• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفکر اسلام مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی تفسیر سراج البیان

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مفکر اسلام مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی تفسیر سراج البیان

قرآن کریم اللہ رب العٰلمین کی وہ عظیم کتاب ہے جو اس نے اقوام عالم کی ہدایت ورہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ نبوت کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وفرامین بھی قرآن کریم کی تفسیر ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو معلم قرآن بنایا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر قرآن کا علم اپنے صحابہ کو دیا اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس علم کو تابعین کو سکھایا اس طرح تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا علم برابر منتقل ہوتا رہا چنانچہ ہر دور میں ربانی علماء اس علم کی تدوین وترتیب اور نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ قدیم وجدید دور میں پیدا ہونے والے فتنوں اور غیر اسلامی افکار ونظریات نے اس علم کو غبار آلود کرنے کی ہر چند کوشش کی مگر یہ علم کسی بھی طرح کے فتنے سے متاثر ہوئے بغیر اپنی اصل پر قائم رہا اور قیامت تک قائم رہے گا کیوں کہ قرآن کریم، تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا محافظ اللہ رب العٰلمین ہے۔

تفسیرقرآن کریم اور تعلیمات قرآن کریم کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے علماء حق نے اس علم کو غیر عربی زبانوں میں منتقل کرنے کا اہم کام انجام دیا، برصغیر خصوصا ًمتحدہ ہندستان میں اس کام کی ابتداء امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے وقت کی رائج زبان فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تاکہ عام انسانوں کا رشتہ وتعلق اللہ کی کتاب سے براہ راست قائم ہو جائے ۔اس دور کے علماء سوء اور باطل پرستوں نے شاہ صاحب کی بے پناہ مخالفت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ انقلابی سلسلہ برابر چلتا رہا پھر اردو زبان کا دور آیا تو حضرت شاہ صاحب کے صاحبزادوں شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین رحمہما اللہ نے اردو زبان میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کیا اور پھر ان کے شاگردوں نے ان ہی ترجموں کو بنیاد بناکر مزید آسان زبان میں ترجمہ قرآن اور مختصر حواشی اور مفصل تفاسیر مرتب کیں۔

شاہ محمد اسحٰق رحمہ اللہ کے بعد مسند ولی اللہ کے امین اور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی تحریک آزادی فکر (جس کی بنیاد عمل بالکتاب والسنۃ پر قائم تھی) کے پاسبان شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ قرار پائے، شیخ الکل رحمہ اللہ نے اس عظیم ذمہ داری کو نصف صدی سے زائد عرصے تک بحسن وخوبی انجام دیا، ملک اور بیرون ملک سے بے شمار تشنگان علوم کتاب وسنت حاضر خدمت ہو ئے اورزیور علوم کتاب وسنت سے آراستہ ہو کر اپنے اپنے علاقوں کو واپس ہوئے تو نور ہدایت پھیلاتے چلے گیے جن جن علاقوں سے گزرے اور جہاں جہاں قیام کیا وہ علاقے اور بستیاں قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں سے گونجنے لگیں، کسی نے درس وتدریس کی ذمہ داری نبھائی، کسی نے تصنیف وتالیف کا میدان سنبھالا اور کسی نے میدان خطابت کی شہسواری کی ۔ متحدہ ہندستان میں خطیب الہند حضرت مولانا محمد صاحب جوناگڑھی رحمہ اللہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، مولانا جونا گڑھی رحمہ اللہ حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد کے شاگرد ہیں یعنی مولانا جوناگڑھی کی سند حضرت شیخ الکل رحمہ اللہ کے واسطے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سے جاملتی ہے، مولانا جونا گڑھی نے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کی عظیم ومعتبر ومستند تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا، متحدہ ہندستان میں یہ سعادت سب سے پہلے مولانا جونا گڑھی رحمہ اللہ کے حصے میں آئی۔

حضرت مولانا سید احمد حسن دہلوی رحمہ اللہ ، حضرت شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ کے تلامذہ میں اہم مقام رکھتے ہیں موصوف نے اردو زبان میں ’’احسن التفاسیر‘‘ کے نام سے قرآن کریم کی کئی جلدوں میں تفسیر لکھی جو تفسیر بالحدیث کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ حضرت میاںصاحب اور ان کے تلامذہ کی تصنیفی ، تدریسی اور دعوتی خدمات کے ذکر کا موقع ہے نہ یہ صفحات اس کے متحمل ہیں۔ یہاں تو بس ایک دو حضرات کا مختصر ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے۔

