• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقدمہ از: ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

مقدمہ
برصغیر میں اردو زبان میں قرآن کریم کی تفسیر اور اس کے معانی کے تراجم کا موضوع جماعت اہل حدیث کے لیے نیا نہیں، فہمِ قرآن کے سلسلے میں اور اس کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کے سلسلہ میں اس جماعت کے علماء نے جس طرح لوگوں کی رہنمائی کی ہے اور ان تعلیمات کے ذریعہ معاشرہ کو جس طرح شرک وبدعات کی آلودگیوں سے پاک وصاف کیا ہے، اس کی مثال دوسری جگہ نہیں ملے گی۔ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اس جماعت کی ایک خصوصیت جسے اب عام طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے، یہ ہے کہ اس کے علماء نے تفسیر بالقرآن اور تفسیر بالسنۃ پر خاص توجہ دی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ قارئین کو اسرائیلی روایات سے نجات حاصل ہوئی ہے ، اوہام وخرافات کے بندھن ٹوٹے ہیںاور قرآن کو انھوں نے ایک کتاب ہدایت اور عملی دستور کی حیثیت سے جانا ہے، فکر وعمل کا یہ ایسا انقلاب ہے جس کا تعلق منہج واصول سے ہے اور آج اسے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔

مذکورہ سلفی منہج کے مطابق برصغیر میں جن علماء نے اردو زبان میں فن تفسیر کی خدمت کی، ان میں ایک نمایاں نام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کا ہے، موصوف کے سوانح حیات کے لیے فی الحال کوئی کتاب میرے پاس نہیں، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے ارمغانِ حنیف ترتیب دی ہے، اس میں مولانا کے حالات سے متعلق متعدد مضامین کی بات مذکور ہے، اس وقت میں بھٹی صاحب کی قافلۂ حدیث کی بنیاد پر مولانا کی زندگی اور علمی خدمات پر کچھ عرض کررہا ہوں۔

مولانامحمد حنیف ندوی ۱۰؍مئی ۱۹۰۸ ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، سرکاری اسکول کی تعلیم صرف پرائمری تک حاصل کی اور درس نظامیہ کی تکمیل کے لیے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے حلقۂ درس میں شامل ہو گیے۔

ندوۃالعلماء کے دارالعلوم کا اس وقت شہرہ تھا ، مولانا حنیف ۱۹۲۵ ء میں ندوۃ گیے اور ۱۹۳۰ ء میں وہاں سے فراغت حاصل کرکے وطن واپس لوٹے اور تاحیات(۱۹۸۷ ء) دین اسلام کی خدمت میں مصروف رہے۔

۵۷ برسوں کے اس مرحلہ کو ہم تقریباً دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مرحلہ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی سے پہلے کا اور دوسرا اس کے بعد کا ۔۱۹۳۰ ء سے ۱۹۵۱ ء تک مولانا مختلف جماعتی خدمات سے وابستہ رہے، اسی مرحلہ میں انھوں نے لاہور کی مسجد مبارک میں خطابت وتدریس کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ ۱۹۴۹ ء تک برابر جاری رہا، بیس برس کے اس عرصہ میں لوگوں کو خوب خوب استفادہ کا موقع ملا۔ ۱۹۵۱ ء میں مولانا ادارہ ثقافت اسلامیہ میں آگیے اور یہاں ۳۶ برس تک خدمت انجام دے کر جولائی ۱۹۸۷ ء میں وفات پائی، رحمہ اللہ تعالیٰ۔

مولانادبلے پتلے جسم اور قدرے چھوٹے قد کے انسان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی ذہانت، وسیع علم، گہری نظر اور اخلاق کی بلندی سے نوازا تھا، انھوں نے اپنے پیچھے جو متنوع ومقبول علمی ذخیرہ چھوڑا، تحریر وتقریر کے میدان میں اپنی مضبوط شخصیت کا سکہ بٹھایا اور جرأت وبالغ نظری کے ساتھ اپنے دین ومسلک کی ترجمانی کی، اس سے ان کی شخصیت کا کمال وتفوق ظاہر ہوتا ہے۔

