• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشہور اصطلاح ناصبی تعریف اور تاریخی پس منظر

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مشہور اصطلاح ناصبی کا تعارف اور تاریخی پس منظر
معروف یہ ہے کہ آل بیت کے دشمنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
تاہم جس طرح شرک، تکفیر اور بدعات کی اصطلاحات ہمارے معاشرے میں استعمال کی جاتی ہیں اسی طرح لفط ناصبی کا بے محابا استعمال بھی عام ہے
ضرورت ہے کہ اس لفظ کو سمجھا جائے اور اس کا استعمال بھی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لفظ ناصبی کی اصل کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی اصل نہ تو قرآن مجید میں ہے اور ہی فرامین رسالت سے اس کی کوئی بنیاد پائی جاتی ہے بلکہ صحابہ کرام میں سے بھی کسی سے یہ اصطلاح منسوب نہیں اور یہ امر واضح ہے کہ فتنوں کی ابتدا سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے دور سے ہو چکی تھی اور پہلی صدی ہجری میں اس کے بعد بہت سے فتنے بالخصوص اہل عراق اور اہل شام کے مابین اختلافات صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے سامنے آئے لیکن کسی نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی
البتہ اس اصطلاح کا سب سے قدیم استعمال بعض شیعہ رواۃ کی گفتگو یا منسوب مرویات میں ملتا ہے (جیسا کہ اس کا تفصیلی ذکر آگے کیا جائے گا)
یہ کوئی سید حمیری ہے (ایک رافضی شاعر صحابہ کرام کو سب و شتم کیا کرتا تھا اور امہات المومنین پر الزام تراشیاں اور عباسی خلفا کی مدح سرائی کیا کرتا تھا 173 ھجری میں فوت ہوا) (المنتطم ابن الجوزی 9:39، سیر اعلام لنبلا ذہبی 8:44 وغیرہم ) جس کے ابیات میں یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوا
وما یجحد ما قد قلت فی السبطین انسان
و ان انکر ذوالنصب فعندی فیہ برھان ( الغدیر 2:158)
یعنی اس اصطلاح کی ولادت دوسری صدی ھجری کے اآخر میں ہوئی اور یہ اصطلاح عالم شیعیت میں ہی متداول رہی تاوقتیکہ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ جو 234 ھجری میں فوت ہوتے ہیں ان کا ایک قول ملتا ہے: من قال فلان مشبہ علمنا انہ جھمی و من قال فلان مجبر علمنا انہ قدری ومن قال فلان ناصبی علمنا انہ رافضی (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ ، 1:147 اور اسی معنی میں امام ابو زرعہ اور ابو حاتم سے بھی اسی کتاب میں یہ قول ملتا ہے اور امام البربھاری نے بھی شرح السنۃ صفحہ 52 میں نقل کیا اور اس کی تفصیل لسان المیزان جلد5 صفحہ 268 میں مل سکتی ہے)
اور اس کے بعد امام الذھلی جو کہ 258 ھجری میں فوت ہوئے اور امام ابو زرعہ الرازی جو 264 ھجری میں فوت ہوئے ، نے اس کا ایک اور مفہوم میں استعمال کیا لکھتے ہیں: لا تسالوہ (یعنی امام البخاری) عن شئی من الکلام فانہ ان اجاب بخلاف ما نحن علیہ وقع بیننا و بینہ و شمت بنا کل ناصبی و رافضی (مقدمہ فتح الباری 1:490)
اور امام ابو زرعہ لکھتے ہیں: اذا رایت الکوفی یطعن علی سفیان الثوری و زائدۃ فلا تشک انہ رافضی واذا رایت الشامی یطعن علی مکحول و الاوزاعی فلا تشک انہ ناصبی (طبقات الحنابلہ 1:200)
پھر امام الخطیب البغدادی رحمہ اللہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: لو اخذت معاویہ علی کتفک لقال الناس رافضی و ولو اخذت علیا علی کتفی لقال الناس ناصبی (تاریخ بغداد 2:232)
تو ان اقوال سے جو امور سامنے اآتے ہیں وہ اختصار کے ساتھ درج کیے جا رہے ہیں
1) اگر ان اقوال کے قائلین کی طرف سے دیکھا جائے یعنی جغرافیائی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اصطلاح کا مولد عراق ہے
2) اس کے ایک سے زائداطلاقات ملتے ہیں جس میں خطیب بغدادی کا قول موجودہ استعمال سے قریب ترین ہے
3) اہل حق کی مخالفت کے لیے یہ قول استعمال کیا گیا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)
اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں
1- زمخشری لکھتے ہیں: بغض علی و عداوتہ (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)
2- ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ (ھدی الساری ص 459)
3- سیرت نگار ابن اسید الناس لکھتے ہیں: النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی (المحکم والمحیط الاعظم 8:345) اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے
4- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل (مجموع الفتاوی 3:154)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ابتدائی ادوار میں اس اصطلاح کا استعمال اہل سنت کی طرف سے اتنا زیادہ نہیں ملتا لیکن ایک بات اہم ہے اس کے لغوی اور متداول بربنائے شیعہ اصطلاحی مفہوم زیادہ مشہور ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال صرف سید نا علی اور ان کی اولاد میں سے صرف سید ناحسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ زیادہ مشہور ہو گیا اور پھر بعد میں اس میں عموم بھی داخل ہو گیا جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی تعریف میں بیان کیا
خلاصۃ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصطلاح پہلے مرحلے میں صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھی جس میں آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض صریح یا غیر صریح کیا جائے اور ان لوگوں میں سرفہرست خوارج تھے جو کہ شیعان علی میں ہی شمار ہوتے تھے اور واقعہ تحکیم کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی مخالفت پر اتر آئے (مجموع الفتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ 3:154)
اب جہاں تک تعلق ہے اس ابتدائی دور میں خوارج کا نواصب میں شامل ہونا تو اس میں کسی کوئی شک ہی نہیں اور نہ ہی اختلاف
البتہ دوسری جماعت جو اس حوالے سے مشہور ہوئی وہ سید نا مروان بن الحکم رحمہ اللہ کی اولاد سے منسوب رویے ہیں جن میں سے اکثر ضعیف ہیں جن کا جائزہ اگلی سطور میں لیا جائے گا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مروان بن الحکم رحمہ اللہ کے مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد سید نا علی رضی اللہ عنہ پر برسر منبر طعن زنی شروع ہوئی جو آخری خلیفہ مروان بن محمد تک جاری رہی اور یہ حوالے تاریخ کی مختلف کتابوں میں نظر آتے ہیں جس کے تحت سید نا علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک تھے والعیاذ باللہ اور انہی لوگوں کا ایک اور نام بھی مشہور ہوا ۔۔۔ العثمانیوں ۔۔ یعنی قتل عثمان میں علی کو شریک سمجھنے والے (الکامل فی التاریخ 3:330) ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔۔ و اعوذباللہ من ھذہ الہفوات کلہا اور اس کے مقابل ایک اور اصطلاح مشہور ہوئی العلویہ یہ وہ لوگ تھے جو علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر افضل جانتے تھے (فتح الباری 6:191) اور ان دونوں اصطلاحات کے بارے میں مزید تفصیلات جرح و تعدیل کی کتب میں دیکھی جا سکتی ہیں
اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ ان تمام اصطلاحات کے موجد اہل سنت و جماعت نہیں (مشارق الشموس 2:391) (العثمانیہ لعبدالسلام ھارون ص 5)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ان سابقہ تمام اصطلاحات میں ناصبی کی اصطلاح سب سے زیادہ اوسع ہے کیونکہ اس میں ہر وہ شخص جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا اس میں سرفہرست خوارج ہیں پھر یہ اختلاف آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد کے ساتھ بھی ہوتا چلا گیا
کچھ محققین کے نزدیک روافض کو ناصبی ہی شمار کیا ہے لیکن یہ صرف ایک گمراہ گروہ کاملیہ کے نام سے گزرا ہے زیادہ سے زیادہ اس پر انطباق ہو سکتا ہے گو کہ معنوی طور پر تو یہ درست ہے کہ سید نا علی رضی اللہ عنہ اور اولاد علی کے سب سے بڑے دشمن روافض ہی ہیں لہذا اگر ناصبیت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی مخالفت کا نام ہے تو روافض ہی ناصبی ہونے کے حقدار ہیں کہ انہوں نے محبت کی آڑ میں دشمنی کرنے کا کام کیا ۔
اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تعریف کو مدنظر رکھا جائے تو روافض کو ایک اور اعتبار سے ناصبی کہا جا سکتا ہے کہ روافض بعض امہات المومنین پر طعن زنی کرتے ہیں اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ امہات المومنین اہل بیت ہونے کی مصداق اول ہیں ۔
لیکن کچھ محققین نے یہ کہہ کر اس قول کو رد کر دیا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تعریف میں اھل البیت سے مراد صرف علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ہی ہے اور اس امر پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اھل البیت سے مراد صرف علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ہے ۔
 
Top