• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مساجد کے اماموں کی اجرت اور فضل الرحمٰن کا ردعمل

ابو داؤد

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
795
ری ایکشن اسکور
219
پوائنٹ
111
مساجد کے اماموں کی اجرت اور فضل الرحمٰن کا ردعمل

از قلم : مفتی اعظم حفظہ اللہ

پنجاب حکومت نے مساجد کے اماموں کو دس ہزار ماہانہ وظیفہ دینے کا اعلان کیا تو اچانک مولانا فضل الرحمن بھڑک اٹھا اور اس نے کہا "میں تمام مسالک اور تمام مدارس کے نمائندے کی حیثیت سے یہ دس ہزار تمھارے منہ پر مارتا ہوں"

جس کے بعد پنجاب حکومت نے یہ رقم دس ہزار سے بڑھا کر پچیس ہزار کر دی تو مولانا نے کہا میں پچیس ہزار بھی تمھارے منہ پر مارتا ہوں!

اب اس بات پر لوگوں کو حیرت ہو رہی کہ آخر مولانا کو اس بات پر اتنا سخت غصہ کیوں آیا ہوا ہے کہ اپنی دیرینہ دوست مریم نواز کو ایسی سخت زبان میں سنا دی!

خود مسلم لیگ ن والے بھی حیران ہیں کہ مولانا کو کیا ہوگیا ہے!

کچھ لوگ کہہ رہے کہ مولانا کو سیٹ نہ ملنے پر شکایت ہے کچھ کہہ رہے کہ وہ اپنی دیرینہ کشمیر کمیٹی کی چئیرمین شپ مانگ رہے عرض ہر کوئی اپنے اندازے لگا رہا ہے۔

لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کو مولویوں کی اندرونی سیاست مافیا بازی اور مولانا کی خباثت و غلاظت اور شاطر مزاجی کا علم نہیں ہے اس لئے ان کو مولانا کے غصے سے حیرت ہو رہی ہے۔

مولانا نہ تو کسی وزارت کی وجہ سے گرج رہے ہیں نہ کشمیر کمیٹی یا کسی اور وجہ سے بلکہ مولانا کو اس بات پر غصہ ہے کہ حکومت ان غریب مولویوں کو پچیس ہزار دے کر میرے ہاتھ سے نکال دے گی۔

پچیس ہزار ایک امام مسجد کے لئے بہت بڑی چیز ہے اس کو اگر اس کی اپنی تنخواہ سے ملایا جائے تو اس کے لئے کافی ریلیف ہے اس لئے مولانا کو لگتا ہے کہ اس طرح حکومت ان مولویوں پر حاوی ہوجائے گی اور یہ پھر حکومت کے تابعدار ہوجائیں گے اور مولانا نے اس کا اظہار بھی کیا اور جلالی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا "آپ علماء کو خریدنا چاہتے ہیں ؟"

اب یہاں تک تو بات صاف ہوگئی کہ مولانا اس لئے غصے میں ہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ حکومت ان پچیس ہزار سے علماء کو خریدنا چاہتی ہے لیکن اصل بات اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔

مولانا کو حکومت کی جانب سے ان علماء کو پچیس ہزار میں خریدنے پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا اس لئے کہ پھر یہ علماء حق نہیں بول سکیں گے؟ تو وہ اب کونسا کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں یا ایسا حق بول رہے جس سے حکومت کی جڑیں ہل ری ہیں؟ کیا مولانا کو یہ اعتراض ہے کہ اس طرح حکومت مستقبل میں ان علماء کو سرکاری خطبے دے گی پڑھنے کےلئے؟ تو یہ علماء و خطیب اب کونسا جہادی خطبے پڑھ رہے ہیں؟ وہی عبادات اور گذری امتوں کے واقعات کے متعلق رٹی رٹائی باتیں ہی تو کرتے ہیں۔

تو پھر مولانا کو کیوں غصہ ہے؟ تو جناب مولانا کو اصل غصہ اس بات پر ہے کہ یہ علماء یہ خطیب یہ امام مساجد یہ مہتمم و اساتذہ اور ان کے طلباء اس کے جنگی مرغے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی سیاست کی کشتی لڑ رہا ہے اور یہ اس کی بھگی میں بندھے وہ گدھے ہیں جن کی مدد سے مولانا کی بھگی پارلیمنٹ اور وزارتوں تک پہنچتی ہے یہی مولانا کے وہ اندھے بہرے یودھا ہیں جن کے ذریعے مولانا حکومتوں کو دھمکاتا اور دھمکا کر اپنے اور اپنے بھائیوں اور بیٹے کےلئے وزارتیں مراعات پروٹوکول اور رقبے حاصل کرتا ہے اگر یہ نہ ہوتے تو مولانا کو کوئی ملک میں گھاس بھی نہیں ڈالتا اور آج وہ بھی پچیس ہزار پر ڈیرہ اسماعیل خان کے گاوں عبدل خیل میں پڑھا رہا ہوتا تو ان علماء کو خریدنا دراصل مولانا کے پنجرے سے جنگی بٹیر آزاد کرنا اور اس کے اصطبل سے اس کی سواری کے خچر لے کر جانا ہے اور یہ مولانا ہر گز نہیں ہونے دے گا۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مولانا اس بات پر بھڑکیں ہیں بلکہ جب بھی مولویوں کو کسی قسم کی مراعات کا ذکر ہوتا مولانا استینیں چڑھا کر میدان میں اجاتا اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے اس سے باز رہنے کی دھمکیاں دیتا اور جب دھمکیوں سے کام نہیں بنتا تو پھر دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے خود حکمرانوں سے بند کمروں میں ملاقاتیں کر کے کچھ بلیک میلنگ اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر یہ مراعات رکوا دیتا ہے۔