مولانامحمد حنیف اپنے ملک کے طبقۂ علماء میں ممتاز مقام رکھتے تھے ،قدیم وجدید تحریکوں پر موصوف کی نظر تھی، ان کا تجزیہ ماہرانہ انداز میں کرتے تھے، دینی غیرت تھی، اس لیے جب مذہبی مسائل اور ضروریات زمانہ کے مابین تطابق کا موقع آتا تو مذہب کی برتری ثابت کرتے، ان کی تحریر وتقریر سے ان کے علم ومطالعہ کی فراوانی ثابت ہوتی تھی جو بھی انھیں سنتا یا پڑھتا اس پر اول وہلہ میں یہ تصور قائم ہوتا کہ اس کے سامنے جو شخصیت ہے وہ وسعت مطالعہ اور فضل وکمال کا پیکر ہے۔

مولاناحنیف ۱۹۲۵ ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لے گیے تھے، اس سے پہلے انھوں نے درس نظامیہ کی تکمیل شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب کے پاس کی تھی۔ اساطین سلفیت میں سے ایک اہم ستون کی تعلیم وتربیت کا اثر مولانا حنیف کی پوری علمی زندگی میں نمایاں تھا، ان کی ہر تحریر توحید اور اتباع سنت کی اشاعت کے لیے وقف تھی، تفسیر سے لے کر دیگر موضوعات پر ان کی تصانیف پر ایک نظر ڈالیے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی عقائد وتعلیمات اور مسلک سلف کا مولانا کو حد درجہ پاس ہے، اپنی دانست بھر وہ اسلام کی ادنی تعلیم سے متعلق کسی طرح کی مداہنت برداشت نہیں کرتے، انکار سنت نبویہ کی جو دل خراش تحریک پاکستان میں سرگرم ہوئی اس کی بیخ کنی کے لیے مولانا ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، مولانا ابوالکلام آزاد پر مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر شائع ہوئی تو مولانا حنیف نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور تفصیل سے ہر نقطہ کا جواب لکھا، وہ برداشت نہیں کرپاتے تھے کہ علم کے معاملہ میں کسی طرح کی جانبداری یا استخفاف سے کام لیاجائے۔ ایک مومن کی زندگی میں اسلامی غیرت وحمیت کے اظہار کا کوئی خاص گوشہ یا پہلو متعین نہیں کیا جاسکتا البتہ اظہار کا طریقہ مناسب ہونا ضروری ہے، مولانا حنیف کو ہر موڑ پر اسلام کی عظمت وبرتری کا گہر ا احساس تھا، وہ بجا طور پر اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اسلام میں ہمارے تہذیبی ، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی مسائل کا حل بطریق احسن موجود ہے، صدقِ دل سے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اس کے بعد محسوس ہوگا کہ یہاں ہر شے پوری مقدار میں دستیاب ہے، کہیں تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’اساسیات اسلام ‘‘میں اسی پہلو سے بحث کی ہے۔

دوسروں پر رائے زنی میں انسان آزاد ہے لیکن بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ قلب وضمیر کی بنیاد پر ہے۔ مولانا حنیف کے یہاں دینِ اسلام اور مسلک سلف کے لیے غیرت وجوش کا جو نمونہ نظر آتا ہے اس کی مثال کم ملے گی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی کے نام اپنے ایک مکتوب میں مو لانا لکھتے ہیں:

’’بیماری کے اس دوران میں ،میں اپنے دل سے تمام تعصبات نکال چکا ہوں، سوا ایک تعصب کے اور وہ وہ ہے جس کا تعلق پرویز صاحب کی تحریک سے ہے کیوں کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کی تہہ میں میرے محبوب اور پیارے مقتدا علیہ الصلاۃ والسلام کے منصب نبوت کا انکار کار فرما ہے، میں الحاد وزندقہ کی ہر شکل کو کسی حد تک قابل برداشت سمجھتا ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے تلعب جو بدترین قسم کی گستاخی ہے، میرے نزدیک قابلِ عفو نہیں‘‘۔

