عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
منبر ومحراب کی حرمت
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس
دعوت دین کا فریضہ امت مسلمہ کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے. اس فریضے میں تساہلی وتکاسلی امت کے لیے ہلاکت کا باعث ہے. دعوت کے اس فریضے کی انجام دہی کی دو بنیادی صورتیں ہیں. ایک صورت تو عمومی ہے یعنی امت کا ہر فرد اپنے علم اور صلاحیت کے مطابق دعوت کا کام کرے،دین کی جو باتیں اسے معلوم ہوں اسے دوسروں تک پہنچائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دے. فرمان رسول "بلغوا عنی ولو آیة" کا مستفاد ومقتضی دعوت کی یہی پہلی شکل ہے. دعوت کی دوسری شکل قدرے محدود ہے یہ اہل علم کے ساتھ خاص ہے. دعوت کی اس شکل کا تعلق امت کی دینی قیادت سے ہے. دعوت کی اس کیٹگری کے لیے دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ ہونا یا بالفاظ دیگر تفقہ فی الدین کا ہونا اشد ضروی ہے. منبر ومحراب کا تعلق دعوت کی اسی دوسری قبیل سے ہے. منبر ومحراب اسلامی معاشرے کی وہ محترم و باوقار جگہیں ہیں جہاں ہر کس وناکس کو کھڑا نہیں کیا جا سکتا. اس مقام پر وہی لوگ فائز ہو سکتے ہیں جو اصولی اور منہجی اعتبار سے اس کے اہل ہوں.
اس دور میں جب کہ علم واہل علم کا شدید فقدان وبحران ہے اور ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہے، ایک بہت بڑا فتنہ یہ بھی سر اٹھا چکا ہے کہ منبر ومحراب کی کوئی حرمت باقی نہ رہی. ایک شخص جو عوام پر اچھی پکڑ رکھتا ہو، دو چار بڑی بڑی عصری ڈگریوں کا حامل ہو، انگریزی نما اردو میں تقریریں کر لیتا ہو اسے منبر ومحراب سنبھالنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا اور نہ عوام اس میں کوئی حرج سمجھتی ہے. اللّٰه اللّٰه علم کی کیسی بے سروسامانی ہے، اہل علم کی کیسی توہین وتذلیل ہے کہ علماء ربانیین موجود ہیں اور جہلاء منبر ومحراب پر متمکن ہیں، ورثة الانبیاء حاضر ہیں اور علوم دینیہ سے نابلد لوگ امت کی رہنمائی کرتے پھر رہے ہیں. نہ منبر ومحراب کی کوئی حرمت برقرار رہی نہ افتاء وارشاد کی کوئی عظمت باقی رہی. جنہیں ڈھنگ سے قرآن پڑھنا نہیں آتا وہ فتوے دیتے پھر رہے ہیں،جو ایک حدیث نہیں پڑھ سکتے وہ صرف اس لیے عوام کی نظر میں بہت بڑے دانشور ہیں کیونکہ انہیں حدیثوں کے نمبر یاد ہیں.وہ علماء جن کی زندگی تعلیم وتعلم میں گزری ہے وہ بیچارے کچھ تو اپنے تقوی وورع کی وجہ سے اور کچھ اپنی غفلت کے سبب سوال وجواب سے کترا رہے ہیں اور آیت نمبر اور حدیث نمبر کے حفاظ دعاة ومبلغین کا یہ حال ہے کہ اپنے ہر خطاب کے بعد سوال وجواب کی نشستیں اٹینڈ کرتے پھر رہے ہیں اور وہ اپنے ماتھے کا پسینہ بعد میں پونچھ رہے ہیں ان کا ویڈیو پہلے اپلوڈ ہو کر وائرل ہو رہا ہے.
قارئین کرام!
یہ علم کی کیسی ناقدری ہے کہ اہل علم جو صحیح معنوں میں فتوی دینے کے اہل ہیں عوام انہیں چھوڑ کر ایسے لوگوں سے دینی مسائل میں رہنمائی لے جن کا علم تو دور کی بات ہے عقیدہ ومنہج کا کوئی ٹھکانہ نہیں. منبر ومحراب کو ایسا بے وقعت بنا دیا جائے کہ جو چاہے اس پر قابض ہو جائے اور قوم وملت کا دینی رہنما بن جائے. نہیں! یہ اس حرمت کا خونِ ناحق ہے جو شریعت نے منبر ومحراب کو بخشی ہے، یہ اس عظمت وجلالت کی ناقدر شناسی ہے جو اسلام میں اہل علم کو عطا کی گئی ہے. یہ انتزاعِ علم اور قبضِ علماء کی جیتی جاگتی تصویر ہے، یہ "ضلوا وأضلوا" کی زندہ مثال ہے.
حالات یہی رہے تو نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ نہ علم کا کوئی وقار باقی بچے گا نہ علماء کی کوئی قدر ومنزلت سمجھی جائے گی. اہل علم کا مقام جاہلوں اور واعظوں کو دے دیا جائے گا، وہی منبر ومحراب کی حرمت کو پامال کریں گے، وہی فتوے دیں گے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر انہی کے فتوے "وائرل" ہوا کریں گے اور بیچارے اہل علم گمنامی کے عمیق اندھیروں میں کچھ ایسے گم ہوں گے کہ انہیں تلاش کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوگا.