقل و ھذا یعنی لیکن یہ منقول نہیں کے الفاظ اصل میں علامہ ابن نجیم کی کتاب البحرالرائق کے ہیں۔ یہ تقی عثمانی صاحب کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب میں صرف ان الفاظ کا ترجمہ کیا ہے۔

اس کا مزید ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صاحب ہدایہ کی یہی عبارت فقہ حنفی کی معتبر اور مشہور کتاب الرد المحتار میں بھی نقل ہوئی ہے۔
وکذااختارہ صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: لو رعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جبھتہ واٗنفہ جاز للا ستشفاء وبالبول اٗ یضاان علم فیہ شفاء لاباٗس بہ: لکن لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء کحل الخمر والمتیۃ للعطشان والجائع اھ من البحر۔ واٗ فاد سیدی عبدالغنی اٗ نہ لا یظھر الا ختلاف فی کلامھم لا تفامھم علی الجواز للضرورۃ، (الرد المحتار ج۱ ص۲۱۰ مطبور ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
ترجمہ: اسی طرح صاحب الھدایہ نے التجنیس میں اسی مسئلے کو اختیار کیا ہے پس کہا کہ اگر کسی کی نکسیر پھوٹے تو وہ سورہ فاتحہ خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر لکھے تو شفاء حاصل کرنے کے لئے یہ جائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس میں میرے لئے شفاء ہے تو پیشاب سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن یہ بات منقول نہیں اور وجہ اس کے (جائز کہنے کی) یہ ہے کہ شفاء حاصل کرنے کے لئے حرمت ساقط ہوجاتی ہے جیسے پیاسے کے لئے شراب پینا اور بھوکے کیلئے مردار کھانا۔ میرے سید عبدالغنی نے یہ افادہ فرمایا کہ ضرورت کے وقت اسکے جواز پر ان (فقہاء) کے اتفاق ہونے کی وجہ سے ان کی اس بات میں اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔

دیکھا آ پ نے الرد المحتار کی اس حوالے میں بھی لکن لم ینقل و ھذا یعنی لیکن یہ منقول نہیں کے الفاظ ہیں۔ لیکن یہ الفاظ تقی عثمانی کے نہیں بلکہ صاحب ہدایہ کے ہیں۔ مقلدوں کو ایسے واضح جھوٹ بولتے ہوئے ،دن دھاڑے دھوکہ دہی کرتے ہوئے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ لیکن ! شرم تم کو مگر نہیں آتی


لیکن یہ بات منقول نہیں کی وضاحت
صاحب ہدایہ کی پوری عبارت پڑھنے سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ لیکن یہ منقول نہیں کا ہرگز وہ مطلب نہیں جو سہج صاحب زبردستی ان الفاظ سے کشید کرنا چاہ رہے ہیں۔کیا اس عبارت کا یہ خودساختہ مطلب صرف سہج صاحب ہی پر منکشف ہوا ہے یا کسی معتبر حنفی عالم یا فقہی نے بھی اس جملے(لیکن یہ منقول نہیں کا) وہی مطلب لیا ہے جو سہج صاحب بیان فرمارہے ہیں۔ چونکہ حنفی مذہب میں سہج صاحب کی ٹکے کی بھی حیثیت نہیں ہے اسلئے ہم ان کی بات ماننے سے قاصر ہیں۔ہاں! اگر وہ اپنے کسی معتبر عالم خاص طور پر صاحب ہدایہ سے یا معتبر کتاب سے یہ مطلب بیان کردیں تو ہمارے لئے قابل قبول ہوگا ۔