مولانا حنیف کے دل میں اسلام کی عظمت وصداقت کا راسخ یقین اور انسانی معاشرہ کے حالات پر گہری نظر تھی، اسی لیے وہ اسلامی دعوت کو ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ایک تڑپ رکھتے تھے۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب نے مولانا حنیف کے ایک پمفلٹ کا ذکر کیا ہے جس میں انھوں نے گاندھی جی کو قبول اسلام کی دعوت دی تھی اور جس کا عنوان تھا: ’’گاندھی جی کی سیوا میں تین سندیش ‘‘۔اردو رسم الخط میں لکھے ہوئے ہندی الفاظ کو پڑھ کر لطف آتا ہے، بعض اوقات ٹھہرکر غور کرنا پڑتا ہے کہ کون سا لفظ ہے، رسالہ کے مضامین پر نظر ڈالیں تو وقت کی نفسیات کو سمجھنے میں مولانا کی بالغ نظری کا ثبوت ملتا ہے۔ رسالہ میں پہلے اسلام کے ذریعہ وجود پذیر اصلاحات کا ذکر ہے پھر مالیات سے متعلق اسلام کے ضابطہ کی توضیح نیز سود کی حرمت، وراثت، عورت، اچھوت وغیرہ سے متلق اسلامی نقطۂ نظر کا بیان ہے۔

اسلامی دعوت کے وسائل اس دور میں بے حد سہل ہو گیے ہیں اور ہر شخص جس کو چاہتاہے مخاطب کرلیتا ہے لیکن مولانا نے گاندھی جی کے نام جس دور میں اسلام کی دعوت پیش کی تھی وہ آج سے مختلف تھا، مولانا کے دل کا درد اور اشاعتِ اسلام کی تڑپ ہی تھی جس نے انھیں اس اقدام پر آمادہ کیا تھا۔

نصف صدی سے زیادہ مدت کو محیط مولانا حنیف کی زندگی علمی تخلیقات کے لحاظ سے معمور وشاداب تھی، انھوں نے اس مدت میں اپنی خطابت اور تحریر دونوں سے موجود ہ نسل کو مستفید کیا اور آئندہ نسلیں بھی ان کے تحریری ذخیرہ سے فیضیاب ہوتی رہیں گی، اس مقام پر تمام آثار وباقیات کا تذکرہ ممکن نہیں، صرف قرآن کریم کے موضوع پر ان کی خدمات کی جانب اشارہ مقصود ہے۔

اس سلسلہ کی پہلی چیز لاہور کی مسجد مبارک کا ان کا درس قرآن ہے جو ہر روز بعد نماز مغرب منعقد ہوتا تھااس درس کا سلسلہ بیس سال جاری رہا اوراس میں مولانا نے دو مرتبہ قرآن ختم کیا۔ اسی طرح ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۹ ء تک مسجد مبارک میں مولانا کا خطبۂ جمعہ بھی جاری رہا، اس خطبہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ ابتدائے قرآن سے اخیر تک تسلسل کے ساتھ آیات پڑھتے اور ان پر اپنے خطبوں کی بنیاد رکھتے، اس طرح مولانا کا خطبۂ جمعہ بھی تفسیر قرآن کا رنگ لیے ہوتا تھا اور لوگوں کے دلوں پر اس کا مضبوط اثرہوتا تھا۔

کسی موضوع پر کام کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ آدمی سرسری گزر جائے تاکہ یہ کہہ سکے کہ اس نے ذمہ داری ادا کردی ہے اور دوسرے یہ کہ فرض سے آگے بڑھ کر موضوع میں ڈوب جائے اور اس کے چھوٹے بڑے ہر تقاضہ کو اس طرح پورا کرے کہ دوسروں کے سامنے بہت سے پوشیدہ نئے گوشے بھی آجائیں ۔ تفسیر پر مولانا حنیف صاحب کے کام کا تعلق اسی دوسری قسم سے ہے، موصوف نے قرآن مجید سے شروع زندگی ہی سے گہرا ربط رکھا، انھیں اس صحیفۂ ہدایت سے وہی شغف تھا جس کا ایک مومن سے مطالبہ ہے، گوجرانوالہ میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری گھڑی تک موصوف اس بحرکی شناوری میں محو رہتے تھے۔کتاب عزیز کی تقریری خدمت کے ساتھ ساتھ موصوف نے اپنی تحریر کے ذریعہ اس گنجینۂ رشد وہدایت سے فیض رسانی کا سلسلہ برابر جاری رکھا، ان کا قلم جس طرح جوانی کی عمر میں رواں تھا، اسی طرح ستر (۷۰) و اسی(۸۰) کے پیٹے میں بھی اس کی گہرباری برقرارتھی۔

