• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی تاریخی مہم (محدث میگزین )

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مسلمانوں کی عدل وانصاف پسندی

شیخ ابراہیم محمد العقیل

محدث میگزین (شمارہ:246 ، مارچ ، 2001 ، ذوالحج ،1421۔جلد:33عدد:3 )

تاریخ شاہد ہے کہ اہل کفر کو جو عدل و انصاف اور امن امان اسلامی حکومت کے تحت ملا وہ کہیں میسر نہیں آیا۔ لیکن اس کے برعکس عیسائیوں نے مفتوح مسلمانوں پر سفاکی و بربریت کے وہ پہاڑ توڑے کہ اس کی مثال نہیں ملتی حتیٰ کہ وہ روشن خیال عیسائی جنہوں نے ان کے مذہب پر تنقید کی تھی، وہ بھی اہل کلیسا کے ظلم سے نہ بچ سکے اور اہل کلیسا نے کرئہ ارض سے ان کا وجود مٹانے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔

ابوعبید بن الجراح  اہل حمص پرجزیہ فرض کرنے کے بعد یرموک کی طرف بڑھے تو حمص کے عیسائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ

" اے مسلمانوں کی جماعت! رومی اگرچہ ہمارے ہم مذہب ہیں لیکن اس کے باوجود آپ ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ عہد وفا کرتے ہیں، نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، انصاف و مساوات برتتے ہیں۔ آپ کی حکمرانی خوب ہے لیکن رومیوں نے ہمارے اموال پر قبضہ کیا اورہمارے گھروں کو لوٹا"
(فتوح البلدان از بلاذری: ۱۳۷ ،کتاب الخراج از ابویوسف بحوالہ تاریخ الحضارة العربیة از محمد کرد : ۱/۳۹)

لبنان کے کچھ لوگوں نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کی تو صالح بن علی بن عبداللہ بن عباس نے ان میں سے بعض بے گناہوں کو قتل کردیا اور بعض کو جلا وطن کردیا تو امام اوزاعی نے انہیں لکھا:
"آپ کو معلوم ہے کہ جبل لبنان کے جلاوطن ذمیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بغاوت میں شریک نہیں تھے۔ جن میں سے بعض کو آپ نے قتل کیا اور بعض کو جلا وطن کردیا۔ کیا مخصوص لوگوں کے جرم کی پاداش میں عام لوگوں کو پکڑنا اور انہیں ان کے گھروں اور جائدادوں سے بے دخل کرنا درست ہوسکتا ہے؟ ...اللہ کا فرمان ہے" کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا" اگر کوئی حکم سب سے زیادہ لائق اتباع ہو سکتا ہے تو وہ اللہ کا ہی حکم ہے۔ اگر کوئی وصیت سب سے زیادہ حفاظت و نگہبانی کی مستحق ہے تو وہ رسول اللہ کی ہی وصیت ہے۔ چنانچہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو کسی ذمی پر ظلم کرے گا، اس کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف دے گا، میں روز قیامت اس سے جھگڑوں گا" (صحیح سنن ابو داود:۲۶۲۶ ، فتو ح البلدان عن تاریخ الحضارة العربیة ۱/۴۰)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے مفتوح مسلمانوں پر کیاظلم ڈھائے :
جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے اَندلس چھینا تو ان کے لئے عیسائیت کو قبول کرنا لازمی قرار دیا اور ارضِ اندلس سے مسلمانوں کو وجود مٹانے کے لئے انہیں لرزہ خیز مظالم سے دوچار کیا۔ پھر صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف وحشت و بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں جن کا اعتراف یورپ کی آئندہ نسلوں کو بھی کرنا پڑا ۔ اس کے بعد استعمار کا زمانہ آیا جس میں مسلمانوں کو سامراجیت کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا...مذکورہ بالا تمام تاریخی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر دنیا کا کوئی قانون انصاف و اَمن مہیا کرسکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے، اس سے انحراف کرئہ ارض کے چپہ چپہ کو ظلم و فساد سے بھر دے گا۔ یہ ہماری بات نہیں بلکہ مغربی عیسائیوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔

چنانچہ مغربی مو ٴرخ ارنولڈ فتح مصر کے متعلق لکھتا ہے :
"مسلمان فاتحین مسلسل فتوحات حاصل کر رہے تھے۔ جب مسلمان مصر میں داخل ہوئے تو عیسائی باشندوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا بنیادی سبب دراصل یہ تھا کہ عیسائی رعایا بازنطینی سلاطین کے ظلم و ستم سے نالاں تھی اور اہل کلیسا کے متعلق تلخ کینہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی۔" (الدعوة فی الاسلام:۱۳۲) ... ارنولڈ مزید لکھتا ہے :
"وہ عیسائی قبائل جنہوں نے اسلام قبول کیا، انہیں اس پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے اختیار اور ارادہ سے ایسا کیاتھا۔ مسلمان معاشروں میں بسنے والے اس دور کے عیسائی یقینا مسلمانوں کی اس عالی ظرفی اور وسعت ِقلبی کی شہادت دیں گے" (ایضاً)
فرنسی لیوٹی (Luit) لکھتا ہے کہ
" میں نے اسلام کے متعلق صرف کتابیں پڑھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ میں نے شرق و غرب میں مسلمانوں کے درمیان ایک عرصہ گزارا ہے اور انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ اب اگر کوئی گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام انتشار، لاقانونیت اور تعصب پر اُبھارتا ہے تو میں کہوں گا کہ ایسے بے سروپا دعوؤں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں" (الإسلام والحضارة العربیة از محمد علی کرد: ۱/۳۸)
مذہبی جبر
تاریخ عالم شاہد ہے کہ مسلمان فاتحین نے کبھی دوسری اَقوام کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ جب تک وہ مسلمانوں کے زیرنگیں رہے، انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔مغربی مفکر جو سٹاف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
"عرب دورِ حاضر کے سیاسی آدمیوں کی بہ نسبت زیادہ سیاسی حکمت ودانش اور بصیرت کے حامل تھے۔ وہ اس حقیقت کو خوب جانتے تھے کہ ایک قوم کے حالات دوسری قوم کے حالات سے باہم مشابہ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ انہوں نے مفتوح قوموں کی آزادیٴ فکر کو کبھی سلب نہیں کیا۔ انہیں اپنے قوانین،رسوم ورواج، عادات و اَطوار اور عقائد کو برقرار رکھنے کو مکمل آزادی دی۔" (الإسلام والحضارة العربیة از محمد علی کرد: ۱/۵۶)
بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ صرف حکمت و دانش ہی نہیں تھی بلکہ ایک اللہ کی طرف سے ایک دستورِ حیات تھا جو ان سے تقاضا کر رہا تھا کہ ﴿لا إِكر‌اهَ فِى الدّينِ.......٢٥٦ ﴾...... سورة البقرة "دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے"
