• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت
خطیب : فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن محمد قاسم
مترجم: فاروق رفیع
پہلا خطبہ:

سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں،اس سے مدد طلب کرتے ہیں،اس سے بخشش چاہتے ہیں اور ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور اعمال کی بُرائیوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے نوازے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والانہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ پر آپؐ کی آل اور اصحاب پر کثرت سےدرود و سلام بھیجے۔
حمدوثنا کے بعد!
اللہ کے بندوں اللہ کا تقویٰ اختیار کروجیساکہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے، اس لیےکہ تقویٰ روز قیامت نجات کا باعث اور دائمی زاد راہ ہے۔
مسلمان بھائیو!
مہینوں اور سالوں کی آمدورفت عبرت و نصیحت آموز ہے۔ سورج کے طلوع و غروب میں یہ اعلان پنہاں ہے کہ یہ دنیاوی چمک بالآخر معدوم ہونے والی ہے، دنوں کا سلسلہ ختم ہوجائے گااور نسلیں شاہراہ آخرت پر یکے بعد دیگرے رواں دواں ہیں۔ دنیا میں کوئی آرہا ہے اور کوئی آخرت کو سدھار رہا ہے۔ کچھ بدبخت ہیں تو کچھ خوش بخت، اور یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہیں۔ زمانے کا تغیر و تبدل سب سے بڑا واعظ اور زمانہ اپنی مصیبتوں کے سبب سب سے فصیح متکلم ہے۔ چنانچہ اگر زندگی طویل غموں سے بھری ہو یا خوشیوں سے معمور ہو ا س کا انجام فنا پر منتج ہے اور تمام لوگ دنیا کے آخر ی مراحل میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
ایک مرتبہ نبی ﷺ نے سورج غروب ہوتا دیکھا تو فرمایا:
« لم یبق من دنیاکم فیما مضی منھا إلا کما بقی من یومکم ھذا فیما مضی منہ » (مسنداحمد)
’’تمہاری دنیا میں سے جو گزر چکی ہے صرف اتنی مقدار باقی ہے جتنا یہ سورج زندگی گزارکر اس دن میں باقی بچا ہے۔‘‘
تمام وقت ہی بڑا قیمتی ہے، لیکن جب وقت کم رہ گیا ہو تو اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی ہے جس سےاس کی اہمیت عیاں ہوتی ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’والعصر ۔ ان الانسان لفی خسر‘‘ (العصر:1، 3) ’’زمانے کی قسم، بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کی عمریں بہت طویل لکھی ہیں اور بعض کو موت اچانک اُچک لیتی ہے ،لیکن لوگوں میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اوقات اچھے انداز سے گزار کے آخرت میں ترقی حاصل کرے۔
ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ بہترین انسان کون ہے؟
تو آپﷺ نے فرمایا: ’’من طال عمرہ و حسن عملہ، قال فأی الناس شر؟ قال: من طال عمرہ و سآء عملہ‘‘ (رواہ احمد) ’’جس کی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوں، اس نے عرض کیا: لوگوں میں سے بدترین شخص کون ہے، آپؐ نے فرمایا: جس کی عمر طویل اور اعمال بُرے ہوں۔‘‘
لیکن لوگوں کا نظریہ حیات مختلف ہے۔ کچھ لوگ آخرت کو بھول کر خود کو فقط دنیاوی معاش پر موقوف کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی آخرت آباد کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے امور ادا کرتے اور ممنوعہ احکام سے اجتناب کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کے اچھے اور برے اعمال خلط ملط ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کی اہمیت کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’کل الناس یغدو فبائغ نفسھا فمعتقھا او موبقہا‘‘ (رواہ مسلم) ’’صبح کے وقت ہر شخص چلتا ہے اور اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے پھر یا تو وہ اسے ہر جہنم سے آزاد کرالیتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں کھائی ہیں کہ کامیاب شخص وہ ہے جوتزکیہ نفس کرلے اور نامراد انسان وہ ہے جو اپنےنفس کو گناہوں میں مبتلا کرلے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’والشمس وضحاھا۔ والقمر اذا تلاھا۔ والنھار اذا جلاھا۔ واللیل اذا یغشاھا۔ والسمآء و ما بناھا۔ والارض وما طحاھا۔ ونفس وما سواھا۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا۔ قد افلح من زکاھا۔ وقد کاب من دساھا۔‘‘ (الشمس:1۔10)