تفسیر سراج البیان جو آپ کے ہاتھوں میں ہے حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اس تفسیر کی تصنیف پر تقریباً پون صدی گزرچکی ہے، اس عرصے میںاس کے تقریباً پندرہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، یہ تفسیر اہل علم وعرفان سے سند قبولیت حاصل کر چکی ہے۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ نے جس زمانہ (۱۹۳۴ ء)میں یہ تفسیر لکھی تھی وہ ان کی جوانی کا دور تھا یعنی اس وقت ان کی عمر پچیس چھبیس برس کی تھی۔

حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تصنیفی، تحقیقی، ادبی، دعوتی اور علمی صلاحیت کا جائزہ لینا میرے جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ مولانا ندوی رحمہ اللہ کو جس عظیم وعبقری شخصیت کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا اس ذات گرامی کا نام نامی حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ ہے، حضرت مولانا گوجرانوالہ رحمہ اللہ نے جس درسگاہ سے علمی پیاس بجھائی تھی وہ محدث پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کی عالی مرتبت درسگاہ تھی اور محدث پنجاب رحمہ اللہ کو حضرت شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ اس طرح مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ اور شیخ الکل کے درمیان صرف دو واسطے ہیں۔ مولانا ندوی نے حضرت مولانا اسماعیل صاحب گوجرانوالہ رحمہ اللہ سے بھرپور استفادہ کیا ۔دینی نصاب کی تکمیل کے بعد استاد گرامی رحمہ اللہ کے سفارشی خط کے ذریعہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا، ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۰ء تک ندوہ میں رہے ’’تخصص فی القرآن الکریم‘‘ میں امتیازی حیثیت حاصل کی، ندوہ سے ۱۹۳۰ء میں فراغت کے بعد مولانا لاہور واپس ہوئے تو لاہور کی مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ اور درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ مولانا ندوی کے حلقۂ درس قرآن کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کالج کے پروفیسر، صحافی، ادیب اور طلباء کی خاصی تعداد شریک ہوتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا کا اسلوب قدیم وجدید کا سنگم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدگی اور گہرائی میں ڈوبا ہوا تھا، مولانا نہایت متانت وپختگی کے ساتھ معترضین اورمستشرقین کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کا جواب بھی دیتے تھے۔ درس قرآن کا یہ سلسلہ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۹ء تقریباً بیس برس تک جاری رہا اسی دوران دو مرتبہ درس قرآن مجید کی تکمیل ہوئی۔ مولانا ندوی نے جمعہ کے خطبات میں بھی قرآن کریم ہی کی از اول تا آخرترتیب کے ساتھ ترجمہ وتفسیر بیان فرمائی ۔

مولانا ندوی تعلیم سے فراغت کے بعد یعنی ۱۹۳۰ء سے آخری دم تک یعنی ۱۹۸۷ء تقریباً ستاون برسوں میں درس قرآن، خطبۂ جمعہ اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زیادہ نہایت معیاری کتابیں تصنیف فرمائیں جو اہل علم وفن کے حلقوں میں نہایت قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ تفسیر قرآن اور علوم قرآن کریم سے مولانا کو بے حد شغف تھا، مولانا کی قرآنی علوم پر گہری نظر ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے پچیس چھبیس برس کی عمر میں سراج البیان کے نام سے نہایت جامع تفسیر لکھی۔

مولاناندوی رحمہ اللہ کی قرآنی علوم پر گہری نظر کو ان کے اساتذہ کرام بھی تسلیم کرتے تھے یہ ان کے لیے بڑے شرف کی بات تھی اس سلسلہ میں ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔

برصغیر ہندوپاک کی جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں ایک روشن نام حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کا آتا ہے، مولانا سیالکوٹی جلیل القدر عالم اور منقول ومعقول کے جامع وماہر تھے، انھیں تفسیر قرآن پر مکمل عبور حاصل
تھا، وہ فارغ التحصیل فضلاء کو تفسیر پڑھاتے تھے، ان کے درس قرآن میں دور ونزدیک سے بلاامتیاز مسلک فضلاء شریک ہوتے تھے۔ حضرت مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ ، مولانا ندوی کے استاد گرامی حضرت مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ کے استاد تھے، حضرت مولانا سیالکوٹی نے مولانا غلام رسول مہر صاحب رحمہ اللہ کی تجویزوتحریک پر سورہ فاتحہ کی تفسیر ’’واضح البیان فی تفسیر ام القرآن‘‘کے نام سے لکھی تھی جو ۱۹۳۳ء میں چھپی تھی۔ اب اصل واقعہ مولانا ندوی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں ۔