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں : اگر کسی انسان کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔ یہاں تک تو بات مکمل ہوگئی اب دوسری بات شروع ہوتی ہے: اور اگر پیشاب سے لکھے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر میرے لئے شفاء ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بات منقول نہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔ اب بات الحمد اللہ واضح ہوگئی ہے کہ صاحب ہدایہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بات منقول نہیں یعنی کسی معتبر حنفی کتاب میں نقل نہیں ہوئی کے کوئی شخص پیشاب سے سورہ فاتحہ اس وقت لکھے گا جب اسکو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر اس کے لئے شفاء ہے۔ اور آگے یہ لکھ کرنجاست یعنی پیشاب وغیرہ سے قرآن لکھنے کو جائز قرار دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت صاحب ہدایہ کے نزدیک حرام چیز بھی حلال ہوجاتی ہے اس لئے یہ منقول ہونا ضروری نہیں حصول شفاء کے لئے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھتے وقت اس شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اندر اسکے لئے شفاء ہے۔ بلکہ خون اور پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھتے وقت چاہے اسے معلوم ہو کہ اس کے اندر اس کے لئے شفاء ہے یا معلوم نہ ہو ہر صورت میں یہ عمل جائز ہے کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے یہ تمام تر وضاحت میری زاتی ہے اس لئے میں اپنے موقف کی تائید میں تقی عثمانی صاحب کی عبارت پیش کررہاہوں۔ فقہی مقالات کے صفحہ نمبر ۱۴۶ پرتقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: زخیرہ سے یہ منقول ہے کہ حرام سے شفاء حاصل کرنا جائز ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر شفاء ہے۔ اصل میں بعض حنفی مشائخ حرام اشیاء یعنی خون اور پیشاب وغیر ہ سے سورہ فاتحہ لکھنے سے علاج پر یہ شرط لگاتے ہیں کہ یہ اس وقت کیا جائے جب شفاء کے حصول کا علم ہو۔ لیکن جن علماء کی رائے پر حنفی مذہب کی بنیاد ہے یعنی امام سرخسی اور علامہ ابن نجیم وغیر ہ وہ اس شرط کو نہیں مانتے چناچہ صفحہ ۱۴۷ پر تقی عثمانی بطور اقرار لکھتے ہیں کہ امام سرخسی اور علامہ ابن نجیم رحمتہ اللہ علیھما کی نقل کردہ عبارات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کسی شرط کے بغیر مطلق تداوی بالمحرم جائز ہے۔
صاحب ہدایہ کے یہ الفاظ : لیکن یہ بات منقول نہیں جسے علامہ ابن نجیم نے البحرالرائق میں بطور رضامندی اور بطور حنفی مذہب نقل کیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرط کہ اسی وقت پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھی جائے جب شفاء کے حصول کا یقین ہو یہ بات کسی معتبر حنفی کتاب میں منقول نہیں اسی لئے کسی شرط کے بغیر حرام اشیا ء سے علاج جائز ہے چاہے وہ پیشاب ہو یا خون کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب کی وضاحت کی اصل حقیقت
تقی عثمانی صاحب نے بھرپور منافقت سے کام لیتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ جب مفتی صاحب خودیہ تسلیم کرچکے ہیں کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا اصلی حنفی مذہب ہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں حنفی مذہب ہی کو بیان کیا ہے پھر اس سے انکار کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا وہ خود حنفی مذہب کو چھوڑ چکے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ دوغلی پالیسی کیوں؟

بطور فائدہ یہ عرض ہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا جوازمستند ترین حنفی علماء سے منقول ہے اور انتہائی معتبر حنفی کتابوں میں درج ہے ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ امام فخرالدین حسن بن منصور المتوفی ۲۹۵ھ بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۲۔ ابوبکر الاسکاف بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۳۔ صاحب الھدایہ علی بن ابی بکر المتوفی ۵۹۳ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۴۔ ابن نجیم الحنفی المتوفی ۹۸۰ ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۵۔ علامہ ابن عابدین الشامی کے استاد عبدالغنی بحوالہ الرد المحتار
۶۔ علامہ ابن عابدین الشامی المتوفی ۱۲۵۲ھ بحوالہ الرد المحتار
۷۔ الشیخ نظام و جماعت علماء ھندوستان ۱۱۰۰ھ بحوالہ فتاویٰ عالمگیریہ