’’سورج اور اس کی دھوپ کی قسم! اور چاند کی قسم !جب وہ اس کے پیچھے آئے ، اور دن کی قسم !جب وہ اس کو روشن کرے ، اور رات کی قسم ! جب وہ اسے ڈھانپ لے اور آسمان کی قسم! اور اس کے بنانے کی اور زمین کی قسم! اور اسے پھیلانے کی اور نفس کی قسم! اور اسے برابر کرنے کی، پھر اس نے اسے بُرائی کی اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔ جس نے نفس کو پاک کیا یقیناً وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ ناکام ہوا۔‘‘
انسانی زندگی آزمائشوں اور مصیبتوں سے بھری پڑی ہے اور کبھی انسان زندگی کی ان لغزشوں سے ایسی ٹھوکر کھاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ نبیﷺ دنیا کی بھلائی کی ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تھے :
« واجعل الحیاۃ زیادۃ لی فی کل خیر واجعل الموت راحة لی من کل شر » (رواہ مسلم)
’’اور میری زندگی میرے لیے ہر خیر کے اضافے کا باعث بنا اور موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا۔‘‘
جوں جوں زندگی روبہ زوال ہے اس کے فتنے اور بُرائیوں اسی تیز سے ظاہر ہورہی ہے۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
’’وإن أمتکم ھذہ جعل عافیتھا فی أولھاو سیصیبہا آخرھا بلآء و أمور تنکروفھا‘‘ (رواہ مسلم) ’’اس امت کے پہلے ادوار میں عافیت رکھی گئی ہے اور امت کے آخری لوگوں کو آزمائش اور ایسے امور لاحق ہوں گے جنہیں وہ ناپسند کرتے ہوں گے۔‘‘
ہر گزرتے سال میں آزمائشوں کا سلسلہ بڑھتا جائے گا۔ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
’’لا یأتی علیکم زمان إلا والذی بعدہ شرمنہ‘‘ (رواہ البخاری) ’’تم پر جو بھی زمانہ آئے گا مگر اس کے بعد والا زمانہ (پہلے سے) بدتر ہوگا۔‘‘
پھر جب لوگ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجائیں اور اس کے احکام کی پابندی نہ کریں تو ان کے حالات زندگی اور معیشت بحران کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ گناہ نعمتیں چھین لیتے اور دلوں اور شہر کا سکون تج کردیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے:
’’وضرب اللہ مثلا قریۃ کانت اٰمنۃ مطئنہ یأیتھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بانعم اللہ فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون‘‘ (النحل:112)
’’اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو پرامن اور مطمئن تھی، اس کا رزق ہر جگہ سے وافر آتا تھا۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا مزا چکھایا اس چیز کے بدلے جو (کرتوت) وہ کرتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے سب سے بڑی دور یہ ہے کہ اس کا در چھوڑ کر غیروں سے دعا و استعانت کی جائے اور نذرونیاز غیر اللہ کے نام پردی جائیں۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے مبغوض نظر ہیں اور انہیں وہ سخت عذاب سے دوچار کرے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’فأما الذین کفروا فاعذبھم عذابا شدیدا فی الدنیا والآخرۃ ‘‘ (آل عمران:56) ’’جن لوگوں نے کفر کیا انہیں دنیا و آخرت میں سخت عذاب دوں گا۔‘‘
چنانچہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو وہ دنیا میں فقر، مالی کمی، بیماریوں اور بدامنی کا شکار ہوتا ہے اور آخرت میں اس کے لیے سخت عذاب ہے۔ لیکن انسان جب معصیات کا علانیہ ارتکاب کرے تو اس کا انجام مزید خطرناک ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ سخت سزا کی وارننگ دیتے ہیں۔
فرمان نبوی ہے:
’’کل امتی معافی إلا المجاھرین‘‘ (رواہ البخاری)
’’میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے‘‘
جدید فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ مصائب و آفات کے متعلق عقل و فلسفہ کو مقدم رکھنا اور حقیقت حال کی تحقیق کے لیے کتاب و سنت کو پس پشت ڈالنا ہے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
’’واذا جاءھم امر من الامن او الخوف اذا عوابہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لا تبعتم الشیطان الا قلیلا‘‘ (النساء :83)
’’اور جب انہیں کوئی امن یا خوف کا معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کی تشہیر کرتے ہیں حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول اور اولوالامر کے حوالے کرتے تو اسے وہ لوگ سمجھ لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تو معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کی پیروی کرتے۔‘‘
