• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقدمہ صحیح مسلم فوائد و مسائل از پروفیسر یحیی سلطان محمود جلالپوری

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
مقدمہ صحیح مسلم فوائد و مسائل از پروفیسر یحیی سلطان محمود جلالپوری


امام مسلم رحمہ اللہ نے راویوں پر نقد و جرح کے حوالے سے کثیر تعداد میں مختلف نوع کی مثالیں دینے کے بعد جو نتائج نکالے ہیں وہ انہوں نے اس بحث کے آخر میں اجمالی طور پر پیش کر دیے ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جو محدثین کے طریق کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان میں اولیت اس بات کو حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے ذریعے سے حلال و حرام کا تعین ہوتا ہے اور دین کے اوامر ونواہی کی وضاحت ہوتی ہے۔صحیح اسلامی شخصیت کی تربیت کے لیے کچھ باتیں ہیں جن کی حکیمانہ انداز میں ترغیب دینا ضروری ہے، کچھ رذائل وخبائث ایسے ہیں جن سے دور رہنے کی موثر طور پر تلقین ناگزیر ہے۔ یہ سارا نظام تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بات کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ حدیث کے راویوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور آپ کے اسوہ حسنہ کے ناقلین کے بارے میں انتہائی باریک بینی سے چھان پھٹک کی جائے۔ اگر راوی ساقط الاعتبار ہیں، امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کی نفی کرتے ہوئے غیر متوازن افکارونظریات کے متعصب داعی ہیں، مکمل دیانت اور غیر جانب داری کے بجائے اپنی اپنی پسند کے لوگوں،گروہوں اور فرقوں کی حمایت کے لیے باتیں بناتے اور اقوال وآثار گھڑتے ہیں یا قبول اخبار میں حزم واحتیاط سے عاری ہیں، فہم وادراک میں اختلاط کا شکار ہیں، سادہ لوحی کی بنا پر دھوکہ کھا جاتے ہیں یا پھر سوئے حفظ میں مبتلا ہیں تو ان کی حقیقت کو آشکارہ کیا جائے، ان کی مرویات کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کی بیان کردہ باتوں میں جو مصائب پوشیدہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے، اس لیے راوایان حدیث کی نقدوجرح فرض ہے۔ اس میں کوتاہی بہت بڑے فتنے کا سبب ہے، اس لیے جان بوجھ کر اس میں کوتاہی بہت بڑا گناہ ہے۔

امام مسلم نے واضح کیا کہ جن لوگوں نے اپنی مصلحتوں کے پیش نظر نقد رواۃ کے اس عمل کو غیبت سے ملانے کی کوشش کی ہے وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ خبر لانے والوں کے بارے میں تحقیق و تفتیش کا حکم خود اللہ تبارک تعالیٰ نے دیا ہے اور ہم اسے ماننے اور عمل کرنے کے مکّلف ہیں۔ یہ بات غیبت کیسے ہو سکتی ہے؟
محدثین کرام چونکہ امت کے محتاط ترین لوگ ہیں، اس لیے انہوں نے نقدو جرحِ رواۃ کو ایک منضبط علم کی حیثیت دی ہے۔ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ نقد وجرح کا موضوع کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا، صرف اس کے بارے میں چھان پھٹک کی جائے گی جو حدیث و سنت کا راوی ہے۔


اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ جرح کرنے والا خود انتہائی محتاط ہو،تقویٰ سے متصف ہو،کسی راوی کی طرف کوئی مثبت یا منفی بات منسوب کرتے ہوئے کسی تساہل کا شکار نہ ہو نہ کسی عدم اعتماد کا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا پورا احساس ہو۔ اسے پتا ہو کہ اس یے مکمل دیانت سے کام نہ لیا یا پوری احتیاط نہ کی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی احادیث کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہو گا۔اس کی بے احتیاطی یا غفلت و تساہل سے کوئی ضعیف حدیث صحیح قرار دے دی جائے گی یا کسی صحیح حدیث کو ضعیف سمجھ لیا جائے گا۔
اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اگر جرح کرنے والا غیر محتاط ہے تو ماہرین حدیث کا فرض ہے کہ اس کی جرح کو قبول نہ کریں نہ ہی اسے آگے بیان کریں۔ جرح کرنے والا
اگر سچ کہے تو قبول ہو گا، اگر جان بوجھ کر غلط بیانی کرے تو خود مجروح ہو گا۔اس کی اصل حیثیت خبر دینے والے کی ہے، اس لیے اگر وہ سچا ہے تو اس اکیلے کی دی ہوئی خبر قابلِ قبول ہو گی۔


