• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنوعی تخلیق زر

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
(محمد نعمان اصغر)
بینکنگ سسٹم کو جدید معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور بہت حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ ہمارے موجودہ معاشی نظام میں بینک جہاں اور بہت سی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے وہیں اس کا ایک اہم ترین کام زر کی تخلیق ہے۔ ہم بینک کے سودی نظام کے حوالے سے بہت حد تک واقف ہیں، لیکن زر کو مصنوعی طور پر تخلیق کرنے میں بینک کیا کردار ادا کرتا ہے اور کس طرح سے زر کی رسد میں اضافہ کرتا ہے اور پھر اس سے معیشت اور عوام پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پہلو کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم ہے۔ ہمارے لیے تخلیقِ زر کے عمل اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج و عواقب کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ایک طرف دجالی تہذیب کے دجل و فریب پر مبنی اس نظام کے نقصانات اور منفی اثرات ہم پر آشکار ہوسکیں اور دوسری طرف اسلامی معاشی نظام کی خوبیاں بھی واضح ہوکر نمایاں ہوسکیں۔

کاغذی کرنسی

زر کی مصنوعی تخلیق کا ایک بڑا سبب کاغذی کرنسی ہے۔ جب تک دنیا میں حقیقی کرنسی یعنی سونا چاندی کا رواج رہا، زر کی مصنوعی تخلیق ممکن نہ تھی اور دولت صرف اپنی حقیقی شکل میں دنیا میں پائی جاتی تھی۔ مگر جونہی کاغذی کرنسی دنیا میں رائج ہوئی تو زر کی مصنوعی طور پر تخلیق کا عمل آسان ہوگیا۔ کاغذی کرنسی کے ذریعے تخلیق زر کے عمل کو ہم چند نکات میں سمجھ سکتے ہیں۔

١۔ کاغذی کرنسی کوئی حقیقی زر نہیں، بلکہ ایک غیر حقیقی اور مصنوعی زر ہے۔ حقیقی زر اسے کہتے ہیں جس کی اپنی مالیت ہو اور اپنی ذات کے اعتبار سے اس کی قدر وقیمت ہو جیسے سونا اور چاندی کہ ان کی ذاتی قدر ہے جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے باوجودیکہ انہیں دنیا میں کہیں بھی قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے برخلاف اگر کاغذی کرنسی کو دیکھیں تو اس کی اپنی ذاتی کوئی وقعت نہیں، یہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس میں قدر صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت نے اسے قانونی ٹینڈر بنایا اور عوام نے اسے قبول کیا۔

٢۔ جب کسی ریاست کو ملک چلانے کے لیے قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مرکزی بینک کی طرف رجوع کرتی ہے۔ مرکزی بینک کاغذ لے کر اس پر خوبصورت سی چھپائی کرتا ہے، کاغذ پر رقم لکھی جاتی ہے اور یوں بینک نوٹ چھاپ کر حکومت کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کے بدلے میں حکومت بھی کاغذ لے کر اس پر مخصوص قسم کی چھپائی کرتی ہے، اس پر رقم لکھی جاتی ہے اور اس طرح بانڈ تیار کرکے مرکزی بینک کو دے دیتی ہے۔ پھر حکومت مرکزی بینک سے ملنے والی رقم مختلف بینکوں میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح سے نئے زر کی تخلیق ہوجاتی ہے جسے باقاعدہ قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: فرض کریں کہ پاکستانی حکومت کو دس ارب روپے ملکی امور چلانے کے لیے درکار ہیں۔ حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے دس ارب روپے قرض طلب کرتی ہے جسے بینک منظور کرلیتا ہے۔اب بینک یہ کرتا ہے کہ دس ارب روپے کے نئے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے اور حکومت کے حوالے کردیتا ہے اور بدلے میں حکومت بھی دس ارب روپے کے بانڈ چھاپتی ہے اور سٹیٹ بینک کو دے دیتی ہے۔ پاکستانی حکومت دس ارب روپے وصول کرکے مختلف بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح دس ارب روپے کی خطیر رقم سرکولیشن میں آجاتی ہے جو اب باقاعدہ قانونی ٹینڈر بن چکی ہوتی ہے۔
