ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 575
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
مشرک کا معنی اور یہ کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ جس نے شرک کا ارتکاب کیا تو اس نے ایک چیز کو غلط مقام پر رکھ دیا یعنی عبادت اس کے لئے کی جو اس کا مستحق نہیں تھا۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کا یہ مرتکب ہوا ہے۔ جیسا کہ لقمان کا قول اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے کہ:
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ [لقمان ۱۳]۔
جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے شرک مت کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اﷲ نے اپنی عظمت و جلالۃ شان سے متعلق جو اُمور ذکر کئے ہیں کہ اﷲ اس دن اس طرح اس طرح کرے گا تو یہ صرف ان کاموں کا ذکر ہے جو عقل میں آ سکنے والے ہیں ورنہ اﷲ کی عظمت تو اس سے بہت بلند ہے کہ کسی کی عقل اس کا یا اس کے افعال کا احاطہ کرے جیسا کہ محمد رسول اﷲ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
ما السموات السبع والارض السبع فی کف الرحمن الا کخردلة فی کف احدکم
ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اﷲ کی ہتھیلی میں ایسی ہیں جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی میں رائی کا دانہ ہو۔
اب اتنے بڑے رتبے والے اﷲ کی عظمت و جلالۃ شان میں کس طرح کسی مخلوق کو شامل کیا جا سکتا ہے جو اپنے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہ رکھتا ہو؟ اگر کوئی اس طرح کرتا ہے تو یہ شرک ہے اور اس کو سب سے بڑی جہالت اور ظلم بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح اﷲ کے ایک نیک بندے لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ بیٹا اﷲ کے ساتھ شرک مت کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے [لقمان:۱۳] ،
[تاریخ نجد:۵۸۳]
شرک کا معنی ہے کسی مخلوق کو اﷲ کی صفات ، اسماء یا عبادت میں شریک کرنا توحید کو سمجھنے کے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے اور شرک کے ساتھ جہالت لازم و ملزوم ہے جس طرح کہ قرآن نے دونوں صفات کو ان آیات میں اس طرح ذکر کیا ہے :
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَاﷲُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْوٰکُمْ [محمد:۱۹]۔
اس بات کو جان رکھو کہ اﷲ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے اپنے اور مومن مرد مؤمن عورتوں کے گناہوں کی مغفرت طلب کرو اﷲ تمہارا چلنا پھرنا اور تمہارا ٹھکانہ جانتا ہے ۔
شرک کے بارے میں فرمایا :
قُلْ اَفَغَیْرَ اﷲِ تَٲْمُرُوْنِّیْ اَعْبُدُ اَیُّھَا الْجٰھِلُوْنَ ۔ [زمر :۶۴]
کہہ دیجئے (اے محمد ﷺ) کہ اے جاہلو تم مجھے حکم کرتے ہو کہ میں غیر اﷲ کی عبادت کروں؟
لہٰذا مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہو کہ اﷲ نے اس پر جو توحید لازم کر رکھی ہے اس کی شروط ، ارکان اور نواقض کیا ہیں اور پھر اس حاصل شدہ علم کے مطابق عمل کرے تاکہ اپنے رب کی توحید کی حفاظت کرسکے۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
کہ لاالہ الا اﷲ کے مفہوم کو نماز روزہ سے پہلے سمجھنا ضروری ہے اور واجب ہے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نماز روزہ کے بارے میں معلومات حاصل کر نے سے پہلے لا الہ الا اﷲ کا معنی و مطلب معلوم کرے اس طرح شرک کی حرمت اور طاغوت پر ایمان کی حرمت ماؤں اور پھوپھیوں کی حرمت سے بڑھ کر ہے ۔ایمان کا سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اﷲ کی گواہی ہے اس کا معنی ہے کہ بندہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ الوہیت ساری اﷲ کے لئے ہے اس میں کوئی نبی، فرشتہ یا ولی شریک نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ کا بندوں پر حق ہے کہ وہ الوہیت صرف اسی کے لئے ثابت مانیں ۔اور طاغوت کے انکار کا معنی ہے کہ ہر اس چیز سے بیزاری کا اعلان جس کے بارے میں مشرکین کوئی عقیدہ رکھتے ہیں چاہے وہ جن ہو یا انسان ہو یا پتھر، درخت وغیرہ ہو ان سے بیزاری اور نفرت کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں مشرکانہ عقیدہ رکھنے والوں کو کافر اور گمراہ بھی مانے اگرچہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے والا باپ ہو یا بھائی ہو اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں تو صرف اﷲ کو پکارتا ہوں اسی کی عبادت کرتا ہوں مگر میں قبروں اور مزارات پر بننے والے قبوں اور عمارتوں یا ان پر منعقد ہونے والے میلے اور عرس وغیرہ کو کچھ نہیں کہتا انہیں روکنے یا انکی ممانعت کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ایسا شخص اپنے دعوی لا الہ الا اﷲ میں سچا نہیں ہے وہ اﷲ پر ایمان اور طاغوت کا انکار نہیں کر رہا۔ ہم نے ایسے شخص کے بارے میں مختصر سا فیصلہ سنا دیا ہے مگر اسکی مزید تفصیل ضروری ہے دین اسلام اور رسول ﷺ کی رسالت کو سمجھنے کے لئے یہ تفصیلات ضروری ہیں اور مسلمانوں کے سامنے فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باﷲ فقد استمسک بالعروة الوثقی [بقرہ:۲۵۶] کے بارے میں علماء کے اقوال لانا بھی ضروری ہے مسلمان کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ جو توحید رسول ﷺ نے امت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی شخص اس بات سے اعراض کرے منہ موڑے دنیا کو دین پر ترجیح دے تو اﷲ اس کی جہالت کی وجہ سے اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔
[مجموعة الفتاوی والرسائل والاجوبة خمسون رسالة فی التوحید للامام محمد بن عبدالوھاب، ص: ۱۳۵]