• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسبل کا وضوء

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔

ایک حدیث ہے کہ:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، ثُمَّ قَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ فَقَالَ : إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ " .

(سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الْإِسْبَالِ فِي الصَّلَاةِ) وضعَفه الألباني في ضعيف سنن أبي داود برقم (124) .


مختصر یہ ھے کہ اس حدیث کے متابق جس کی شلوار ٹخنوں سے نیچے ھوتی ھے اس کا وضوء ناقص ھے۔

شیخ البانی نے اس حدیث کو دو وجوہات کی بنا پر ضعیف قرار دیا ھے۔

1) اس کا راوی "ابو جعفر الانصاری" مجھول ھے، جو کہ بالکل صحیح بات ھے۔

2) دورسری یہ کے، اس کا راوی "یحیی بن ابی کثیر" مدلس راوی ھے، اور "عن" سے روایت کرتا ھے۔


لیکن اس حدیث کا ایک حسن شاھد بھی موجود ھے، جس کی وجہ سے یہ حدیث بھی حسن لغیرہ بن جاتی ھے۔

السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ الْحَيْضِ » جُمَّاعُ أَبْوَابِ لُبْسِ الْمُصَلِّي » بَابُ مَنْ جَمَعَ ثَوْبَهُ بِيَدِهِ كَرَاهِيَةَ أَنْ ...
میں ھے کہ:

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ ، ثنا ابْنُ رَجَاءٍ ، ثنا حَرْبٌ ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ الْمَدَنِيَّ حَدَّثَهُ , أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ ، حَدَّثَهُ : أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ ، قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَعَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ " فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ عَادَ يُصَلِّي ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ " ، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا شَأْنُكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ ! ، فَقَالَ : " إِنِّي إِنَّمَا أَمَرْتُهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ إِنَّهُ كَانَ مُسْبِلا إِزَارَهُ ، وَلا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ "

اس حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ھیں، اور یحیی بن ابی کثیر نے بھی سماع کی تصریح کر دی ھے۔ اور اس میں موجود راوی "ابو جعفر الانصاری" جو کے مجھول تھا، نھی ھے، بلکہ اس کی جگہ "ابو جعفر المدینی" ھے جو کےجمہور کہ متابق ثقہ و صدہق راوی ھے۔

اس کی علاوہ اس کی صحیح سند "إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ اللِّبَاسِ » بَابٌ مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ" اور "شعب الإيمان للبيهقي" میں بھی موجود ھیں


اب جیسا کے یہ حدیث مکمل طور پر صحیح ثابت ھو گئ ھے، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں، مسبل کا وضوء باقی رہا؟؟؟

جزاک اللہ خیر
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس کی علاوہ اس کی صحیح سند "إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ اللِّبَاسِ » بَابٌ مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ" اور "شعب الإيمان للبيهقي" میں بھی موجود ھیں
کیاان دونوں کتابوں میں موجود اس روایت کی سند الگ ہے؟ اگران دونوں کتابوں سے بھی یہ روایت مع سندمتن نقل کردیتے توبڑی مہربانی ہوتی۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
کیاان دونوں کتابوں میں موجود اس روایت کی سند الگ ہے؟ اگران دونوں کتابوں سے بھی یہ روایت مع سندمتن نقل کردیتے توبڑی مہربانی ہوتی۔
جزاک اللہ خیرا۔

ان دو اسانید میں بھی کچھ زیادہ فرق نھی ھے، لیکن اس کے مرکزی راوی "ابو جعفر" اور " یحیی" مشترک ھی ھیں۔

شعب الإيمان للبيهقي » الأَرْبَعُونَ مِنِ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ... » فَصْلٌ فِيمَا وَرَدَ مِنَ التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ ...

أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ ، أَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثَنَا أَبَانٌ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ . فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ . فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ قَالَ : إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ " .

الحكم المبدئي: إسناده متصل، رجاله ثقات.


إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ اللِّبَاسِ » بَابٌ مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ : ثنا يَزِيدُ ، ثنا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، وَرَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَوَضَّأْ وَأَحْسِنْ صَلَاتَكَ " ، فَرَفَعَ الرَّجُلُ إِزَارَهُ ، فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقِيلَ لَهُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ، وَيُحْسِنَ صَلَاتَهُ ، ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ، فَقَالَ : " إِنَّهُ كَانَ مُسْبِلًا إِزَارَهُ ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ ، فَلَمَّا رَفَعَ ، سَكَتُّ عَنْهُ " . رَوَاهُ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ : ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، ثنا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ . . . فَذَكَرَهُ . هَكَذَا رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، وَيُحَدِّثُ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْهَمَا .

الحكم المبدئي: إسناده متصل، رجاله ثقات، وجهالة الصحابي لا تضر.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس حديث سے کسی نے وضو ٹو ٹنا اخذ کیا ہو اس کا مجہے علم نہیں ہے واللہ اعلم
شیخ زبیر علی زئ اور بھت سے دوسرے اعلام نے اس سے استدلال کیا ھے۔
لیکن میں یہاں سے بھی confirm کرنا چاھتا تھا، اور جاننا چاھتا تھا کے کیا وجہ کے لوگ اس حدیث سے استدلال نھی کرتے اور اسے ضعیف کہہ کر ٹال دیتے ھیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
شیخ زبیر علی زئ اور بھت سے دوسرے اعلام نے اس سے استدلال کیا ھے۔
لیکن میں یہاں سے بھی confirm کرنا چاھتا تھا، اور جاننا چاھتا تھا کے کیا وجہ کے لوگ اس حدیث سے استدلال نھی کرتے اور اسے ضعیف کہہ کر ٹال دیتے ھیں۔
معذرت بھائی جان ، آپ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی طرف بلاحوالہ کیا منسوب کررہے ہیں؟ وضاحت کریں ، یعنی کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ، فضیلۃ الشیخ زبیرعلی حفظہ اللہ مذکورۃ الصدر روایت کی بناپر اسبال ازار کو ناقض وضوء تسلیم کرتے ہیں ؟
اگرمیراحافظہ کوتاہی نہیں کررہاہے، تومجھے یاد پڑتاہے اس سلسلے میں حافظ موصوف سے استفسار کیا گیا توانہوں نے جوب دیا کہ اسبال ازارکے ناقض وضوء ہونے کے سلسلے میں مجھے کسی دلیل کا علم نہیں۔

میں سفرپر ہوں اس لئے حوالہ نہیں دے سکتا واپسی پر حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔

اور عام قارئین ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ جوامع الکلم سافٹ ویر یا آن لائن جوامع الکلم میں احادیث پر لگایا گیا جو حکم نظرآتاہے اس سے ہوشیار رہیں ۔
میں اس کا پرانا اورنیا دونوں ورزن استعمال کرچکا ہوں ، میں‌ سمجھتا ہوں کے انہیں‌ صرف متخصصین اوراوراہل علم ہی کو استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس میں‌ بہت سے مقامات پر فحش غلطیاں‌ ہیں‌ ۔
مثلا کبھی تو صحیحین کے رواۃ کو مجہول بتلاتا ہے اورکبھی مجہول رواۃ کو ثقہ بتلاتاہے۔
صحت حدیث کے لئے سند کا مدلسین کے عنعنہ سے پاک ہونا ضروری ہے لیکن یہ سافٹ ویر یہ غلطی سرے سے پکڑتا ہی نہیں ہے بکہ خطرناک سے خطرنا ک مدلسیں سے پر سندوں‌ کے بارے‌ میں ’’اسنادہ متصل رجالۃ ثقات ‘‘ کا فیصلہ دیتا ہے۔
اس کے علاوہ اوربھی کئی خامیاں‌ ہیں‌ اس میں‌ کبھی تفصیل سے لکھوں‌ گا تاکہ اسے استعمال کرنے والے حضرات ہوشیار رہیں ۔
مجھے یاد پڑتاہے کہ ملتقی اہل الحدیث‌ پر کہیں اس کی خوبیوں اورخامیوں‌ پر بحث ہوچکی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
1۔’درر‘ ویب سائیٹ کی سرچ کے مطابق اس روایت کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’اسنادہ صالح‘ اور امام نووی رحمہ اللہ ’اسنادہ صحیح علی شرط مسلم‘ اور امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ’رجالہ رجال الصحیح‘ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ’اسنادہ حسن‘ اور شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’صحیح ‘ قرار دیا ہے جبکہ علامہ البانی، شیخ بن باز اور شیخ صالح العثیمین رحمہم اللہ نے اس روایت کو ’ضعیف‘ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
2۔ روایت میں مسبل کے وضو ٹوٹنے کے بارے کوئی بات موجود نہیں ہے البتہ اس کی نماز قبول نہ ہونے کی بات ضرور موجود ہے کیونکہ آپ نے نماز قبول نہ ہونے کی بات تو فرمائی ہے لیکن وضو نہ ہونے کے بارے خاموشی اختیار کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر وضو کرنے کا حکم کیوں دیا۔ اس کے جوابات کئی طرح سے ہو سکتے ہیں کہ اسبال ازار تکبر کی علامت ہے اور تکبر کا علاج پانی ہے کیونکہ پانی میں ٹھنڈک ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کا علاج وضو بتلایا ہے کیونکہ غصہ میں حدت اور گرمی ہے جس کا علاج پانی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
معذرت بھائی جان ، آپ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی طرف بلاحوالہ کیا منسوب کررہے ہیں؟ وضاحت کریں ، یعنی کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ، فضیلۃ الشیخ زبیرعلی حفظہ اللہ مذکورۃ الصدر روایت کی بناپر اسبال ازار کو ناقض وضوء تسلیم کرتے ہیں ؟
اگرمیراحافظہ کوتاہی نہیں کررہاہے، تومجھے یاد پڑتاہے اس سلسلے میں حافظ موصوف سے استفسار کیا گیا توانہوں نے جوب دیا کہ اسبال ازارکے ناقض وضوء ہونے کے سلسلے میں مجھے کسی دلیل کا علم نہیں۔
میں سفرپر ہوں اس لئے حوالہ نہیں دے سکتا واپسی پر حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔
جی کفایت اللہ بھائی، آپ نے درست فرمایا۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے الحدیث حضرو شمارہ 9 صفحہ 29 پر ایک سوال کہ کیا شلوار (چادر وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، کے جواب میں کہا ہے:

وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ اس کی تو مجھے دلیل معلوم نہیں۔ لیکن میری تحقیق میں وہ حدیث بلحاظ سند حسن ہے جس میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو (دوبارہ) وضو کرنے کا حکم دیا۔ جس کا ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکا ہوا تھا۔ دیکھئے سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب الاسبال فی الصلوٰۃ ح 638 (وغیرہ)۔
اس حدیث کا ایک راوی ابو جعفر الموذن ہے ، جسے بعض محدثین مجہول یعنی مجہول الحال قرار دیتے ہیں جبکہ درج ذیل محدثین نے اسے ثقہ، صحیح الحدیث یا حسن الحدیث قرار دیا ہے۔
1۔ ابن حبان، انظر موارد الظمان: 2406
2۔ الترمذی: حسن لہ، 3448۔
3۔ النووی ، صحح لہ فی ریاض الصالحین
4۔ ابن حجر قواہ فی تخریج الاذکار
5۔ روی عنہ یحیی بن ابی کثیر وھو لا یحدث الاعن ثقہ عند ابی حاتم الرازی۔
اتنی توثیق کے بعد بھی اس راوی کو مجہول کہنا غلط ہے۔ لہٰذا یہ روایت حسن ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ان دو اسانید میں بھی کچھ زیادہ فرق نھی ھے، لیکن اس کے مرکزی راوی "ابو جعفر" اور " یحیی" مشترک ھی ھیں۔

شعب الإيمان للبيهقي » الأَرْبَعُونَ مِنِ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ... » فَصْلٌ فِيمَا وَرَدَ مِنَ التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ ...

أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ ، أَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثَنَا أَبَانٌ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ . فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ . فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ قَالَ : إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ " .

الحكم المبدئي: إسناده متصل، رجاله ثقات.
پیش کردہ سند میں کتابت کی غلطی ہےاوروہ ہے۔
يَحْيَى بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ​
صحیح یہ ہے۔
يَحْيَى عن أَبِي جَعْفَرٍ​

آپ نے جوامع الکلم سے کاپی کیا ہے ، اصل غلطی یہیں پرہے ، جوامع الکلم کے ساتھ ساتھ مکتبہ شاملہ میں موجود شعب الایمان کے تمام نسخوں میں بھی یہی غلطی ہے حتی کہ الشاملہ کے رسمی اصدار میں بھی یہ سند اسی طرح منقول ہے ۔
لیکن اصل مطبوعہ نسخے میں یہ غلطی نہیں ہے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
جب ہم نے کہا ں کسی نے وضو ٹوٹنے پر استدلال اس حدیث سے استدلال نہیں کیا تو اس سے ہماری مراد سلف و خلف بلکہ معاصرین علماء بہی ہوتے ہیں
استاد محترم حا فظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا یہی فتوی (فتا وی علمیۃ ج۱ ص ۲۲۹)میں موجود ہے
 
Top