• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشعر باصطلاح صوفیہ و معارج و مدارج اہل سلوک

شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
مشعر باصطلاح صوفیہ
و معارج و مدارج اہل سلوک

شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ
کا ایک ایمان افروز مکتوب

نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم عاجز سیّد نذیر حسین بخدمت شریف میرے مفتخر و محبوب مولوی سیّد عبد العزیز صمدنی سلمہ ربّہ۔
بعد السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ ۔ واضح ہو کہ آپ کا خط پہنچ کر خوشی و خرمی حاصل ہوئی ۔ انبساط ]کشادگی [و انشراحِ قلب کی حالت تحریر کرکے میرے ناسور کہنہ کو تازہ کردیا ۔
اے عزیز ! تراخی و توقف شانِ باری تعالیٰ ہے ، جو چیز دیر سے حاصل ہوتی ہے ، وہ دیرپا ہوتی ہے ۔ سلطان الاذکار قرآن مجید ہے ۔ جو مجھ سے سیکھا ہے اس سے کام لیں ۔ '' فنا فی الشیخ '' میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے ، وہ طالب کو پہنچادیں ۔ شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے جو کوئی میرا حال دریافت کرے اس کو میری طرف سے کہہ دو
بلبل از گل نگزرد گر در چمن بیند مرا
بت پرستی کے کند گر برہمن بیند مرا
در سخن پنہاں شدم مانند بو در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
میری باتیں صرف اللہ اور اس کے رسول ۖ کا قول ہے ۔صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے ، وہ سب تصوف و درویشی ہے ۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے میرے شیخ علیہ الرحمة (١) برابر فرمایا کرتے تھے کہ ''میرے فعل سے آنکھیں بند کرلو ، میری باتوں پر کان رکھو اور اپنے دل میں جگہ دو ۔ ''یاد ہوگا کہ فقیر نے آپ سے بیان کیا تھا کہ اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے ۔ اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں ، یہ فعل رسولۖ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے ۔ خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر ۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے ، اس کی تقدیر میں خدا رسیدگی نہ ہوگی ۔ کشفِ قبور کے رمز کو واضح طریق آپ سے کہہ چکا ہوں ان باتوں کو خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی '' بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ''سے کیا تعلق بلکہ
چشم بند و گوش بند و لب بہ بند
گر نہ بینی سرّ حق بر ما بخند
اے عزیز ! ایسی چلّہ کشی سے کیا حاصل ، جو آج کل کے لوگ ( ارباب ریاست ) قبر پرستی کو آئینِ درویشی خیال کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن و حدیث اس کے خلاف ندا کر رہا ہے ۔ بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے ۔ '' لطائفِ خمسہ '' ( نمازِ پنجگانہ ) حل مشکلات کی کفیل ہوکر نورانیت کے نزول کا باعث ہوتی ہے ۔ گو یا نماز اسمِ اعظم ہے ۔ ہمیشہ اپنی حالت پر نظر ڈالنا چاہیئے اور دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہیئے ، یہ بات مشکلوں کے حل کرنے والی ہے ۔ سمجھو اور غور کرو آفات نازلہ پر صبر کرنا آلِ عباد و صالحین کا طریقہ ہے اور صبر پر ثابت قدم رہنا صوفیا کا شعار ہے ۔ جو کچھ پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ جاتا ہے وہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے ۔ فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکرو فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں ۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے ۔ حضرت سیّد السالکین (٢) قدس سرہ صادق پور (٣) میں فرماتے تھے کہ'' فقیروں کی نظر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر دی ہے اگر طالب صادق ہے تو ایک نگاہ میں مراتبِ اعلیٰ کو پہنچادیتے ہیں ۔'' وہ مراتب کیا ہیں ؟ خدا کو پہچاننا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ جاننا ۔ یہی تعلیم درویشی کا اصل اصول ہے ۔
حلقہ قائم کرنا ، ہو حق کرنا ، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوئوں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں ، ورنہ خدا سے مخفی کلامِ الٰہی ناطق ہے ۔ حضرت قدسی سیرة شاہ محمد آفاق صاحب فرماتے تھے کہ '' مینڈک کی طرح شور مچانا شانِ درویشی نہیں ہے خدا تعالیٰ سویا ہوا نہیں ہے کہ اس کو جگائیں ۔''بلکہ حرکاتِ بیہودہ کو وہ عملِ غیر صالح تصور کرتے ہیں۔ حضرت رسولِ خدا ۖ نے فرمایا کہ '' میں عبادت بھی کرتا ہوں ، نکاح بھی کرتا ہوں اور غذا بھی کھاتا ہوں لیکن میں شور و غل نہیں کرتا ہوں اور عاجزی و انکساری نبیوں کی شان ہے ۔ ''
اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیائِ کرام کا بہترین طریقہ ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے چند اعمال کو دریافت کیا ہے ، یہاں آئیے اور سنیے اور چپ رہیے کیونکہ
خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمے آید
و اللہ اعلم بحقیقة الحال ۔ و السلام خیر الختام
حواشی
(١) شیخ سے مراد شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی رحمہ اللہ ( ١١٩٢ھ -١٢٦٢ھ )ہیں ۔
(٢) سیّد السالکین سے مراد حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلوی رحمہ اللہ ( ١٢٠٠ھ -١٢٤٦ھ ) ہیں ۔
(٣) صادق پور ، عظیم آباد پٹنہ کا مشہورِ انام محلہ ، جو انگریزی استبداد کے زمانے میں اندرونِ ہند مجاہدین کا مرکزِ اوّل تھا ۔


