• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملازمین کی Gratuity سے متعلق سوال۔ سود کا خدشہ۔

شمولیت
مارچ 12، 2018
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ


سوال
میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتا ہوں۔جس کے اصول و ضوابط سرکاری اداروں سے کافی حد تک مختلف ہیں۔ کمپنی ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ یہ Optionدی جاتی ہے کہ اگر کوئی ملازم 10سال تک مسلسل اس کمپنی میں نوکری کرتا رہے تو دس سال کی مسلسل نوکری کے بعد وہ Gratuityلینے کا حق دار بن جاتا ہے۔ چاہے تو دس کی مدت کی تکمیل کے فوراً بعد Gratuity نکلوا لے اور چاہے تو اس کو مؤخر کردے۔ دس سال کی مدت سے پہلے کوئی بھی ملازم Gratuityلینے کا حق دار نہیں بنتا۔
Gratuityکی رقم کا تعین اس طریقہ سے ہوتا ہے۔

ملازمت کی مدت (Years/سال)
ضرب آخری سال کی تنخواہ جس میں Gratuityکی رقم کا وہ حق دار بناہے۔

مثلاً ایک ملازم جس کی تنخواہ دسوں سال دس ہزار روپے تھی تو دس سال کی تکمیل کے بعد اس کو اس فارمولے سے Gratuity ملے گی۔

ملازمت کی مدت(دس سال) ضرب آخری سال کی تنخواہ (دس ہزار روپے)
= ایک لاکھ روپے۔
اب چونکہ وہ دس سال کی مدت ملازمت کی تکمیل کےبعد ہی وہ Gratuityکا حق دار بنا ہے اس لیے اس کی رقم کے تعین میں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔

مزید تفصیل (جس سے سوال کا گہرا تعلق ہے) یہ ہے کہ

گیارہوں سال سے ملازم کو حق ہے کہ وہ ہر سال کی تکمیل کے بعد اپنی اس سال کی Gratuityنکوا سکتا ہے مثلاً گیارھواں سال کے بعد اگر اس ملازم کی تنخواہ گیارہ ہزار روپے ہے تو اس کی گیارہوں سال کی Gratuityاس طرح Calculateہوگی۔

ملازمت کی مدت(ایک سال) ضرب آخری سال کی تنخواہ (گیارہ ہزار روپے)
= گیارہ ہزار روپے۔

لیکن کمپنی ایک optionدیتی ہے کہ اگر ملازم ہر سال Gratuityنکلوانے کے بجائے اسے نہیں نکلواتا تو جتنی مدت تک کی Gratuityاسکی Pendingہے کمپنی اس کو آخری سال کی تنخواہ کے حساب سے Gratuityدے دی گی۔




مثلاً وہ ملازم دس سال کی Gratuity لینے کے بعد گیارہوں سال سے فیصلہ کرتا ہے کہ اب میں اگلےتین سال تک اپنی
Gratuityنہیں نکلواؤں گا تو اس کو اس بات کا فائدہ ہو گا۔ کیونکہ اگر وہ ہر سال Gratuity نکلواتا تو رقم اس حساب سے بنتی
گیارہوں سال کی تنخواہ۔۔۔۔گیارہ ہزار روپے۔۔۔۔ Gratuityکی رقم = 11000 روپے
بارہوں سال کی تنخواہ۔۔۔۔بارہ ہزار روپے۔۔۔۔
Gratuityکی رقم= 12000روپے
تیرہوں سال کی تنخواہ۔۔۔۔تیرہ ہز ار روپے۔۔۔۔
Gratuityکی رقم=13000ہزار روپے
-----------------------------------------------------
ٹوٹل رقم Gratuity کی مد میں (تین سال کی) = 36000 ہزار روپے

لیکن اگر وہ ملازم کمپنی کی طرف سے دی گئی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر ہر سال Gratuityنکلوانے کی بجائے تیرہوں سال کی ملازمت کی مدت کی تکمیل کے بعد تین سال کی Gratuity اکٹھی نکلواتا ہے تو وہ رقم اس حساب سے ملے گی۔
ملازمت کی مدت(تین سال) ضرب آخری سال کی تنخواہ ( تیرہ ہزار روپے)
= 39000 ہزار روپے۔
میرا سوال یہ ہے کہ
1) جب گیارہوں سال سے وہ ہر سال Gratuityنکلوانے کا حق دار بن گیا تھا لیکن اس نے وہ رقم 3سال تک اس وجہ سے نہیں نکلوائی کہ اس طرح کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوجائے گا۔ تو کیا وہ جو اضافی رقم اس نے وصول کی ہےکیا وہ
سود ہے۔ ؟ کیونکہ گیارہوں سال کی تکمیل کے بعدہر سال اس کی رقم جو اس نے نہیں نکلوائی وہ کمپنی کے پاس ایک لحاظ سے قرض ہی ہے۔ تو اب وہ رقم پر اضافہ لے رہا ہے۔ تو کیا اس طرح سے رقم کا تعین سودہے؟
2)اگر یہ عمل بعینہ سود نہیں ہے تو کیا یہ عمل اس طرح سے مشتبہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ ؟
3)یا ملازمین بلا خوف و خطر کمپنی کی طرف سے دی ہوئی optionکو استعمال کر کے مالی فائدہ اٹھاتے رہیں اس طرح سے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی؟
اس سوال کا جواب عطا فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم اپنی روزی کو حلال طریقے سے کما سکیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم اس خدمت کے بدلے آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین.


