• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملت اسلامیہ میں شرک اکبر کا وجود

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روایتِ شداد بن اَوسؓ اور شرک ِاکبر کا وجود

نوٹ اس مضمون کو یونی کوڈ میں اور پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
فن حدیث کی رو سے تحقیقی جائزہ
انہی دنوں بعض لوگوں نے یہ نیا دعویٰ شروع کردیا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں شرکِ اکبرنہیں پایا جا سکتا اور اِس اُمت کا کوئی فرد شرکِ اکبر نہیں کر سکتا ۔ اس دعویٰ سے مقصود یہ ہے کہ آج اگر بعض لوگوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کی جائے تو وہ یہ جواب دے سکیں کہ
''بھائی! اب شرک کیسا، اس کا تو اس اُمت میں امکان ہی نہیں ہے۔ ''
اس مقصد کے لئے شداد بن اَوس سے مروی ایک روایت بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نےاس روایت میں سورج ،چاند، پتھر اور بتوں کی پوجا کا مسلمانوں سے اِمکان رد کر دیا ہے،لہٰذا مسلمان کبھی بھی شرکِ اکبر کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔
نبی ﷺ کی طرف منسوب یہ روایت شداد بن اوس كی زبانی یوں بیان کی جاتی ہے:
«قال رسول الله ﷺ:« إنّ أخوف ما أتخوف على أمتي الإشراك بالله أما إنّي لست أقول یعبدون ولا شمسا ولا قمرا ولا وثناء ولٰکن أعمالا لغیر الله وشهوة خفية»1
''رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: مجھے اپنی اُمت پر سب سے زیادہ خطرہ اللہ کے ساتھ شرک کا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند اور بت کی عبادت کریں گے لیکن وہ عمل کریں گے، اللہ کے علاوہ دوسروں کے (دکھانے کے ) لئے اور شہوتِ خفیہ کا''
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روایت ِمذکور کی تحقیق
ابن ماجہ کی یہ روایت «رواد بن الجراح عن عامر بن عبد الله عن الحسن ابن ذکوان عن عباده بن نسی عن شداد بن أوس» کی سند سے مروی ہے ۔
1. روایتِ مذکور پر علامہ البانی﷫ نے ضعف کا حکم لگایا ہے۔2
2. ڈاکٹربشار عواد معروف بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔3
3. حافظ زبیر علی زئی ﷾فرماتے ہیں:
''(یہ روایت) ضعیف ہے اور اس کے دو شاہد ہیں جو ضعیف جدًا ہیں ۔''4
4. اِس روایت کی سند میں تین علتیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی علت: حسن بن ذکوان ابو سلمہ بصری مدلس ہے اور عَن کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی جیسا کہ
1. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
«صدوق یخطیء رمي بالقدر وکان یدلس من السادسة»5
''یہ صدوق ہے (حدیث میں) غلطیاں کرتا ہے، قدری (تقدیر کا منکر) ہے۔ تدلیس کرتا ہے اور طبقہ سادسہ سے ہے۔''
2. مزید فرماتے ہیں:
«أشار ابن مساعد إلىٰ أنه کان مدلسًا»6
''ابن مساعد نے اِس کے مدلس ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔''
3. امام علائی، ابوزرعہ ابن الصراقی، سیوطی، حلبی اور الدمینی نے بھی اِس کو مدلسین میں ذکر7 کیا ہے:
«فدلسه بإسقاط عمرو بن أبي خالد»8
''اِس نے عمرو بن ابو خالد کا واسطہ گرا کر تدلیس کی ہے۔ ''
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4. حافظ ابن حجر  ،امام ابن عدی جرجانی سے ایک روایت کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ
«إنما سمعها الحسن من عمرو بن خالد عن حبیب فأسقط الحسن بن ذکوان عمرو بن خالد من الوسط»9
'' اِس روایت کو حسن نے عمرو بن خالد سے سنا۔ پس حسن بن ذکوان نے درمیان سے عمرو بن خالد کو گرا دیا۔''
5. نیز ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
«فقیل للحسن بن ذکوان سمعته من الحسن قال: لا قال العقيلي ولعله سمع من الأشعث يعني فدلسه»10
''حسن بن ذکوان سے پوچھا گیا کہ (کیا) تو نے اِس کو حسن سے سنا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ شاید اِس نے اِس کو اَشعث سے سنا ہو، یعنی اِس (حسن بن ذکوان) نے اِس میں تدلیس کی ہے۔''
جہاں تک مدلس کی عن کے ساتھ بیان کردہ روایت کے قابل حجت نہ ہونے کی بات ہے تو علامہ امام عینی حنفی فرماتے ہیں:
«والمدلِّس لا یحتج بعنعنته إلا اَن يثبت سماعه من طريق آخر»11