اس بات میں اختلاف ہے کہ جرح کا سبب تفصیل سے ذکر کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک ضروری ہے۔قاضی ابو بکر باقلانی اسے شرط قرار نہیں دیتے۔ بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ اسباب ضعف میں جس کی مہارت مسّلم ہے اس کے لیے شرط نہیں، دوسروں کے لیے شرط ہے۔ اسباب بیان کیے بغیر اس مطلق جرح کا فائدہ یہ ہے کہ ایسی روایت سے استدلال اور استنباط روک کر پہلے اس کی تحقیق کر لی جائے۔ بعض علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔

یہ نقطہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صحیحین کے بعض راویوں پر متقدمین نے جرح کی ہے لیکن بعد ازاں ثابت یہی ہوا ہے کہ عام صحیح علمی پیمانوں کے مطابق پرکھنے کے بعد ان کی جرح صحیح ثابت نہیں ہوئی۔

اگر جرح وتعدیل میں اختلاف ہو تو ترجیح کا دارومدار مزید تحقیق اور جرح و تعدیل کے زیادہ محتاط ماہرین کی رائے کے ساتھ موافقت پر ہو گا۔ فیصلہ نہ ہو سکے تو احتیاط یہی ہے کہ جرح کو تعدیل پر ترجیح دی جائے۔

امام مسلم نے امام شعبی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ انہوں نے کسی راوی کو کاذب یا متہم کہنے کے بعد بھی اس سے روایت بیان کی۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟


ایسی روایات کبھی تو اس لیے بیان کی جاتی ہیں کہ ان کی حیثیت اور وجہ ضعف کو ریکارڈ پر لایا جا سکے اور آئندہ التباس نہ ہو۔ بعض کم درجے کی ضعیف روایات تائید وغیرہ کے کام آتی ہیں، اکیلی ایسی کسی روایت سے استدلال نہیں کیا جا تا۔

کئی ایسے بھی راوی ضعیف راوی ہوتے ہیں جن کی بعض لوگوں سے یا عمر کے کسی خاص حصے تک روایات صحیح ہوتی ہیں، ان کی تمام روایات قلم بند کر لی جاتی ہیں، پھر تحقیق کے بعد صحیح اور ضعیف کی نشاندہی کر دی جاتی ہے۔ بعض محدثین ترغیب و ترہیب اور فضائل کے حوالے سے نرمی کے قائل ہیں ۔موضوع یا شدید ضعیف روایات کی کوئی اجازت نہیں دیتا۔ کہا جاتا ہے کہ مثلا: جن اعمال کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے ان کے ایسے فضائل جو ہر طرح کی شناعت سے پاک ہوں،بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس بات پر سب محدثین کا اتفاق ہے کہ ایسی احادیث سے فقہی معاملات پر کسی طرح کا فقہی استدلال جائز نہیں۔
امام مسلم نے جو مثالیں دی ہیں ان کے ذریعے سے انہوں نے وضع حدیث،کذب اور دوسری قسم کے ضعف کی نوعیتیں بیان کر دی ہیں، کچھ راوی جان بوجھ کر جھوٹ گھڑتے ہیں، ان میں دین کے دشمن زندیق،اپنے نظریات اور پسندیدہ اعمال کی ترویج کے شائق گمراہ یا سادہ لوح صالحین، اپنے علم کا رعب گانٹھنے والے دنیا داروں سے منفعت حاصل کرنے والے فاسق شامل ہیں۔

کچھ متن میں جھوٹ بولتے یا شامل کرتے ہیں، کچھ سندوں میں اور کچھ دونوں میں وضع،کذب و افتراء سے کام لیتے ہیں، ایسے لوگوں کی حدیث قابل قبول نہیں بلکہ محتاط محدثین کے نزدیک توبہ کے بعد بھی ان کی روایات ناقابل قبول رہیں گی۔

ضعیف راویوں کی ایک قسم وہ بھی ہے کہ اگرچہ ان سے حدیث کے معاملے میں کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوا لیکن زندگی کے دوسرے عام معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں، اس لیے ان کی روایات بھی ناقابل قبول ہیں، البتہ جن لوگوں سے شاذ و نادر بشری کمزوری کی بنا پر کبھی جھوٹ کا ارتکاب ثابت ہوا، بعض محدثین کے نزدیک ان کی سچی توبہ کے بعد ین سے حدیث لی جا سکتی ہے۔

امام مسلم نے اس بحث کے آخر میں ضعیف روایات کے انبار لگانے والے جن لوگوں کی تردید کی ہے ان سے مراد وہی لوگ ہیں جو محض اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے صحیح و ضعیف کا امتیاز ظاہر کیے بغیر رطب و یابس کو بیان کر دیتے ہیں اور لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بولے گئے جھٹ پھیلانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ العیاذ با للہ
 
Top