• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مکرمی جناب ارشاد احمد حقانی صاحب روزنامہ جنگ لاہور​

السلام علیکم
’’اسلام ، جمہوریت او رپاکستان‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہونے والی اصغر خان کی کتاب پر آپ کا علمی ریویو شائع ہوا۔ آپ نے قارئین کو اس پر اظہار ِخیال کی دعوت دی تھی۔ مؤرخہ یکم اور دو اپریل کو آپ کے کالم میں راجہ فتح خان کا مفصل مکتوب شائع ہوا۔ جس میں آپ کے مقالہ پر کسی عالمانہ رائے اور تنقید کی بجائے مکتوب نگار نے ملائیت ، کے پردے میں اسلام پسند طبقہ کے خوب لتے لئے ہیں۔ مکتوب نگار جو کاٹھے اشتراکی ہیں، انہوں نے بے حد جذباتی طریقے سے مذہب اور حاملانِ مذہب کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ راجہ فتح خان کے خیالات کسی ایک فرد کے خیالات نہیں ہیں، بدقسمتی سے ہماے ملک میں اشتراکی اور سیکولر طبقہ کے بالعموم یہی خیالات ہیں۔
راقم ُالحروف نے راجہ فتح خان کی اسی جارحانہ ہرزہ سرائی کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنی معروضات پیش کی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس محاکمہ کو بھی اسی طرح شائع کریں جس طرح راجہ فتح خان کا خط شائع ہوا ہے۔ آپ بخوبی سمجھتے ہیں کہ میری رائے بھی کسی فرد ِ واحد کی رائے نہیں ہے بلکہ پاکستان کے اکثریتی اسلام پسند طبقہ کی رائے ہے جسے مناسب جگہ دی جانی چاہئے۔ اگر آپ اسے شائع نہیں کریں گے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ راجہ فتح خان کے مکتوب کی یک طرفہ اشاعت سے ’’جنگ ‘‘ کے قارئین کی ایک کثیر تعداد کی دل آزاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم بجا طور پر اس عدم التفات پر احتجاج کریں گے۔ والسلام
محمد عطاء اللہ صدیقی
54۔ این ماڈل ٹائون، لاہور
فون دفتر 5764803
ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

تحریر:محمد عطاء اللہ صدیقی
’’اسلام ، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے زیر عنوان ارشاد احمد حقانی صاحب کے علمی تجزیئے کے رد ّعمل کے طور پر یکم اور دو اپریل کے’’ جنگ ‘‘میں راجہ فتح خان کا مکتوب شائع ہوا ہے جس میں مکتوب نگار نے ملائیت کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے اسلام اور علمائے دین کے خلاف بھر پور ہرزہ سرائی کی ہے۔ مکتوب نگار مریضانہ مذہب بیزاری ، ذہنی مالیخولیا اور فکری خلجان کا شکار ہیں۔ تعجب ہے کہ اس غیر مربوط ہیجان خیزی اور سوقیانہ دشنام طرازی کے لئے’’جنگ ‘‘کے دو کالم وقف کردیئے گئے۔ راجہ فتح خان کے اس فکری جوار بھاٹا کے بارے میں درج ذیل معروضات قارئین کی توجہ کی متقاضی ہیں:
۱ ۔ سوویت یونین کے انہدام کے باوجود پاکستان کے اشتراکی ’’دانشور‘‘ سرخ جنت کی رومانوی فضا سے باہر نہیں آسکے۔ اشتراکیت کے زوال کے صدمہ نے معلوم ہوتا ہے ،انہیں اعصاب زدگی میں مبتلا کردیا ہے۔ حقائق کو ٹھنڈے دل سے قبول کرنے کی بجائے وہ کارل مارکس اور اس کے حواریوں کے ہفواتی مفروضات کو ہی ’’اصل حقیقت‘‘ سمجھنے کی غلطی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں اشتراکیت کے حق میں جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا، اس کے متاثرین 1990 ء کی دھائی میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ مغرب میں ’’مذہب کی واپسی‘‘ کی بات کی جا رہی ہے۔ اب وہاں مذہب کے متعلق مخالفت میں وہ شدت باقی نہیں رہی جس کا اظہار ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں کارل مارکس نے مذہب کی مذمت میں جو دلائل دیئے تھے، وہ قرونِ وسطیٰ میں کلیسا کے منفی کردار کو سامنے رکھ کرپیش کئے تھے۔ جیسا کہ بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی اور لینن کے درمیان ملاقات میں بعد الذکر نے اسلام کے متعلق خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ہمارے بدیسی اشتراکی اپنے انقلابی جنون کے زیر اثر اسلام اور عیسائیت کے درمیان کسی قسم کا فرقِ مراتب قائم رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں کہیں مذہب یا الہامی تعلیمات کا ذکر ان کے کانوں میں پڑتا ہے ان کی رگ ِانقلاب فوراً پھڑک اٹھتی ہے۔ مذہب کی ہر صورت میں مخالفت ان کے خیال میں انقلابیت کا درسِ اوّل ہے۔ بعض اشتراکی مصنّفین نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں مغربی سامراجیت کے خلاف تحریک برپا کرنے میں اسلام نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستانی اشتراکی اپنے ذہن میںجو مفروضات قائم کر چکے ہیں، اس سے معمولی سی مراجعت کو بھی غیر انقلابی اقدام سے تعبیر کرتے ہیں۔