''مدلس کی عن کے ساتھ بیان کی ہوئی روایت قابل حجت نہیں ہوتی اِلا کہ دوسری سند سے اس کا سماع ثابت ہو جائے۔''
یہ سند حسن بن ذکوان کی تدلیس اور عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔بلکہ ڈاکٹر بشار عواد معروف اور شیخ شعیب ارناؤوط، حافظ ابن حجر کے اِس راوی کو صدوق کہنے کا تعاقب؍تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' بلکہ (حسن بن ذکوان) ضعیف ہے۔ اِس کو یحییٰ بن معین، ابو حاتم رازی،امام نسائی، ابن ابی الدنیا اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اِس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔''12
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
6. امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
''عجیب و غریب روایتیں بیان کرنے والا اور منکر الحدیث ہے۔''
اور فرمایا کہ کان قدریا ''یہ قدری (تقدیر کا منکر) تھا۔ ''
7. امام احمد بن حنبل بھی فرماتے ہیں:«أحادیثه أباطیل»
''اس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔''
8. امام اثرم فرماتے ہیں:
میں نے ابو عبد اللہ سے پوچھا کہ آپ حسن ذکوان کے متعلق کیا فرماتے ہیں:
''تو اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔''
9. امام آجری امام ابو داؤد سے بیان کرتے ہیں کہ« کان قدریًا »''یہ قدری تھا۔''
(امام آجری) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ
« زعم قوم أنه کان فاضلا. قال ما بلغنی عنه فضل»13
''کچھ لوگ اُسے (عالم) فاضل گمان کرتے ہیں تو (امام ابو داؤد) نے جواب دیا کہ مجھے تو اُس کے فضل والی کوئی بات نہیں پہنچی۔''
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری علت: اِس روایت کے ضعیف ہونے کی دوسری علت عامر بن عبد اللہ ہے۔
1. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
'' روّاد کا شیخ عامر بن عبد اللہ مجہول ہے۔''14
2. امام منذری فرماتے ہیں: لا یعرف ''یہ راوی معروف نہیں،(یعنی مجہول) ہے۔ ''15
3. امام ذہبی فرماتے ہیں:
«عن الحسن بن ذکوان وعنه روّاد بن الجراح نکرة»16
''یہ حسن بن ذکوان سے روایت کرتا ہے اور اِس (یعنی عامر) سے رواد بن جراح روایت کرتا ہے۔ (اِس میں) نکارت ہے۔ ''
4. امام ابن عدی جرجانی فرماتے ہیں: منکر الحدیث ہے ۔17
5. حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
''یحییٰ بن معین کے اِس کے بارے میں (دو) مختلف قول ہیں۔ابن عبد البرقی نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ یہ ثقہ ہے اور عباس الدوری نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ لیس بشيء یہ کچھ بھی نہیں ہے۔''18
محدثین کے ہاں لیس بشيء جرح کے الفاظ میں سے ہے جو راوی کے ضعیف ہونے کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری علت: اِس میں ایک راوی روّاد بن الجراح ہے جس کے بارے میں
1. امام دار قطنی فرماتے ہیں :''یہ متروک ہے ۔''19
2. امام ذہبی فرماتے ہیں: «له مناكیر ضُعّف»20
''اِس کی (بیان کردہ روایتیں) منکر ہیں، اِسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔''
3. امام زیلعی لکھتے ہیں: «قال الشیخ في الإمام لیس بالقوي»21 ''یہ قوی نہیں ہے۔''
4. امام نسائی فرماتے ہیں:
«لیس بالقوی روی غیر حدیث منکر وکان قد اختلط»22
''یہ قوی نہیں ہے ۔اِس نے کئی ایک منکر حدیثیں روایت کی ہیں اور اسے اختلاط ہو گیا تھا۔ ''
5. امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
«أدخله البخاري في الضعفاء وقال: کان قد اختلط لا یکاد یقوم حدیثه»23
''امام بخاری نے اس کو ضعفا میں داخل کیا ہے اور (یہ بھی) فرمایا ہے کہ اِسے اختلاط ہو گیا تھا۔ اِس کی (بیان کردہ) حدیث مضبوط نہیں ہوتی۔ ''
6. امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
«محله الصدق تغیر حفظه وقال مرة:کان قد اختلط لا یکاد یقوم له حدیث قائم»24
''صدوق ہے۔ اِس کا حافظ متغیر ہو گیا تھا اور ایک مرتبہ کہا کہ: اِس کو اختلاط ہو گیا تھا۔ اس کی بیان کردہ حدیث مضبوط نہیں ہوتی۔ ''
7. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
«صدوق اختلط بآخره فتُرك»25
''صدوق ہے۔آخر میں اسے اختلاط ہو گیا تھا پس ترک کر دیا گیا۔''
8. نیز فرماتے ہیں:''رواد ضعیف ہے۔''26
9. امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