اس مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دس ارب روپے مالیت کا زر کتنی آسانی سے تخلیق کرلیا گیا۔ اس مقصد کے لیے صرف کاغذ اور مخصوص قسم کی روشنائی درکار تھی۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے کو پرنٹ کرکے اس پر 5000 لکھا اور وہ اتنی ہی مالیت کا قانونی زر بن گیا۔

٣۔ نوٹ چھاپنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس سے کرنسی کی قدر میں کمی آجاتی ہے۔ اگر ایک روپیہ بھی نیا تخلیق ہو تو اس کی وجہ سے باقی تمام نوٹوں کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ لہذا جتنے نوٹ تخلیق ہوں گے اتنا ہی اس کی قدر میں کمی آتی چلی جائے گی۔ جب مرکزی بینک نئے نوٹ چھاپتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کروڑوں لوگوں کی ملکیت میں موجود نوٹوں کی قدر کو جبری طور پر گرادیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بینک نوٹ چھاپ کر لوگوں سے ان کی دولت کا ایک حصہ چرالیتا ہے اور یہ ایسی چوری ہے جس کا عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ ہی کوئی شکایت کرتا ہے۔

۴۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیقِ زر کی یہ ساری کاروائی کمپیوٹر پر ہوتی ہے اور حقیقت میں کاغذی کرنسی کو چھاپنے کا عمل ہوتا ہی نہیں۔ یعنی حکومت بینک سے جب قرض مانگتی ہے تو بینک بجائے نوٹ چھاپ کر دینے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم کا اضافہ کردیتا ہے اور یوں نیا زر تخلیق ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں نہ کوئی کرنسی چھاپی گئی اور نہ ہی اسے حکومت کو دیا گیا۔ درجِ بالا مثال کو ہی لے لیجیے کہ حکومت کو دس ارب روپے کی ضرورت تھی تو بینک نے بجائے کرنسی نوٹ چھاپنے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں دس ارب روپے کا اضافہ کردیا اور یہ سب کچھ کمپیوٹر پر صرف اعداد بدلنے سے ممکن ہوگیا۔ اس صورت میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ چونکہ حقیقی طور پر کرنسی کی تخلیق ہوئی ہی نہیں لہذا یہ دس ارب روپے مصنوعی طور پر تخلیق کیے گئے اور دنیا میں کہیں بھی حقیقی شکل میں اس زر کا وجود نہیں۔

۵۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ایسا ہے کہ زر کی ٹوٹل سپلائی کا بہت کم حصہ کاغذی کرنسی کی شکل میں ہوتا ہے جبکہ سپلائی کا اکثر حصہ صرف کمپیوٹر میں اکاؤنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ پاکستانی روپے کی ٹوٹل سپلائی 100 کھرب روپے ہے یعنی اس وقت دنیا میں 100 کھرب روپے سرکولیشن میں ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اتنی ہی مالیت کے کاغذی نوٹ حقیقی طور پر بھی موجود ہوں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا اور بہت ہی کم نوٹ حقیقی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 100 کھرب میں سے تقریبا 10 کھرب روپے حقیقی کاغذی کرنسی موجود ہوگی جبکہ باقی 90 کھرب روپے صرف کمپیوٹرز پر اکاؤنٹ کی صورت میں موجود ہوں گے اور ان کا خارج میں کوئی حقیقی وجود نہیں ہوگا۔ امریکی کرنسی ڈالر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ٹوٹل زر کا صرف تین فیصد حقیقی کرنسی کی شکل میں موجود ہے جبکہ باقی ستانوے فیصد زر کا کوئی حقیقی وجود نہیں اور وہ محض کھاتوں کی صورت میں کمپیوٹرز وغیرہ پر موجود ہے۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