۲۔ راجہ فتح خان نے اپنے آتشیں مکتوب میں ’’ملائیت‘‘ کے لفظ کی جس طرح تکرار کی ہے، وہ مذہب پسند طبائع پر بے حد ناگوار گزرتی ہے۔ ملائیت کے پردے میں ان کی مذہب اور اسلام سے نفرت کا کھلا اظہار ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ موصوف ہر عالم دین ، مفکر ِاسلام اور دین پسند کو اپنے اس خود ساختہ ومزعومہ ، دائرہ ’’ملائیت‘‘ میں داخل سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کے استثناء کے قائل نہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس ضمن میں انہوں نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی اپنے ذوقِ مذمت کا تختہ ٔ مشق بنایا ہے، جو کسی بھی طور پر روایتی علماء میں شامل نہیں ہیں۔ وہ ایک روشن خیال، سلیم الطبع، وسیع المطالعہ مفکر ہیں جنہوں نے اسلام کے نظامِ فکر کو جدید دور کے تقاضوں کی روشنی میں نہایت مؤثر اور بلیغ انداز میں پیش کیا ہے۔ راجہ فتح خان کا خبث ِباطن تو مذہب کے ہر طالب کو ’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ کے روپ میں ہی دیکھ سکتا ہے۔ اشتراکی کنویں کے ان مینڈکوں کی زبان چند اشتراکی اصلاحات کے ذائقے کے علاوہ کسی علمی نظریئے او ر الفاظ سے آشنا نہیں ہوتی اپنے جذباتی تشنج میں یہ لوگ فراموش کر جاتے ہیںکہ وہ ان علماء کو بھی ’’شاہ دولہ کے چوہے‘‘ کہہ دینے کی جسارت کے مرتکب ہوئے ہیں جن کی وسعت ِمطالعہ کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں کتابیں اُن کی نظر سے گزر چکی ہوتی ہیں۔ راجہ فتح خان اور ان جیسے تنگ نظر نام نہاد اشتراکی اپنی پوری زندگی میں اتنی تعداد میں کتابوں کی محض شکل بھی نہیں دیکھ سکتے جس قدر کتابوں پر مولانا مودودی ؒکے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے حاشیے موجود ہیں۔ راجہ فتح خان جیسے لوگ ہی دراصل ’’شاہ دولا کے چوہے‘‘ کی تعریف پر پورے اُترتے ہیںـ۔ اشتراکیت کی سرانڈ اور جمود سے ان کے اذہان وقلوب بند ہوچکے ہیں۔ ارشاد حقانی صاحب نے تو اس طرح کے افراد کو ’’کنویں کے مینڈک ‘‘ کہنے پر ہی اکتفا کیا ہے لیکن راقم الحروف کے خیال میں ’’اشتراکی چوہوں‘‘ کی اصطلاح ایسے افراد کے لئے بے حد مناسب ہے۔
۳۔ اشتراکی ظلمت کدے کے گمراہ چوہوں کے نزدیک روشن خیالی محض یہی ہے کہ مذہب اور الہامی تعلیمات کو ’’ملائیت‘‘ کہہ کر رد کردیا جائے۔ اگر ملائیت سے ان کی مراد ’’کٹ حجتی، ضدی پن ، دقیانوسی اور تنگ نظری‘‘ ہے تو اپنے طرز ِعمل کے اعتبار سے ان اشتراکی بالشیتوں سے بڑھ کر ’’ملا‘‘ کوئی اور نہیں ہے۔ اشتراکی انقلاب کے بعد سوویت یونین میں بالشویکوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کی مساجد کو منہدم کردیا، اور ان کی نسلوں کو تباہ کیا، اس سے بڑھ کر آمرانہ بہیمیت کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اشتراکی ہر خیال اور ہر نظریہ کو لادین، مادی اشتراکیت کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی ہیں، جو خیال اشتراکی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی متصادم ہو ،وہ اِسے بلا چوں وچرا رجعت پسندی قرار دے کر مسترد کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کے باوجود انہیں یہ دعویٰ ہے کہ ان سے بڑھ کر وسیع النظر اور روشن خیال کوئی اور نہیں ہے۔ سابقہ سوویت یونین اور اشتراکی چین میں جس طرح آزادانہ فکر کو پابہ زنجیر کیا گیاہے، عملًا وہاں ہر فرد کے سر پر فولادی خود چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کسی بھی دور ِحکومت میں افراد کے ذہنوں کو اس طرح کی جکڑ بندیوں میں کسنے کی مثال نہیں ملتی۔