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ صورت سود معلوم نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم
کیونکہ گیارہوں سال کی تکمیل کے بعدہر سال اس کی رقم جو اس نے نہیں نکلوائی وہ کمپنی کے پاس ایک لحاظ سے قرض ہی ہے۔ تو اب وہ رقم پر اضافہ لے رہا ہے۔ تو کیا اس طرح سے رقم کا تعین سودہے؟
اس اصول کے تحت تو دسویں سال لی جانے والی رقم بھی سود بن جائے گی ، کیونکہ نو سال تک کمپنی نے اس کی رقم کو استعمال کیا ہے ۔
جبکہ یہ دونوں ہی سود نہیں ، کمپنی کا یہ اصول ہے کہ دس سال کے بعد جس سال بھی آپ ان سے یہ پیسے لینا چاہیں گے ، وہ آپ کی تنخواہ کے حساب اور ملازمت کی مدت کو مد نظر رکھتے ہوئے دے دیں گے۔ چونکہ سال بڑھنے سے آپ کی تنخواہ اور ملازمت کا دروانیہ بڑھ رہا ہے ، لہذا اس سے منسلک اکرامیے میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔
2)اگر یہ عمل بعینہ سود نہیں ہے تو کیا یہ عمل اس طرح سے مشتبہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ ؟
3)یا ملازمین بلا خوف و خطر کمپنی کی طرف سے دی ہوئی optionکو استعمال کر کے مالی فائدہ اٹھاتے رہیں اس طرح سے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی؟
اس سوال کا جواب عطا فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم اپنی روزی کو حلال طریقے سے کما سکیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم اس خدمت کے بدلے آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین.
شبہے سے بچنا یہ تقوی کی نشانی ہے ۔ اگر کوئی ملازم اس سے بچے تو بہت بہترین بات ہے ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم


کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپکی کمپنی آپ کو ایک سال کام کرنے پر ایک مہینہ کی چھٹی بھی دیتی ہے یا نہیں۔ یہ اسطرح بنیں گے کہ 11 مہینے کام کرنے پر 12 مہینے کی تنخواہ۔

والسلام
 
شمولیت
مارچ 12، 2018
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام علیکم


کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپکی کمپنی آپ کو ایک سال کام کرنے پر ایک مہینہ کی چھٹی بھی دیتی ہے یا نہیں۔ یہ اسطرح بنیں گے کہ 11 مہینے کام کرنے پر 12 مہینے کی تنخواہ۔

والسلام
السلام علیکم! ہمیں کمپنی ایک ماہ کی چھٹی نہیں دیتی۔ بارہ ماہ ہی کام کیا جاتا ہے۔ پورے ایک ہفتے میں صرف جمعہ والے دن چھٹی ہوتی ہے۔
 
شمولیت
مارچ 12، 2018
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ صورت سود معلوم نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم

اس اصول کے تحت تو دسویں سال لی جانے والی رقم بھی سود بن جائے گی ، کیونکہ نو سال تک کمپنی نے اس کی رقم کو استعمال کیا ہے ۔
جبکہ یہ دونوں ہی سود نہیں ، کمپنی کا یہ اصول ہے کہ دس سال کے بعد جس سال بھی آپ ان سے یہ پیسے لینا چاہیں گے ، وہ آپ کی تنخواہ کے حساب اور ملازمت کی مدت کو مد نظر رکھتے ہوئے دے دیں گے۔ چونکہ سال بڑھنے سے آپ کی تنخواہ اور ملازمت کا دروانیہ بڑھ رہا ہے ، لہذا اس سے منسلک اکرامیے میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