جوسٹاف مزید لکھتا ہے کہ
"علاقوں پرعلاقے فتح کرنا مسلمانوں کا مقصد ِاوّل نہ تھا اور نہ ہی یہ فتوحات انہیں برانگیختہ کرسکیں کہ وہ مغلوب قوموں پر ظلم و ستم ڈھاتے جیسا کہ عموماً فاتحین فتح کے نشے میں سرشار ہوکر مفتوح اَقوام پر وحشیانہ مظالم کرتے تھے اور نہ ہی انہوں نے مغلوبین کوتہ تیغ کیا ۔جس دین کو وہ چہار سوئے عالم پھیلا دینے کا عزم لے کر نکلے تھے ،کبھی کسی کو وہ دین قبول کرنے پر مجبو رنہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا غیر مطیع قومیں باغی ہو کر ان پرچڑھ دوڑتیں لہٰذا انہوں نے اس طو فان ہلاکت میں پڑنے کا خطرہ مول نہیں لیا لیکن اس کے بعد ملک شام پر قابض ہونے والے صلیبی اس ہلاکت کی لپیٹ سے نہ بچ سکے۔ بلکہ ہم نے دیکھا کہ جب مسلمان شام، مصر اور ہسپانیہ میں دا خل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ انتہائی نرمی اور عالی ظرفی کامظاہرہ کیا۔ ان کی عادات واَطوار عقائد اور مذہب سے بالکل تعرض نہیں کیا، نہ ہی انہیں دوگنے چوگنے محصولات اور ٹیکسوں کی زنجیروں میں جکڑا۔ صرف معمولی سا جزیہ لیا جاتا تھا جس کے عوض انہیں مکمل حفاظت اور اَمن وسلامتی کی ضمانت تھی اوریہ جزیہ ان ٹیکسوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھا۔ میں نے آج تک نہ ایسی فاتح قوم دیکھی ہے جس نے ایسی روا داری اوربلند ظرفی کا مظاہرہ کیا ہو، نہ ایسے دین سے آشنا ہوا ہوں جو اپنے دامن میں ایسی لطافت، نرمی اور فراخدلی رکھتا ہو" (الإسلام والحضارة العربیة: ۱/۱۴۴)
عیسائیت کے مظالم
اس کے بالمقابل عیسائیوں نے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے، ایک نظر اِسے بھی دیکھ لیجئے :
جب مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقیاں عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کونہ روک سکیں اور مسلمانوں نے اس شرط پر کہ ان کے دین اور اَملاک سے تعرض نہیں کیا جائے گا، اپنی آخری پناہ گاہ غرناطہ بھی عیسائیوں کے حوالے کردی۔ ابھی تھوڑا عر صہ ہی گزرا تھا کہ عیسائی تمام عہد معاہدے توڑ کر سابقہ وحشت و بربریت اور تعصب کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آگئے اور مسلمانوں کو حکما ً مجبور کیا کہ وہ یا تو عیسائی ہوجائیں یا پھر اس ملک سے نکل جائیں پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اوران مظالم پرمسلمانوں سے پہلے خود ان کے مفکرین اور موٴرخین نے انہیں تنقید کانشانہ بنایا۔مشہور فرانسیسی مورخ والٹیر Voltaire لکھتا ہے:
" جب مسلمانوں نے ہسپانیہ فتح کرلیا تو انہوں نے وہاں کے عیسائی باشندوں کو اسلام اختیار کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا۔ جبکہ سپینی جب غرناطہ پر قابض ہوئے تو کارڈینل خمنیس نے اپنے مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ تمام عربوں کو عیسائی بنا لیا جائے۔ چنانچہ پچاس ہزار مسلمان جبراً عیسائی بنا لئے گئے ۔"
سپین کا مشہور موٴرخ فاریتی لکھتا ہے:
"تین ملین عرب مسلمانوں کو جلا وطن کردیا گیا اور اس جلاوطنی کے دوران تقریباً ایک لاکھ مسلمان تہ تیغ کردیئے گئے اورکچھ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔" (ایضاً: ۱/۲۵۲،۲۵۳)

اسلام کے متعلق عیسائیوں کا رویہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام پر عیسائیوں کے دو گروہ ہوگئے تھے۔ ایک وہ گروہ تھا جو آپ پرایمان لایا،آپ کی تصدیق کی اور یقین کرلیا کہ آپ کی دعوت برحق ہے کیونکہ ان کی کتابیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارت دے چکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی بات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنی قوم سے کہی تھی: ﴿وَمُبَشِّرً‌ا بِرَ‌سولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ........٦ ﴾...... سورة الصف
"بنی اسرائیل! میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا"
اس گروہ میں سب سے اوّل اسلام لانے والے نجاشی تھے جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو پناہ دی۔ ان کی ہر طرح مدد کی اور انہیں قریش کے ظلم و ستم سے نجات دی۔ نجاشی کے ساتھ اس کی رعایا میں سے بھی کئی لوگ مسلمان ہوگئے تھے جو پہلے اپنے نبی  (عیسیٰ) پرایمان لائے پھر محمد پر ایمان لائے۔ ان کی توصیف اور عظیم اجروثواب کے متعلق کئی آیات نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَإِنَّ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَمَن يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَما أُنزِلَ إِلَيكُم وَما أُنزِلَ إِلَيهِم خـٰشِعينَ لِلَّهِ لا يَشتَر‌ونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَليلًا ۗ أُولـٰئِكَ لَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم ۗ إِنَّ اللَّهَ سَر‌يعُ الحِسابِ ١٩٩﴾....... سورة آل عمران
"اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اوراللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اوراللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا"
پیغمبر صلى الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"روزِقیامت تین آدمی ایسے ہوں گے جنہیں دوہرا اجر دیا جائے گا: ان میں سے ایک آدمی وہ ہوگا جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا اوراس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لایا۔ "(مسند احمد: ۵/۲۵۹)
دوسرا گروہ وہ تھا جو آپ پر ایمان نہیں لایا۔ ان کے پھر دو فریق ہوگئے: ایک فریق ان لوگوں کا تھا جن سے جنگ کرنے کی نوبت نہیں آئی بلکہ وہ اس سے قبل ہی اسلامی حکومت کے تابع ہوگیا اور نبی سے مصالحت کرلی اور جزیہ ادا کردیا، ایسے عیسائیوں کو 'ذمی' کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ علاقہ نجران اور دومة الجندلسے تعلق رکھتے تھے۔
دوسرا فریق وہ تھا جنہوں نے اسلامی حکومت کی اطاعت قبول نہیں کی بلکہ مسلمانوں سے جنگ کی یہ وہ لوگ تھے جن کے خلاف آپ خود بھی نکلے اورلشکر بھی روانہ کئے۔ یہ وہ عیسائی تھے جن کا تعلق تبوک اور موتہ سے تھا۔
مسلمان اورعیسائی میدانِ کارزار میں!
