چنانچہ آج ہم تاریخ کے ایک ایسے منفرد موڑ پر کھڑے ہیں جہاں زمانے کی گردش دیکھنے سے تعلق رکھنے لگی ہے۔ ملت کا ہر فردآج جس قدر اہم ہوگیا ہے شاید وہ ہمارے اندازے سے باہر ہو۔ سب سے بڑھ کر گلہ ہمیں اپنے اس فرد سے ہوگا جو ’فیصلے کی اس گھڑی‘ کو قریب لانے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کر رہا ہو، جبکہ یہ کردار ادا کرنے کی اس وقت ایک نہیں ہزاروں صورتیں ممکن العمل ہیں۔
عالم اسلام کی ساری ہی مٹی اس وقت بے حد زرخیز ہو چکی ہے، اور ’نم‘ کی بھی اس وقت، خدا کا فضل ہے، کوئی ایسی کمی نہیں!!!
---------------------------------------------------------------
(1) یوسف: 41”اور اللہ غالب ہے اوپر کام اپنے کےلیکن بہت لوگ نہیں جانتے“ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
(2) اس کو بڑھاپے نے آ لیا ہو، اولاد (چھوٹی چھوٹی) بے آسرا ہو، (اس کا یہ باغ) طوفانی آندھی کی نذر ہو جائے، جس میں آگ ہو، اور وہ جل کر راکھ ہو جائے“
(3) ”مگر تم لوگ بہت جلدی کرتے ہو“– اشارہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب کی طرف جو آپ نے اپنے کچھ صحابہ کے اپنی حالتِ زار کہنے پر ارشاد فرمایا تھا۔
(4) اس موضوع پر دیکھئے مسند احمد کی دو حدیثیں، ایک مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ سے اور دوسری تمیم داری سے:
عن المقداد بن ال أسود: سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لا یبقیٰ علیٰ ظہر ال أرض بیت مدر ولا وبر الا أدخلہ اﷲ کلمة الاسلام بعز عزیز أو ذل ذلیل، اما یعزہم اﷲ عزوجل فیجعلہم من أہلہا، أو یذلہم فیدینون لہا (باقی مسند ال انصار، حدیث المقداد)
مقداد بن الاسود سے، ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: روئے زمین پر کوئی گھر یا جھونپڑی ایسی نہ رہے گی جس میں اللہ اسلام کا بول (بالا کراکے) داخل نہ کردے گا، عزت والوں (کیلئے اس کو) عزت بنا کر اور ذلت والوں کیلئے ذلت۔ یا تو اللہ انہیں عزت دے گا یوں کہ وہ انہیں اہل اسلام میں سے کردے، یا پھر ان کو ذلت دے گا یوں کہ وہ اسلام کے زیر نگین آجائیں گے“
عن تمیم الداری: سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لیبلغن ہذا ال أمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اﷲ بیت مدر ولا وبر الا أدخلہ اللہ ہذا الدین بعز عزیز أو بذل ذلیل، عزا یعز اﷲ بہ الاسلام، وذلا یذل بہ الکفر (مسند الشامیین، حدیث تمیم الداری)
(1) تمیم داری سے ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: یہ امر (اسلام کا غلبہ و اقتدار) لازماً وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہے۔ اور اللہ کوئی گھر اور جھونپڑی ایسی نہ چھوڑے گا جہاں وہ اس دین کو داخل نہ کردے، کوئی عزت کا حق رکھتا ہے تو اس کو عزت دے کر، اور کوئی ذلت کا حقدار ہے تو اس کو ذلت دے کر۔ عزت جوکہ اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جوکہ اللہ کفر کو دے گا“۔
اس حدیث کے حوالے سے دو باتیں قابل توجہ ہیں:
1) حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں لفظ آتے ہیں:
الا ادخلہ اﷲ کلمۃ الاسلام۔ جس کا ترجمہ ہم نے کیا ہے ”جس میں اللہ اسلام کا بول (بالا کراکے) داخل نہ کردے گا“ البتہ ہمارے بعض شکست خوردہ طبقوں کے ہاں اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ”دعوتِ اسلام“۔ یقینا ”دعوتِ اسلام“ بھی کچھ ایسا غلط ترجمہ نہیں بشرطیکہ ”دعوت“ کا وہ قاصر مفہوم نہ لیا جائے جو ہمارے ان ہزیمت پسند طبفوں کے ہاں لیا جاتا ہے
