• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملت ابراہیم کے عناصر رئیسہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ملت ابراہیم کے عناصر رئیسہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم


  • شرک اور اہل شرک اور ان کے معبودان باطلہ سے اظہار برأت۔
  • اللہ کو چھوڑ کر انسان ساختہ قوانین اور دساتیر کے متعلق پوری قوت سے یہ کہنا کہ وہ کفریہ ہیں۔
  • اس دشمنی اور عداوت کو اس وقت تک رکھنا جب تک وہ شرک اور اپنے خود ساختہ قوانین اور دساتیر کو باطل قرار دے کر اللہ کے دین میں داخل نہیں ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی عقیدہ ہے جس کا اظہار اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے کروایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ [ممتحنہ :۴]

(مسلمانو!) تمہارے لئے جناب ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اﷲ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت میں اہل اسلام کو کفار سے دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ جس کا یہ تقاضا ہے کہ جب تک وہ کفر پر رہیں ان سے برابر دشمنی اور عداوت رکھی جائے۔ [بدائع الفوائد]

شیخ محمد بن عتیق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عداوت (دشمنی) کو بغض سے پہلے بیان کیا ہے ۔ ’’ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ ‘‘ دشمنی اصل میں بغض کا اظہار ہے جسے ہر شخص محسوس اور جانچ سکتا ہے جبکہ محض دل میں نفرت رکھنے کو بغض کہتے ہیں۔ عداوت کا لفظ پہلے ذکر کرنے کا منشاء یہ ہے کہ جو چیز زیادہ اہم اور ضروری ہوتی ہے یا جس کے نظر انداز کر دینے کا اندیشہ ہوتا ہے اسے پہلے بیان کر دیا جاتا ہے۔ بنا بریں ابراہیم علیہ السلام کا یہ اسوہ نہیں ہے کہ محض دِل میں کفار اور ان کے معبودوں سے بغض رکھیں بلکہ اظہار بغض، دشمنی ان سے پہلے رونما ہوئی اور ساتھ ہی دِل کا اعتقاد ’’البغضاء‘‘ کو بھی بتلا دیا کہ دِل میں نفرت اور حقارت نے ان سے اظہار دشمنی کرایا تھا نہ کہ کسی دنیاوی غرض نے۔

اسحق بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شرک اور اہل
شرک سے محض دِل میں نفرت رکھنا اللہ کے ساتھ ایمان کو مکمل نہیں کرتا بلکہ دِل میں جو نفرت اور بغض ہے اس کا دشمنی کی صورت میں اظہار سے ان سے برأت کا تقاضا پورا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ سورہ ممتحنہ کی مذکورہ بالا آیت کے ’’وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مشرکین کی تکفیر ببانگ دہل کرنا اور عملاً اُن سے لاتعلق رہنا اس آیت کا معنی اور مفہوم ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں: دِل، زبان اور اعضاء سے اظہار نفرت کو دشمنی کہتے ہیں، جہاں تک دِل میں بغض کا تعلق ہے تو کفار سے بغض ہونا تو ایمان کی شرط ہے، مومن کے دِل میں کفار سے نفرت تو ہوتی ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اس کا اظہار کس طور پر کرتا ہے۔ [الدررالسنیۃ: باب، جہاد]

کتاب التوحید کے شارح‘ مصنف فتح المجید، عبدالرحمن بن حسن آل شیخ فرماتے ہیں: سورہ ممتحنہ کو غور سے پڑھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ انبیاء اور رسل کو جس توحید خالص پر کاربند رہنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ ہے کیا!سورہ ممتحنہ کی اس آیت میں اُسے توحید پر چلنے والے کا اسوہ بھی مل جائے گا اور رسولوں کی مخالفت کرنے والوں سے بھی اس کا تعارف ہو جائے گا۔

محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قریش کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے معبود کسی کے کام آنے کے نہیں ہیں، نہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے لئے ضرر رساں ہو سکتے ہیں۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے اس بات کو اپنے معبودوں کیلئے گستاخی پر محمول کیا ہوگا۔ سو توحید یہ نہیں ہے کہ محض اللہ کو اپنا پروردگار اور معبود سمجھا جائے بلکہ اپنے زمانے کے اہل شرک سے اظہار برأت اور دشمنی کا اعلان بھی کرنا پڑے گا۔ سورہ مجادلہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
[المجادلہ :۲۲]

تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کی ہے۔ خواہ وہ اُن کے باپ ہوں، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِلوں پر اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے اُن کو قوت بخشی ہے۔ وہ اُن کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کے لشکر کے لوگ ہیں، خبردار رہو، اللہ کے لشکر والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔

اب اگر ہم اپنے زمانے میں توحید پرستوں کو دیکھیں تو ان میں کم ہی انبیاء اور رسولوں کی توحید کو پوری طرح سمجھنے والے ہوں گے۔ نبی ﷺ نے جس توحید کو پیش کیا اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ قید وصعوبت کے مراحل سے گزرنا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو ابتداء میں ہی دیار غیر‘ حبشہ میں ہجرت کرنے کی مجبوری لاحق ہو گئی تھی۔

اب اس بات میں تو شک وشبہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں پر مشفق اور رحم دل کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ آزمائش سے گزرتے تھے۔ اگر اس سے کم توحید کی کوئی گنجائش اور رخصت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے اپنے بہترین ساتھیوں کیلئے ضرور پسند فرماتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن اترا تھا اُس میں اِن خدشات کا تذکرہ موجود تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اِس اذیت کو سمجھتے ہوئے ایمان لائے تھے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّـهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّـهِ [العنکبوت : ۱۰]

لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اُس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔

الدرر سنیہ کے باب الجہاد میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں: یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو مخالف اسلام گروہ کی تکالیف اور ایذا رسانیوں کو سہہ نہ سکتے تھے اور اُسے اس طرح تعبیر کرتے تھے گویا خدا کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا ہو، ان لوگوں نے محض شکوہ زبان پر لایا تھا عملاً مشرکین کا ساتھ نہ دیا تھا۔ اُن لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اہل شرک کے حامی وناصر بنے ہوئے ہیں اور توحید پر چلنے والے مسلمانوں کے درپے آزار ہیں۔


شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا تفسیر ہمارے زمانے پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کا حکمران طبقہ کفار سے اظہار ِ محبت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور توحید پرستوں کا ناطقہ بند کرنے میں اپنی پوری سرکاری مشینری کھپا دیتا ہے۔

شیخ محمد بن عبداللطیف آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لو، کسی بھی شخص کا اسلام اُس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ نبی علیہ السلام کے دشمنوں سے بیر نہیں رکھتا اور اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لانے والوں کو اپنا دوست اور ولی نہیں سمجھتا۔

اس کے علاوہ وہ سورہ توبہ کی آیت ۲۳ کا حوالہ دیتے ہیں:

یٰآَیُّھَا الَّذِیٰنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓاٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءِ اِنِ اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔

برادران اسلام! تمام انبیاء اور رُسُل جس دین کو اپنی اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ عقیدہ الولاء اور البراء پر مشتمل ہے یہی ان کا منہاج اور اسوہ ہے۔ اس پر پورا قرآن اور رسول اللہ کی سیرت مطہرہ شاہد اور گواہ ہے۔

ایک اور مقام پر شیخ محمد بن عبداللطیف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: توحید خالص تو یہی ہے جسے ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یعنی کفار سے اظہار برأت کا اعلان کرنا۔ اب اگر کوئی جاہل کفار کی طرف سے نماز‘ روزہ اور حج کی اجازت کو اس بات پر محمول سمجھے کہ وہ دین پر چل رہا ہے تو وہ سمجھا ہی نہیں ہے کہ عقیدے کا اظہار کسے کہتے ہیں۔ بھلا جو شخص شرک اور اہل شرک سے بغض اور دشمنی پالتا ہو اُسے کفار اپنے شہروں میں کیسے چلتا پھرتا چھوڑ دیں گے۔ وہ یا تو اُس مار دیں گے یا پھر اُسے جلاوطن ہونا پڑے گا۔ جب کبھی عقیدے کا اظہار ہوا ہے‘ اس کا یہ نتیجہ ضرور نکلا ہے۔

سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ شعیب علیہ السلام سے پیش آنے والے معاملے کا ذکر کرتا ہے:

لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآاَوْلَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا [الاعراف: ۸۸]

(اے شعیب) ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔


یہ وہی آفاقی عقیدہ ہے جسے غار والوں نے بھی بیان کیا تھا:

اِنَّہُمْ اِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ اَوْ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِھِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْآ اِذً اَبَدًا [الکہف : ۲۰]

اگر کہیں اہل شہر کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔

اگر نبی ﷺ اپنی قوم کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہتے تو کون ان صالح نفوس کو ان کے وطن سے ہجرت پر مجبور کر سکتا تھا۔ [الدررالسنیہ، باب، الجہاد]


سلیمان بن سحمان رحمۃ اللہ علیہ سورہ ممتحنہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ملت ابراہیم تو یہی ہے جسے اِس آیت میں بیان کیا گیا ہے اب اگر کوئی اس طریقے پر نہیں چلنا چاہتا تو اُس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ [البقرۃ:۱۳۰]
اب کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے نفرت کرے، ماسوائے ایسے شخص کے جس نے خود ہی اپنے آپ کو حماقت اور جہالت میں مبتلا کر لیا ہو۔