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سب سے پہلا معرکہ 'موتہ' کے میدان میں لڑا گیا۔ پھر آپ تبوک کی طرف بڑھے لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی۔آپ کی وفات کے بعد خلفاءِ راشدین کا دور آیا۔ شام اور دیگر علاقوں میں 'یرموک' اور 'اجنادین' کے عظیم معرکے لڑے گئے۔ اللہ نے مسلمانوں کوکامیابی سے سرفراز فرمایا۔ اور بازنطینی حکومت تمام بلادِشام سے دستبردار ہوگئی۔ اسلامی فوجیں آگے بڑھیں، روم وایران جیسی سپر طاقتیں پارہ پارہ کردی گئیں۔ یرموک اور اجنادین کے عظیم معرکوں نے عیسائیوں کی قوت کو پاش پاش کردیا، اب بازنطینی حکومت کی قوت ٹوٹ چکی تھی لہٰذا وہ صلح پر تیار ہوگئے اور بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں۔ حضرت عمر نے خود معاہدہ لکھا اور ان پر جزیہ لازم قرار دیا۔ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی اور ان کی شرائط کو پورا کیا۔
اس کے بعد اُموی اور عباسی دور آیا۔فتوحات جاری رہیں حتیٰ کہ مسلمان یورپ کے اندر تک چلے گئے اور اندلس فتح کرلیا۔نصرانی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور مسلمان وسط فرانس تک پہنچ گئے اور بحرمتوسط کے جزیرہ روڈس Rhodes سے لے کر صقلیہ تک کے بڑے بڑے تمام جزیروں پر قبضہ کرنے کے بعد جزیرہ اٹلی Italiaپر بھی قابض ہوگئے۔ پھر عیسائی فرقہ کیتھولک کے مرکز روما اور فرقہ آرتھوڈکس Aurtodix کے مرکز قسطنطنیہ کامحاصرہ کرلیا۔ ان تمام فتوحات کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد اور جذبہ کارفرما تھا، وہ یہ کہ اللہ کا کلمہ اونچا ہوجائے اور لوگ لوگوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کے غلام بن جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کے بڑے بڑے لشکر بھی ان کامقابلہ نہ کرسکے۔
وہ تو روما اور قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق پیغمبر کی پیشین گوئی کو سچ کردکھانے کے لئے نکلے تھے، قریب تھا کہ پورا یورپ ان کے زیرنگیں ہوجاتا لیکن اللہ کو منظور نہ تھا اور مسلمان معرکہ بلاط الشہداء (جو مغربی کتب میں 'توربواتیہ' کے نام سے موسوم ہے) میں ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ یہ ۱۱۴ھ بمطابق ۷۳۲ء کا واقعہ ہے۔اس معرکہ میں مسلمانوں کا سپہ سالار عبدالرحمن الغافقی اور عیسائی فوجوں کی قیادت شارل مارٹل کر رہا تھا جسے عیسائی 'قائداعظم' کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اس نے یورپ کو مسلمانوں سے بازیاب کرایا تھا۔ مسلمانوں کی شکست کی وجہ موٴرخین یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے تھے۔
پورا اَندلس عیسائی بنا لیا گیا !