( بحوالہ مجلہ ’’ الواقعۃ ‘‘ کراچی شمارہ نمبر ٥ شوال و ذیقعد ١٤٣٣ھ )
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ میاںؒ تعلیم خاندان شاہ وللہ سے حاصل کریں اور تصوف سے دور رہ جائے ایسا ممکن نہیں،بھلا ہو آپکا جو ساری بات سمجھادی،ابھی بھی کسی کو میاں صاحب کے صوفی ہونے میں شک ہو تو پھر اسے کسی سیکٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہئے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ میاںؒ تعلیم خاندان شاہ وللہ سے حاصل کریں اور تصوف سے دور رہ جائے ایسا ممکن نہیں،بھلا ہو آپکا جو ساری بات سمجھادی،ابھی بھی کسی کو میاں صاحب کے صوفی ہونے میں شک ہو تو پھر اسے کسی سیکٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہئے
اور قبر پرستی، چلہ کشی، حق ہو، حلقہ وغیرہ کی مخالفت کے باوجود، انہیں معروف معنوں میں صوفی مانے، تو اس کو بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
میرے چچا شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے سوانغ نگار ہیں ۔ انہوں نے تقریبا ٧٠٠ صفحات پر میاں صاحب کی سوانح لکھی ہے ۔ انہوں نے جس قدر اس موضوع پر پڑھا ہے اور وہ جس قدر میاں صاحب کو جانتے ہیں کم ہی جانتے ہوں گے ۔ صحیح یہ ہے کہ میاں صاحب ایک پاک طنیت بزرگ تھے ۔ ان کا عقیدہ سلف الصالحین کے مطابق تھا ۔ فقہیات میں اصحاب الحدیث کے منہج پر گامزن تھے ۔ ان کے انداز تحقیق میں توسع تھا ، تنگ نظری نہیں ۔ تصوف و تزکیہ نفس کے وہ قائل تھا مگر قبر پرستی اور پیر پرستی سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
میرے چچا شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے سوانغ نگار ہیں ۔ انہوں نے تقریبا ٧٠٠ صفحات پر میاں صاحب کی سوانح لکھی ہے ۔ انہوں نے جس قدر اس موضوع پر پڑھا ہے اور وہ جس قدر میاں صاحب کو جانتے ہیں کم ہی جانتے ہوں گے ۔ صحیح یہ ہے کہ میاں صاحب ایک پاک طنیت بزرگ تھے ۔ ان کا عقیدہ سلف الصالحین کے مطابق تھا ۔ فقہیات میں اصحاب الحدیث کے منہج پر گامزن تھے ۔ ان کے انداز تحقیق میں توسع تھا ، تنگ نظری نہیں ۔ تصوف و تزکیہ نفس کے وہ قائل تھا مگر قبر پرستی اور پیر پرستی سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔
صدیقی صاحب مذکورہ کتاب کا تعارف ہی کرا دے،اللہ آپکا بھلا کریں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نہایت اہم شیء ہے ۔ ثاقب صدیقی صاحب کا بہت بہت شکریہ ۔

( بحوالہ مجلہ ’’ الواقعۃ ‘‘ کراچی شمارہ نمبر ٥ شوال و ذیقعد ١٤٣٣ھ )
اہل مجلہ نے اس کو کہاں سے لیا ہے ۔ اگر ثاقب صدیقی صاحب یا اور کسی بھائی کے پاس مذکورہ مجلہ ہے تو اس کا حوالہ دیکھ کر بتائیں ۔ شکریہ

صدیقی صاحب مذکورہ کتاب کا تعارف ہی کرا دے،اللہ آپکا بھلا کریں ۔
میں بھی عا صم کمال بھائی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوں اور شدت سے منتظر ہوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ الکل کی طرف منسوب مذکورہ مکتوب سے چند اقتباسات اور نام نہاد صوفیاء​