فریکشنل ریزرو بینکنگ:
مصنوعی تخلیقِ زر کا ایک بہت بڑا سبب بینکنگ سسٹم کا وہ طریقہ کار ہے جسے فریکشنل ریزرو بینکنگ (Fractional Reserve Banking) کہا جاتا ہے اور جو دنیا کے تمام بینکوں میں رائج العمل ہے۔ اس طریقہ کار کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ بینکوں میں زیادہ تر مصنوعی طور پر زر کی تخلیق اسی عمل کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے معاشی نظام کے لیے سب سے زیادہ مہلک اور نقصان دہ طریقہ کار فریکشنل ریزرو بینکنگ ہے تو بے جا نہ ہوگا اور واقعتاً اس نظام میں اتنی خرابیاں اور مفاسد ہیں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف ایک ملک بلکہ پوری دنیا کی معیشت زوال پذیر ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ایسے معاشی بحران دنیا میں جنم لے چکے ہیں جس کی وجہ سے کئی ملکوں کے بینک دیوالیہ ہوگئے اور بہت سے ملکوں کو اپنی معاشی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی پڑی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ماضی میں بڑے بڑے نامور معیشت دانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے اس طریقہ کار پر تنقید ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود یہ طریقہ کار آج بھی دنیا میں اسی طرح رائج ہے اور مصنوعی طور پر تخلیقِ زر میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔
فریکشنل ریزرو بینکنگ کا مطلب یہ ہے کہ بینک اپنے ڈیپازٹ کا ایک مخصوص تناسب الگ سے ریزرو میں رکھ کر باقی رقم دوسروں کو قرض پر دے دے اور نیا زر تخلیق کرے۔
فریکشنل ریزرو بینکنگ کے طریقہ کار کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں اور امریکی کرنسی ڈالر کی مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک شخص کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہے اور وہ اسے بینک میں جمع کروانا چاہتا ہے۔ وہ پیسے لے کر بینک کے پاس جاتا ہے۔ بینک ایک لاکھ ڈالر وصول کرتا ہے، اس شخص کا اکاؤنٹ کھولتا ہے اور ایک لاکھ ڈالر اس کے کھاتے میں لکھ دیتا ہے اور یہ معاہدہ کرتا ہے کہ آپ جب بھی مطالبہ کریں گے یہ رقم آپ کو مل جائے گی۔ اب تک بینک کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہیں: حقیقی شکل میں بھی اور کھاتے میں بھی۔
اس کے بعد بینک ایک لاکھ ڈالر میں سے دس ہزار الگ سے محفوظ کرلیتا ہے اور باقی نوے ہزار بطورِ قرض دینے کے لیے کسٹمر کی تلاش میں ہوتا ہے۔ ایک شخص بینک میں قرض لینے کے لیے آتا ہے، اسے گاڑی خریدنے کے لیے نوے ہزار ڈالر چاہییں۔ بینک اسے نوے ہزار ڈالر دیتا ہے، وہ جاکر شو روم سے گاڑی خریدتا ہے اور شو روم کا مالک نوے ہزار وصول کرکے اسی بینک میں جمع کروادیتا ہے۔ بینک اس شو روم مالک کا اکاؤنٹ کھول کر نوے ہزار اس میں جمع کردیتا ہے۔ اب بینک کے پاس کھاتے میں ٹوٹل ایک لاکھ نوے ہزار ڈالر جمع ہوگئے: ایک لاکھ وہ جو پہلے شخص نے جمع کروائے تھے اور نوے ہزار وہ جو دوسرے شخص نے جمع کروائے۔
بینک نوے ہزار میں سے دس فیصد یعنی 9000 الگ سے محفوظ کرلیتا ہے اور باقی 81000 قرض دینے کے لیے گاہک کی تلاش میں ہے۔ ایک شخص بینک میں آتا ہے، اسے ایک فلیٹ خریدنے کے لیے 81000 ڈالر چاہییں۔ بینک اسے یہ رقم دے دیتا ہے اور وہ جاکر فلیٹ خرید لیتا ہے۔ فلیٹ کا مالک رقم وصول کرکے اسی بینک کے پاس آتا ہے اور 81000 ڈالر بینک میں جمع کروادیتا ہے۔ بینک اس کا اکاؤنٹ کھول کر یہ رقم اس کے کھاتے میں لکھ لیتا ہے۔ اب بینک کے کھاتے میں ٹوٹل 271000 ڈالر جمع ہوگئے۔
100000+90000+81000 =271000
یہ سائیکل اسی طرح چلتا رہتا ہے اور بینک ہر ڈیپازٹ کا دس فیصد الگ سے ریزرو میں رکھ کر باقی نوے فیصد دوسروں کو قرض دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ بینک ایک لاکھ سے مزید نو لاکھ ڈالر تخلیق کرلیتا ہے اور یوں اس کے پاس ٹوٹل دس لاکھ ڈالر جمع ہوجاتے ہیں۔
حقیقی زر=100000 ڈالر
مصنوعی زر=900000 ڈالر
بینک کے پاس حقیقی شکل میں اب بھی صرف ایک لاکھ ڈالر ہی موجود ہیں، لیکن فریکشنل ریزرو بینکنگ کی مدد سے بینک نے اسی ایک لاکھ کی مدد سے نو لاکھ ڈالر مزید تخلیق کرلیے جس کا اندراج صرف کھاتوں میں ہے، حقیقت میں اس زر کا کوئی وجود نہیں۔
نتائج:
1۔ چونکہ فریکشنل ریزرو بینکنگ کا یہ طریقہ کار مصنوعی طریقے سے زر تخلیق کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اس لیے اس میں خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے کہ اگر سارے کھاتے دار یا ان کی اکثریت بینک سے پیسہ نکلوانا چاہیں تو بینک انہیں پیسہ واپس نہیں کرسکے گا اور مجبوراً دیوالیہ ہوجائے گا۔ سابقہ مثال کو لے لیجیے کہ بینک کے پاس حقیقی زر ایک لاکھ روپے ہے لیکن اس نے مصنوعی طور پر نو لاکھ مزید تخلیق کیا ہوا ہے یعنی بینک کے تمام کھاتے داروں کے ٹوٹل دس لاکھ روپے بینک کے پاس جمع ہیں۔ اب فرض کریں کہ یہ تمام کھاتے دار بینک سے اپنا پیسہ واپس لینے پہنچ جاتے ہیں اور اس کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بینک ایک لاکھ ڈالر تک تو دے سکتا ہے جو اس کے پاس حقیقی شکل میں موجود ہیں، باقی کے نو لاکھ ڈالر وہ کہاں سے لائے جو اس نے مصنوعی طور پر تخلیق کیے تھے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو عام طور پر بینک امانتیں واپس کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور یوں دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں جتنے معاشی بحران پیدا ہوئے اس کا اصل اور بنیادی سبب یہی تھا۔
2۔ بینک جب قرض دیتا ہے تو اس پر سود وصول کرتا ہے۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ میں یہ سود حقیقی زر کے ساتھ ساتھ مصنوعی زر پر بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اوپر والی مثال ہی کو لیں تو بینک صرف ایک لاکھ ڈالر پر سود وصول نہیں کرے گا جو حقیقی شکل میں موجود ہے، بلکہ اس نے جو مصنوعی زر نو لاکھ ڈالر تخلیق کیا ہے وہ اس پر بھی سود وصول کرے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس زر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں، بینک اس پر بھی سود وصول کرتا ہے۔
3۔ ہم جانتے ہیں کہ زر بذاتِ خود مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ ہماری ضروریات اس طرح سے پوری کرتا ہے کہ ہم اس کے ذریعے اشیاء خریدتے ہیں اور خدمات کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ میں زر تخلیق کرکے اس کی سپلائی میں اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ اشیاء و خدمات کی سپلائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اشیاء و خدمات کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور زر کی قوتِ خرید مسلسل کم ہوتی ہے اور یہ کمی صرف مصنوعی زر میں ہی نہیں بلکہ اس زر میں بھی پیدا ہوجاتی ہے جو حقیقی شکل میں موجود ہے۔ اشیاء وخدمات کی قیمتوں کا بڑھ جانا اور زر کی قوتِ خرید کا کم ہوجانا اسی صورتِ حال کو ہم مہنگائی سے تعبیر کرتے ہیں۔
4۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ میں جس طرح سے سائیکل چلتا ہے اور بینک ہر ڈیپازٹ کا دس فیصد ریزرو رکھ کر باقی نوے فیصد قرض دیتا ہے اگر اس سائیکل کو ٹیکنیکل طریقے سے دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ چلتا ہی رہے لیکن اگر ریاضی کے حساب سے اس کی اوسط نکالی جائے تو وہ نو گنا بنتی ہے یعنی بینک ہر ڈیپازٹ کو نو گنا کرکے زر تخلیق کرتا ہے۔جیسے اوپر والی مثال میں ہم نے دیکھا کہ ایک لاکھ ڈیپازٹ سے نو لاکھ ڈالر تخلیق کیے گئے۔ یہ اس صورت میں ہے جب فریکشن ریٹ دس فیصد ہو، اگر فریکشن ریٹ اس سے مختلف ہو تو تخلیقِ زر کے تناسب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ فریکشن ریٹ ہر ملک کا الگ الگ ہوتا ہے اور یہ جتنا کم ہو بینک اتنا زیادہ قرض دے سکتا ہے اور مصنوعی طور اتنا ہی زیادہ زر تخلیق کرسکتا ہے۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
فُل ریزرو بینک
اس سے پہلے ہم نے فریکشنل ریزرو بینکنگ کا ذکر کیا اور یہ سمجھا کہ کس طرح بینک لوگوں کی جمع شدہ رقوم دوسروں کو قرض دے کر اس سے نیا زر تخلیق کرتا ہے اور کیسے مصنوعی اور ہوائی انداز میں جمع شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ زر سرکولیشن میں آجاتا ہے۔ بینک کے لیے یہ سارا عمل فریکشنل ریزرو بینکنگ کے قانونی جواز کی وجہ سے ممکن ہوا یعنی دنیا کا قانون بینک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر جمع شدہ رقم کا ایک مخصوص حصہ ریزرو میں رکھ باقی قرض دیتا رہے اور ہر ایک سے یہی وعدہ کرے کہ آپ کی مطلوبہ رقم عند الطلب ادا کردی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سسٹم میں بینک اپنے پاس موجود ریزرو سے زیادہ قرض دیتا ہے۔
اگر بینک کو قانونی طور پر فریکشنل ریزرو بینکنگ کی بجائے صرف فل ریزرو بینکنگ کی اجازت دی جائے تو پھر مصنوعی طور پر زر تخلیق نہیں ہوسکے گا اور بینک کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ ہوائی انداز میں زر سرکولیشن میں لے آئے۔ فل ریزرو بینکنگ کا مطلب یہ ہے کہ بینک کے پاس جتنے ریزروز موجود ہیں وہ صرف اسی کے بقدر رقم قرض دے، اس سے زیادہ قرض دینے کی ممانعت ہو۔
اسے ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں: فرض کریں کہ ایک شخص بینک میں ایک لاکھ روپے جمع کروانے آتا ہے۔ بینک یہ رقم جمع کرلیتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ ہمیں اس رقم میں سے نوے ہزار ایک سال کے لیے اس شرط پر ادھار دیں گے کہ بدلے میں ہم آپ کو مخصوص شرح سے سود دیں ؟ وہ شخص حامی بھرلیتا ہے اور یوں معاہدے کے مطابق اب ایک سال کے لیے یہ شخص بینک سے نوے ہزار کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور بینک اس عرصے میں یہ رقم استعمال کرنے میں آزاد ہے۔ اس وقت بینک کے پاس ایک لاکھ روپے ہیں جس میں سے دس ہزار اس نے ریزرو میں رکھے جو وہ عند الطلب دینے کا پابند ہے اور نوے ہزار اس نے ایک سال کے لیے ادھار لیے ہیں جسے وہ کہیں بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے بعد بینک کے پاس ایک ضرورت مند آدمی نوے ہزار کا قرض لینے کے لیے آتا ہے، بینک یہ رقم اس معاہدے کے ساتھ سود پر دیتا ہےکہ دس ماہ کے اندر اندر یہ رقم بینک کو واپس کی جائے گی۔ دس ماہ بعد وہ شخص بینک کو سود سمیت رقم واپس کردیتا ہے اور یوں بینک کو نوے ہزار بمع سود واپس مل جاتے ہیں۔ پھر جب سال پورا ہوتا ہے تو وعدے کے مطابق بینک پہلے شخص کو اس کی رقم یعنی ایک لاکھ بمع سود واپس کردیتا ہے۔اس صورت میں شرح سود کا فرق بینک کا منافع ہے یعنی بینک قرض لیتے ہوئے سود کی شرح کم رکھتا ہے اور قرض دیتے ہوئے سود کی شرح زیادہ وصول کرتا ہے اور ان دونوں کا فرق بینک کا منافع ہوتا ہے۔