موٴرخین لکھتے ہیں:
"عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا آغاز اندلس سے کیا، اس کے ساتھ ساتھ مشرق کے اسلامی ممالک پر بھی حملے کرنا شرع کردیئے"
مشہور موٴرخ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ
"مسلمان علاقوں کی طرف عیسائیوں کی پیش قدمی اور ان پر حملوں کا آغاز ۴۷۸ ھ سے ہوا پھر آہستہ آہستہ وہ طلیطلہ اور دیگر بلادِ اندلس پر قابض ہوگئے۔ ۴۷۴ھ میں انہوں نے جزیرہ طلیطلہ پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کرلیا پھر ۴۹۰ ھ میں انہوں نے بلادِ شام کی طرف پیش قدمی کی۔ (الکامل ۸/۱۸۵)
اندلس کی تاریخ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔ عیسائیوں نے اسلام کو مٹانے کا عزمِ صمیم کرلیا تھا جس کی خاطر وہ تمام عہدوپیمان پامال کر دیئے گئے جو مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اس دور کا سپینی موٴرخ لکھتا ہے کہ
" فرنینڈس جب غرناطہ کا حکمران بنا تو کلیسا کے متعصّب کیتھولک پادری اِصرار کے ساتھ اس سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ طائفہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجود ارضِ سپین سے مٹا دیا جائے جو مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں وہ یا تو عیسائیت قبول کرلیں یا اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مغرب کی طرف نکل جائیں"
کلیسا کے متعصّب پادریوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے عیسائی حکمران بے بس ہوگئے۔ انہوں نے وہ تمام عہدوپیمان ایک طرف کردیئے جو غرناطہ پر قبضہ کے وقت مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اورنہایت ظالمانہ اور تشدد آمیز طریقے سے مسلمانوں کے تمام حقوق غصب کر لئے گئے۔ مساجد بندکردی گئیں، ان کے رسم و رواج، مذہب اور طرزِ معاشرت پرپابندی لگا دی گئی ۔انہیں اپنے عقائد اور شریعت پر عمل کرنے کی اجازت نہ تھی۔اسی طرح مسلمانوں سے کئے گئے تمام عہد نامے گویا ایک ایک کرکے پھاڑ دیئے گئے۔علامہ مقری لکھتے ہیں کہ
"مسلمانوں نے غرناطہ عیسائیوں کے حوالے نہ کیا، جب تک انہوں نے ۶۷ شرائط تسلیم نہ کرلیں۔ ان میں یہ شرائط سرفہرست تھیں کہ ان کو پوری مذہبی آزادی ہوگی۔ مسلمان اپنے رسوم و رواج، روایات، زبان اور لباس کے استعمال کو قائم رکھنے کے مجاز ہوں گے۔ مسلمانوں کی اَراضی اور جائیداد کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا لیکن جونہی دغاباز عیسائیوں کو کنٹرول حاصل ہوا تو انہوں نے تمام عہدوپیمان پس پشت ڈال دیئے۔"
۹۰۵ھ میں ایک دفعہ پھر عیسائیوں نے اَندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی ٹھانی۔ غرناطہ کے تمام فقہا کو جمع کیاگیا اور انہیں تحفے تحائف سے نوازا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض نے عیسائیت قبول کرلی۔ بعض دیگر مسلمانوں بھی ان کی اتباع میں عیسائی بن گئے۔اُمرا اور وزرا کا طبقہ اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے پہلے ہی عیسائی بن چکا تھا۔ یہ وہ بدبخت تھے جنہوں نے دنیا کی خاطر اپنے دین کو بیچ ڈالا۔ ولا حول ولا قوة الا بالله العزيز الحکيم!
غرناطہ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی یہ تحریک مرکزیت حاصل کرچکی تھی۔ محلہ بیازین (پرانا غرناطہ) کی مسجد کوگرجامیں تبدیل کردیا گیا تاکہ یہ تحریک پورے اندلس میں پھیل جائے۔پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرزمین اَندلس سے اسلام کا وجود مٹا دینے کا تہیہ کرلیا۔ اسقف ِاعظم (کارڈینلCordinal) نے اندھی مذہبی عزت سے مغلوب ہو کر اپنی مسلم کش پالیسی کی ابتدا اس طرح کی کہ غرناطہ کے علمی ذخیروں سے عربی زبان کی لاکھوں کتابیں میدان رملہ میں جمع کرکے جلا دیں اور سوائے طب کی تین صد کتب کے ایک بھی کتاب باقی نہ چھوڑی۔اس کے بعد پورے اندلس سے عربی کتب کو چن چن کر آگ کے حوالے کردیا۔ مشہور موٴرّخ لبون لکھتا ہے کہ
"کارڈینل نے غرناطہ میں صرف عربوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اَسی ہزار قلمی مخطوطے جلا دیئے ۔ دوسرے شہروں میں جلائے جانے والے مخطوطے اس کے علاوہ تھے۔ اس طرح گویا اس نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اَوراق سے محو کردے گا لیکن اسے یہ یاد نہ رہا کہ مسلمانوں کے آٹھ سو سال کے کارنامے اور تہذیب و تمدن اور طرزِ معاشرت کے گہرے نقوش صدیوں تک ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔"
امریکی موٴ رخ ولیم برسکوٹ لکھتا ہے کہ
"کتب کشی کا یہ اندوہناک عمل انجام دینے والاکوئی جاہل یاگنوار نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب یافتہ پختہ عالم تھا۔اس پر طرہ یہ کہ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکل چکا تھا اوراس پر علم کی روشن صبح طلوع ہوچکی تھی" (دولة الاسلام فی الاندلس : ۶/۳۱۸ )
عربی کتب کو جلانے کا یہ عمل صرف اندھے تعصب کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ اندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی سوچی سمجھی اسکیم کارفرما تھی۔ کیونکہ کتب ِعربیہ کا وجود مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے عمل میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا اوردوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ کہیں عیسائی بننے والے مسلمان ان کتابوں کے مطالعہ سے دوبارہ اسلام کی طرف نہ پلٹ آئیں لہٰذا اس علمی وراثت کا قلع قمع ہی ان کے نزدیک ضروری ٹھہرا۔