دیوبندیوں کے وکیل احناف، مناظر اسلام جناب امین اوکاڑوی صاحب کے سامنے جب کسی صاحب کا فقہ حنفی کے مسئلے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق اعتراض سامنے آیا تو جناب انتہائی برہم ہوئے اور یوں جواب دیا: آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں خون پاک ہے، منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں۔ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچوں کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن میں منع ہے نہ حدیث سے (مجموعہ رسائل ج۱ ص ۴۶۰، تصیح شدہ جدید ایڈیشن مطبوعہ ادارہ خدام احناف لاہور)

لیں جی! دیوبندیوں کے وکیل احناف اور مناظر اسلام نے فیصلہ سنا دیا ہے انسانی اور حیوانی پیشاب پاک ہے اسلئے ان سے قرآن لکھنا جائز ہے۔ اور اس عمل کا منع نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ اب تقی عثمانی پہلے اپنے اس نام نہاد عالم کے فتوی اور اس میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیں اور اگر مفتی تقی عثمانی صاحب پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کو غلط سمجھتے ہیں تو امین اوکاڑوی کے اعتراض کے مطابق سب سے پہلے قرآن کی وہ آیت پیش کریں اور وہ حدیث جس میں منع آیا ہو۔ ورنہ مفتی صاحب کا حنفی ہوکر اس مسئلہ سے انکار کرنا محض فریب ، دھوکہ اور دوغلاپن ہے کیونکہ حنفی مذہب کا مفتی بہا مسئلہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا ہے جسے معتبر حنفی علماء نے تسلیم کیا ہے اور دیوبندیوں کے مناظر اسلام کا بھی یہی فتوی ہے کہ یہ عمل جائز ہے۔ اب یا تو تقی عثمانی صاحب اس گندے حنفی مذہب کو چھوڑ دیں جس میں پیشاب سے قرآن کی توہین کی جاتی ہے یا پھر اپنے دوغلے پن سے بازآجائیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
الحمداللہ پاک نیٹ پر جب سہج صاحب کو ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا تو وہ خود تو کوئی جواب نہ دے سکے لیکن انہوں نے ملنگ صاحب کو وہاں جواب دینے کے لئے انوائیٹ کرلیا۔ یہ جواب جو میں پیش کر رہا ہوں یہ ملنگ صاحب کے اعتراضات کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے۔

شاہد نذیر صاحب ایک متعصب اور کٹر قسم کے غیر مقلد ہیں۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو دیکھ کر میں سوچتا ہوںکہ "یار بندہ 25 سال کا ہو گیا ، عقل داڑھ بھی نکل إٓی ہو گی لیکن عقل ، بات کرنے کی تمیز پھر بھی نہیں آی۔" انکے تعصب کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انکے پاس وہ زرایع موجود ہیں کہ یہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی فقہی مقالات کا مطالعہ کر لین ہو سکتا ہے انہوں نے کیا بھی ہو لیکن اپنی مولویوں کی اندھی تقلید میں انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔

بہرحال جس طرح کچھ معملات کی احادیث میں تعارض ہوتا ہے اسی طرح فقہ حنفیہ میں بھی ضعیف اور صحیح اقوال وغیرہ ہوتے ہیں مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 142 پر لکھا ہے کہ "اس مسلہ میں علمائ احناف کے مختلف اقوال ہیں " اور پھر صرف مبسوط سرخسی اور بحر الرإئق کا حوالہ دیا جن میں بھی یہ بحث ہے اور وہاں بھی لکھا ہے کہ اگر طبیب یہ کہے کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز سے علاج ممکن نہیں تو اس اصول کے تحت کہ ضرورت کے وقت مردار جانور اور شراب حلال ہو جاتی ہے علاج کیا جا سکتا ہے ۔ اسکے بعد مفتی صاحب نے صفحہ 147 سے 151 تک وہ دلإل جمع کیے ہیںجو احناف کے مفتیٰ بہ قول یعنی حرام کے ذریعے علاج جإئز نہیں پر دال ہیں ۔ بہرحال امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر مریص مر بھی رہا ہو تو اسکا علاج حرام کے ذریعے نہیںکیا جاے گا ۔ شاہد نذیر صاحب سے ساتھی اتنی دیر سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ بتاو اس بارے میںکہ اگر کوی اور صورت نہ رہے ۔۔ لیکن شاہد نذیر صاحب جواب نہیں دے رہے ۔

آج پاکستان میں بہت سے دواوں میں شراب اور پتا نہیںکیا کیا حرام چیزیں استعمال ہو رہی ہیں لیکن شاہد نذیر صاحب اور انکے ملاوں نے ایک لسٹ بھی تیار نہیںکی ہو گی کہ یہ دوائیں حرام ہیں۔ کیونکہ انکو بغض صرف فقہ حنفیہ سے ہے ۔ اور اسی کو دوغلا پن بھی کہتے ہیں ۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے کہا فقہ حنیفہ کی کتاب جسکو مفتی فتویٰ دینے سے پہلے سامنے رکھتا ہے اس میںواضح لکھا ہوا ہے کہ علامہ حادی قدسی فرماتے ہیں

حتیٰ یخشی علیہ الموت وقد علم انہ لو کتب فاتحہ الکتاب او لا خلاص بذالک الدم علی جبھتۃ ینقطع فلا یرخص فیہ کہ یعنی اگر نکسیر والے کو موت کا خطرہ بھی ہو اور اسے کسی ذریعہ سے اس بات کا یقین بھی ہو کہ اگر نکسیر کے خون سے اس کی پیشانی پر سورۃ فاتحہ یا اخلاص لکھی جاے تو نکسیر ختم ہو جاے گی اور جان بچ جاے گی پھر بھی خون کے ساتھ لکھنے کی اجازت نہیں ۔

اس عبارت سے پتا چلا کہ جب شامی میںصراحتا اس بات کی اجازت نہیںتو جاہل غیر مقلدین کا فقہ حنفیہ کے چند ضعیف اقوال کو بنیاد بنا کر شوشہ چھوڑنا انکی خائن ، اور بغض و عناد کی دلیل ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ملنگ کی دلیرانہ کذب بیانیاں

ملنگ صاحب آپ کی اور آپ کے ہم مسلک مولویوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ اپنے اکابرین و علماء سوء کے دفاع میں بے دریغ جھوٹ بولتے ہیں پھر جب کوئی انکا جھوٹ ثابت کردے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور اپنے حق پر ہونے کا شور مچانے والے ایسے ہوجاتے ہیں جیسے نہ کچھ پڑھا نہ کچھ سنا۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پوسٹ نمبر 361 پر میں نے مقلدوں کا دجل و فریب کے عنوان سے آپ کے صریح جھوٹ کا پول کھول دیا لیکن جواب میں سہج صاحب اور آپ اس اعتراض کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے پھر پوسٹ نمبر 384 پرایک مرتبہ پھر اس جانب آپ لوگوں کی توجہ دلوائی گئی لیکن نہ تو آپ نے اپنے جھوٹے ہونے کا کوئی اعتراف کیا اور نہ ہی اپنے سفید جھوٹ پر کوئی دلیل پیش کی۔ اب میں ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ آپ نے جو دعویٰ کیا تھاجو کہ پوسٹ نمبر 319 پر سہج صاحب نے آپ کی اندھی تقلید میں بغیر پڑھے اور بغیر سمجھے پوسٹ کردیا۔اس میں آپ نے پہلے یہ کہا کہ مجھے غیر مقلدوں کی عقلوں پر ہنسی آرہی ہے پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت(تقی عثمانی) نے یہ منقول نہیں لکھ کر خود ہی اس بات کو کلیر کر دیا۔ لیکن الحمداللہ میں نے فقہی مقالات کے اصل صفحات کے اسکین پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اصل میں یہ منقول نہیں تقی عثمانی صاحب کے الفاظ نہیں بلکہ صاحب ہدایہ کے الفاظ ہیں اور یہ ملنگ اور اس کے چیلوں کی خالص مقلدانہ کذب بیانی ہے جس سے وہ اپنے اکابرین کی طرف وقتاً فوقتاً کام لیتے رہتے ہیں۔ اب یا تو آپ اپنے کذاب اور دجال ہونے کا اعتراف کرلو یا پھر اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرو۔