۱۹۳۳ ء میں جب کہ مولانا کی عمر ۲۵ سال کی تھی، ’’سراج البیان ‘‘ نامی تفسیر لکھی، ستر سال کی منزل میں داخل ہونے کے بعد موصوف نے ’’مطالعۂ قرآن ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں قرآن مجید سے متعلق تمام مباحث ومسائل کا محققانہ انداز میں احاطہ کیا گیا ہے، اسے موصوف کے دورِ آخر کا بے مثال شاہکار مانا جاتا ہے۔

’’لسان القرآن‘‘ کے عنوان سے مولانا نے قرآن مجید کا ایک جامع تفسیری وتوضیحی لغت تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس کی دو جلدیں تیار بھی کی تھیں جو زیور طبع سے آراستہ ہوئیں لیکن وہ اسے مکمل نہ کرسکے، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے اس کی تیسری جلد تیار کی ہے، قوی امید ہے کہ موصوف اس منصوبہ کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔مذکورہ دونوں کتابوں کے علاوہ مولانا موصوف نے مختلف جرائدومجلات میں بہت سے مضامین لکھے اور ریڈیو پاکستان سے قرآن کے موضوع پر تقریریں کیں، ان سب کے تعارف کا موقع نہیں، لیکن ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس موضوع سے مولانا کا صرف تعلق ہی نہیں تھا بلکہ کتابِ الٰہی سے شغف اور اس کی خدمت کا جذبہ ان کی رگ وپے میں اتر ا ہوا تھا اور وہ اس کتاب کی معجزانہ تعلیمات وتوجیہات کو دنیا کے ہر فرد بشر تک پہنچانے کا پاکیزہ جذبہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے موصوف نے اس موضوع پر بے مثال خدمت انجام دی، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔
یہ سطور چونکہ مولانا محمد حنیف صاحب کی’’ تفسیرسراج البیان‘‘سے متعلق تحریر کی جارہی ہیں اس لیے ذیل میں اس کے بعض خصائص ومحاسن کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے، بعض مقامات پر ہم حضرت مولانا کے کلام کا نمونہ بھی پیش کریں گے تاکہ موضوع سے ان کے شغف اور زبان وبیان پر ان کی قدرت کا اندازہ ہو سکے۔


تفسیر سراج البیان کا جو نسخہ مجھے حاصل ہوا ہے اس کے طابع وناشر ملک سراج الدین اینڈ سنز ، کشمیری بازار، لاہور ہیں، یہ اپریل ۱۹۸۳ ء میں پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے، صفحات مسلسل ہیں اور ان کی تعداد(۱۴۴۷) ہے، کتاب کا سائز چھوٹا اور خط بہت باریک ہے، اس کی شکایت محترم بھٹی صاحب نے بھی کی ہے، موصوف کے مطابق تفسیر سراج البیان کو مولانا محمد حنیف نے ۱۹۳۳ ء میں مکمل کیا تھا اور اس وقت سے متعدد ناشرین نے اسے باربار شائع کیا۔ ان اشاعتوں کے متعلق بھٹی صاحب کی صراحت ہے کہ وہ بڑے سائز پر تھیں اور خط ، کاغذ، کتابت اور طباعت وغیرہ تفسیر کی شان کے عین مطابق ۔ خط تو زیر نظر اشاعت کا بھی عمدہ ہے لیکن باریکی نے اسے ’’ معدومیت ‘‘کی سرحد تک پہنچا دیا ہے، اب اہلِ ہند کے لیے خوش خبری ہے کہ آئندہ انھیں باریک خط والے نسخہ کی جگہ واضح خط والا نسخہ دستیاب ہو جائے گا۔ چھوٹے سائز کے زیر نظر نسخہ میں اصل ظاہری ٹائٹل کے علاوہ دو اندرونی ٹائٹل بھی ہیں، ان کے ذکر کی کوئی ضرورت تو نہ تھی لیکن بعض امور کی وجہ سے یہاں ان کا ذکر آرہا ہے۔ پہلے ٹائٹل پر کتاب اور مصنف کے نام کے نیچے ایک چوکھٹے میں تفسیر سراج کے مآخذ کا ذکر ہے۔ دوسرے ٹائٹل پر بھی نام کے نیچے چوکھٹے میں سراج البیان کی خصوصیات کا ذکر ہے، ان میں اہم یہ ہیں: اہم مضامین کی تبویب، عصری علوم سے استفادہ، جدید زندگی کے مسائل کی وضاحت، مذہب سلف کی برتری اور تفوق کا اظہار، زبان اعلیٰ درجہ کی اور اندازِ بیان وجد آفریں، اس تفسیر کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوگا کہ قرآن دنیائے ادب میں سب سے عمدہ اضافہ ہے۔