ایک مرتبہ (۱۹۳۲ء کے آخرتا۱۹۳۳ء کے شروع میں)امرتسر میں جماعت اہل حدیث کا جلسہ تھا، اس میں مولانا سیالکوٹی بھی تشریف فرما تھے اور اس تفسیر کا مسودہ ان کے پاس تھا۔ عشاء کے بعد انھوں نے مجھے آواز دی ’’حنیف ادھر آؤ میری بات سنو۔‘‘ میں حاضر ہوا تو فرمایا: تم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے قرآن میں درجہ تخصص کیا ہے اور تمام تفسیریں تم نے نئی نئی پڑھی ہیں، جن کے مطالب تمھارے ذہن میں محفوظ ہوں گے۔ مسجد مبارک میں تمھارے درس قرآن کی بڑی شہرت ہے۔ یہ میری تفسیر کا مسودہ ہے جو میں نے ابوالکلام کے جواب میں لکھی ہے، اسے رات کو پڑھو اور صبح کی نماز کے بعد مجھے بتاؤ یہ کیسی تفسیر ہے۔

مولانا ندوی فرماتے ہیں میں نے کمرے میں جاکر مسودہ دیکھا چند سطریں شروع کی، چند درمیان کی اور چند آخر کی پڑھیں۔ ظاہر ہے انھوں نے اس پر بڑی محنت کی تھی اور اسلوب نگارش عالمانہ تھا۔ صبح کو ملاقات ہوئی تو پوچھا۔

’’مسودہ پڑھا‘‘؟

عرض کیا ’’ابوالکلام کی تفسیر میں الفاظ ہیں اور یہاں شروع سے آخر تک علم ہی علم ہے۔‘‘

بہت خوش ہوئے۔ بولے: میں نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ مسودہ تمھیں دکھاؤں گا اور تم اس کے بارے میں صحیح رائے دو گے۔ (قافلۂ حدیث ازمولانا محمداسحٰق بھٹی ص ۹۲-۹۱)

غور فرمائیے حضرت مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ فن تفسیر اور علوم قرآن میں اس دور کے امام تھے، مدارس کے فضلاء کو تفسیر کا درس دیتے تھے، انھیں مولانا ندوی پر کس درجہ اعتماد تھا جبکہ مولانا ندوی عمر کے اعتبار سے چھبیس سال کے جوان اور ان کے شاگرد کے شاگرد تھے بس واضح ہوا کہ جوانی کے دور میں ہی مولانا ندوی تفسیر قرآن اور اس سے متعلق علوم وفنون میں گہرائی اور مہارت حاصل کرچکے تھے۔

مولانا محمد حنیف ندوی عقیدہ ومنہج کے اعتبار سے پختہ اور راسخ اہل حدیث عالم تھے، سلفیت ان کی گھٹی میں شامل تھی، حالاں کہ مولانا ندوی علم کلام اور فلسفہ کی باریکیوں سے بھی خوب خوب واقف تھے مگر فلسفہ اور علم کلام ان کی سلفیت کو متاثر نہ کرسکے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جن علماء کرام سے اکتساب علم کیا تھا اور جن کی تربیت میں پروان چڑھے تھے وہ سلفیت کے امام تھے ان اساطین علم وفن میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ رحمہ اللہ کا نام نامی سرفہرست آتا ہے۔

مولاناحنیف ندوی کے عقیدہ ومنہج کی پختگی ہی کا نتیجہ ہے کہ تفسیر سراج البیان فضول کی کلامی بحثوں اور محض فلسفیانہ رنگ سے پاک ہے وہ مکمل طور پر صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) میں ڈوبی ہوئی تفسیر ہے، انداز بیان نہایت دلنشیں اور جامع ، بس پڑھتے جائیے اور روحِ قرآنی کی حلاوت محسوس کرتے جائیے۔