مشہور مستشرق سیمونیٹ،کارڈینلکے اس گھناؤنے فعل کا دِفاع کرتے ہوئے اس منصوبے اور ہدف کی صراحت اِن اَلفاظ میں کرتا ہے:
"کتابوں کو جلانے کا جو کام کارڈینل نے انجام دیا تھا، اس پر اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اس نے تو ایک نقصان دہ چیز کا خاتمہ کیا تھا اور وبا کے وقت متعدی عناصر کو ختم کرنا ہی دانشمندی اور قابل تحسین عمل ہوتا ہے۔ کیتھولک کے حکمران فرنینڈس اور آزابیلا کومسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے یہ حکم دینا پڑا کہ شریعت اور دین کے متعلق تمام مذہبی کتب مسلمانوں سے واپس لے کر جلا دی جائیں، صرف وہی کتابیں چھوڑی جائیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔" (ایضاً)
اب ہم یہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ عیسائیوں نے اَرضِ اندلس سے اسلام کو مٹانے اور عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے کون کون سے اسلوب اختیار کئے:
سب سے پہلے ۹۰۵ھ میں مسلمانوں کو دعوت وتبلیغ سے عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیاجس سے بعض وزرا اورامرا محض اپنے جان و مال کے تحفظ کی خاطر عیسائی بن گئے۔
۹۰۶ھ کے بعد یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کو دنیاوی لالچ اور تالیف ِقلوب کے ذریعے عیسائی بنایا جائے اورانہیں دیگر رعایا کے برابر حقوق دیئے جائیں۔(دولة الاسلام فی الأندلس : ۶/۳۲۰ )
اس کے بعد حکومت نے یہ قانون پاس کیا کہ تین برس سے پندرہ برس تک کے مسلمان بچوں کو عیسائی نظریہٴ تعلیم پڑھایا جائے اوران پر عیسائیت کے تمام اَحکام لاگو کردیئے جائیں ۔اگر ان کے والدین اس پر رضا مند نہ ہوتے تو مسلمان بچوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتے اور ان کا بپتسمہ کردیتے۔ (بپتسمہ عیسائی مذہب کی ایک رسم ہے جس کی روسے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس پر مقدس پانی کے چھینٹے ڈالے جاتے ہیں اوراسے عیسائی مان لیا جاتا ہے) اس مذہبی جبر کا جواز یہ پیش کیا گیاکہ عرب بھی پہلے عیسائی ہی تھے۔ (الإسلام والحضارة العربیة: ۱/۲۵۳)
۹۰۷ھ میں فرنینڈس اور اس کی بیوی ازابیلا نے یہ قانون نافذ کیا کہ یا تو تمام مسلمان عیسائیت اختیار کرلیں یا پھر اَندلس سے نکل جائیں اوراس قانون کا جواز یہ بنایا گیا کہ اللہ نے ہم دونوں کو یہ فرض سونپا ہے کہ ہم ارضِ غرناطہ کو کفر سے پاک کریں لہٰذا مسلمانوں کا یہاں رہنا ممنوع ہے ۔ اس قانون کو نہ ماننے والوں کی یا تو جائیدادیں ضبط کر لی گئیں یا انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ جس پر مسلمانوں نے سلطانِ مصر کی طرف خط لکھا اورمسلمانوں کو جبراً عیسائی بنائے جانے کے متعلق انہیں آگاہ کیا لیکن عیسائی بادشاہ نے شاہِ مصر کی طرف ایک وفد بھیج کر اسے مسلمانوں کے متعلق مطمئن کردیا اورشاہِ مصر مسلمانوں کی کوئی مدد نہ کرسکا۔
جس طور پر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے تھے، انہیں تہ تیغ کیا اور انہیں تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جارہا تھا اورحکومت جس طرح بدعہدی کا مظاہرہ کر رہی تھی، یہ نہ صرف غرناطہ بلکہ پورے اَندلس کے مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت بن چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے پہاڑوں کو مسکن بنا کر اس ظلم کے خلاف بغاوت کردی۔ عیسائیوں نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ قانون جاری کیا کہ تمام مسلمانوں کے لئے اِعلانیہ یا خفیہ اسلحہ رکھنا ممنوع ہے۔ جن مسلمانوں نے اس قانون کی مخالفت کی، پہلے انہیں قید اور ضبطی جائیداد کی سزا دی گئی اور اس کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ۔ طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمان بھی اس قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ جہاں ان پر اسلحہ رکھنے پر پابندی تھی، وہاں یہ بھی پابندی تھی کہ وہ اپنی جائیداد نصرانی حکومت کی اِجازت کے بغیر فروخت کرکے نہیں جاسکتے۔جس نے اس قانون سے ذرا انحراف کیا، پہلے اس کی جائیداد ضبط کی گئی پھراُسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بہت سے عیسائیت اختیار کرنے والے مسلمان اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مغرب کی طرف چلے گئے اور وہاں پہنچ کر دوبارہ مسلمان ہوگئے۔
بعض وہ مسلمان جو دِل سے مسلمان تھے لیکن اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کرنے کے لئے انہوں نے اپنے مکانوں پر صلیبیں لگا لیں۔ چونکہ حکومت کے پاس ان کے ناموں کی لسٹیں موجود تھیں، اس لئے اس قسم کی تدبیریں انہیں نفع نہ دے سکیں اورانہیں ملک بدر کردیا گیا ۔ ان کی جلا وطنی کی داستان بڑی غمناک، دردناک اور تاریخ انسانیت کی دکھ بھریمثال تھی۔ پھر کیا ہوا کہ بعض مسلمانوں نے نااُمید ہو کر اپنے گھر گرا کر انہیں آگ لگا کرخود اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا اور بعض نے اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور پھر خود کشی کرلی۔ اور اکثر وہ بدنصیب تھے جو بھوک، شدت غم اور بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے!!
اس کے بعد جبرا عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عیسائیت میں داخل ہونے یا اَندلس سے نکل جانے کے درمیان فیصلہ کرنے کا دور بڑا کٹھن دور تھا۔ بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی اوربہت سارے اَندلس کو خیر باد کہہ گئے ۔شروع میں اس قانون کو زیادہ سختی سے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن۹۳۰ھ میں پادریوں نے بادشاہ کو پھر بھڑکایا جس کے اثر میں آکر اس نے پھر ایک قانون جاری کیاجس میں یہ طے پایا کہ تمام مسلمان عیسائیت قبول کرلیں ورنہ سپین سے نکل جائیں۔ اس بار اس قانون کو سختی سے نافذ کیا گیا اور جس نے عیسائیت اختیار کرنے سے انکا رکیا اور مقررہ مدت میں سپین سے نہ نکلا، اسے ہمیشہ کے لئے جیل ڈال دیا گیا اور تمام مساجد گرجوں میں تبدیل کردی گئیں۔