۴۔ راجہ فتح خان رقم طراز ہیں: ’’ملائیت تاریخی طور پر تھیا کریسی کی شکل میں مسترد کردہ نظامِ حکومت ہے۔ اسلام کے آفاقی اصولوں کے نفاذ کی خواہش میں تھیا کریسی مسلط رکھنے کی نادانستہ جدوجہد ہم کو اس بند گلی میں پہنچادے گی جہاں گھپ تاریکی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے ہماری نجات مذہب اور ریاست کو الگ رکھنے میں ہے۔ جمہوری سیکولر ریاست ہمارا ہدف ہونا چاہئے‘‘ ۔اسلام کے سیاسی نظام، کلچر اور تاریخ کے متعلق معمولی سی آگاہی رکھنے والا ہر شخص بخوبی سمجھتا ہے کہ ’’تھیا کریسی‘‘ اسلامی دور میں کبھی بھی مسئلہ نہیں رہی۔ یہ اصطلاح خود مغرب میں کلیسا اور سیکولرزم کے درمیان فکری تصادم کے نتیجے میں سیاسی فلسلفہ کا حصہ بنی، مذہب بیزار سیکولر دانشوروں نے ریاستی معاملات سے چرچ کو بے دخل کرنے کے لئے طنزاً ’’تھیوکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ قرونِ اولیٰ میں کلیسا کو ریاست کے نظم ونسق میں جو جابرانہ تسلط حاصل رہا، اسلامی ریاست میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ ’’ملائیت‘‘ کاجو بھیانک تصور راجہ فتح خان کے ذہن میں ہے، وہ محض ان کے پراگندہ ذہن کی پیداوار ہے، حقیقت سے اس کو قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے حقائق نا آشنا سیکولر اور اشتراکی مصنّفین پاکستانی عوام کو اپنے خود ساختہ ملائیت کے خوف سے ڈرانے کیلئے کلیسا کی طرف سے گلیلو اور دیگر سائنس دانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور Bruno کو زندہ آگ میں جلانے کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ راجہ فتح خان نے بھی یہ فرسودہ اور پیش یا آفتادہ ہتھکنڈہ استعمال کیاہے اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ میں اس طرح کا قابل موازنہ ایک بھی واقعہ نہیں ہے۔ دور ِجدید میں ایران اور افغانستان میں بھی کسی سائنس دان کو زندہ آگ میں جلانے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ میں ہزاروں سال پہلے کلیسا کے مظالم کو بنیاد بنا کر اسلام کو مطعون کرنا ایک ایسی قبیح حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے ۔پاکستان کے نفسیاتی امراض میں مبتلا بدیسی اشتراکیوں پر محض اسلام کا نام سن کر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کا احساسِ جرم دراصل ان میں یہ شدید رد عمل پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔
اسلام اور پاکستان کا ناقابل انفکاک ہیں، ان کے درمیان جسم اور روح کا رشتہ پایا جاتاہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ اسلام ریاست اور مذہب کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں عوامی نمائندے الہامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کرنے کے پابند ہیں ، یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ جو تفصیلی دلائل کی محتاج نہیں۔ اسی لئے پاکستان کو ’’سیکولر‘‘ ریاست بنانے کا مطلب اسے اپنے فکری وجود سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک سیکولر اور اشتراکی طبقہ پاکستان کو اپنے وجود سے محروم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہا ہے۔ سیکولرازم کی جو چاہے یہ تعبیر پیش کریں، اس کا لغوی واصطلاحی مفہوم سوائے مذہب دشمنی کے اور کچھ نہیں ہے۔ سیکولر ازم سے مراد یہ ’’برداشت‘‘ بتلاتے ہیں۔ کیا یہ اسی برداشت کا ہمیں درس دے رہے ہیں جس کا مصطفی کمال پاشا اور ان کی فکری اولاد اب تک مظاہرہ کر رہی ہے۔ ترکی میں اسلام پسندوں کے ساتھ جو برتائو کیا جا رہا ہے، کیا وہ کلیسا کے اس برتائو سے مماثلت نہیں رکھتا جو اس نے روشن خیال مفکرین کے ساتھ کیا تھا؟ …سیکولر ازم، کی منافقانہ شکل انڈیا میں بھی نظر آتی ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے عقیدہ کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
راجہ فتح خان جیسے متعصّب اشتراکیوں کو سوویت یونین میں سٹالن اور چین میں مائوزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کے دوران کروڑوں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ اس کو وہ عین روشن خیالی سمجھتے ہیں لیکن اس ’’ملائیت‘‘ کے مزعومہ مظالم کی طویل داستان رقم کرتے وہ کبھی نہیں تھکتے جس کا وجود بھی نہیں رہا۔ یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانی ضروری ہے کہ قائد اعظم اس طرح کے سیکولر کبھی نہیں رہے جس طرح کا سیکولر مصطفی کمال پاشا یا مصر کا جمال الناصر تھا، یا جس سیکولر ازم کا پرچار پاکستان کا سیکولر اشتراکی طبقہ کر رہا ہے۔ یہ اشتراکی تو اس قدر حساس واقع ہوئے ہیں کہ ارشاد احمد حقانی صاحب کے کالم میں اسلامی قدروں کے احیا کے ذکر تک کو برداشت نہیں کرتے جبکہ قائد اعظم نے ایک نہیں سینکڑوں مرتبہ اسلام کے اعلیٰ اصولوں کا اپنی تقاریر میں ذکر کیا۔ راجہ فتح خان جیسے لوگوں کے منہ میں ’’ملائیت ‘‘ کی تکرار کرتے کرتے جھاگ بہنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس قائد اعظم محمد علی جناح کا بعض علماء اکرام مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی، مولاناشبیر احمد عثمانی اورمولانا حامد بدایوانی وغیرہ سے قریبی تعلق تھا۔ وہ ان سے اسلام کے متعلق ہمیشہ راہنمائی طلب کرتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائد اعظم نے کبھی بھی اپنی تقاریر میں پاکستان کے لئے’’ سیکولر ریاست‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ جسٹس محمد منیر بھی اپنی کتاب ’’جناح سے ضیاء تک‘‘ میں ایک بھی ایسا حوالہ پیش نہیں کر سکے جس میں قائد اعظم کی طرف سے ’’سیکولرازم ، یا سیکولر اسٹیٹ ‘‘کے الفاظ منسوب کئے جا سکتے ہوں۔ راقم الحروف کو یقین ہے کہ قائد اعظم ، سیکولر ریاست کے مضمرات سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لئے انہوں نے اس اصطلاح کو کبھی زبان پر نہ لایا۔ وہ اسلامی ریاست میں اس توسع اور برداشت کو شامل سمجھتے تھے جس کا یہ نام نہاد روشن خیال واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی ریاست اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی بھی اسی طرح محافظ ہوتی ہے جس طرح کہ مسلمانوں کے حقوق کی 11 ؍اگست 1947 کی قائد اعظم کی تقریر کو اس کے سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ مفہوم اَخذ کرنا کہ قائد اعظم ایک مذہب دشمن سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، حد درجہ علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔قائد اعظم اشتراکیوں کی فتنہ سامانیوں اور چیرہ دستیوں سے بھی بخوبی واقف تھے اسی لئے انہوں نے اشتراکیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مسلمان طلباکی صفوں سے دور رہیں اور انہیں گمراہ نہ کریں۔ آج یہی اشتراکی قائد اعظم کے نام کا استحصال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنے آپ کو قائد اعظم کی فکر کا سچا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں ؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی
۵۔ پاکستان کے سیکولر اور اشتراکی دانشوروں کو آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں سے ’خاص ہمدردی‘‘ رہی ہے۔ ان کے دل میں مرزا آنجہانی کیلئے خاص نرم گوشہ موجود ہے۔ پاکستان میں نفاذ ِاسلام کا ذکر کسی بھی حوالہ سے ہو، وہ مظلوم قادیانیوں کا ذکر درمیان میں ضرور لے آتے ہیں۔ مرزا قادیانی بھی بنیادی طور پر ایک ’’ملا‘‘ ہی تھا لیکن راجہ فتح خان جیسے کاٹھے اشتراکی بھی اسے ’’ ملائیت‘‘ میں شامل نہیں سمجھتے۔ اسلام دشمنی کے علاوہ نجانے کونسی روشن خیالی مرزا قادیانی میں ان کو دکھائی دیتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ ان کا ممدوح اور باقی علماء معتوب ٹھہرتے ہیں۔ مرزا قادیانی اپنے آپ کو انگریزوں کا ’’کاشت کیاہوا پودا‘‘ کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ انگریز کے نہایت غالی حامیوں میں سے ایک تھا۔ وہ انڈیا میں انگریز سرکار کو باعث ِرحمت سمجھتا تھا۔ اس کی اس جاپلوسانہ ذہنیت کے باوجود انقلابی اشتراکی اگر اس کی تعریف میں رطب ُاللسان رہتے ہیں تو اس سے کئی شبہات جنم لیتے ہیں۔ اشتراکیت پسندوں اور قادیانیوں میں ’’اسلام دشمنی ‘‘ قدر ِمشترک ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اس طرز عمل کی کوئی اور توجیہ پیش کرنا خاصا مشکل امر ہے۔
راجہ فتح خان نے اپنے مکتوب میں قادیانیوں کے خلاف کئے جانے والے ’’ظلم وستم‘‘ کی اپنے مخصوص ہیجانی رنگ میں تصویر کشی کی ہے۔ موضوع زیر بحث کا اگرچہ ’’قادیانیوں‘‘ سے دور کا بھی علاقہ نہیں ہے لیکن وہ اس رام کہانی، کو دیدہ دانستہ بیچ میں لے آئے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا مودودیؒ، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور میاں نواز شریف میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا، ان کے بقول مولانا مودودی ؒکا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی ’’اسلامی ریاست‘‘ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں‘‘ …راجہ فتح خان اِن کے اس ’’جرم ‘‘ کو معاف کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ۔