شبہے سے بچنا یہ تقوی کی نشانی ہے ۔ اگر کوئی ملازم اس سے بچے تو بہت بہترین بات ہے ۔
جزاک اللہ خیر۔ محترم بھائی مسئلہ یہ ہے کہ دسویں سال سے ہی ہم حق دار ہوتے ہیں۔ دس سال سے پہلے تو حق ہی نہیں ہے لینے کا۔ اس لیے اس کا تعین تو دسوں سال کی تنخواہ پر ہی ہوگا۔ اصل بات جو میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گیارہوں سال ایک سال کی Gratuityلینا میر ا حق بن گیا لیکن میں نے اس لالچ سے نہیں لی کہ چار پانچ سال بعد لوں گا تاکہ اس کی رقم کے تعین میں جس شرح سے وہ ملنی ہے وہ بڑھ جائے تو کیا یہ عمل سود کے زمرے میں آتا ہے۔ میرے پیش نظر یہ روایت ہے میں کوئی عالم دین نہیں ہوں اس لیے اہل علم سے پوچھ کر مسئلہ حل کرنا چاہتاہوں ۔

حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه , اتيت المدينة فلقيت عبد الله بن سلام رضي الله عنه ، فقال : " الا تجيء فاطعمك سويقا وتمرا وتدخل في بيت " ، ثم قال : " إنك بارض الربا بها فاش إذا كان لك على رجل حق ، فاهدى إليك حمل تبن او حمل شعير او حمل قت فلا تاخذه ، فإنه ربا " , ولم يذكر النضر , وابو داود , ووهب عن شعبة البيت " .​
´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ` میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا، آؤ تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک (باعظمت) مکان میں داخل ہو گے (کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے گئے تھے)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔ نضر، ابوداؤد اور وہب نے (اپنی روایتوں میں) «البيت‏.‏» (گھر) کا ذکر نہیں کیا۔بخاری شریف 3814​

میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں زیادہ رقم آتی کس کو بری لگتی ہے۔ اصل بات روزی میں حلال اور حرام کا تعین ہے۔ایک بات مزید بتا دوں کہ کمپنی ملازمین کی جو رقم روکے رکھتی ہے وہ نہ ہی کاروبارمیں باقاعدہ لگاتی ہے اور نہ ہی ادھار یا سود وغیرہ کے کام میں خرچ کرتی ہے۔ کمپنی کے وسائل کثیر ہیں اور ملازمین کے تعداد کم ہے رقم کم ہوتی ہے کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس رقم سے۔ وہ تو ملازمین کے بہتری کے لیے کہتے ہیں کہ رقم روکے رکھو مستقبل میں تمھارے کام آئے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاک اللہ خیر۔ محترم بھائی مسئلہ یہ ہے کہ دسویں سال سے ہی ہم حق دار ہوتے ہیں۔ دس سال سے پہلے تو حق ہی نہیں ہے لینے کا۔ اس لیے اس کا تعین تو دسوں سال کی تنخواہ پر ہی ہوگا۔ اصل بات جو میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گیارہوں سال ایک سال کی Gratuityلینا میر ا حق بن گیا لیکن میں نے اس لالچ سے نہیں لی کہ چار پانچ سال بعد لوں گا تاکہ اس کی رقم کے تعین میں جس شرح سے وہ ملنی ہے وہ بڑھ جائے تو کیا یہ عمل سود کے زمرے میں آتا ہے۔ میرے پیش نظر یہ روایت ہے میں کوئی عالم دین نہیں ہوں اس لیے اہل علم سے پوچھ کر مسئلہ حل کرنا چاہتاہوں ۔

حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه , اتيت المدينة فلقيت عبد الله بن سلام رضي الله عنه ، فقال : " الا تجيء فاطعمك سويقا وتمرا وتدخل في بيت " ، ثم قال : " إنك بارض الربا بها فاش إذا كان لك على رجل حق ، فاهدى إليك حمل تبن او حمل شعير او حمل قت فلا تاخذه ، فإنه ربا " , ولم يذكر النضر , وابو داود , ووهب عن شعبة البيت " .
´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ` میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا، آؤ تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک (باعظمت) مکان میں داخل ہو گے (کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے گئے تھے)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔ نضر، ابوداؤد اور وہب نے (اپنی روایتوں میں) «البيت‏.‏» (گھر) کا ذکر نہیں کیا۔بخاری شریف 3814

میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں زیادہ رقم آتی کس کو بری لگتی ہے۔ اصل بات روزی میں حلال اور حرام کا تعین ہے۔ایک بات مزید بتا دوں کہ کمپنی ملازمین کی جو رقم روکے رکھتی ہے وہ نہ ہی کاروبارمیں باقاعدہ لگاتی ہے اور نہ ہی ادھار یا سود وغیرہ کے کام میں خرچ کرتی ہے۔ کمپنی کے وسائل کثیر ہیں اور ملازمین کے تعداد کم ہے رقم کم ہوتی ہے کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس رقم سے۔ وہ تو ملازمین کے بہتری کے لیے کہتے ہیں کہ رقم روکے رکھو مستقبل میں تمھارے کام آئے گی۔
شیخ @محمد فیض الابرار صاحب توجہ فرمائیں۔
 
Top