جہاں تک تفسیر کے خصائص کی بات ہے تو ان میں قاری کے تبدیلی سے تنوع پیدا ہو سکتا ہے، میں نے پانچوں جلدوں پر نظر ڈالی تو چوکھٹے میں مذکور خصوصیات کا اور بعض دیگر خصوصیات کا بھی ادراک ہوا مگر ان تعارفی سطور کو بنظر اختصارصرف پہلی جلد تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ جلد اول پر نظرڈالتے ہوئے نوک قلم پر بعض جملے آگیے، پہلے ان ہی کو درج کررہا ہوں:


٭ حل لغات میں اختصار وجامعیت۔
٭ عناوین میں جدت ومعنویت کہ مقصود واضح ہو۔
٭ بلیغ ادبی تعبیر، چست انداز ، دل کش اسلوب، استادانہ رنگ۔
٭ دعوت قرآن کی روح کو نمایا ں کیا ہے۔


ان تاثراتی جملوں کا تعلق جلد اول کے کسی نہ کسی عنوان سے ہے لیکن بخوفِ طوالت ان کا ذکر نہیں کیا ہے، اب بعض عناوین کی معنویت اور دل کشی نیز خاکسار کا اس پر تاثر ملاحظہ ہو:

٭ سورۃ البقرۃ کی آیت (۴۳) کی تفسیرکے ضمن میں مولانا نے یہ عنوان ثبت کیا ہے: ’’تنظیم جماعت کے اصول‘‘ اور اس ضمن میں تحریر فرمایا ہے کہـ ’’جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان دار زندگی رہی ہے، کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، قرآن حکیم نے اس طرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے، غور کرو، جماعتوں کو اپنے بقاوتحفظ کے لیے دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے: اتحاد کی اور سرمایہ کی ’’الخ۔

٭ اسی سورہ کی آیت (۵۴) پر نوٹ کے لیے یہ عنوان متعین فرمایا ہے: ’’ قوموں کا آپریشن‘‘۔

٭ آیت (۵۸)کے لیے منتخب عنوان:’’شہریت کے تین اصول ‘‘ہے، اس ضمن میں مولانا لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل کو

جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلہ کی اجازت مل گئی جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کردی گئیں جو تمدنِ صحیح کی جان اور شہری زندگی کے لوازم میں ہیں ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کو تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں۔

وہ تین چیزیں قرآن کے الفاظ میں یہ ہیں:

(ا)اللہ سے بہر حال تعلق قائم رہے، اس کا آستانۂ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے۔( ب)ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں، تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جو یار ہیں۔ (ج) احسان اور جذبۂ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے۔‘‘

آیت (۶۲) پر جو عنوان اور اس کی تشریح ثبت کی ہے اسے قوتِ تعبیر اور حسنِ بیان کے پہلو سے دیکھیے، ’’ہمہ گیر
دعوت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :

’’مذہب کا مقصد نوعِ انسانی میں وحدت ویگا نگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے، انبیاء علیہم السلام اس لیے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنھوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں، خدا ایک ہے اور اس کا منشا تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانۂ عظمت پر جھکیں، تفرق وتشتت کا کوئی نشان نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل واکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ وقومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھرگیے ہیں انھیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کردیں، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا، وہ اخوت ِ انسانی کی بنیادیں ایمان وعمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

اسلامی دعوت کے انسانی پہلو کی اس سے زیادہ جامع اور حسین تعبیر اور کیا ہو سکتی ہے!