اگر یہ ’’جرم‘‘ تھا تو اس کا ارتکاب ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے تمام قابل ذکر علماء پہلے ہی کر چکے تھے۔ مرزا قادیانی نے ان تمام اربوں ’’مسلمانوں ‘‘ کو غیر مسلم اور ولد ُالزنا قرار دیا جو اس کی جھوٹی نبوت پر ایمان نہیں لائے۔ راجہ فتح خان جیسے ’’روشن خیال‘‘ مرزا غلام احمد کی اس ہفواتی جسارت کو قابل فروگذاشت سمجھتے ہیں۔ وہ مرزا قادیانی کی اس نا معقول اور حد درجہ توہین آمیز فتویٰ بازی کو ’’حریت ِفکر‘‘ کا لائسنس دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن اس حریت ِفکر کا استعمال جب مرزا کے مخالفین کی طرف سے کیاجاتا ہے تو اسے وہ تنگ نظری پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے دیگر تمام مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دے کر درحقیقت اپنے غیر مسلم ہونے کا خود اقرار کیا تھا کیونکہ کیونکہ کوئی بھی صاحب ِعقل چودہ سو سال سے ایک ہی عقیدہ پر قائم اَربوں مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ اور صرف مرزا قادیانی جیسے جھوٹی نبوت کے دعویدار کو ’’مسلم‘‘ سمجھ کر اپنی دیوانگی اور پاگل پن کا اظہار نہیں کرے گا۔ راجہ فتح خان اگر قادیانی نہیں ہیں تو مرزا غلام احمد کے فتویٰ کی روشنی میں وہ ’’غیر مسلم‘‘ ہیں۔ لیکن اگر وہ قادیانی ہیں یا قادیانیت نواز ہیں تو انہیں مسلمان علماء کی آراء کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق راجہ فتح خان لکھتے ہیں :
’’جب جاگیردار ملائیت کی مدد سے ’’وزیر اعظم‘‘ کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے ملائیت کو خرید کر قادیانیوں کو کافر قرار دینے کیلئے ملاؤں کے قافلے کراچی بھیجتا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں قادنیوں کے خلاف فساد کراتا ہے‘‘… راجہ فتح خان کی جہالت اُبل کر یہاں سامنے آگئی ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم کی کرسی پر پہلے ہی براجمان تھے۔ اس کیلئے انہیں ملاؤں کو خریدنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر انہی ’’خرید کردہ‘‘ ملاؤں نے ہی چند سال بعد بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ ایسا ایک عقل سے پیدل انسان ہی سوچ سکتا ہے۔
قادیانیت کے دفاع میں دو فرزندان ِقادیانیت کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے یعنی سر ظفر اللہ چوہدری اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ یہ دونوں افراد اپنی تمام تر بیدار مغزی ، علم وتدبیر اور ذہانت وفطانت کے باوجود وراثت میں ملنے والی قادیانی تنگ نظری کے خول سے کبھی باہر نہ نکل سکے۔ راجہ فتح خان نے ظفر اللہ چودھری کی شان میں لکھاہے ، آپ قائد اعظم کی پہلی کابینہ پر نظر ڈالیں تو آپ کو جو گندر ناتھ منڈل وزیر قانون اور وزیر خارجہ قادیانی سر ظفر اللہ خان نظر آئیں گے( موصوف کواِن کا اصل نام تک معلوم نہیں)۔ یہی قادیانی وزیر خارجہ قائد اعظم کی میت کے ساتھ جاتا ہے، تدفین میں بھی شامل ہوتا ہے مگر جنازہ نہیں پڑھتا۔ صحافیوں کے پوچھنے پر جواب دیتا ہے کہ چونکہ دوسرے مسلمان احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے اس لئے ہم احمدی بھی ان کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ یہی وزیر خارجہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کا اقوامِ متحدہ میں مقدمہ لڑتا ہے… لیکن یہی ملائیت گلا پھاڑ پھاڑ کر ظفر ُاللہ خان پر الزام لگاتی ہے کہ ’’بائونڈری کمیشن نے اس کی سازش سے گورداسپور بھارت کو دے دیا تاکہ وہ کشمیر پر قبضہ رکھ سکے‘‘
قائد اعظم کی تدفین میں شمولیت کے باوجود سر ظفر اللہ قادیانی کا ان کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہونا اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ وہ قائد اعظم کو اپنی دانست میں مسلمان نہیں سمجھتا تھا۔ قائد اعظیم ایک وسیع المشرب انسان تھے ۔انہوں نے ظفر اللہ چوہدری کے قادیانی ہونے کے باوجود اس کی ذہانت سے متاثر ہوکر اسے وزارت ِخارجہ کا منصب عطا کیا۔ ظفر اللہ چوہدری نے قائد اعظم کے جنازے میں شرکت نہ کرکے جہاں اسلام اور قادیانیت کے دو الگ الگ مذاہب ہونے کا اظہار کیا، وہاں حد درجہ احسان فراموشی کا ثبوت بھی دیا۔ قائد اعظم جیسے روشن خیال، لبرل اور معتدل مسلم قائد کے متعلق قادیانیوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے، عام مسلمانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا جو عالم ہوگا وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ سر ظفر اللہ قادیانی کی بعد کی حرکتوں کے پیش نظر قائد اعظم نے اسے وزارت ِخارجہ کے منصب سے معزول کرنے پر ضرور غور کرتے، ہندو وزیر جو گندر ناتھ منڈل نے بھی قائد اعظم کی عزت افزائی کا جواب حد درجہ احسان فراموشی کی صورت میں دیا۔ وہ انڈیا بھاگ گیا اور وہاں ہندوؤں سے مل کر قائد اعظم کے خلاف توہین آمیز بیانات دیتا رہا۔ قادیانی کشمیر کو ’’قادیانی ریاست‘‘ بنانے میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے، اس کے بارے میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ راجہ فتح خان کو ’’ملائیت‘‘ پر برسنے کی بجائے ان دستاویزات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
راجہ فتح خان لکھتا ہے ’’ملائیت سائنس دانوں کی کتنی قدر کرتی ہے۔ یہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ اس کے اختیار کردہ رویئے سے ظاہر ہے‘‘ راجہ فتح خان ملائیت دشمنی میں بے بنیاد الزام تراشی سے بھی باز نہیں رہتے۔ کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر عبدالسلام سائنس دان ہونے کے باوجود کٹر قادیانی بھی تھا۔ وہ سائنس کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کرتا رہا۔
جب پاکستان میں قادیانیوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دیا گیا تو وہ احتجاجاً پاکستان چھوڑ کر یورپ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ اپنے انتقال سے پہلے اس نے وصیت کی تھی کہ اس کا جسد ِخاکی پاکستان میں قادیانی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی مخالفت اس کے سائنس دان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کٹر قادیانی ہونے کی کی بنا پر کی جاتی رہی ہے۔ اگر راجہ فتح خان کے بقول ملائیت سائنس دانوں کے خلاف ہوتی تو پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈاکٹر ثمر مبارک اور دیگر یٹمی سائنس دانوں کو جو احترام ملا ہے،وہ ہرگز نہ ملتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل انعام کا فائدہ پاکستان کو کیا ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی ذہانت کا لوہا دنیا مانتی ہے، وہ ’’یونیفائیڈ تھیوری‘‘ پیش کرکے نوبل انعام کے مستحق ٹھہرے۔ کائنات کے اہم راز سے پردہ اٹھانیوالا سائنس دان مرزا غلام احمد کی فکری ضلالتوں اور باطل دعوؤں کا ادراک نہ کر سکا ، یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کو سائنس بھی نہیں سلجھاسکتی۔ ہدایت بلاشبہ عطیہ ٔخداوندی ہے۔
۶۔ اشتراکیت اور سیکولرازم اپنے مزاج اور نظریہ کے اعتبار سے الحاد اور مریضانہ مادہ پرستی پر مبنی نظامِ فکر ہیں۔ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کا مذہب سے نفرت اور حقارت کا رویہ ایک فطری نتیجہ ہے۔ راجہ فتح خان نے ان مادہ پرستانہ نظریات کی ترجمانی کرتی ہوئے لکھا ہے ’’مادیت والوں کا اس پر اعتراض ہے کہ اگر خالق کے بغیر کوئی چیز تخلیق نہیں ہو سکتی تو خود خالق کائنات کو کس نے تخلیق کیا (نعوذ باللہ) اس طرح یہ دو نظریات ایک دوسرے کو قائل کر ہی نہیں سکتے۔ نہ کوئی احمد بشیر کسی ارشاد حقانی کو قائل کر سکتا ہے اور نہ کوئی ارشاد احمد حقانی کسی احمد بشیر کو‘‘ …اشتراکی بازی گر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو ایک محض معاشی نظام ہے جو انسانوں کی معاشی مساوات کا قائل ہے لیکن وہ ان اُمور پر اپنی رائے دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں جن کا معاشیات سے مطلق طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب، کائنات کی تخلیق اور ما بعد الطبیات خالصتا ًفلسفہ اور مذہب کے موضوعات ہیں۔اصولاً اشتراکیوں کواس پر رائے زنی نہیں کرنی چاہئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت محض معاشی فلسفہ نہیں ہے، یہ زندگی کے تمام موضوعات کے متعلق مادہ پرستانہ تعبیر کا قائل ہے۔ راجہ فتح خان نے بالکل درست کہا ہے کہ کوئی ارشاد احمد حقانی ملحد احمد بشیر کو قائل نہیں کر سکتا۔ احمد بشیر کو وہ اشتراکیوں کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسی مکتوب میں راجہ فتح خان نے کمیونسٹ پارٹی کے چئرمین نازش امروہوی کی تدفین میں کمیونسٹوں کی شرکت پر بھی تعجب کا اظہار کیا ہے ۔گویا ایک کمیونسٹ کسی قسم کی مذہبی رسومات وعبادات میں شریک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں اشتراکیت مخالف دانشور ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ اشتراکیت ایک ملحدانہ نظامِ فکر ہے، اس پر اعتقاد رکھنے والا بالآخر اپنی مسلمانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ راجہ فتح خان کے خیالات اشتراکی مکتبہ ٔفکر کے صحیح طور پر ترجمان ہیں۔ ان کے نظریات کی بنیاد کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت اور تاریخ کی مادہ پرستانہ تعبیر پر ہے۔ اور یہ نظریات خدا پرستی، توحید اور مذہب کی بنیادی تعلیمات سے براہ ِراست متصادم ہیں۔ راجہ فتح خان جیسے لوگ ابھی تک اَخلاقی بزدلی کا شکار ہیں وہ اپنی بات کو اِدھر اُدھر گھما کر کرتے ہیں۔ ان کا مزاج ملحدانہ ہیں لیکن وہ ’’ملائیت ‘‘پر یہ کہہ کر خوہ مخواہ برستے ہیں کہ’’ ملائیت اس گتھی کو سلجھانے کے لئے بے شک الحاد اور ارتداد کے فتوؤں کے ذریعہ مادیت نظریئے کے حاملوں کو قتل کرنا پسند کرتی ہے مگر یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس سے کلمہ الحاد زبان پر آنا بند ہوجائے گا‘‘ انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ احمد بشیر جیسے بدبخت لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد بھی ملحدانہ نظریات رکھتے ہیں تو اس سے اللہ کی توحید اور خالق کائنات ہونے کی حیثیت پر بال برابر فرق نہیں آئے گا ا ور نہ ہی خالق کائنات کوان جیسے ملحدوں کی تائید کی ضرورت ہے۔ الحاد میں نقصان اُن کا اپنا ہے۔ توحید پرستوں کے نزدیک یہ کوئی گتھی نہیں ہے ۔ان کے دل تو توحید ِباری تعالیٰ کی روشنی سے منور ہیں۔ یہ ذہنی خلجان تو ملحدوں کا ہے۔ کسی ابوجہل اور ابولہب کے الحاد نے سوائے اپنے آپ کو جہنم رسید کرنے کے کسی اور کا نقصان نہیں کیا۔ راجہ فتح خان کی طبیعت اگر ارتداد پر مائل ہے تو وہ نعرۂ بغاوت بلند کردیں۔ گزشتہ 13 سو سالوں میں اسلامی معاشرہ میں کسی کو بھی ارتداد کی سزا سے نہیں گزرنا پڑا۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے روزنامہ ’’قومی آواز‘‘نے خبر دی ہے کہ افغانستان میں ایک لاکھ مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور ان کی اکثریت ’’خلق‘‘ اور ’’پرچم پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے اشتراکیوں کی ہے جو طالبان کے خوف سے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عیسائی بن گئے ہیں۔ طالبان نے ان کی گردنیں نہیں ماریں، تو پاکستان میں انہیں کس کا خوف ہے۔لیکن انہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ٔ پاکستان میں انہیں کھلی چھٹی نہیں دے دی جائے گی۔
پاکستان کے عوام اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں وہ ایسے مبلغین الحاد کا تعاقب بھی اپنا دینی اور ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ مٹھی بھر ملحد اشتراکیوں کی اسلام دشمن ریشہ دوانیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس کا تحفظ اور دفاع محض کسی ’’ملا‘‘ کی ذمہ داری نہیں ہے، ہر کلمہ گو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق دین ِ حق کا دفاع کرے۔
۷۔ راجہ فتح خان کی یاوہ گوئی ملاحظہ ہو…
’’ملائیت ہر جگہ ہی استحصالی طبقہ کی طرح مفت خور ہی ہوتی ہے ،کام یا پیداوار میں حصہ نہیں لیتی۔ پیدائش دولت میں کوئی عملی حصہ نہ لے کر مفت کے حلوے مانڈے پر موج کرتی ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار محنت کشوں کا مادّی استحصال کرتے ہیں تو ملائیت ان کا روحانی استحصال کرکے اپنے دام کھرے کرتی ہے۔‘‘