جیسا گرو ،ویسا چیلا
ملنگ صاحب چونکہ امین اوکاڑوی کے روحانی شاگرد ہیں اسلئے انھوں نے بھی جھوٹ ہی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ شاید یہ بھی اپنے روحانی استاد کے جیسے انجام کے خواہاں ہیں۔ملنگ صاحب نے انتہائی دیدہ دلیری سے ایک مرتبہ پھر کذب بیانی سے کام لے کر اپنے اور اپنے روحانی استاد کے استاد یعنی شیطان لعین کی شاگردی کا حق ادا کردیا ہے۔ ملنگ صاحب کے اس دعویٰ کو دیکھئے:


اس کے بعد مفتی صاحب نے صفحہ 147 سے 151 تک وہ دلائل جمع کیے ہیں جو احناف کے مفتیٰ بہ قول یعنی حرام کے زریعے علاج جائز نہیں پر دال ہیں۔

اسی جھوٹے ملنگی دعوے کی برعکس تقی عثمانی صاحب فقہی مقالات جلد چہارم پر یہ وضاحت کرنے کے بعد تداوی بالمحرم کے مسئلہ میں حنفی فقہاء کا اختلاف واقع ہوا ہے احناف کے مفتیٰ بہ قول کی اکثر مشائخ حنفیہ کا فتویٰ اور ان کے دلائل کا عنوان لگا کر اس طرح وضاحت کرتے ہیں: لیکن اکثر مشائخ حنفیہ نے حرام سے علاج کرنے کے جوازکا فتوی دیا ہے۔( فقہی مقالات ص144) مفتی صاحب اس بحث کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر حنفی مذہب کے مفتی ٰ بہ مسئلہ کاان الفاظ میں اعادہ فرماتے ہیں: اوپر کی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ مشائخ حنفیہ نے تداوی بالمحرم کے جواز میں امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر فتوی دیا ہے۔( فقہی مقالات ص147)

مجھے حیرت ہے کہ کس جرات سے ملنگ صاحب نے یہ جھوٹ گھڑ لیا کہ حنفی فقہاء حرام سے علاج جائز نہیں کے قائل ہیں جبکہ تقی عثمانی صاحب کی فقہی مقالات تو اس کے برعکس کہانی سنا رہی ہے کیا تقی عثمانی صاحب نے اپنی اس کتاب میں کہیں لکھا ہے کہ حرام اشیاء سے علاج کا ناجائز ہونا حنفی مذہب کا مفتیٰ بہ قول ہے اگر لکھا ہے تو برائے مہربانی ہمیں دکھا دیں ۔ ملنگ صاحب نے شاید اسلئے اتنی بہادری سے جھوٹ بول دیا کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا مخاطب بھی اور دوسرے پڑھنے والے بھی سب کے سب امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ ان کا مخاطب مقلد یعنی جاہل اور اندھا نہیں۔ الحمداللہ ایک مرتبہ پھر ملنگ صاحب اپنے چیلوں اور استاد سمیت دجال ثابت ہوئے ہیں۔