سلفی عقیدہ جو اسلام کی صحیح تعبیر ہے کی بنیادوں میں ایک اہم بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے عقیدت ومحبت رکھناہے محبت رسول اور اس کے تقاضوں کو صحیح طور پر تسلیم کیے بغیر کوئی بھی سلفی عقیدہ ومنہج سے منسلک نہیں ہو سکتا، تفسیر سراج البیان میں مولانا ندوی کی سلفیت و وہابیت کا یہ پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے، قرآن مجید کی وہ آیات جن کے ظاہری معنی کو آڑبنا کر بعض گمراہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کو زیر بحث لاتے ہیں ان آیات کی تفسیر مولانا ندوی نے ایسے حقائق ودلائل کے ساتھ کی ہے کہ عصمت نبوی اور منصب رسالت پر انگلی اٹھانے والے دم بخود ہیں اور جن کے دلوں میں صحیح محبت رسول ہے وہ مولانا کی تفسیر کو پڑھ کر عش عش کراٹھتے ہیں ۔چند مقامات بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

سورہ محمد کی آیت ۱۹؎

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْلِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ
مولانا ندوی اس آیت میں لفظ استغفار کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔ لفظ استغفار کئی معانی کا حامل ہے جہاں تک اس کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ آپ کو گناہوں کے عدم صدور کی توفیق عنایت فرمائے یعنی آپ کو نوروعرفان بخشے کہ گناہوں کے پرفریب پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل اور ڈھکے رہیں اور آپ ان سے قطعاً متاثر نہ ہوں اور جہاں اس کا تعلق عام مومنین ومومنات سے ہے اس کے معنی یہ ہوںگے کہ ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور خدا سے دعا مانگیں کہ ان کی لغزشوں کو درگزر فرمائے۔

تفسیر سراج البیان


سورہ فتح کی آیت ۲؎ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:

لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ
تاکہ اللہ تیری اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کرے۔

اس آیت کے الفاظ لیغفر اور ذنب کی تفسیر میں مولانا فرماتے ہیں غفران ذنب کے ضمن میں اہل تفسیر نے حسب ذیل تاویلات کا ذکر کیا ہے۔

۱۔ ذنبک سے مراد مسلمانوں کے گناہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) چوں کہ مخاطب اول ہیں اس لیے ان کی وساطت سے گناہوں کی بخشش عام کا مژدہ سنایا ہے۔

۲۔ مخاطب تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں مگر ذنب کے معنی ترک اولی کے ہیں۔ معصیت اور نافرمانی کے نہیں۔

۳۔ اس سے صغائر مراد ہیں جن کا صدور انبیاء سے ہو سکتا ہے۔

۴۔ اس سے مقصود عصمت کا ثبوت ہے یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ گناہوں کو آپ کی نظروں سے اوجھل کردے۔

مگر ان سب تاویلوں میں ایک نقص ہے کہ ان کا تعلق نفس واقعہ سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ آیات میں فتح مکہ کا مژدہ سنایا جارہا ہے اور درمیان مین غفران ذنب کا ذکر آگیا ہے جو بظاہر بالکل غیر متعلق معلوم ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ذنب کے معنی یہاں گناہ معصیت یا تر ک اولی کے نہیں ہیں بلکہ الزام کے ہیں اور اس کی نظیر خود قرآن میں ملتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنَبٌ کہ قبطیوں کا میرے اوپر ایک الزام ہے تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ آیت کا معنے بالکل واضح ہیں کہ فتح مکہ کے بعد جب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ان مکے والوں سے نہایت تپاک اور محفوظ سلوک کریں گے اور ان لوگوں کو زیادہ قریب ہو کر اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا تو پھر وہ الزامات جو انھوں نے آپ کی جانب منسوب کررکھے تھے یا جن کے انتساب کا مستقبل میں احتمال پیدا ہو سکتا ہے وہ دور ہو جائیں گے اور فتح مکہ کی غرض بھی یہ ہے کہ ان لوگوں کو مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے براہ راست استفادہ کی توفیق میسر ہو اور ان کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات کے متعلق جو شکوک وشبہات ہیں ان کا ازالہ ہو جائے۔

یہ بات اسلامی مسلمات میں سے ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہ صرف معصوم ہوتے ہیں بلکہ ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ وہ معصوم انسانوں کے ایک گروہ کو پیدا کریں۔ وَیُزَکِّیْھِمْ۔ اس لیے ان کے باب میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ خود معصوم ہوتے ہیں یا نہیں ان کا مقام عصمت سب سے زیادہ بلند ہوتا ہے وہ اس پاکیزگی سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے حصہ میں نہیں آسکتی۔