مسلمانوں کے لئے یہ ظلم ناقابل برداشت تھا، انہوں نے اندلس کے عیسائی شہنشاہ کے سامنے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ شہنشاہ نے بڑے بڑے علماء اور ججز پر مشتمل ایک عدالت قائم کی تاکہ مسلمانوں کے اس دعویٰ کا جائزہ لیا جائے ۔اس عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ مسلمانوں کو عیسائیت پہ مجبو رکرنا درست اقدام ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس طرح مسلمان موت، جلاوطنی، قید اور ضبطی جائیداد کے خطرے سے محفوظ ہوجائیں گے۔
ایک ذمہ دار مغربی مسیحی موٴرخ اس ظالمانہ فیصلہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:
" اس طرح مسلمانوں کو قانونی طور پر عیسائی تصور کرلیا گیا جو گویا ایک طاقتور نے کمزور پر، غالب نے مغلوب پر اور آقا نے غلام پر فرض کردی تھی۔اس فیصلہ کے بعد فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ تمام وہ مسلمان جنہیں جبراً عیسائی بنایا گیا ہے، انہیں سپین میں رہنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ اب وہ عیسائی بن چکے ہیں۔اسی طرح ان کی اَولاد کو بھی عیسائی بنا لیا جائے۔ جو عیسائیت سے مرتد ہو، اسے موت اور ضبطی جائیداد کی سزا دی جائے اورجو مساجد ابھی تک باقی ہیں، انہی گرجوں میں تبدیل کردیا جائے" (دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۵۱)
اس کے بعد ایک محکمہ تفتیش قائم کیا گیا جس کا کام مسلمانوں سے عیسائی بننے والوں کی طرزِ معاشرت اور رہن سہن کی نگرانی کرنا تھا کہ آیا ان کی طرزِ معاشرت کیتھولک طرزِ فکر کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس محکمہ کا دوسرا کام یہ تھا کہ غیرکیتھولک عیسائیوں کو کیتھولک عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ وہ یہودی اور مسلمان جو درپردہ عیسائی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے محکمہ تفتیش کے کارندوں سے بچنے کے لئے پہاڑوں اور ٹیلوں میں پناہ لی جس پر یہ فرمانِ شاہی صادر ہوا کہ فرار ہونے والوں کو پکڑ کر محکمہ تفتیش کے حوالہ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کے لئے یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو انہوں نے اندلس سے فرار ہونا شروع کردیا تو حکومت نے ایک اور قانون جاری کیا کہ کسی بھی ملاح یا تاجر پر حرام ہے کہ وہ کسی نو عیسائی کو بغیر سپیشل پرمٹ کے اپنے ساتھ لے جائے۔(دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۳۲)
پھر وہ دور آیا کہ اسلامی شعائر کو تبدیل کرنے کے بعد مسلمانوں کے طرزِ معاشرت، رسم و رواج، زبان، عربی لباس بلکہ عربی نام اور اَلقاب تک بدل ڈالے گئے۔ عورتوں کو پردہ کرنے اور مہندی لگانے سے منع کردیا گیا اور مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ عیسائیوں کی طرح پتلونیں اور ٹوپیاں پہنیں اور اپنے مکانوں کے دروازے، جمعہ، عیدین اوراپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر کھلے رکھیں تاکہ حکومتی کارندے گھروں میں ہونے والی رسومات کا جائزہ لے سکیں۔
اگر کوئی آدمی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے یا یہ کہتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام معبود نہیں تھے بلکہ صرف رسول تھے، پکڑ لیا جاتا تو اسے مرتد سمجھ کر موت کے سپردکردیا جاتا اورہر عیسائی کے لئے ضروری تھا کہ وہ عیسائی بننے والے مسلمانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور اس کی رپورٹ حکومت تک پہنچائے کہ آیا وہ اسلامی طرزِ معاشرت تو اختیار نہیں کرتے، جمعہ کے روز گوشت تو نہیں کھاتے۔ غرض رمضان کے روزے رکھنا یا اس کے دوران صدقہ کرنا یا غروبِ آفتاب کے وقت کوئی چیزکھانا پینا یا طلوعِ فجر سے پہلے کھانا ، پینا اور خنزیر کا گوشت نہ کھانا، شراب نہ پینا، وضو کرنا ، مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، اپنی اولاد کے سروں پر ہاتھ پھیرنا، مردوں کو غسل دینا، ان کی تجہیز و تکفین کرنا اورانہیں عیسائیوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنا، یہ سب اس بات کی علامات تھیں کہ یہ لوگ عیسائیت سے مرتد ہوگئے ہیں۔(دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۴۵، ۳۴۶،۳۵۷، تاریخ الاحتلال الإسباني:۱۳/۱۳۱، انطونیو لورٹی کی کتاب المورسکیون)
سب سے پہلے اسلامی شعائر کو جڑ سے اکھیڑا گیا۔ پھر ان عادات اور رسوم و رواج کو ختم کیاگیا جومسلمانوں کی شناخت تھے۔ اسی طرح اندلس سے اسلام کا وہ چراغ گل ہوگیا جس نے اپنی ضیا پاشیوں سے پورے اَندلس کو روشن کردیا تھا۔ پھرتقریباً ۱۷۰۳ء بمطابق ۱۰۱۰ھ میں عربوں کو مکمل طور پر ارضِ اندلس سے نکال دینے کا آخری فیصلہ ہوا۔ دو سال کے اندر نصف ملین مسلمان وہاں سے کوچ کرگئے اور جزیرہ نما اندلس سے اِسلام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ لا حول ولا قوة الا بالله العلی العليم
صلیبی جنگیں
مغربی موٴرخین نے صلیبی جنگوں کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے جیسے "دیارِمقدسہ کا قصد" "حضرت عیسیٰ کی خاطر جنگ"، "عیسائیوں کی سرگرمیاں، سمندر پار"، "حضرت عیسیٰ کی قبر مقدس کو آزاد کرانے کے لئے جنگ" وغیرہ وغیرہ۔(مدخل إلیٰ تاریخ حرکة التنصیراز ڈاکٹر ممدوح حسن:۱۰، ۱۱، ماہیة الحروب الصلیبیة از قاسم عبدہ قاسم : ۲۳۹)