ڈھول کا پول​
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ امام ابوحنیفہ تداوی بالمحرم یعنی حرام اشیاء سے علاج کے قائل نہیں ہیں جیسا کہ تقی عثمانی صاحب نے فقہی مقالات کے صفحہ 142 پر یہ وضاحت کی ہے۔لیکن نام نہاد حنفی مقلدین جو کہ دن رات ابوحنیفہ کی تقلید کا بے سرا راگ الاپتے ہیں اس مسئلہ میں اپنے امام اعظم کی رائے ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ان کے شاگرد ابویوسف جو کہ حرام اشیاء سے علاج کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی مانتے ہیں۔ مانا کہ دیوبندی اور بریلوی حضرات عقائد میں ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے امام اعظم خراب اور بد عقیدے والے تھے لیکن مسائل میں تو ان کی تقلید کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی یہاں جھوٹا ثابت ہورہا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے امام اعظم کے مسائل کو بھی جوتی کی نوک پر رکھ کرٹھکرادیا ہے اور ان کے بجائے ان کے شاگرد ابویوسف کا مسئلہ مان لیا ہے جوکہ ان کے امام اعظم کے فتوی کے خلاف ہے۔ ثابت ہوا کہ دیوبندی اور بریلوی حضرات امام ابوحنیفہ کی مسائل میں تقلید کے دعوے میں بھی جھوٹے ہیں اور یہ کبھی ابوحنیفہ کے خلاف ابویوسف کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور کبھی امام محمد کے قول پر فتوی دیتے ہیں اور کبھی امام زفر کی بات امام ابوحنیفہ کے مقابلے پر مانتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دیوبندی اور بریلوی نہ تو امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اور نہ ابویوسف، امام محمداور امام زفر کے بلکہ یہ نفسانی خواہشات کے پجاری اور شیطان کے مقلد ہیں۔

ملنگ صاحب کے منہ پر ایک اور زلت آمیز طمانچہ
تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب فقہی مقالات جلد چہارم صفحہ 151 پر رقمطراز ہیں: جوحضرات فقہاء تداوی بالمحرم کے جواز کے قائل ہیں وہ مندرجہ بالا احادیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ احادیث اور آثار حالت اختیار پر محمول ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں کہ وہ احادیث جو حرام سے علاج کے ممنوع ہونے پر نص ہیں حنفی فقہاء انہیں ماننے کے بجائے ا ن کا جواب دیتے ہیں اور حرام سے علاج کے قائل ہیں اس کے بعد تقی عثمانی صاحب ان دیوبندی اکابرین کا نام لکھتے ہیں جو خود بھی تداوی بالمحرم کے قائل ہیں اور وہ بھی ان احادیث کا جو حرام سے علاج کے ناجائز ہونے پر دال ہیں وہی جواب اختیار کرتے ہیں جو جواب ان کے اکابرین دیتے ہیں۔ ان دیوبندی اکابرین کے نام درج زیل ہیں:

۱۔ علامہ عینی حنفی
۲۔ انور شاہ کشمیری
۳۔ خلیل احمد سہانپوری
۴۔ علامہ محمد یوسف بنوری
۵۔ شیخ محمد یوسف کاندھلوی

کیا ان ناقابل تردید اور واضح ترین دلائل کے بعد بھی کوئی دجال یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ حنفی حضرات حرام سے علاج کو ناجائز سمجھتے ہیں؟؟؟؟!!!

جھوٹا کون؟
یہ تو ہوئی ملنگ صاحب کی دو صریح کذب بیانیوں کی حقیقت۔ اس کے علاوہ میری پوسٹ 384 کا کوئی جواب ابھی تک مجھے موصو ل نہیں ہوا۔ ایک طرف تو تقی عثمانی صاحب پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کو حرام کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف انکے وکیل احناف امین اوکاڑوی صاحب پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کے مسئلہ کا دفاع فرمارہے ہیں۔ اب ملنگ صاحب بتادیں ان دونوں میں سے کون حنفی مذہب کو بیان کررہا ہے اور کون اس کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ کیونکہ ایک ہی وقت میں دونوں تو سچے نہیں ہوسکتے یقیناً یا تو تقی عثمانی صاحب جھوٹے ہیں یا امین اوکاڑوی صاحب۔ ملنگ صاحب فیصلہ کر کے بتادیں کہ دونوں میں سے کون جھوٹا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
ویری نائس شاہد نزیر بھائی،بہت ہی فکر آموز لکھتے ہیں آپ۔اللہ آپ کو باطل کو مٹانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کی موت نصیب فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
 
Top