جو بھی مصیبت یا آفت نازل ہوتی ہے اس کی اصل حقیقت کے اسباب کتاب و سنت میں موجود ہیں۔ اللہ مالک الملک فرماتے ہیں:
’’ما فر طنا فی الکتاب من شئ ‘‘ (الانعام:38) ’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (مگر اسے بیان کردیا ہے)‘‘
امت مسلمہ اس وقت تک اضطراب، افراتفری اور مصائب سے نہیں نکل سکتی جب تک اپنے پروردگار کی طرف رجوع نہ کرے گی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’قلولا اذا جاء ھم باسنا تضرعوا‘‘ (الانعام:43) ’’سو جب ان کو ہمارا عذاب پہنچا تو انہوں نے عاجز ی اختیار کیوں نہ کی۔‘‘
جو شخص استغفار کا التزام کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر پریشانی میں کشادگی پیدا کردیتے ہیں، ہر تنگی آسان کردیتے ہیں اور ہر آزمائش کو عافیت میں بدل دیتے ہیں۔ جب لوگ مصائب سے دوچار ہوں تو انہیں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’ان اللہ لایغیر ما بقوم حتی یغیروااما بانفسھم‘‘ (الرعد:11) ’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتے جب تک وہ اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔‘‘
دانا شخص گناہ گاروں کی کثیر تعداد کو نہیں دیکھتا (کہ ان کی دیکھا دیکھی گناہ شروع کردے) اگراللہ تعالیٰ نے تمہیں معصیات سے محفوظ رکھا ہے تو اس عادت پر دوام اختیار کرنا واجب ہے۔
انسان کو ہروقت اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس نے آخرت کے لیے آگے کیا بھیجا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا اعمال کیے ہیں تاکہ وہ اپنے نفس سے فرائض کی ادائیگی کے متعلق، مخلوق کے حقوق کے متعلق اور مال کے متعلق پوچھ سکے کہ اس نےاسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خطبہ میں کہا: تم صبح و شام اس موت کی طرف جارہے ہو جس کا علم تم سے مخفی ہے۔ سو اگر تم میں استطاعت ہے کہ اس موت کو نیک اعمال کی صورت میں پانا ہے تو ایسا کرو ۔عمر کی طوالت اور نعمتوں کی فراوانی قابل رشک نہیں بلکہ قابل رشک چیز نعمتوں کی قدر، اعمال صالحہ کی بہتات اور اخلاص و للہیت ہے۔ انسان کی عمر کا اصل ماحصل تو نیک اعمال ہیں۔
ایک مقولہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ، جو اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال رہے، سے پوچھا گیا کہ اس دنیا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دنیا کی زندگی یوں ہے: جیسے انسان ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکل جائے۔
سو دنیا اور اس کی رعنائیوں سے بچو، کیونکہ اسے جمع کرنا ذلت اور اس کی نعمتیں آفت ہیں۔ اپنی بقیہ زندگی میں پانچ چیزوں کو غنیمت جانو (1)بڑھاپے سے قبل جوانی ، (2) بیماری سے قبل صحت، (3) فقر سے پہلے تونگری، (4) مصروفیت سے قبل فراغت، (5) موت سے پہلے زندگی۔
صحیح محاسبہ یہ ہے کہ نتیجہ میں اچھے اعمال اور گناہوں سے عافیت حاصل ہو، لیکن جو شخص خود کو غافل رکھے اس کے اوقات ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ سخت مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ سو جو کھو چکے ہو اس کا ازالہ کرو اور جو شخص اپنی اصلاح کرلے اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’یاایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون‘‘ (الحشر:18)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر نفس دیکھے جو اس نے کل کیلئے آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ جو تم عمل کرتے ہو ، سے بہت باخبر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ میرے لیے اور تمہارے لیے قرآن حکیم کو بابرکت بنائے اور اس کی آیات اور احکام ہمارے لیے نفع مند بنائے۔ میں اپنے لیے، تمہارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرتا ہوں۔ تم بھی استغفار کرو بے شک وہ بہت معاف کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:

اللہ تعالیٰ کے احسانات کے سبب تمام تعریف اسی کےلیے ہے اور اس کی توفیق پر اس کا شکر بجا ہے ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺاس کے بندے اور رسول ہیں ،اللہ تعالیٰ آپؐ پر، آپؐ کی آل اور اصحاب پر بہت زیادہ درود و سلام بھیجے۔
برادران اسلام !