«وقال أحمد: حدیث عن سفیان أحادیث مناکیر»27
''امام احمد فرماتے ہی:اِس نے سفیان سے منکر روایتیں بیان کیں ہیں۔''
10. امام ابن عدی فرماتے ہیں:
«عامة ما یرویه لا یتابعه الناس علیه وکان شیخًا صالحا وفي الصالحین بعض النکرة الا أنه یکتب حدیثه»
''لوگ عام طور پر اِس کی بیان کردہ روایتوں پر اِس کی متابعت نہیں کرتے۔ نیک شیخ تھا اور نیک لوگوں میں ہی کچھ نکارت ہوتی ہے۔مگر اِس کی حدیث کو لکھا جائے گا۔''
11. ابن حبان نے اِس کو ثقات میں ذکر کیا اور کہا کہ« یخطئ ویخالف»
''غلطیاں کرتا اور (ثقات کے) خلاف روایتیں بیان کرتا ہے۔ ''
12. یعقوب بن سفیان نے کہا کہ ''یہ حدیث (بیان کرنے) میں ضعیف ہے۔''
13. امام دار قطنی فرماتے ہیں:'' یہ متروک ہے۔''
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
14. امام ابو احمد حاکم فرماتے ہیں:«تغیر بآخرة فحدث بآحادیث لم یتابع علیه»
''آخر میں اِس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ پس اس نے ایسی ایسی حدیثیں بیان کیں جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔''
15. امام محمد بن عوف الطائی فرماتے ہیں: «دخلنا عسقلان فإذا بِرواد قد اختلط»
''ہم عسقلان میں داخل ہوئے۔پس رواد كو اختلاط ہو چکا تھا۔''
16. امام ساجی فرماتے ہیں:«عنده مناکیر» '' اِس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔''
17. حفاظ نے کہا کہ «کثیرًا ما یخطئ ویتفرد بحدیث ضعفه الحفاظ فیه وخطؤه»
''اکثر غلطیاں کرتا اور ایسی حدیثیں بیان کرنے میں متفرد ہے۔ جن کی وجہ سے حفاظ نے اِس کو ضعیف اور خطاکار قرار دیا ہے۔''
18. ابن معین سے مروی ہے کہ «لا بأس به إنما غلط في حدیث سفیان»
''اِس میں کوئی حرج نہیں۔ اِس نے سفیان کی حدیث میں غلطیاں کیں ہیں''
19. اور اِن سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ ثقہ ہے۔
20. امام احمد فرماتے ہیں: ''صاحب ِسنت ہے ،اِس میں کوئی حرج28 نہیں ہے۔''29
21. مفتی احمد یار خان نعیمی ایک حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے ایک راوی کو ضعیف اور دوسرے کو مجہول کہنے کے بعد فرماتے ہیں:
''ان دو نقصوں کی وجہ سے ہی یہ (روایت) ناقابل عمل ہے۔''30
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متابعت
ابن ماجہ کی بیان کردہ اِس روایت کے دو متابع ذکر کیے جاتے ہیں:
متابع اوّل:یہ روایت مسند احمد31 ، مستدرک حاکم32 ، شعب الایمان للبیہقی33 ، طبرانی کبیر34 ، طبرانی اوسط 35،مسند شامیین36 اور حلیۃ الاولیاء37 میں عبد الواحد بن زید بصری عن عبادة بن نسی عن شداد بن أوس کی سند سے مروی ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ شداد کہتے ہیں:
«قلت يا رسول الله! أتشرك أمتك من بعدك؟ قال «نعم»، قال: «أما إنهم لا يعبدون شمسًا ولا قمرًا ولا حجرًا ولا وثنًا»
''میں نے کہا: اے اللہ کے رسول !کیا آپ کے بعد آپ کی اُمت شرک کرے گی فرمایا: ہاں۔فرمایا خبردار، وہ سورج، چاند ،پتھر اور بت کی پوجا نہیں کریں گے (لیکن لوگوں کے دکھلاوے کے لیے عمل کریں گے)۔''
اور اِس کے متعلق امام حاکم کی تصحیح کا بڑے زور وشور سے ذکر کیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1. حالانکہ ان کے متعلق امام زیلعی لکھتے ہیں:
«تصحيح الحاكم لا يعتد به فقد عرف تساهله في ذلك»38
''امام حاکم کے کسی حدیث کو صحیح کہنے کو معتبر نہیں سمجھا جائے گا، کیونکہ اس بارے (صحیح قرار دینے ) میں ان کا تساہل معروف ہے۔''
2. نیزدوسرے اَئمۂ حدیث نے امام حاکم کی طرف سے اِس روایت کی تصحیح کی تردید بھی کی ہے۔ امام منذری، امام حاکم کی تصحیح نقل کرنے کے بعد اِس کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
'' یہ روایت صحیح کیسے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اِس میں عبد الواحد بن زید متروک (راوی) ہے۔''39
3. علامہ البانی فرماتے ہیں:
'' حاکم نے کہا ہے کہ اِس کی سند صحیح ہے۔ جبکہ امام ذہبی اور اُن سے پہلے امام منذری نے اِس کا تعاقب کیا ہے کہ اِس میں عبد الواحد بن زید زاہد، قصہ گو اور متروک راوی ہے۔''40
4. امام ذہبی اور امام ابن الملقن بھی امام حاکم کا تعاقب ورد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یہ متروک ہے ۔''41
 
Top