اس مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی نیا زر مصنوعی طریقے سے تخلیق نہیں کیا جارہا اور بینک کے پاس جتنے ریزرو موجود ہیں بینک اسی کے بقدر قرض دے رہا ہے یعنی بینک نے جب جب کسی کو ادائیگی کرنی ہے تب تب اس کے پاس اتنے ریزرو موجود ہیں۔ اسی وجہ سے اس سسٹم میں افراطِ زر کی نوبت نہیں آتی اور نہ ہی کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے۔
فل ریزرو بینکنگ اور فریکشنل ریزرو بینکنگ کے فرق کو ہم آسان انداز میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ فل ریزرو بینکنگ کی صورت میں بینک نے مخصوص وقت میں جن لوگوں کو ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں اتنی رقم بینک کے پاس ریزرو میں موجود ہوتی ہے جیساکہ اس مثال میں ہم نے دیکھا کہ بینک نے ایک لاکھ میں سے نوے ہزار ایک سال کے لیے ادھار لیا جس کا مطلب یہ ہے کہ قانونی طور پر دس ہزار روپے امانت دار کبھی بھی وصول کرسکتا ہے اور بینک کے پاس یہ دس ہزار روپے ہر وقت موجود ہیں۔ باقی نوے ہزار چونکہ ایک سال کے ادھار پر ہیں تو قانونی طور پر وقت سے پہلے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ البتہ سال گزرنے کے بعد مطالبہ ہوسکتا ہے تو اس وقت تک بینک دوسرے شخص سے یہ رقم بمع سود واپس لے چکا ہوتا ہے، لہذا بینک بڑی آسانی سے ایک لاکھ کی رقم امانت دار کو واپس کردیتا ہے۔
جبکہ فریکشنل ریزرو بینکنگ میں بینک کے پاس ریزرو میں اتنی رقم موجود نہیں ہوتی کہ وہ ایک وقت میں سب کی ادائیگیاں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر امانت داروں کی اکثریت یا سب بینک سے پیسہ واپس لینے پہنچ جائیں تو بینک انہیں ادائیگی نہیں کرسکے گا۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ کی جو مثال پہلے گزر چکی ہے اس پر دوبارہ غور کرلیں کہ بینک میں ایک شخص نے ایک لاکھ ڈالر جمع کروائے اور عند الطلب واپسی کا معاہدہ ہوا۔ بینک نے دس ہزار رکھ کرنوے ہزار ڈالر قرض دیا جس سے قرض دار نے گاڑی خریدی۔ شو روم کے مالک نے گاڑی کی قیمت وصول کرکے نوے ہزار اسی بینک میں جمع کروادیے اور بینک نے شو روم مالک کے ساتھ بھی عند الطلب ادائیگی کا معاہدہ کیا۔ بینک نے اس میں سے نو ہزار الگ کرکے اکیاسی ہزار آگے قرض دے دیا۔ اس شخص نے اس رقم سے فلیٹ خریدا۔ فلیٹ کے مالک نے رقم وصول کرکے اسی بینک میں جمع کروادی اور بینک نے اس کے ساتھ بھی عند الطلب ادائیگی کا معاہدہ کیا۔ اس مثال میں غور کریں کہ اصل رقم ایک لاکھ ڈالر ہے جو بینک کے پاس حقیقی شکل میں موجود ہے، لیکن اس نے عند الطلب تین لوگوں کو 271000 ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں: ایک وہ شخص جس نے بینک میں سب سے پہلے ایک لاکھ جمع کروائے تھے، دوسرا شوروم کا مالک جس نے نوے ہزار جمع کروائے اور تیسرا فلیٹ کا مالک جس نے اکیاسی ہزار جمع کروائے۔ اب حالت یہ ہے کہ بینک ایک لاکھ تک تو ادائیگی کرسکتا ہے کیونکہ اتنی رقم حقیقی شکل میں موجود ہے، لیکن اس سے زیادہ کی ادائیگی بینک نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فرض کریں کہ یہ تینوں افراد بینک سے وصولی کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور اپنی اپنی رقم کا مطالبہ کردیتے ہیں تو بینک اپنا عند الطلب ادائیگی کا وعدہ پورا نہیں کرسکے گا اور دیوالیہ ہوجائے گا۔
 
Top