• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسبوق مسافر اگر مقیم امام کی جماعت میں نماز پڑھے تو پوری پڑھے گا یا قصر ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے سوال کیا ہے کہ :
مسافر مسبوق ( جماعت میں تاخیر سے شامل ہونے والا ) اگر مقیم امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو کیا پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دینی فتاویٰ کیلئے معوف سائیٹ (الاسلام سؤال و جواب ) پر اس مسئلہ پر اہل علم کا فتویٰ ہے کہ :
سوال : يجب على المسافر إتمام الصلاة إذا صلى خلف إمام يتم
هل يجوز لمن صلى وهو مسافر خلف إمام يتم صلاته هل يجوز له أن يقصر صلاته بمعنى يصلي معه ركعتين فإذا قام الإمام سلم وانصرف ؟

ترجمہ سوال :
اگر مسافر پورى نماز ادا كرنے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرے تو نماز پورى ادا كرنا واجب ہے
كيا پورى نماز ادا كرنے والے امام كے پيچھے مسافر كے ليے نماز قصر كرنا جائز ہے، يعنى وہ امام كى دو ركعتوں كے بعد سلام پھير كر چلا جائے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــ٭٭٭٭٭٭
الجواب :
الحمد لله
"الْمُسَافِر مَتَى ائْتَمَّ بِمُقِيمٍ , لَزِمَهُ الإِتْمَامُ , سَوَاءٌ أَدْرَكَ جَمِيعَ الصَّلاةِ أَوْ رَكْعَةً , أَوْ أَقَلَّ . قَالَ الأَثْرَمُ : سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (يعني الإمام أحمد) عَنْ الْمُسَافِرِ , يَدْخُلُ فِي تَشَهُّدِ الْمُقِيمِينَ ؟ قَالَ : يُصَلِّي أَرْبَعًا . وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَجَمَاعَةٍ مِنْ التَّابِعِينَ . وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وأبو حنيفة .
ترجمہ :
مسافر جب مقيم كى اقتدا ميں نماز ادا كرے تو اس پر امام كى پيروى لازم ہے، چاہے وہ سارى نماز پائے يا ايك ركعت يا كم.
امام اثرم رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے ابو عبد اللہ يعنى امام احمد رحمہ اللہ سے مسافر كے متعلق دريافت كيا جو مقيم حضرات كى تشھد ميں جا كر شامل ہو ؟
تو ان كا كہنا تھا: وہ چار ركعت ادا كرے گا، ابن عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور تابعين كى ايك جماعت سے بھى يہى مروى ہے، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ رحمہما اللہ كا بھى يہى كہنا ہے.

والدليل على ذلك :

1- قول النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ( إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ) رواه البخاري (722) ومسلم (414) . وَمُفَارَقَةُ إمَامِهِ اخْتِلافٌ عَلَيْهِ .

2- مَا رواه أحمد عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّهُ قِيلَ لَهُ : مَا بَالُ الْمُسَافِرِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فِي حَالِ الانْفِرَادِ , وَأَرْبَعًا إذَا ائْتَمَّ بِمُقِيمٍ ؟ فَقَالَ : تِلْكَ السُّنَّةُ . وَقَوْلُهُ : "السُّنَّةُ" يَنْصَرِفُ إلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. صححه الألباني في "إرواء الغليل" (571) .

3- وَلِأَنَّهُ فِعْلُ عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، قَالَ نَافِعٌ : كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ صَلاهَا أَرْبَعًا , وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ صَلاهَا رَكْعَتَيْنِ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ .

انتهى من "المغني" (3/143) باختصار وتصرف .

تعرجمہ :
اس كى دليل يہ ہے:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا امام اقتدا اور پيروى كرنے كے ليے بنايا گيا ہے، لہذا اس كى مخالفت نہ كرو"صحيح بخارى حديث نمبر ( 722 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 414 ).
اور امام كو چھوڑ دينا اس كى مخالفت ہى ہے.
2 - امام احمد نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ ان سے كہا گيا: مسافر كو كيا ہے كہ انفرادى حالت ميں تو وہ دو ركعت ادا كرتا ہے، اور جب مقيم كى اقتدا ميں نماز ادا كرے تو چار ركعت ادا كرتا ہے ؟
ان كا جواب تھا:
يہ سنت ہے.
قولہ: يہ سنت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى طرف اشارہ ہے.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 571 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

3 - اور اس ليے بھى كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا فعل بھى يہى ہے نافع رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جب امام كے ساتھ نماز ادا كرتے تو چار ركعت ادا كرتے، اور جب اكيلے نماز ادا كرتے تو دو ركعت ادا كرتے.(اسے مسلم نے روايت كيا ہے، انتہى.(( ماخوذ از: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 143 )
و قال الشيخ ابن عثيمين :
"الواجب على المسافر إذا صلّى خلف الإمام المقيم أن يتمّ لعموم قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إنما جعل الإمام ليؤتمّ به ) . ولأن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يصلّون خلف أمير المؤمنين عثمان بن عفّان في الحج في منى فكان يصلي بهم أربعاً فيصلّون معه أربعاً .

