• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرینِ حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات ( از شیخ جلال الدین قاسمی حفظ اللہ )

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
منکرینِ حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات



حافظ جلال الدین قاسمی

تخریج و تحقیق: مولانا محمد ارشد کمال

تقدیم و نظر ثانی: ڈاکٹر حافظ محمد شہبازحسن




تقدیم

(منکِرینِ حدیث کے اشکالات پر طائرانہ نظر)


اسلام میں داخل ہونے کے لیے قرآن ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔اگر کوئی شخص حدیث کا انکار کر دے تو اس سے قرآن کا انکار لازم آتا ہے۔مگر مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سے بعض مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
ان کے چند اہم اشکالات کا اجمالی خاکہ مع جوابات ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) اشکال:… قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
٭ قرآن کافی ہونے سے یہ مراد نہیں کہ حدیث و سنت کی ضرورت نہیں۔ قرآن نے خود حدیث و سنت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
(۱) اشکال:… قرآن میں وحی کی پیروی کرنے کا تذکرہ ہے اور وحی صرف قرآن ہے!
٭ وحی صرف قرآن نہیں۔قرآن کے علاوہ وحی کا ثبوت قرآن میں بھی ہے۔
(۳) اشکال:… قرآن میں کل شیء (ہر چیز) کی تفصیل اور وضاحت ہے لہٰذا حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
٭ قرآن میں تمام شرعی اُمور کی تفصیل اور وضاحت نہیں ہے،مثلاً ارکانِ اسلام۔ کل شیء کا معنی و مفہوم سیاق و سباق سے متعین کیا جائے گا۔
(۴) اشکال:… قرآن کی تفسیر کے لیے اگر حدیث کی ضرورت ہو تو پھر قرآن کو حدیث کا محتاج ماننا پڑے گا!
٭ قرآن سمجھنے کے لیے نہ صرف حدیث بلکہ دیگر وسائل کی بھی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ پر قرآن میں ہی یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ آپ قرآن کی وضاحت کریں اور قرآن کی تعلیم دیں۔
(۵) اشکال:… حدیثی تفسیر کو تسلیم کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ قرآن نبی کی خواہش کے مطابق نازل ہوا ہے!
٭ آپ کی خواہش شریعت کے تابع تھی،کوئی غلط چیز یا شیطانی وسوسہ آپ پر اثرانداز نہ ہو سکا۔ آپ کی پسند کے مطابق حکم نازل ہونا قرآن سے بھی ثابت ہے۔
(۶) اشکال:… احادیث میں نبیؐ کے بھولنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔لہٰذا حدیث پر اعتبار کیونکر ہو سکتا ہے؟
٭ انبیاءؑ کے نسیان سے دین و شریعت پر کوئی حرف نہیں آتا،یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تھا۔
(۷) اشکال:… قرآن کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ نے کی ہے جبکہ احادیث انسانوں کی تحریر کردہ ہیں اور سُن سُنا کر لکھی گئی ہیں !
٭ حدیث کی بھی اُسی طرح حفاظت ہوئی جس طرح قرآن کی ہوئی ہے۔ قرآن کی حفاظت بھی انسانوں کے ذریعے کی گئی۔
(۸) اشکال:… بہت سی احادیث قرآن کے خلاف ہیں۔احادیث کو قرآن پر پیش کیا جائے،جو قرآن کے مطابق ہو ں وہ تسلیم کر لی جائیں اور دیگر کو مسترد کر دیا جائے۔
٭ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں۔احادیث کو قرآن پر پیش کرنا ثابت نہیں۔ مسلمان ایسی بہت سی احادیث کو صحیح مانتے ہیں جو ظاہری طور پر قرآن کے خلاف دکھائی دیتی ہیں۔
(۹) اشکال:… احادیث کی بنا پر تفرقہ بازی پھیلتی ہے!
٭ احادیث پر عمل کرنے سے اختلاف ختم ہوتا ہے جبکہ انہیں تسلیم نہ کرنے سے تفرقہ بازی پھیلتی ہے،کیونکہ دریں صورت ہر کوئی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے۔
(۱۰) اشکال:… احادیث اگر مِن جانب اللہ ہوتیں تو اِن میں تضاد نہ ہوتا!
٭ صحیح احادیث میں باہمی کوئی تضاد نہیں۔ظاہری تضاد تو قرآنی آیات میں بھی ہے۔
(۱۱) اشکال:… احادیث تو نبیﷺ سے صدیوں بعد لکھی گئی تھیں وہ حجت کیسے ہو سکتی ہیں نیز احادیث لکھنے سے منع کیا گیا تھا تو لوگوں نے احادیث کیوں لکھیں ؟
٭ احادیث عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں بھی لکھی جاتی تھیں،مثلاً شرائطِ صلح حدیبیہ، خطوطِ نبوی، مسند ابوہریرہ، صحیفہ صحیحہ وغیرہ۔
