• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسکراؤ...، پھر مسکراؤ...، مسکرائے جاؤ

ضرب الحدید

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
7
مسکراؤ...، پھر مسکراؤ...، مسکرائے جاؤ
میں اسے سالہا سال سے جانتا ہوں۔ وہ میرا رفیقِ کار ہے۔
یقین کیجیے میں ابھی تک یہ نہیں جانتا کہ اس کے منہ میں دانت بھی موجود ہیں کہ نہیں! ہمیشہ سے تُرش رُو، چیں بہ جبیں، گویا مُسکرا دیا تو عمر کم ہو جائے گی یا پیسے تھوڑے رہ جائیں گے۔
جریر بن عبداللہ بَجلی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا مسکرا کر ہی دیکھا۔(صحیح البخاري، حدیث: 3035) مسکراہٹ کی کئی قسمیں اور درجے ہیں۔ایک ہے دائمی بشاشت اور تازگی، یوں کہ آپ کا چہرہ ہمیشہ ہنستا مسکراتا اور خوشی سے دمکتا رہے۔
مثال کے طور پر آپ اسکول کے استاد ہیں اور اپنی کلاس کے کمرے میں جاتے ہیں تو تازہ اور خوش باش چہرے سے طلبہ کے سامنے آئیں۔ آپ ہوائی سفر کے لیے ہوائی اڈے جاتے ہیں اور ہوائی جہاز تک پہنچنے کے لیے گزر گاہ پر چلتے ہیں، لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس حالت میں مسرور نظر آنے کی کوشش کریں۔ شاپنگ سنٹر یا گیس اسٹیشن پر جاتے ہیں تو روپوں کی ادائیگی کرتے وقت مسکرائیں۔
یا آپ کسی محفل میں بیٹھے ہیں۔ کوئی آدمی آکر شامل ہوتا ہے۔ بلند آواز سے سلام کہتا ہے اور حاضرینِ محفل پر طائرانہ نظر ڈالتا ہے تو مسکرائیں۔
آپ کسی محفل میں شرکت کرتے ہیں اور سب سے ہاتھ ملاتے ہیں تو اپنے چہرے پر مُسکراہٹ لائیں۔
غصہ کافور کرنے، شک کے جذبات اور تذبذب کی کیفیت دور کرنے میں مسکراہٹ کی ایسی تاثیر ہے جس میں دوسری کوئی شے اس کی شریک و سہیم نہیں۔ بہادر وہ ہے جو اپنے جذبات پر حاوی ہو اور بدترین حالات میں بھی مسکرانا نہ چھوڑے۔
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے جا رہے تھے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موٹے کناروں والی نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ راستے میںایک اعرابی دونوں کے پیچھے چلتا ہوا آیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ قریب آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کا پلّو اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے چادر کو ایک جھٹکے سے کھینچا۔ انس رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں اس بدّو نے چادر اس شدت سے کھینچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر رگڑ کے نشان پڑ گئے۔
یہ بدّو کیا چاہتا تھا؟ آپ سوچتے ہوں گے وہ کسی نہایت ضروری کام کے سلسلے میں آیا ہو گا۔
شاید اس کا گھر جل رہا تھا اور وہ مدد مانگنے آیا تھا؟یا اس کے قبیلے کو مشرکین کی طرف سے کسی حملے کا اندیشہ تھا اور وہ اُن کے خلاف تعاون حاصل کرنے آیا تھا؟نہیں، ایسا بالکل نہیں تھا۔
اس نے چھوٹتے ہی کہا: ''اے محمد! (یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس نے احتراماً اے اللہ کے رسول نہیں کہا) بلکہ نہایت درشت لہجے میں بولا: ''اے محمد! تمھارے پاس جو اللہ کا مال ہے، اس میں سے مجھے بھی کچھ دو۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور ''مسکرا دیے۔'' پھر حکم دیا کہ اسے کچھ دیا جائے۔(صحیح البخاري، حدیث: 3149)
جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہادر انسان تھے۔ اس نوع کا برتائو انھیں صبر کادامن ہاتھ سے چھوڑ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا۔ معمولی باتوں پر نہ آپ کے جذبات میں تلاطم پیدا ہوتا اورنہ آپ ان کا بدلہ لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حددرجہ نرم دل تھے۔ آپ قوی اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ بدترین حالات میں بھی مسکراتے رہتے۔ کام کرنے سے قبل اس کے انجام پر غور کرتے۔ اندازہ کیجیے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی سے بگڑ جاتے یا اسے دھتکار دیتے تو نتیجہ کیا نکلتا۔ کیا ایسا رویہ اختیار کرنے سے نبیe کی گردن کا زخم ٹھیک ہو جاتا؟ یا بدّو تقاضا کرنے کا ڈھنگ سیکھ جاتا؟
اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور نفی ہی میں ہے تو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ایسے حالات سے نپٹنے کے لیے صبرو تحمل، برداشت، بردباری، حسنِ ظن اور ٹھہرائو سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ ہی کہا تھا:
لَیْسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَۃِ، إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِي یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ
''طاقتور وہ نہیں جو ہمیشہ (دوسروں پر) غالب آئے۔ طاقتور صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔''(صحیح البخاري، حدیث: 6114، وصحیح مسلم، حدیث: 2609۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت چہرے کی مسکراہٹ اور بشاشت دیکھ کر عوام و خواص آپ کی طرف کھچے چلے آتے تھے۔
مسلمان غزو ئہ خیبر کے لیے روانہ ہوئے۔ اثنائے جنگ میں چمڑے کا ایک تھیلا جس میں کچھ چربی تھی اور گھی سے بھری ایک مشک یہود کے قلعے کی فصیل پر سے نیچے آرہے۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اُنھیں اٹھا لیا اور کندھے پر لاد خوشی خوشی اپنے خیمے کی طرف چل پڑے۔ راستے میں اُنھیں ایک آدمی ملا جو مالِ غنیمت جمع کرنے اور اسے ترتیب دینے پر مامور تھا۔اس نے تھیلا پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور بولا: ''لائو اسے میرے حوالے کرو۔ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کروں گا۔''
عبداللہ نے اسے اپنی بغل میں دبا لیا: ''نہیں، اللہ کی قسم! یہ میں تمھیں نہیں دوں گا۔ یہ مجھے ملا ہے۔''
اس نے کہا: ''اس سے انکار کس کو ہے کہ یہ تمھیں ملا ہے۔''
دھینگا مُشتی جاری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا۔ آپ نے ان دونوں کو تھیلا اپنی اپنی طرف کھینچتے ہوئے دیکھا تو مسکرا دیے، پھر غنائم پر مامور آدمی سے کہا:''تیرا باپ نہ رہے! عبداللہ اور تھیلے کے درمیان سے ہٹ جائو۔''
اس پر اس آدمی نے وہ تھیلا عبداللہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا۔ عبداللہ اسے لے کر خیمے میں اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے، پھر سب نے مِل کر اس میں موجود چربی پکائی اور کھائی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 354/3)
آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن لیجیے:
تَبَسُّمُکَ فِی وَجْہِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ
''تمھارا اپنے بھائی کے منہ پر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔''(جامع الترمذي، حدیث: 1956)
اسوہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا مسکرا کے دیکھا۔''
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ماشاءاللہ بہت عمدہ مضمون ہے۔۔۔!اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی بھی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔!
دیگر کئی خوبیوں کی طرح مسکرانے کی یہ خوبی بھی غیرمسلموں نے بخوبی اپنا رکھی ہے۔ اور ہم ہیں کہ اپنا مطلب نہ ہو تو مسکرا کر بات کرنا بھی بوجھ سمجھتے ہیں۔
 
Top