وكذلك لو دخل والإمام في آخر ركعتين فعليه بعد أن يسلِّم الإمام أن يقوم فيأتي بما بقي فيتمّ أربعاً لعموم قوله صلى الله عليه وسلم : ( ما أدركتم فصلّوا وما فاتكم فأتمّوا ) رواه البخاري (635) ومسلم (603) ولأن المأموم في هذه الحال ارتبطت صلاته بالإمام فلزم أن يتابعه حتى فيما فاته .

وأما من فعل ذلك فيما سبق ، فكان يصلّي ركعتين خلف إمام مقيم ، فإنه يجب عليه إعادة ما صلاّه من الصلوات الرباعية ولا يُشترط أن تكون متتابعة ، وعليه أن يتحرّى عدد الصلوات التي صلاّها ويجتهد في ذلك ويعيدها" اهـ .
لقاء الباب المفتوح ص/40-41.

ترجمہ :
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسافر پر واجب ہے كہ جب وہ مقيم امام كے پيچھے نماز ادا كرے تو نماز پورى ادا كرے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" يقينا امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى اتباع اور پيروى كى جائے "
اور اس ليے بھى كہ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم دوران حج امير المومنين عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے منى ميں نماز ادا كرتے وہ چار ركعت پڑھاتے تو صحابہ بھى ان كے پيچھے چار ركعت ادا كرتے.
اور اسى طرح وہ امام كے ساتھ آخرى دو ركعت ميں آكر ملے تو امام كى سلام كے بعد اسے باقى دو ركعت مكمل كرنى چاہيں تا كہ چار ركعت پورى ہوں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" تم جو نماز پاؤ وہ ادا كرلو اور جو رہ جائے اسے پورا كرو "(صحيح بخارى حديث نمبر ( 635 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 603 ).

اور اس ليے بھى كہ اس حالت ميں مقتدى كى نماز امام كے ساتھ مرتبط ہے اس ليے اس كے ليے اس كى متابعت كرنى لازم ہے، حتى كہ اس كى فوت شدہ ميں بھى.
ليكن جس نے مندرجہ بالا عمل كيا كہ مقيم امام كے پيچھے دو ركعت ادا كر كے سلام پھر ديا اس پر ادا كردہ چار ركعتى نماز كا اعادہ لازم ہے، اس ميں متابعت كى شرط نہيں، اسے چاہيے كہ وہ ان نمازوں كى تعداد معلوم كرنے كى كوشش كرے جو اس طرح ادا كى تھيں اور پھر انہيں لوٹائے " اھـ (ديكھيں: لقاء الباب مفتوح صفحہ نمبر ( 40 - 41 ).
واللہ اعلم .
الإسلام سؤال وجواب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دوسرا فتویٰ
مقیم امام کے پیچھے مسافر کے لئے نماز قصر کا حکم
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مسافر مقتدی،مقیم امام کے پیچھے قصر نماز ادا کرسکتا ہے۔؟ اگر اس کو آخری دو رکعت یا ان میں سے ایک ملتی ہے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہیں کر سکتا،اگر کوئی مسافر کسی مقیم امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے تو اسے مقیم امام کے تابع ہونے کی وجہ سے اس کے برابر ہی پوری نماز پڑھنا ہو گی، بے شک وہ آخری دو یا ایک رکعت میں کیوں نہ شامل ہوا ہو ۔اس پر لازم ہے کہ وہ کھڑے ہو بقیہ نماز کو مکمل کرے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں بحوالہ مسند امام احمد رحمہ اللہ ج۳ ص۲۰۵ باب اقتداء المقیم بالمسافرلکھتے ہیں:
" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّه سُئِلَ مَا بَالُ الْمُسَافِرِ يُصَلِّیْ رَکْعَتَيْنِ اِذَا انْفَرَدَ وَاَرْبَعًا اِذَا ائْتَمَّ بِمُقِيْمٍ فَقَالَ تِلْکَ السُّنَّةُ "
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مسافر کے متعلق سوال کیا گیا کہ مسافر کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو دو رکعتیں اور جب کسی مقامی امام کی اقتداء کرے تو وہ چار رکعتیں ۔؟تو آپ نے فرمایا : یہی سنت ہے۔ ‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مقتدی امام کے پیچھے امام سے کم رکعات نہیں پڑھ سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے ۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ (سفر میں مقیم) امام کے ساتھ چار رکعت پڑھتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔(مسلم، الصحيح، کتاب صلٰوة المسافرين وقصرها، باب قصر الصلاة، 1 : 482، رقم : 694)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث (جلد 3)
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ٭ ــــــــــــــــــــ ٭ ـــــــــــــــــــــــــــــ
مسافر کا مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر مسافر مقیم امام کے ساتھ آخری دو رکعتیں پا لے تو کیا قصر کی نیت کی وجہ سے، وہ امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسافر کے لیے مقیم امام کی اقتدا میں نماز قصر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

«مَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا» صحيح البخاری، الاذان، باب لا يسعی الی الصلاة… الخ، ح:۶۳۶ وصحيح مسلم، المساجد، باب استحباب اتيان الصلاة بوقار، ح: ۶۰۲)
’’لہٰذا نماز کا جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے مکمل کر لو۔‘‘

چنانچہ مسافر جب مقیم امام کے ساتھ آخری دو رکعتیں پائے تو اس کے لیے واجب ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دو رکعتیں اور پڑھے اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ دو رکعتوں پر اکتفا کر کے امام کے ساتھ سلام پھیر دے۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام
265عقائد کے مسائل صفحہ
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top