(١)
'' فنا فی الشیخ '' میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے ، وہ طالب کو پہنچادی ۔
(یہ عقیدہ گمراہ صوفیوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ )
(٢)
شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے ۔
(گمراہ لوگوں کے ہاں صوفی اس وقت تک صوفی نہیں ہوتا جب تک شریعت کی دھجیاں نہ بکھیرے )
(٣)
صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے ، وہ سب تصوف و درویشی ہے ۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے ۔
(آج کل کونسا صوفی ہے جو بخاری شریف یا دیگر نصوص شریعت کو سامنے رکھتا ہے بلکہ ان کا مصدر دین تو ذوق ہوتا شریعت جو مرضی کہتی رہے ۔ زیادہ تکلف کریں گے تو اس کی لا یعنی عبارات بولیں گے حدثنی قلبی عن ربی )
(٤)
اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے ۔
( تہجد تو دور کی بات پانچ وقت کی نماز پابندی سے نہیں پڑھتے ۔ کیونکہ ساڈی تے دل اندر ہی مسیت ( مسجد ) اے ۔
(٥)
اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں ، یہ فعل رسولۖ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے ۔
( چراغ لے کر ڈھونڈیں ایسا صوفی جو اس طرح کے موتی بکھیرتا ہو )
(٦)
خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر ۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے ۔
( اس قاعدے کے مطابق آج کل کے سب نام نہادصوفیاء کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ )
(٧)
اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی '' بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ''سے کیا تعلق ۔
( شیخ الکل کے اس قول کے مطابق تو آج کل سارے شعبدہ باز ہی ہیں )
(٨)
بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے ۔
( کیا آج ک صوفیاء بھی قبر پرستی سے بیزار ہیں؟ )
(٩)
فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکرو فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں ۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے ۔
( شیخ الکل کی یہ بات قاصمۃ الظہر ہے اس شخص کے لیے جو ان کو گمراہ صوفیاء کی قطار میں کھڑا کرنا چاہتا ہے )
(١٠)
فقیروں کی نظر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر دی ہے اگر طالب صادق ہے تو ایک نگاہ میں مراتبِ اعلیٰ کو پہنچادیتے ہیں ۔'' وہ مراتب کیا ہیں ؟ خدا کو پہچاننا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ جاننا ۔ یہی تعلیم درویشی کا اصل اصول ہے ۔
( نام نہاد صوفیاء تو خود کو اللہ کا بندہ جاننے کی بجائے خود اللہ بن بیٹھتے ہیں ۔ گویا درویشی کے بنیادی اصول میں ہی گمراہی در آئی ہے )
(١١)
حلقہ قائم کرنا ، ہو حق کرنا ، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوئوں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں۔
( یعنی صوفیاء نہیں بلکہ دنیا کے پجاری ہیں )
(١٢)
اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیائِ کرام کا بہترین طریقہ ہے ۔
( آج کل کے تصوف اور شرک و بدعت کا چولی دامن کا ساتھ ہے )
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
خضر حیات;63016]

شیخ الکل کی طرف منسوب مذکورہ مکتوب سے چند اقتباسات اور نام نہاد صوفیاء


(١)
'' فنا فی الشیخ '' میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے ، وہ طالب کو پہنچادی ۔
(یہ عقیدہ گمراہ صوفیوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ )
جو گمراہ ہو گیا ہے یاگمراہ ہے اسکا تصوف کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا
(٢)
شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے ۔
(گمراہ لوگوں کے ہاں صوفی اس وقت تک صوفی نہیں ہوتا جب تک شریعت کی دھجیاں نہ بکھیرے )
تصوف گمراہوں کو سیدھا راہ دکھانے کیلئے ہے


صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے ، وہ سب تصوف و درویشی ہے ۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے ۔
(آج کل کونسا صوفی ہے جو بخاری شریف یا دیگر نصوص شریعت کو سامنے رکھتا ہے بلکہ ان کا مصدر دین تو ذوق ہوتا شریعت جو مرضی کہتی رہے ۔ زیادہ تکلف کریں گے تو اس کی لا یعنی عبارات بولیں گے حدثنی قلبی عن ربی )
اگر تصوف نصوص شریعت سے ہے تو پھر قیامت تک رہے گا،اسلیے تصوف اسلامی حاملین پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں ،اور قیامت تک رہے گے۔
(٤)
اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے ۔
( تہجد تو دور کی بات پانچ وقت کی نماز پابندی سے نہیں پڑھتے ۔ کیونکہ ساڈی تے دل اندر ہی مسیت ( مسجد ) اے ۔
تہجد صوفیاء کہ نزدیک سالکین کئلئے بنیادی شرط ہے اس پر سراج منیر میں مولانا ابراھیم میرؒ نے بہت کچھ لکھا ہے۔یہ جو کہتے ہیں دل میں نماز ہوتی ہے ،انہیں تصوف کی بو بھی نہیں لگی۔
(٥)
اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں ، یہ فعل رسولۖ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے ۔
( چراغ لے کر ڈھونڈیں ایسا صوفی جو اس طرح کے موتی بکھیرتا ہو )
الحمد اللہ صوفیاء سے بڑھ کر اسلام کی کسی نے خدمت نہیں کی۔
(٦)
خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر ۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے ۔
( اس قاعدے کے مطابق آج کل کے سب نام نہادصوفیاء کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ )
نام نہاد کا بیڑا پہلے بھی غرق تھا اور اب بھی غرق ہے۔اور یہ اصول ہمیشہ سے صوفیا کا رہا ہے۔
(٧)
اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی '' بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ''سے کیا تعلق ۔
( شیخ الکل کے اس قول کے مطابق تو آج کل سارے شعبدہ باز ہی ہیں )
جی سارے شعبدہ باز ہی ہیں ان کے لئے جو شعبدہ بازوں کی تلاش میں ہیں، ورنہ جو مانگتا ہے ۔یھدی الیہ مینیب۔تو اللہ اسکو اہل حق صوفیاء کے پاس لے ہی جاتا ہے،آپ نے تو ایسے ہی کہ دیا کہ سارے شعبدہ باز ہیں ،جیسے آپ عالم الغیب ہیں حافظ صاحب اہل علم کو یہ زیب نہیں دیتا ۔
(٨)
بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے ۔
( کیا آج ک صوفیاء بھی قبر پرستی سے بیزار ہیں؟ )
قبر پرست پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں اور حقیقی تصوف پہلے بھی تھا اور آ ج بھی ہے،الحمد للہ سب سے زیادہ قبر پرستی کے خلاف صوفیاء ہی نے کام کیا ہے ،اگر شک ہو تو خاندان غزنویؒ ،خاندان لکھویؒ،اور دیگر صوفیا اہلحدیث کی سوانح اٹھا کر پڑھ لو،شاہ اسمعیل شہد،اگے مولانا شاہ ولی اللہ کو دیکھ لو ،اسی طرح چلتے جاؤ،اور علما ظواہر کو بھی دیکھ لو ،جو صوفی نہیں ہیں ان میں اکثر کے پاس بحث وجدل کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
(٩)
فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکرو فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں ۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے
۔
جی آپ نے سب کا نام لیکر اپنی علمی قابلیت کا خوب ثبوت فراہم کیا ہے،آپ کہتے کہ کہ تصوف جو قران حدیث سے ہم آہنگ ہے !کدھر چلا گیا ہے آپ اسکو سامنے لے آئے؟
( شیخ الکل کی یہ بات قاصمۃ الظہر ہے اس شخص کے لیے جو ان کو گمراہ صوفیاء کی قطار میں کھڑا کرنا چاہتا ہے )
صوفیا نے ہمیشہ اصل اور نقل کی پہچان کرائی ہے
(١٠)
فقیروں کی نظر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر دی ہے اگر طالب صادق ہے تو ایک نگاہ میں مراتبِ اعلیٰ کو پہنچادیتے ہیں ۔'' وہ مراتب کیا ہیں ؟ خدا کو پہچاننا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ جاننا ۔ یہی تعلیم درویشی کا اصل اصول ہے ۔
( نام نہاد صوفیاء تو خود کو اللہ کا بندہ جاننے کی بجائے خود اللہ بن بیٹھتے ہیں ۔ گویا درویشی کے بنیادی اصول میں ہی گمراہی در آئی ہے )
(١١)
حلقہ قائم کرنا ، ہو حق کرنا ، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوئوں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں۔
( یعنی صوفیاء نہیں بلکہ دنیا کے پجاری ہیں )
(١٢)
اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیائِ کرام کا بہترین طریقہ ہے ۔
( آج کل کے تصوف اور شرک و بدعت کا چولی دامن کا ساتھ ہے )
[/QUOTE]
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیائِ کرام کا بہترین طریقہ ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے چند اعمال کو دریافت کیا ہے ، یہاں آئیے اور سنیے اور چپ رہیے کیونکہ
خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمے آید
و اللہ اعلم بحقیقة الحال ۔ و السلام خیر الختام
 
Top