نیکو کار انسان وہ ہے، جس کا آج گزشتہ کل سے اور آئندہ کل آج سے بہتر ہو، اور زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے وہ اعمال کرے جو اسے اس کے پروردگار کے قریب کردیں۔ نیکیوں میں مصروف ہو، بُرائیوں سے دور ہو، زمانے اور حالات کی گردشوں سے سبق حاصل کرے اور سلامتی اور مہلت کے دھوکا سےمحفوظ ہو ۔اعمال کرنے میں تاخیری حربے اور لمبی امیدوں کے چکر ہی میں انسان بُرے اعمال کرتا ہے اور جو شخص اپنا معاملہ رب تعالیٰ سےٹھیک کرلے وہ اسے لوگوں کے معاملات سے کافی ہوجاتا ہے۔ جو شخص باطن میں سچا ہو اس کا ظاہر حسین ہوتا ہے اور انسان جب بُرائیاں ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے،اس کی رضا تلاش کرتا ہے اور اس کی وسیع رحمت اور عنایت کی طمع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی خواہشات سے زیادہ عطا کرتا ہے۔
یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں نبی کریمﷺ پر درودو سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’اے ایمان والو! تم آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔‘‘ (الاحزاب:56)
اللھم صل وسلم و بارک علی نبینا محمد، وأرض اللھم عن خلفائہ الراشدین الذین قضوا بالحق و بہ کانوا یعدلون: أبی بکر، و عمر، وعثمان، وعلی، وعن سائر الصحابۃ أجمعین، وعنامعھم بجودک و کرمک یا أکرم الأکرمین۔
اللھم أعز الإسلام والمسلمین، وأذل الشرک والمشرکین، ودمر أعداء الدین، واجعل اللھم ھذا البلد آمنا مطمئنا و ساور بلاد المسلمین۔
اللھم أصلح أحوال المسلمین فی کل مکان، اللھم احقن دماءھم، وول علیھم خیارھم، واجمع کلمتھم علی الھدی والحق یارب العالمین۔
اللھم وفق إمامنا لھداک، واجعل عملہ فی رضاک، ووفق جمیع ولاۃ أمور المسلمین للعمل بکتابک، وتحکیم شرعک۔
(ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) (البقرہ:201)
اللھم إنا نسألک الإخلاص فی القول والعمل، اللھم إنا نعوذبک من الفتن ماظھر منھا وما بطن۔
اللھم أنت اللہ لا إلہ إلا أنت، أنت الغنی ونحن الفقراء، أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم أغثنا، اللھم أغثنا، اللھم أغثنا۔
(ربنا ظلمنا انفسنا وإن لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین) (الأعراف:23)
عباداللہ:
(ان اللہ یامر بالعدل والإحسان وإیتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعضکم لعلکم تذکرون) (النحل:90)
فاذکروا اللہ العظیم الجلیل یذکر کم، واشکروہ علی آلائہ و نعمہ یزدکم، ولذکر اللہ أکبر، واللہ یعلم ماتصنعون۔
فاحذروا الدنیا و تقلباتہا، فجمعھا عناء، ونعیمھا ابتلاء، واغتنموا ما بقی لکم من النعم الخمس: الشباب قبل الھرم، والصحۃ قبل المرض، والغنی قبل الفقر، والفراغ قبل الشغل، والحیاۃ قبل الموت۔
والمحاسبۃ الصادقۃ ما أورثت عملا صالحا، وتحولا عن معصیۃ، ومن غفل عن نفسہ تصرمت أوقاتہ و اشتدت علیہ حسراتہ، فاستدرکوا مافات بما بقی، ومن أصلح ما بقی غفرلہ ما مضی۔
۔۔۔۔۔۔::::::۔۔۔۔۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس خطبے کا ویڈیو لنک ملاحظہ کریں!
سبحان اللہ! دو خطبے بہت سی آیات واحادیث مبارکہ اور آخر میں لمبی دُعا کے باوجود ١٥ منٹ سے بھی کم۔ (پہلا خطبہ صرف دس منٹ کا)
یعنی لمبے قصّے کہانیوں کی بجائے کتاب وسنت سے براہ راست اور دو ٹوک نصیحتیں!
نبی کریمﷺ کی ہدایت « إن طول صلاة الرجل ، وقصر خطبته ، مئنة من فقهه . فأطيلوا الصلاة واقصروا الخطبة . وإن من البيان سحرا » ... صحيح مسلم کے عین مطابق!
نہایت ہی مدلل اور مرتّب خطبہ!
جزی اللہ الشیخ عبد المحسن القاسم عنا وعن المسلمين بما هو أهله
میرے پسندیدہ قراء میں سے ایک!
 
Top