• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

1946ء ؁ کے انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کا فیصلہ درست تھا۔ مسلم لیگ نے یونینسٹ پارٹی کو بری طرح شکست دی اور یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بننے کا مرحلہ اب زیادہ دور نہیں۔ بظاہر تو یہ ایک انقلابی فتح تھی، لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا، جیتنے اور ہارنے والے سبھی ایک ہی شیطانی مثلث کا حصہ تھے۔ دونوں پارٹیوں میں سے جو بھی کامیاب ہوتی، فتح اس مثلث کو ہی ہونی تھی۔ عوامی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ جب فتح یاب ہوئی تو کٹھڑ، ٹوانے، دولتانے، نون، گیلانی، چٹھے، گردیزی، ہوتی، لغاری الغرض ملک کے تمام ہی اہم جاگیردار اور انگریز نواز خاندانوں کے نمائندے مسلم لیگ کی قیادت میں شامل نظر آئے۔
پھر قیام پاکستان کے بعد یہی غدار ملک کے حاکم بنے۔ سردار شوکت حیات قیام پاکستان کے بعد وزیر مال کے عہدے پر فائز رہا۔ انگریز کا معتمد خاص، سرکار کی طرف سے ‘سر’ کے خطاب کا حامل، برطانوی دور میں وزیر تعلیم اور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن رہنے والا فیروز خان نون مسلم لیگ میں شامل ہوکر پہلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور مشرقی بنگال کی گورنری پر فائز رہا اور بعد میں ملک کا وزیر اعظم بھی بن گیا۔ شاہ جیونہ کا گدی نشین سید مبارک شاہ، جس کے خاندان کی زمینیں پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں سے وفاداری کا صلہ تھیں، اور جو 1946ء ؁ تک ’زمیندارہ پارٹی‘ کا اہم رکن تھا، 1946ء ؁ کے انتخابات سے عین قبل مسلم لیگ میں شامل ہوگیا اور انتخابات میں کامیاب ہوکر مسلم لیگ کے اہم قائدین میں شمار ہونے لگا۔ پنڈ دادن خان میں انگریز کے بل پر پڑی بڑی جاگیریں اور سیاسی اثر ورسوخ حاصل کرنے والا فتح خان کھوکھر کا خاندان بھی پیچھے نہ رہا اور انگریز کے وفادار غلام، شیر دل خان کھوکھر کا پوتا راجہ غضنفر علی خان مسلم لیگ میں شامل ہوکر انتخابات جیت گیا۔ چٹھہ برادری کی تاریخ کو بٹہ لگانے والے انگریز کے وفادار غلام “خان بہادر” چوہدری کرم الٰہی خان کا بیٹا اور پوتا، دونوں ہی مسلم لیگ میں شامل ہوکر انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ چوہدری صلاح الدین چٹھہ گوجرانوالہ اور محمد امین چٹھہ شیخوپورہ سے جیتا۔ اول الذکر قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائندہ، مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری اور قومی اسمبلی کا رکن رہا جبکہ موخر الذکر شحص بھی قومی اسمبلی کا رکن رہا۔ یونینسٹ پارٹی کے اہم رہنما اور علاقہ لڈہن کے جاگیردار احمد یار خان دولتانہ کا بیٹا میاں ممتاز دولتانہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوکر مختلف وزارتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہا۔ ربوہ کے قادیانی بھی اسی فہرست میں شامل تھے۔ ملعون مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کے داداے بھائی غلام محی الدین کو ربوہ کی زمین پہلے سکھوں نے اور پھر انگریزوں نے اس کی مسلم دشمنی اور کفر دوستی کے صلے میں دی تھی۔ یہ اسلام دشمن قادیانی ٹولہ قیام پاکستان کے بعد کمزور پڑنے کے بجائے مزید مضبوط ہوگیا اور اس کے ایک نمایاں رہنما ‘سر’ ظفر اللہ خان کو مسلم لیگ نے ملک کا پہلا وزیر خارجہ بنادیا۔ نیز اس ٹولے نے فوج اور بیوروکریسی میں بھی اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلیں۔
موجودہ قائد حزب اختلاف اور نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری نثار علی خان کا خاندان بھی غداروں کی اسی شرمناک فہرست میں شامل تھا۔ فتح جنگ (راولپنڈی) سے تعلق رکھنے والے الیپال کے راجوں کا یہ خاندان بھی انگریز کے قدموں میں بیٹھ کر جاگیریں حاصل کرتا رہا تھا۔ چوہدری نثار علی کے پردادا چوہدری شیر خان نے 1857ء ؁ کے جہاد کے دوران مجاہدین کی مخبری کرنے کے علاوہ مری کے علاقے سے اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کیلئے ایک لشکر بھی ترتیب دیا۔ چوہدری نثار کے دادا صوبیدار میجر چوہدری سلطان خان کو قبائلی علاقہ جات میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے صلے میں “وزیرستان فورس تمغہ” دیا گیا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد یہی خاندان اقتدار کے ایوانوں میں سب سے آگے آگے اور معزز و مکرم نظر آیا۔ سرگودھا کے ٹوانے جو انگریز سے وفاداری میں اپنی مثال آپ تھے اور قیام پاکستان تک یونینسٹ پارٹی سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے، ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی قیام پاکستان کے بعد جوں کا توں برقرار رہا۔ اس خاندان کی کم از کم پانچ پشتیں پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کی وفادار غلام بن کر رہیں۔ 1849ء ؁ میں ملتان کی بغاوت دبانے اور 1857ء ؁ میں جہادِ آزادی کو کچلنے میں اس قوم کے بدبخت سرداروں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔ صرف پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے انگریزی فوج کو تین سو گھڑ سوار اور چھ ہزار پیادہ سپاہی فراہم کئے۔ اس خاندان میں انگریزوں کا سب سے وفادار خادم عمر حیات خان ثابت ہوا۔ اس ضمیر فروش شخص کو مسلمانوں سے پے درپے غداریوں کے صلے میں فوج میں میجر جرنل کا عہدہ دیا گیا، ‘سر’ اور ‘نواب’ کے لقب سے نوازا گیا، ‘کے سی آئی ای’، ‘او وی او’ اور ‘او بی ای’ جیسے اعلیٰ فوجی اور سول اعزازات دیے گئے، سیکریٹری آف اسٹیٹ بناکر انگلستان بھیجا گیا اور فری میسن یہودی تنظیم کا رکن بنالیا گیا۔ اس کے بیٹے میجر خضر حیات ٹوانہ پر بھی انعام و اکرام کی یہ بارش جاری رہی۔ خضر حیات قیام پاکستان سے قبل پنجاب کا آخری گورنر تھا اور عوام اس کے مظالم کے سبب اس سے سخت نفرت کرتے تھے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد اس کے مختلف رشتہ دار ہر الیکشن میں اسمبلیوں تک پہنچتے اور مختلف سرکاری عہدے سنبھالتے نظر آئے۔ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ لغاری، مخدوم، قریشی، مزاری، زرداری، بھٹو، گیلانی غرض سبھی جاگیردار خاندانوں کے انگریز نواز رہنماؤں کا سیاسی اثر و رسوخ پاکستان بننے سے کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ اقتدار باری باری ان سب کے درمیان گردش کرتا رہا اور سادہ لوح عوام 1947ء ؁ میں اپنے تئیں جو انقلاب لانے چلے تھے وہ نہایت عیاری سے اغواء کرلیا گیا۔
 
Top