یاد رکھیں ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کرے‘ اِس دشمنی کا اظہار کرے، اُن سے ملنے ملانے سے جتنا دور ہو سکے اتنا دور رہے‘ اُن سے دوستی نہ لگائے نہ اُن کے ساتھ اٹھے بیٹھے نہ اُن سے ملنا جلنا رکھے۔ [الدررالسنیۃ: باب، جہاد]


ابراہیم علیہ السلام کے اظہار عداوت کو سورہ شعراء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:

قَالَ اَفَرَ ئَیْتُمْ مَّا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَاٰبَآ ءُ کُمُ الْاَقْدَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّارَبَّ الْعَاَلَمِیْنَ [شعراء : ۷۵]

کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) ان چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم اور تمہارے باپ دادا بجا لاتے رہے؟ میرے تو یہ سب دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے۔


سورہ زخرف میں بھی ابراہیم علیہ السلام کے اظہار عداوت کو قرآن نے بیان کیا ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ [الزخرف: ۲۶،۲۷]

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا تعلق صرف اُس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، اور وہی میری رہنمائی بھی کرے گا۔

عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک اور اہل شرک سے برأت فرض کردی ہے، اُن سے کفر کرنا، اُن سے دشمنی رکھنا اور اُن کے خلاف جہاد کرنا سب اہل توحید پر فرض ہے، اگر ایمان کی اس تعبیر کو کوئی بدل دیتا ہے تو اُس پر سورہ بقرہ کی یہ آیت تلاوت کرنا چاہیے:

فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ.. [ البقرۃ: ۵۹]
مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کردیا۔

ہمارے مخالفین کی تجویز ہے کہ اظہار برأت دعوت کے میدان میں آخری چارہ کار کے طور پر بیان کرنا چاہیے۔ ابتداء میں ملنساری اور خوش گفتاری کا طریقہ ہی سودمند ہو سکتا ہے۔

اس اشکال کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مخالفین ملت ابراہیم یا ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ میں یہ فرق نہیں سمجھ سکے جو ایک کافر کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے اپنایا جاتا ہے اور دوسرا کافروں کے دین اور ان کے معبودان باطلہ کا رد کرتے ہوئے انداز اختیار کیا جاتا ہے۔

وہ اہل کفار کو دعوت کے طریقہ کار اور ان کے دین اور معاشرتی قدروں اور ان کے معبودان باطلہ کے ساتھ کیا رویہ رکھا جائے دونوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ دعوت کے منہاج میں اسلام سے برملا دشمنی کا اظہار کرنے والے کافر سے پیش آنے کا اور طریقہ ہے اور عام کافر کیلئے دعوت کا کیا اسلوب ہو، اس کا اور طریقہ کار ہے۔

اسی طرح کفار کے دین اور ان کے معبودوں سے جو درشت اسلوب اختیار کیا جاتا ہے، وہ الگ منہاج ہے، ان تینوں مخاطبین کیلئے ہمارے مخالفین نرم رویہ تجویز کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نتیجہ محض ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔

جہاں تک اللہ رب العالمین کو اکیلا بلاشریک معبود اور الہٰ ماننے اور اس کا اعلان کرنے کا تعلق ہے اور اسی طرح غیر اللہ کے حق عبودیت کا انکار کرنے کا تعلق ہے تو یہاں دو ٹوک اور واشگاف الفاظ میں اللہ رب العالمین کے لئے بندگی کا اعلان کرنا اور غیر اللہ کی بندگی کا انکار اور بغاوت کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں کیا جائے گا کیونکہ دین کی اصل بنیاد ہی غیر اللہ کی بندگی کا انکار کرتے ہوئے اللہ رب العالمین کے لئے بندگی کا اعلان ہے۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت کے یہی دو مرکزی عنوان رہے ہیں۔ اپنے وقت کے معبودوں کو چیلنج کرتے ہوئے رب العالمین کی مطلق اطاعت اور بندگی۔


مذکورہ بالا اشکال کا ازالہ اگر مندرجہ ذیل دو باتوں سے اور کر لیا جائے تو انبیاء کرام کا منہاج بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
  • تمام طواغیت اور اپنے زمانے کے تمام معبودوں کا انکار کرنا شروع میں ہی فرض ہے، اسے کسی صورت میں موخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا اعلان کرنا ہی اول روز سے مشروع ہے۔
  • جب طواغیت اور اپنے زمانے کے معبودوں کو باطل قرار دے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں اہل شرک میں سے جو لوگ ان معبودوں اور طواغیت کی عبادت پر مصر رہیں تو پھر ان سرگرم مشرکوں کو بھی گم راہ کہا جائے۔
 
Top