مسلمان موٴرخین ا بن جوزی، ابن اثیر، ابن کثیر وغیرہ نے ان جنگوں کو 'صلیبی جنگوں' کا نام دیا ہے۔ (الحروب الصلیبیة فی المشرق والمغرب:۱۸۶)تجزیہ نگاروں نے صلیبی جنگوں کے مختلف اَسباب و اَہداف ذکر کئے ہیں جیسے مسلمانوں سے جنون کی حد تک انتقام کا جذبہ،مسلمانوں کی معیشت اور دولت پر قبضہ کرنے اور نصاریٰ کی اِقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کا نشہ وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقی محرک اور اہم مقصد مذہب 'عیسائیت کی ترویج' تھی۔مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ اور اِقتصادی اور دنیاوی مفاد عام عیسائیوں کے مقاصد تو ہوسکتے ہیں جنہیں مشرق اسلامی میں اپنے مقدس مقامات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ چنانچہ عیسائی مدبرین اورقائدین نے ان جنگوں کے لئے حوصلہ افزا تعداد جمع کرنے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اُبھارنے کے لئے ان اسباب سے فائدہ اُٹھایا۔ ظاہر ہے ان اسباب کو سمجھنے کے لئے صلیبی فوجوں اور عوام کے نظریات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ ان قائدین اورمحرکین کے نظریات کا اِعتبار ہوگا جنہوں نے ان جنگوں کے شعلے بھڑکائے تھے۔ کیونکہ فوج ان کے بل بوتے پر چلتی ہے اور عوامُ الناس کو ویسے ہی ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
صلیبی جنگوں کا دورانیہ دو صدیوں پر محیط ہے، ان کا آغاز ۴۸۹ھ میں پطرس الناسک Pierre'l Ermite کے حملہ سے ہوا اور ۹۹۰ ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سقوطِ عَکّہ کے بعد ان کا اختتام ہوا۔اور اس کے ساتھ ہی صلیبی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔عکہ کی شکست اور مشرقِ اسلامی میں صلیبی حکومت کے خاتمہ کے بعد پوپ نیفولا چہارم نے ایک دفعہ پھر یورپی عیسائیوں کو اپنے مواعظ اور تقریروں سے مشتعل کرنے کی کوشش کی ۔ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں صلیبی ممالک کے چھن جانے کی خبر دی۔ عکہ او ربیت المقدس کو واپس لینے کے لئے اہل کلیسا کی کانفرنسیں منعقد کیں لیکن یورپیوں میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی کیونکہ وہ مسلسل خون آشام جنگوں میں تھک کر چور ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے اس نقصان کو محسوس کرلیاتھا جو دو صدیوں کے دوران اُنہیں برداشت کرنا پڑا۔ (الحروب الصلیبیة فی المشرق:۶۴۲)
صلیبی حملوں کا عالم اسلام پر اثر
صلیبی جنگوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مسلم اُمہ پر انتہائی برُے اثرات مرتب ہوئے :
1۔ مسلمانوں کو وحشیانہ طریقے سے ذبح کیا گیا۔ پہلے ہی حملے میں صلیبیوں نے اہل انطاکیہ کو نیست و نابود کردیا اور بیت المقدس میں ۷۰ ہزار سے زائد مسلمانوں کو ذبح کیا گیا۔ کتنے ہی ایسے علاقے تھے کہ وہاں کے محاصرے میں آئے مسلمانوں کو امن و امان کاوعدہ دے کر اس سے ہتھیار ڈلوا لئے گئے، پھر عہد شکنی کرکے نہایت وحشیانہ طریقے سے انہیں قتل کردیا گیاجیساکہ انگلستان کے بادشاہ رچرڈ نے کیا جو 'شیردل' کے نام سے مشہور تھا۔ (المنتظم: ۱۷/۴۷، تاریخ ابن خلدون: ۵/۲۵)
2۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیاگیا ۔حمص، بعلبک، حماة، عسقلان، قنسرین، طبریہ جیسے عظیم الشان شہر تاخت و تاراج کردیئے گئے۔ بعض شہر ایسے تھے جو مسلمانوں نے دورانِ محاصرہ خود اپنے ہاتھوں سے اُکھاڑ دیئے تاکہ صلیبی ان شہروں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں، شائد کہ انہوں نے سمجھ لیا تھاکہ دوبارہ وہ کبھی ان شہروں میں آباد نہ ہوسکیں گے۔(النوادر السّلطانیہ: ۲۳۵، السلوک لمعرفة دول الملوک:۱/۱۰۶)،مغربی مفکر جیک دی دنتیری لکھتا ہے کہ صلیبیوں نے حمص، بعلبک اورحماة کو باربار لوٹا تاکہ مسلمان انہیں ٹیکس دینے پر راضی ہوجائیں۔ دیکھئے ماہیة الحروب الصلیبیة : ۲۳۳
3۔ لاکھوں مسلمانوں کو جلا وطن کردیا گیا کیونکہ صلیبیوں کامقصد نوآبادیاں قائم کرنا تھا۔
4۔ صلیبی جنگوں سے اِستعماری طاقتوں کا راستہ ہموار ہوا اور یہی جنگیں بعد میں ترکوں کے تنزل اور انحطاط کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور مسلمان طویل عرصہ تک کے لئے سامراجیت کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔ صلیبی جنگوں میں جب تمام مسیحی دنیا کی مجموعی طاقت اِسلامی قوت کو ٹس سے مس نہ کرسکی اور انہیں یقین ہوگیا کہ مشرقی مسلمانوں کو عسکری قوت سے مغلوب نہیں کیا جاسکتا تو اس بات نے انہیں مسلمانوں کومغلوب کرنے کے لئے کوئی اور طریقہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ مسلمانوں پر فکری یلغار کی جائے ان کے دلوں سے روحِ جہاد نکال دی جائے۔ ان میں خانہ جنگی کروا کر ان کی جنگی قوت کو تباہ کردیا جائے اور اِقتصادی طور پر انہیں اپنا دست نگر بنا لیا جائے۔مغربی مصنف Kigk لکھتا ہے کہ
" صلیبی جنگوں نے مغربی اقوام کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا، ان کے اَذہان کو کھولا اور وہ تہذیب و تمدن میں اَہل مشرق کے درجہ کو پہنچ گئے جو اس سے قبل علم و فلسفہ، اَدب و شاعری، تہذیب و شائستگی اور تمدن میں اہل مغرب پر فوقیت رکھتے تھے۔اس تہذیبی ترقی اور عسکری جنگ کی پے در پے شکستوں نے یورپین کو متوجہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ فکری جنگ کا آغاز کریں۔"
مغربی مفکر Oman لکھتا ہے کہ