’کلمہ‘ کے عربی کے اندر کئی سارے استعمالات ہیں جس سے مراد یہاں بہرحال اسلام کا غلبہ و اقتدار ہی ہے (لفظ ’کلمہ‘ کا استعمال قرآن میں بھی ہوا ہے:
وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلیٰ، وکلمۃ اللہ ہی العلیا – التوبہ: 40 ، یعنی ”اللہ نے کفار کا بول پست کردیا اور اللہ کا بول بالا ہے“) حدیث میں بھی اس لفظ سے عین یہی مراد ہونے کیلئے قرینہ اسی حدیث کے اندر موجود ہے، فرمایا:
او یذلہم فیدینون لہا۔ یدینون کا مطلب ہے ”ذلیل اور محکوم ہو جانا“، جبکہ لہا میں ہا کی ضمیر کلمۃ الاسلام کی طرف جاتی ہے۔ جو کہ اپنے اس مفہوم میں واضح ہے کہ اس سے مرادکچھ لوگوں کا اسلام قبول کرکے ملت اسلام میں داخل ہوجانا ہے اور کچھ لوگوں کا دین کے معاملے میں اپنے کفر پر ہی رہنا مگر اسلامی اقتدار کے تابع و زیر نگین ہوجانا، جیساکہ ابتدائے اسلام میں ہوا، نہ یہ کہ سب کے سب لوگوں کا ’اسلام کی دعوت قبول کرلینا‘، جیسا کہ ہمارے یہ حضرات، جو کہتے ہیں کہ اب قیامت تک کیلئے صرف ’دعوت‘ ہی مشروع ہے نہ کہ ’قتال‘، اس طرح کی احادیث کے ضمن میں فرمانے لگتے کہ’ ایک وقت آئے گا جب ’دعوت‘ ہی اتنی پھیل جائے گی کہ سب کے سب لوگ اسلام کی دعوت قبول کرلیں گے‘!
2) مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث میں
او یذلہم فیدینون لہا کے الفاظ سے واضح ہے کہ ابھی یہ وہ زمانہ ہوگا جب لوگ کفرپر برقرار رہنے کی آزادی، جوکہ ان کو اسلام نے دے رکھی ہے، بدستور استعمال کررہے ہوں گے البتہ اسلام کے اقتدار کے محکوم ہوں گے۔ اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اسلام کا یہ وہ غلبہ نہیں جو نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوگا اور جب سب اہلِ کتاب، جو بچ جائیں گے، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں گے، یعنی یہود اور نصاریٰ بطورِ دین ختم ہوجائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام پر اکٹھے ہو کر شریعتِ محمدی کے تابع ہوجائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ موقوف کردیں گے، مراد ہے ’غیر مسلم‘ رہنے کی آزادی جاتی رہے گی۔ چنانچہ مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ اور تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کی ان احادیث سے اس غلبہء اسلام کا پتہ ملتا ہے جو نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہونے والے غلبہء اسلام کے علاوہ ایک واقعہ ہے، اور جس کا ہونا ظاہر ہے کہ ابھی باقی ہے، کیونکہ ’روئے زمین کے ہر گھر کے اندر شوکتِ اسلام کا داخل ہوجانا ابھی رونما نہیں ہوا۔ جب ایسا ہے تو اسلام کا یہ غلبہ کہ جہاں تک دن رات کی پہنچ ہے وہاں تک اسلام کا اقتدار پہنچے گا، ایسا دور ہوگا جو خروجِ دجال اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے پیشتر ہوگا، اور اللہ اسی امت کے اندر اتنا دم خم از سر نو پیدا کرے گا کہ یہ پورے عالم میں اسلام کا پرچم بلند کر لے گی۔ لہٰذااس امت کے دن پھر جانے کے معاملے میں ’نزولِ عیسیٰ‘ کے ساتھ ہی سب کی سب امیدیں وابستہ کرانا درست نہیں، ابھی ایک غلبہء اسلام، اس حدیث کی رو سے، بجا طور پر باقی ہے، جوکہ خروجِ دجال اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہے!
بشکریہ