• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاشرتی بگاڑ علتیں اور علاج !!!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186

الحمد اللہ رب العالمین و الصلوة والسلام علیٰ رسول الکریم ۔

يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض ومن يتولهم منكم فإنه منهم إن اللـه لا يهدي القوم الظالمين ۔ سورة المائدة ۵۱ ،،
ترجمہ:: اے ایمان والو ! تم یہود نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ۔ ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ::
اس آیت ربّانی میں اہل ایمان کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ وہ یہود نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہ کریں اور جو کوئی ان کے ساتھ دوستی قائم کرے وہ بھی ان ہی جیسا تصّور ہوگا اور ایسا کرنے والا کوئی بھی شخص ظالم ہی مانا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے ساتھ اسقدر نفرت ہیں کہ وہ انہیں راہ راست دکھانا پسند نہیں کرتا ۔ یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہونے کی وجہ سے دعوت غور و فکر دیتی ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہود اور نصاریٰ آخر اس قدر ناپسندیدہ کیوں ٹھہرے کہ ان کے ساتھ دوستی قائم کرنے والا ایک ظالم قرار پاتا ہیں ۔
قرآنی آیت کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ دین کے معاملے میں افراط اور تفریط کا شکار ہوگئے ۔ یہود نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کہ کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ بارہا ان احکامات اور تعلیمات ایک احمقانہ مزاق اڑایا اور یوں اللہ تعالیٰ کے غصب کا شکار ہو کے رہ گئے جبکہ نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے برعکس اپنی منشاء اور پسند کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غلو سے کام لیا اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کردہ اعتدال کی راہ تھی اس سے یہ دونو طبقے منحرف ہوکر غضب یافتہ اور گمراہ کرار پائے ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حیثیت اس کائنات کے خالق اور مالک ہونے کے ناطے ایک واحد معبود برحق کے طور مسلم ہیں ۔ وہی وہ اللہ ہے کہ جس نے ای قائنات کو ایک خاص منشاء کے تحت بنایا اور اس کائنات کی تمام مخلوقات کی تخلیق کے پیچھے ایک پر حکمت مقصد کارفرماں ، جس کا بیان قرآن مقدس کی آیات مبارکہ میں واضح اور عیاں ہے ۔ وہی وہ اللہ ہے کہ جس نے انسان کو بھی ایک خاص مقصد اور مدعا کے ساتھ اشرف المخلوقات کے منصب سے نوازا ۔ وہی اللہ تعالیٰ ہے کہ جس نے انسان کو علم و فضل کی دولت سے نوازا تاکہ وہ اپنی زندگی کے پیچھے پوشیدہ حقائق سے واقف ہو کر اپنی عبدیت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے معبود برحق کی رضاء اور خوشنودی کے حصول کے لئے ہمیشہ محوِ جستجو رہے ۔
انسان کے منصب عبدیت پر فائز ہونے کی وجہ سے ہی اس سے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز نصیب ہوا ہیں اور جو منصب عبدیت سے خود ہی معضول ہوکر ایک باغی بن کر اپنے معبود برحق کے خلاف علم بگاوت بلند کرے کالانعام بل ھم اضل کے پست مقام پر دھڑام سے آگرتا ہے اور اسی مقام پر آکر وہ معاشرتی بگاڑ کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔
قرآنی تعلیمات کے کے تناظر میں یہود نصاریٰ اپنی ان باغیانہ اور مجرمانہ حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دشمن کرار پائے ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال امور کو حرام اور حرام امور کو حلال کرار دینے کے گناہ کے مرتکب بنے اور یوں غیرت الٰہی کو للکار تے ہوئے اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے ۔ حد تو یہ ہے کہ بار بار غضب الٰہی کا شکار ہوکر یہ لوگ اپنے اندر کوئی اصلاح احوال نہ کرپائے بلکہ باربار اپنی شرارتوں کو دہراتے رہے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت پر اکساتے اور آمادہ کرتے گئے ۔
ہمارے موجودہ دور میں ہم بھی ان کی شرورت انگیز اور فتنہ پرور خصائل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ پوری دنیا اس وقت ان مجرموں اور اللہ کے باغیوں کی تقلید میں اپنی تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں تیار کرنے میں محو اور مصروف ہے ۔ پوری دنیا اس وقت ایک معاشرتی بگاڑ کی آما جگاہ نظر آتی ہے ۔ اور تو اور ٹھہرے لیکن مسلمانوں کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں ۔ مسلمانوں نے قرآن و سنت سے کنارہ پکڑ کر ؛ روشن خیالی ؛ کے دلفریب اور گمراہ کن نعرے کی زد میں آکر اللہ تعالیٰ کے ان دشمنوں کے صفوں میں اپنی جگہ تلاشنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کردہ امور کو آج اکثر مسلمان حرام کرار دینے اور حرام کردہ امور کو حلال کرار دینے کے جرم میں مرتکب پائے جاتے ہیں ۔ ان جرائم کی تعداد مختصر نہیں بکلہ طویل ہے البتہ چند جرائم جن میں شراب جوا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں حرام کرار دئے ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد یوں بیان ہوا ہے ،:: إنما يريد الشيطان أن يوقع بينكم العداوة والبغضاء في الخمر والميسر ويصدكم عن ذكر اللـه وعن الصلاة فهل أنتم منتهون ۔ سورة المائدة ۹۱ ::
ترجمہ :: شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوّے کے ذریعے تمارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرادے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے۔ سو اب بھی باز آجاؤ
اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح طور بیان ہورہی ہے کہ شراب نوشی کی وجہ سے لوگوں میں آپس میں مغض اور عداوت پیدا ہوجاتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی یاد سے اور نماز سے اللہ کے بندو ں کو باز رکھتی ہے یہ دونو باتیں انسان کی عبدیت کے تقاضوں کے برعکس اور بر خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ حکم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رسی ( اسلام و قرآن ) کو مل کر مضبوطی سے تھامے رکھیں ۔ یہاں اس حکم میں انسانی انس و محبت کے اوصاف حمیدہ کی بات ہے اور ادھر شراب ان انسانی اوصاف پر کاری ضرب لگا کر بغض و عداوت کے بیج انسانوں کے دلوں میں بونے کی باعث بن جاتی ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہےکہ نماز ایک مسلمان کو فحش اور منکرات سے روکتی ہے اور دوسری طرف شراب نماز سے روکتے ہوئے فحش اور منکرات کی ترغیب دینے میں بڈی فعال ثابت ہو رہی ہے ۔ یورپی اور مغربی معاشروں میں مہمانوں کی تواضع تو کب سے اسی شراب سے کی جاتی رہی ہے اور اب کے مسلمان ممالک کے اکثر حکمران اسی ام الخبایث سے مہمانو کی خاطرتواضع کرنے میں اپنی شان اور فخر محسوس کرتے ہے بلکہ ان کی دیکھا دیکھی میں مسلمانوں کے بہت سے آسودہ حال گھرانے بھی اسی روش پر گامزن نظر آتے ہیں ۔ اکثر مسلم ممالک میں جمہوریت کے دلدادہ قائدین تو شراب شراب کو آب حیات سمجھنے لگے ہے اور اس کے بغیر لقمہ تو کیا پانی کے دو گھونٹ بھی حلق سے اتر نے کے نہیں ٹھہرتے ۔ رفتہ رفتہ ان ممالک میں شراب کو جمہوری آئین کے تحت قانونی جواز فراہم کرکے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کو حلال کرار دینے کی جسارت دکھا کر اللہ تعالیٰ کے غضب کو للکارا جا رہا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ اب بہت سے مسلمان کھلے عام شراب نوشی کے مرتکب ہو کر معاشرتی بگاڑ کی جڑیں مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ۔ شراب کے ساتھ ساتھ براون شوگر ، افیوم ، چرس ، بھنگ ، گانجا وغیرہ نوجوانوں کے مستقبل کی تباہی کا سامان ثابت ہورہے ہیں ۔
مغرب کی نقالی میں اکثر مسلم ممالک میں اخلاقی تنزل جو جڑ پکڑ رہا ہے وہ مسلم امت کے لئے پریشانی کا باعث ہے ۔ منشیات کی طرح جو ابھی مسلم معاشروں کی بربادی کا باعث ثابت ہو رہا ہے ۔ جوّے کے نئے طریقے مغرب نے تراشے ہیں اور دیگر غیر مسلم ملّتوں کی طرح مسلمانوں نے بھی بالواسطہ جوّے کو اپنا کر ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب عمل میں لایا ہے ۔ لاٹری ، سٹہ بازی وغیرہ تو اب کھلے عام عملائے جارہے ہیں ۔ یہود نصاریٰ نے اب تجارت کے لبادے میں جوّے کو فروغ دینے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء میں بہت ساری مضوعات وغیرہ کے ساتھ جوّے کی ایک انتہائی خوفناک شکل یہ ہے کہ ان اشیاء کے ڈبوں ، لفافوں وغیرہ کے اندر کوئی کوپن یا Strip وغیرہ ہوتا ہے جن پر Scratch کرنے سے گاہک کی ( قسمت کا فیصلہ ) ہوجاتا ہے کہ آیا وہ مفت میں Fridge , T.V , Washing Machine یا کوئی اور چیز حاصل کرتا ہے یا نہیں ۔ یا پھر مختلف مصنوعات کی پیکنگ کے اندر کچھ ہلکی پھلکی مگر قدرے قیمتی اشیاء کے حصول کے امکانات مشتہر کئے جاتے ہے ۔ اس طرح ان مضوعات اور اشیاء کی خریداری میں اضافے کی خاطر جوّے کا لالچ دے کر عوام میں رغبت پیدا کی جاتی ہے اس طرح تجارت کے ضریعے جوّے کو عوام الناس میں ایک خوشنما طریقے سے رائج کرنے کی مزموم حرکات کا ارتکاب عمل میں لاکر حلال تجارت کے ساتھ حرام ( جوّے ) کو شامل کرکے حلال و حرام کو خلط و ملط کیا جاتا ہے ۔
مغربی شاطر یہود و نصاریٰ نے طب کے ضریعے بھی عوام الناس میں حرام کو رائج کرنے کی مضموم حرکت کا ارتکاب بھی عمل میں لایا ہے ۔ شراب اور دیگر مصنوعات کو محلول طور پر استعمال کرکے بہت ساری بلکہ اکثر ادویات کے مرکبات ترتیب دئے ہیں اور جو عوام الناس کے علاج کے لئے ہر جگہ بازار میں بہت آسانی سے دستیاب ہے ۔ اسلام میں شہد کی جو قدر و منزلت ہے اور ا میں جو شفاء کی تاثیر ہے وہ کسی اور شئے میں نہیں پائی جاتی اور یہ ایک بہترین محلول کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہود نصاریٰ نے اس حلال محلول پر حرام کو ترجیح دے کر عالمی سطح پر ایک بڑے خوفناک فتنے کو عام کیا ۔
الغرض یہود نصاریٰ نے مختلف طریقوں سے عالمی سطح پر سماجی نظام کو درہم برہم کرنے میں حلال و حرام کو یا تو خلط ملط کردیا یا پھر اس سے بھی بڑھ کر حلال کو ترک اور حرام کو رائج کیا افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر یوں متاثر ہو کے رہ گئے اور آپسی اتحاد جیسی حلال چیز پر آپسی انتشار جیسی حرام چیز کو قبول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ۔ ضرورت اس بات کی ہیں کہ ہم مغربی افکار اور نظریات سے چھٹکارا پانے کے لئے اسلامی افکار اور تعلیمات کی طرف رجوع کریں اور یہی ہماری تمام علتوں اور خرابیوں کا علاج ہے ۔ اس لئے کہ یہ علاج اسی قادرِ مطلق کا متعین کردہ ہے کہ جو اس کائنات کا معبودلگانہ ہے اور جس کے سامنے تمام جن و انس جواب دہ ہیں !!!
 
Top