٭ آیت (۱۰۴) میں مسلمانوں کو راعِنا کی جگہ اُنْظرناکہنے کی تلقین ہے، اس مقام پر مولانا نے ’’حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کی سرخی لگائی ہے اور یہ عبارت لکھی ہے:

’’مسلمانوں کے نزدیک حب رسول وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصلِ ایمان ہے‘‘الخ۔

مولانا محمد حنیف کے ثبت کردہ بعض عناوین اور اس کے ذیل کی بعض عبارتوں کے نمونے آپ کے سامنے آچکے، اب ہم جلد اول کے صرف بعض عناوین یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ مولانا کے ذہن کی بلند پروازی کا اندازہ ہو سکے، تشریح والی عبارت قارئین سراج البیان میں ملاحظہ فرمائیں گے:

٭ اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں ۔ ٭ حلقۂ توحید کی وسعتیں۔

٭ وظیفۂ رسالت۔ ٭ بلند نصب العین۔

٭ قرآن کا اسلوب تفہیم۔ ٭ شاہانِ فقر۔

٭ راہِ عشق کی دشواریاں۔ ٭ حجتِ براہیمی۔

٭ اہل کتاب کا تعصب۔ ٭ پیغامِ اخوت۔

٭ تعددِ ازدواج۔ ٭ رازِ حیات۔

٭ جذبۂ اطاعت کا صحیح حل۔

٭ رسول بجائے خود مطاع ہے۔

٭ حسنِ رفاقت۔

٭ خونِ مسلم کی گرانمایگی۔

قرآن کریم پر غور وفکر اور اس کی زریں تعلیمات سے استفادہ کسی وقت یا مقام کا پابند نہیں، اسی لیے اللہ کے بندوں نے ہر دور میں اس سرچشمۂ ہدایت کی خوشہ چینی کی ہے، پھر بھی اس دور میں دنیا کے بعض حصوں میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لوگوں کی توجہ اسلام اور کتاب وسنت کی طرف جو شرعی احکام کا اصل ماخذ ہیں، خود بخود مبذول ہو گئی اور بہت سے دلوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ قرآن کی تعلیمات کا براہ راست مطالعہ کیا جائے ، خود مسلمانوں کے اندر بھی اسلام کے مطالعہ کا شوق ابھرا ہے اور وہ قرآن وحدیث کو اپنی زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں۔

ان حالات میں ایک ایسی تفسیر کی اشاعت جو خوبصورت ادبی زبان میں مطالب قرآن کو واضح کرے، قرآن وسنت کے باہمی ربط کو نمایاں کرے، متلا شیانِ حق کو تشفی عطا کرے اور ہر طرح کے شکوک وشبہات کو دور کرے، وقت کی ایک اہم ضرورت تھی، جس ادارہ نے اس ضرورت کی تکمیل کی وہ اسلامیانِ ہند کی طرف سے اور اسی طرح اردو داں حلقہ کی طرف سے قدردانی ومبارکباد کا مستحق ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہماری دعاء ہے کہ اس عظیم تفسیر سے تمام قارئین کو بیش ازبیش فائدہ پہنچائے اور مصنف وناشر کو اجرجزیل عطا فرمائے، آمین۔ وصلی اللہ علی رسولہ الکریم۔
۲۲ ؍ربیع الثانی ۱۴۲۸؁ھ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری

بمطابق ۱۰ ؍مئی ۲۰۰۷ ؁ء صدر جامعہ سلفیہ​
بروز جمعرات ریوڑی تالاب بنارس۔ یوپی​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964

ماشاء اللہ ۔
حقا قيل :
إنما يعرف من الناس ذا الفضل ذووه
رحم الله الشيخين الجليلين -


اور آصف مغل بھائی اللہ آپ کو ان جواہر پاروں کی پیشکش پر بہترین جزا عطا کرے ۔
 
Top