مکتوب نگار راجہ فتح خان معاشی تنگ دستی کے ساتھ ساتھ روحانی افلاس اور اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہے ،ورنہ اس سے اس یاوہ گوئی کا صدور ممکن نہ ہوتا۔ علماء بجا طور پر انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ممکن ہے کچھ علماء اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہوں، لیکن بحیثیت ِمجموعی علم کے فروغ اور قرآن وسنت کے احیا کے متعلق علماء کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں حریت ِپسند علما کو فرنگی سامراج کے ہاتھوں قید وبند کی صعوبتوں سے جس طرح گزرنا پڑا، وہ ہماری آزادی کی جدوجہد کا ایک زریں باب ہے۔ جزائر انڈیمان اور مالٹا آج بھی ان کی جرأتوں کی شہادت دیں گے۔ افغانستان سے جارح سرخ ریچھ کو پسپا کرنے میں وہاں کے علما نے جس جہادی جذبہ کا اظہار کیا اور ایک سپر پاور کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، دور حاضرمیں ایسی دلیرانہ جدوجہد کی مثال نہیں ملتی۔ مادہ پرستی کی یلغار کے سامنے وہ آج کے دور میں قران وسنت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں آج اگر اشتراکیت اور سیکولر ازم شکست خورہ ہے تو اس کے پس پشت علما کی کوششوں کو بہت دخل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ایک محدود طبقہ فرقہ وارانہ تشدد میں مبتلا ہے۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں 25 ہزار سے زیادہ دینی مدارس ہیں جو قرآن وسنت کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں، ان کا ایک مخصوص گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ دینی مدارس شدید مالی مشکلات کے باوجودا پنا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ تمام علماء کو ملائیت میں شامل سمجھ کر ان کے خلاف دریدہ دہنی محض مریضانہ مذہب بیزاری کا شاخسانہ ہے۔ لبرل ازم ، نیشنلزم،فیمنزم اور سوشلزم غرضیکہ جدید یورپ سے اٹھنے والی تمام تحریکیں ’’نفرت‘‘ کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ ان تحریکوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی طبقے کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا۔ لبرل ازم نے مذہب اور کلیسا کو، نیشنلزم نے دوسری اقوام کو، تحریک آزادی ٔنسواں نے مردوں اور اشتراکیت نے جاگیرداروں اور صنعت کاروں اور مذہب پسندوں کو اپنی آتشین نفرت کا تختۂ مشق بنایا، پاکستان کے بدیسی اشتراکیوں نے ’’علماء‘‘ کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی انقلابیت کی تسکین کا سامان تلاش کیا ہے۔ یہ نفرت کے پجاری اپنے آپ کو ’’انسان دوست‘‘ کہتے ہیں لیکن ان کی انسان دوستی کی تعریف میں مذہب کی حقانیت پر یقین رکھنے والے پورے نہیں اترتے۔ ان کے نزدیک سچا انسان وہی ہے جو ملحد اور مذہب بیزار ہو۔ پاکستان کے شکست خوردہ اشتراکی عناصر نے ’’پونم‘‘ کے نام پر ملکی یکجہتی کو تاراج کرنے کا نیا منصوبہ بنایاہے۔ جی ایم سید، باچا خان، اور اچکزئی کی فکری اولاد کو سیاسی سطح پر پاکستان میں کبھی بھی عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن وہ خود ساختہ ’’مظلوم اقوام‘‘ کے نمائندے اور ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ راجہ فتح خان کے بقول ’’پونم کے مطالبات شیخ مجیب کے چھ نکات کی طرح تینوں صوبوں میں تیزی سے مقبول عام ہو رہے ہیں‘‘ اگر آج انتخابات ہوجائیں تو شیخ مجیب کے ان جانشینوں کی مقبولیت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ جی ایم سید، ممتاز بھٹو اور سرحدی گاندھی کوبھی ہمیشہ اپنی ’’مقبولیت‘‘ کا دعویٰ رہا ہے۔ اگر اخبارات ان نام نہاد عوامی رہنماؤں کو اپنے صفحات پر جگہ نہ دیں ، تو عوام ان کی شکل بھی نہیں پہچان سکیں گے۔ رسول بخش پلیجو ، تاج لنگاہ، جا م ساقی وغیرہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ حال ہی میں ’’پونم‘‘ نے پاکستان کا نام بتدیل کرنے کا فتنہ برپا کیا ہے۔ یہ صریحاً وطن دشمنی اور ملکی سالمیت کے خلاف سازش ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان شرپسندوں کی حرکات کا سختی سے نوٹس لے۔
آخر میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ اسلام اپنی حرکی توانائی، اجتہادی خصوصیات، روشن خیالی اور ایک جامع نظامِ ہدایت ہونے کے ناطے انسانیت کی بھلائی کا واحد نظام ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی زخم خوردہ انسانیت بالآخر اسلام کے دامن میں فلاح پائے گی۔ ملائیت یا کسی اور نام سے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کے مذموم ہتھکنڈے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اکیسویں صدی بلاشبہ اسلام کے فکری احیاء کی صدی ہوگی ۔ ان شاء اللہ!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ کالم جنگ میں چھپا تھا کہ نہیں ؟
کالم کی بعض سطور سے اندازہ ہوتا ہے غالبا یہ 1990ء کی بات ہے ۔
 
Top