سورہ ضحی کی آیت ۷؎ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں

وَوَجَدَکَ ضَالّاً فَھَدیٰ
اس آیت میں لفظ ضالا وارد ہوا ہے اس کی تشریح میں مولانا فرماتے ہیں ووجدک ضالا۔ قطبی نے تو ضلالت کے معنی ضلالت وکفر کے ہی لیے ہیں اور یہ وہ جسارت ہے جس کو نقل کرنے میں قلم کا جگرشق ہوجاتا ہے۔ مگر امام رازی نے کوئی بیس وجوہ تاویل کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک وجہ پسندیدہ ہے یہ ہے کہ ضلالت کے معنی محبت اور شوق کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی وارفتگی ومحبت کے متعلق ان کے لڑکو ں نے کہا تھا أِنَّکَ لَفِیْ ضَلَالِکَ الْقَدِیْمِ۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے آپ کو بدرجہ غایت حق وصداقت کا عاشق ومتجسس پایا اور پھر اس جانثار محبت کی تسکین یوں کی کہ آپ کو پورا نظام معرفت عطا کیا۔

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا ندوی رحمہ اللہ تفسیر قرآن اور علوم قرآن پر کتنی عمیق نظر رکھتے تھے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کس درجہ محبت وعقیدت ۔مولانا ندوی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت کے سلسلہ میں اپنے ایک وقیع مضمون جس کا عنوان ’’اہل حدیث کے خلاف ہمہ گیر برہمی کے اسباب‘‘ ہے میں اہل حدیث پر لگائے جانے والے الزام کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’کچھ لوگ اس میں مسرت محسوس کرتے ہیں کہ انھیں حشویت کا طعنہ دیں۔ کچھ یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ گستاخ ہیں، ائمہ اربعہ کا احترام نہیں کرتے، بزرگوں اور ولیوں کو نہیں مانتے، ستم بالائے ستم یہ کہ اس ذات گرامی کے منکر ہیں جس پر ایمان لانا نجات اخروی کے لیے شرط اول اور جس سے محبت وشیفتگی اور وابستگی وتعلق خاطر دنیا کی عزیز ترین متاع ہے اور عشاق شمع رسالت کا فائق ترین سرمایہ حیات!

کون بدبخت ہے جو ائمہ اربعہ کی جلالت قدر کا معترف نہیں اور ان کے علمی وفقہی احسانات کا قائل نہیں۔ کون محروم قسمت ہے جو بزرگوں اور ولیوں کی پاکیزگی اور اعلیٰ اور بے لوث کردار کا ماننے والا نہیں اور پھر اس ذات مکرم، اس ردائے محبوبی اور جان دل نوازی کے انکار کی کس کو جرأت ہے؟ جس کے احسانات سے دنیا قیامت تک سبکدوش نہیں ہو سکے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

اور اہل حدیث کے متعلق تو ایسے سوء ظن کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں، ان کے حق میں یہ الزام ایسا مستبعد اور تمہت ایسی بعید ازقیاس ہے کہ جس کے لیے کوئی وجہ جواز موجود نہیں کیوں کہ یہاں لے دے کر یہی دولت تو ہے جو میسر ہے اور وجہ صدنازش ہے۔ (سہ روزہ منہاج لاہور بحوالہ’’ ماہنامہ التبیان‘‘ نئی دہلی ۔ بابت ماہ ستمبر ؍اکتوبر ۲۰۰۶ء )

مولاناندوی کی مذکورہ تحریر حقائق سے لبریز، بصیرت سے پُراور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی آئینہ دار ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ تفسیر ’’سراج البیان‘‘ کے تقریباً پندرہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس وقت جو ایڈیشن دستیاب ہے وہ لاہور کے ایک ناشر کا شائع کردہ ہے جو چھوٹے کتابی سائز کی پانچ جلدوں پر مشتمل ہے خط اتنا باریک ہے کہ پڑھنا مشکل ہے اس ایڈیشن کو دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ قاری اس سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر پاتا۔ اس لیے شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ بڑے سائز پر اس عظیم وجامع تفسیر کو شائع کیا جائے۔

اب یہ تفسیر 20x30/8 کے سائز پر جلی حروف اور نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ آپ کے ہاتھوں میں ہے ہماری دعا ہے کہ رب العٰلمین مولانامحمد حنیف ندوی اور ان کے اساتذہ کے درجات بلند فرمائے اور اس تفسیر کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اسی طرح ناشر کو بھی دنیا وآخرت میں اجر عظیم سے نوازے آمین۔ وصلی اللہ علی النبی۔

شکیل احمد میرٹھی​
۲۷؍ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ​
بمطابق ۱۵ ؍مئی ۲۰۰۷ ؁ء بروز منگل​
سابق امیرجمعیت اہل حدیث دہلی​
 
Top