" صلیبی جنگوں نے 'استشراق' کا بیج بویا۔ مغربی لوگ مختلف اُمور میں مسلمانوں کے رجحانات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے عربی زبان اور اِسلامی نظریات کو پڑھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے ۱۲۷۶ھ کو'میراہا' میں پادریوں کے لئے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ اس کے علاوہ پیرس اور لوفان میں مشرقی زبانوں کی تعلیم کے لئے مختلف کورسز شروع کئے گئے۔ (الحروب الصلیبیة لاحمد شبلی ۹۲)
عسکری معرکوں میں جب عیسائیوں کی کمرٹوٹ چکی تو انہوں نے مسلمانوں میں عیسائیت کا پرچار کرنے کے لئے مختلف تبلیغی مشنز کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے تیرہویں عیسوی میں ملک شام میں دو یونیورسٹیاں قائم کی گئیں: ایک الفرنسیکانجو پوپ فرانسس کی طرف منسوب ہے۔دوسری ڈومنیکان جو پوپ ڈومنیک کی طرف منسوب ہے۔یہاں باقاعدہ عیسائی مشنری تیار کئے جاتے ہیں جو عربی زبان اور اسلامی علوم میں مکمل دسترس کے حامل ہوتے ہیں اوریہ دستور اس وقت سے آج تک رائج ہے۔
عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ادارے
عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں عیسائیت پھیلانے والے ۳۸۷ عالمی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے ۲۵۴ ادارے خاطر خواہ نتائج حاصل کر رہے ہیں اوران کا دائرئہ کار کافی حد تک وسیع ہوچکا ہے۔ان میں ہرادارہ دس سالوں کے اندر دس ہزار گھنٹے تبلیغی سرگرمیوں پر صرف کرتا ہے اور دس ہزار ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ پھر ۲۵۴/اداروں میں سے ۳۳/ ادارے ایسے ہیں جو بہت بڑے تصور کئے جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں پر سالانہ سوملین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ ان بڑے اداروں میں سب سے بڑا ادارہ دنیا بھر میں ۵۵۰ ملین ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔
اگرچہ عیسائیوں کے پا س مادّی وسائل کے بے پناہ ذرائع ہیں لیکن ان کا استعمال مناسب طریقے سے نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر ۱۹۱۸ء میں ایک عیسائی ادارے کے لئے ۳۳۶/ ملین ڈالر فنڈ اکٹھا کیا گیا۔ جو ایک ہفتہ کے اندر اندر ختم کردیا گیا۔اسی طرح ۱۹۸۸ء میں امریکہ میں ایک بہت بڑے عیسائی ادارے کیلئے ۱۵۰/ ڈالر جمع کئے گئے جو اچانک غائب کردیئے گئے۔ اس بددیانتی کی ذمہ داری بڑے بڑے مشنریوں خصوصاً امریکی پوپ باکیراور جیمی سواغارت پر عائد ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں چرچوں کی قیادت ہے۔
امدادی سرگرمیاں
اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اپنے سیاسی اِختیارات، مالی وسائل اور ذرائع اِبلاغ کو بروئے کار لانے والے عیسائی مشنری عالمی چرچوں کی مادّی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں عیسائیت کا پرچار کرنے والی ایک عالمی تنظیم نے امدادی سرگرمیوں پر ۱۴۵ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے خرچ کئے اور ۴۱ ملین مشنری عیسائیت کی تبلیغ میں مصروفِ کار ہیں ۔ بڑی بڑی ۱۳ ہزار لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ ہر سال مختلف زبانوں میں ۲۲ ہزار پمفلٹ شائع کئے جاتے ہیں۔ صرف ایک سال کے اندر کتابوں کے ۴ بلین نسخے تقسیم کئے گئے۔ ۱۸۰۰ ٹی وی چینل دنیا کے کونے کونے میں عیسائیت کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ کلیسا کی عیسائی تنظیمیں ۳ ملین کمپیوٹر استعمال کر رہی ہیں اورکمپیوٹر کے عیسائی ماہرین کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایک جدید قسم کا مسیحی لشکر ہے۔
۱۹۸۵ء میں ایشیا اور افریقہ میں مغربی عیسائی مشنریوں کی تعداد ۴ ملین تھی جبکہ مغرب میں ۳۵۰۰ عیسائی تنظیمیں تبلیغ میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان تنظیموں میں کام کرنے والے مشنریوں کی تعداد ۳۵ ملین ہے اور مغرب اس مشن پر کثیر سرمایہ صرف کر رہا ہے۔انٹرنیشنل کرسچین انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگارڈیوڈ وارمن لکھتا ہے کہ
"عیسائی مشنریوں نے صرف سال ۱۹۷۰ کے دوران دنیا بھر میں ۷۰ بلین ڈالر خرچ کئے اور سال ۱۹۸۰ء کے دوران ۱۰۰ بلین ڈالر خرچ کئے گئے۔ اس کے بعد سال ۱۹۸۵ء کے لئے ۱۲۷ بلین ڈالر مختص کئے گئے اور اس بڑھتی ہوئی اِمدادی سرگرمیوں کے پیش نظر اس فنڈ کی مقدار ۲۰۰ بلین ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ "
۱۹۹۹ء کے اَعداد و شمار کے مطابق عیسائیت کے بارے میں رپورٹ
عیسائی مشنوں کے اعداد وشمار
سال1970ء
سال 1999ء
سال 2025ء
ارٹوڈکس فرقہ کی تعداد
47,520,000
74,500,000
110,000,000
پروٹسٹنٹ فرقہ کی تعداد
147,369,000
222,120,000
271,755,000
کیتھولک فرقہ کی تعداد
233,800,000
321,358,000
461,808,000
افریقہ میں عیسائیوں کی تعداد
671,441,000
1,040,018,000
1,376,282,000
سمندرپار مشنریوں کی تعداد
120,257,000
333,368,000
668,142,000
ملکی مشنریوں کی تعداد
240,000
415,000
550,000
چرچوں کے فنڈز کی مقدار
70 بلین ڈالر
1,489 بلین ڈالر
26 بلین ڈالر امریکی
عیسائیت پرلکھی جانے والی کتب
17,100
24,800
70,000
عیسائیت کے پرچار میں شائع ہونیوالے رسائل
23,000
33,700
100,000
شائع ہونے والی اناجیل کی تعداد
251 ملین
2,149,341,000
4,430,000,000
عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ریڈیواسٹیشن اور ٹی وی چینل
1,230
3,770
10,000
دنیا بھر میں عیسائیت کے فروغ کے لئے بننے والے منصوبہ جات کی تعداد
510
1,340
3,000
٭٭٭٭٭
 
Top