اور ایسا کرنا اس کےلئے اس لئے ضروری ہے کہ اگر وہ یہ نہ کرے تو گویا اس نے سیاسی خودکشی کر لی اور خود اپنی انکھوں سے اپنی سیاسی موت کو دیکھ کر قبول کر لیا۔

مولانا کے پاس یہ مولوی یہ مدارس یہ ان کے اساتذہ و طلباء نہ ہوں تو پیچھے بچتا کون ہے عوام تو اس سے نتھن یاھو سے بھی زیادہ نفرت کرتی ہے اور کسی عام ٹرک ڈرائیور سے لے کر کسی یونیورسٹی کے پروفیسر تک کسی کے بھی سامنے اس کا نام لو تو ڈیزل کہہ کر نان سٹاپ گالیاں نکالنا شروع ہوجاتا ہے۔

اس لئے مولانا کے پاس صرف دو ہتھیار بچے ہیں سیاست میں ان رہنے کےلئے جن میں سے 90 فیصد یہ مولوی ہیں جبکہ باقی 10 فیصد بلوچستان یا شمالی وزیرستان کے دور دراز علاقوں کے وہ پشتون ہیں جو دنیا سے آج بھی تین سو سال پیچھے ہیں اور اب بھی جہالت کے تہ درتہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

آپ مولانا کے کسی بھی جلسے میں چلے جائیں آپ کو وہاں موجود تمام افراد مدارس کے ملیں گے جن کو ان کے اساتذہ اور مہتمم پکڑ کر لائے ہوں گے یا پھر وہ عوام جو کسی مولوی کا کزن دوست یا رشتے دار ہو جس کو مولوی نے بہت مشکل سے جلسے میں انے پر راضی کیا ہوگا۔

تو اس لئے اگر ان مولیوں کو پچیس ہزار ماہانہ بیٹھے بٹھائے اکاونٹ میں انے لگے تو کل کو وہ حکومت کے حکم پر جلسے میں انے سے انکار بھی کر سکتے ہیں اور مولانا کو کہہ بھی سکتے ہیں کہ بھائی آپ نے اج تک مجھے ایک ہزار بھی نہیں دئے اور یہ پچیس ہزار دے رہے تو کس خوشی میں آپ کا حکم مانوں اور بسوں میں دھکے کھا کر آپ کو یا آپ کے بھائیوں کو سیٹیں اور وزارتیں دلانے کےلئے خوار ہوتا رہوں؟

تو یہ ہے اصل بات کہ مولانا نہ تو یہ برداشت کر سکتا ہے کہ ان مولویوں کو حکومت خریدے نہ یہ برداشت کر سکتا ہے کہ ان کو کوئی مسلح جدوجہد کی طرف لے جائے نہ یہ برداشت کر سکتا ہے کہ ان کو کوئی جدید دنیا سے روشناس کرائے یا ان کو کچھ ہنر یا عصری علوم سکھا کر معاشرے میں خودکفیل اور بااختیار بنائے یا ان کو سوچنے سمجھنے کی طرف مائل کرے۔

اس لئے جب کوئی ان مولویوں کو جہاد کی دعوت دیتا ہے تو مولونا آنکھیں پھیلا کر خوارج - خوارج کرنے لگتا اور مولویوں کو دھمکاتا ہے کہ خبردار میں تم سے ہاتھ اٹھا لوں گا کہ یہ خوارج ہیں اور پھر ریاست تمھارا بہت برا حشر کرے گی۔

اور جب کوئی ان مولویوں کو مراعات دینا چاہتا تو مولونا ایک بار پھر منہ سے جھاگ نکال کر کہتا ہے "تم علماء کو خریدنا چاہتے ہو ؟"

اور جب کوئی ان علماء کو اس ذہنی پسماندگی سے نکالنے کےلئے نصاب میں تبدیلی کی بات کرتا تو پھر سے مولانا آستینیں چڑھا کر کہتا "مدارس کو سیکولر بنانا چاہتے ہو؟"

جی ہاں مولانا ہر گز ان مولویوں کو نہ تو کسی اور کے ساتھ شامل ہونے دے گا نہ خودکفیل ہونے کی اور نہ سوچنے سمجھنے یا سوال اٹھانے کی اجازت دے گا اور ان کو اسی طرح اپنے سیاہ سفید زیبرا کلر کی جیل میں قید رکھے گا جب چاہے گا ان کو استعمال کر کے اپنے خاندان کےلئے سیٹیں حاصل کرے گا جب چاہے گا ان کے ذریعے حکومتوں کو دھمکا کر وزارتیں ہڑپ کرے گا مولوی اسی مسجد والی تنخواہ پر چندے خیرات کھا کر گذارہ کرے گا اور مولانا فضل الرحمن اس کے بھائی اور بیٹے پولیس گارڈز، سرکاری بلٹ پروف گاڑیوں، شاندار پروٹوکول، پارلیمنٹ لاجز کے بنگلوں عالی، شان ہوٹلوں اور مختلف ممالک کے دوروں میں اسلام کی خدمت کرتے رہیں گے اور جس مولوی کے دم پر وہ یہ سب حاصل کرتے ہیں اس کو کسی نے پچیس ہزار بھی دینے کا اعلان کیا تو مولانا گرج پڑے گا "تم علماء کو خریدنا چاہتے ہو ؟"
 
Top