• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منصب امامت ونبوت

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَئًْا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝۱۲۳ ۞ وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ۝۰ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِمِيْنَ۝۱۲۴
اور اس دن سے ڈرو کہ کوئی(منکر) کسی (منکر) کے کچھ کام نہ آئے گا۔ نہ اس کا فدیہ (بدلہ) قبول ہوگا۔ نہ کوئی شفاعت کام آئے گی اور نہ ان کو مدد پہنچے گی۔(۱۲۳)اور جب ابراہیم( علیہ السلام )کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزما یا پھر ابراہیم علیہ السلام نے وہ باتیں پوری کیں ۔ تب خدا نے کہا کہ بیشک میں تجھے سارے آدمیوں کا امام۱؎(پیشوا) بناؤں گا۔ اس نے کہا اور میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا کہ میرا عہد ظالموں کو نہیں ۔
۱؎ ان آیات میں تین باتیں بتائی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ابتلاء،امامت کی خوشخبری، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مطالبہ اور اس کا جواب۔ ابتلاء کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ وہ دس خصائل ہیں جنھیں فطرت انسانی کی اصلاح سے گہرا تعلق ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان میں کامیاب نکلے ۔یعنی ان پرپوری طرح عمل کیا۔ دس باتیں یہ ہیں۔(۱) کلی کرنا(۲) ناک میں پانی دینا(۳) کنگھا کرنا(۴) مونچھیں ترشوانا(۵) مسواک کا استعمال کرنا(۶)ختنہ کرانا(۷) بغل کو صاف رکھنا(۸) بال زیر ناف صاف کرنا(۹) ناخن کٹوانا(۱۰) اور پانی سے طہارت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فطرت کے قوانین کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو امامت کی خوش خبری سنائی۔

امامت سے مراد وہ امامت ہے جو نبوت کے مترادف ہے اس لیے کہ نبی کہتے ہی ایک کامل اور جامع امام کو ہیں جسے اللہ لوگوں کی اصلاح کے لیے مامور فرمائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے درخواست کی کہ خدایا! یہ منصب ونبوت میری اولاد میں رہے۔ یعنی میری اولاد کو بھی توفیق دے کہ وہ تیرے نام کی اشاعت کریں اور تیرے دین کو چار دانگ عالم میں پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔ نبوت وامامت ایسی شے نہیں جو وراثتاً خاندانوں میں منتقل ہوتی رہے ۔ نبوت کے لیے ایک خا ص استعداد ، ایک خاص کردار او رایک خاص دل ودماغ کی ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ بھی ہو۔ صرف کمالات نبوت کا جمع ہوجانا کافی نہیں، اس لیے جو لوگ تیری اولاد میں ہمارے معیار انتخاب میں آئیں گے، وہ تو لیے جاسکیں گے لیکن ضروری نہیں کہ ہرشخص کو عہد نبوت سے سرفراز کیاجائے۔ وہ جو ظالم ہیں قطعاً محروم رہیں گے۔ قرآن حکیم میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ یہ ہیں۔ یصطفی۔ یجتبی۔ارسل۔ یعنی ایک خاص انتخاب ہے اورایک خاص عنایت یعنی نبوت اکتسابی نہیں کہ جدوجہد اور حسن عمل سے حاصل ہوسکے بلکہ وہبی ہے ۔ یعنی خدا کی بخشش ۔ گو یہ درست ہے کہ انبیاء کا عمل نبوت سے پہلے حسن وخوبی اور کمال وجامعیت کا بہترین نمونہ ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرنیک اور صالح شخص نبی قرار پائے ۔
حل لغات

{کَلِمٰتٌ}۔جمع کَلِمَۃ ۔ بات{اِمَامًا}قائد۔ قابل پیروی شخص۔
 
Top