(۱۲) اشکال:… احادیث بالمعنی روایت کی گئی ہیں اِن پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے!
٭ بعض احوال میں روایت بالمعنی کی اجازت ہے۔ روایت بالمعنی کا اُصول قرآن سے بھی ثابت ہے۔
(۱۳) اشکال:… احادیث اخبارِ آحاد بھی ہیں انہیں کیسے درست تصور کیا جا سکتا ہے؟
٭ خبرِ واحد کو تسلیم کرنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔شخص با اعتبار ہو تو بسااوقات اس کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اسی قسم کی کئی اور مغالطہ انگیزیاں اور اشکالات ہیں۔
مؤلف ایک ثقہ عالم دین ہیں۔آپ نے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت کے بعد میسور یونیورسٹی(ہندوستان) سے اردو میں ایم اے بھی کیا ہے۔کئی زبانوں پر آپ کو دسترس حاصل ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں آپ کی شخصیت اور دینی خدمات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
شیخ جلال الدین قاسمی نے فتنہ انکارِ حدیث کے موضوع پر اختصار و جامعیت کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔اس کتاب میں ان اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جنہیں عام طور پر منکرین حدیث عوام میں بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کر کے انھیں گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے منکرینِ حدیث کی طرف سے پیش کیے جانے والے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کے تسلی بخش جوابات دیے ہیں۔ طالبِ حق کے لیے اس کتاب میں راہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ کتاب ان کے پیش کردہ اشکالات و شبہات کا قلع قمع کرنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو گی۔ان شا ء اللہ
اس نسخے کو تخریج، تحقیق، تقدیم،اضافہ جات اور نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا ہے،تخریج و تحقیق مولانا محمد ارشد کمال نے کی ہے۔جس سے کتاب کی افادیت اور استنادی حیثیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
اس تالیف کو پہلی بار برادرم عاصم عبداللہ، فیت والا پبلی کیشن ہاؤس(انڈیا) کی طرف سے شائع کیا گیا،لہٰذا اِس سلسلے میں خشت اول رکھنے کا سہرا اُنہی کے سر ہے۔
اس اشاعت کے فوراً بعد تخریج و تحقیق کے ساتھ اسے مکتبہ افکارِ اسلامی کی طرف سے شائع کیا گیا۔ اس اشاعت کی اضافی خوبیاں درجِ ذیل ہیں ـ:
۱۔ کتاب کا نام مؤلف کی اجازت سے’ حجیت حدیث در موقف انکارِ حدیث‘ کی بجائے ’منکرین حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات‘ رکھا گیا۔
۲۔ پروف ریڈنگ کی اغلاط کی تصحیح کی گئی، نیز الفاظ اسکو، اسکی،اسکے،انکو،انکی،انکے، ہونگے، جائیگا اور کیلئے وغیرہ کو بالترتیب اسے،اس کی، اس کے،انھیں، ان کی، ان کے، ہوں گے،جائے گا اور کے لیے وغیرہ کی شکل میں الگ الگ لکھا گیا۔
۳۔ آیات کی کمپوزنگ کی بجائے قرآن کی اصل کتابت لگائی گئی،کیونکہ کمپوزنگ میں بعض الفاظِ قرآنی صحیح نہیں لکھے جاتے نیز بڑی مد بھی کمپوزنگ میں نہیں آتی۔
۴۔ تمام آیات کے حوالہ جات درج کیے گئے، دیگر اضافی حوالہ جات بھی دیے گئے،نیز سورتوں کے نمبر شمار بھی لکھ دیے گئے۔
۵۔ بعض آیات و احادیث کا اردو ترجمہ نامکمل تھا جسے مکمل کیا گیا۔
۶۔ قولی احادیث پر اعراب لگائے گئے۔
۷۔ احادیث کی تخریج و تحقیق کی گئی۔
۸۔ بعض اہم تعلیقات لگائی گئیں اور کچھ مقامات پر معمولی حک و اضافہ بھی کیا گیا۔
۹۔ نبیﷺ پر جادو سے متعلق ایک اہم اضافہ بھی کیا گیا، یہ اضافہ راقم الحروف کے پی ایچ ڈی کے مقالے سے لیا گیا ہے۔
۱۰۔ ایک تقدیم (جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں )کا اضافہ کیا گیا،جس میں منکرین حدیث کے چند بنیادی اشکالات کو مختصر طور پر سوالاً جواباً پیش کیا گیا(جو کہ دراصل راقم الحروف کے ایک لیکچر کا خلاصہ ہے جو چند سال قبل بدوملہی ضلع نارووال میں دیا گیا تھا۔)
۱۱۔ علامات ؒ ؓ ؑ ؐ وغیرہ کو حتی الامکان مکمل اور طغروں کی شکل میں لکھا گیا۔
۱۲۔ بعض عنوانات کی ترتیب میں بھی معمولی تقدیم و تاخیر کی گئی۔
اس اشاعت کے مزید لفظی و معنوی محاسن کا اندازہ قارئین کرام ہی لگا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف،محقق،راقم الحروف اور جملہ معاونین کی اس محنت اور کاوش کو قبول کرے۔ آمین

ڈاکٹر حافظ محمدشہبازحسن
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
تصدیر


تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت ہدایت اپنے بندوں کو عطا کرنے کے لیے جو انتظام کیا وہ ہمیشہ دو چیزوں پر مشتمل تھا:(۱) الرسول۔ (۲) الکتاب۔
دین کی مستقل تشریعی بنیادیں یہی دو ہیں۔ قرآن فضیلت اور تلاوت میں حدیث پر مقدم ہے، مگر حجیت میں کتاب و سنت مساوی اور متوازی ہیں۔ دونوں اصلوں کے حجت مستقلہ ہونے کے باوجود دونوں میں باہم اتنا ہی فرق ہے کہ کتاب اصل کلی ہے اور حدیث اس کا بیان ہے جس طرح عالم کی مراد علم آشنا اور صناع کی مراد صنعت آشنا ہی سمجھ سکتا ہے، اسی طرح کلام رب کو ایک رب آشنا ہی سمجھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو بات کہنی ہے اس کا واسطہ الرسول ہی ہے۔ الکتاب نے ہمیشہ بنیادی فکر پیش کی ہے اور الرسول نے اس فکر کے مطابق عملی زندگی کا مظاہرہ کیا۔ الکتاب نے بنیاد فراہم کی اور الرسول نے عمارت اٹھائی، ہدایت کے حصول کے لیے جتنی اہمیت الکتاب کی ہے اتنی ہی الرسول کی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے منفک نہیں کیا جاسکتا۔ نبیؐ کا اسوہ (حدیث) ایک ایسا فانوس ہے جو ہزاروں مجلی آئینوں سے منعکس ہوتا ہوا ہمارے سامنے آتا ہے۔ آپﷺ کا اسوہ اختیار کرنے کے لیے سب سے آگے آپ کے صحابہ کرام y آئے۔ مبینِ کتاب کے اسوہ سے مزین یہ گلشنِ رسالت کے وہ عنادل تھے جنہوں نے اس طرز فغاں کا پورا ریکارڈ محفوظ کیا اور ہم تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مشن کے لیے منتخب کیا تھا۔وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن اور اس کے رسولﷺکی احادیث کو بعد کی نسلوں تک پہنچانے کا مستند وسیلہ بنے۔
تدوین حدیث کا آغاز عہد رسالت ہی سے ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی کے بیان کے مطابق ۵۲ کے قریب صحابہ تھے جن کے پاس تحریری شکل میں احادیث موجود تھیں۔ پہلی صدی کے اواخر تک اسلام عجمی تصورات سے محفوظ رہا۔ دوسری صدی کے آغاز میں ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں جہم بن صفوان ظاہر ہوا۔ اس نے صفات باری کا انکار کیا۔ پھر دوسری صدی میں خوارج نے حدِّ رجم کا انکار کیا کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے!
انکارِ حدیث کے بارے میں پہلا فرقہ معتزلہ کا ہے۔ وہ وہی احادیث تسلیم کرتے تھے جو اُن کی عقل پر پوری اترتی تھیں۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ محمدﷺ قرآن پہنچانے پر مامور کئے گئے تھے۔ انھوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لئے حجت نہیں۔ مگر یہ فتنہ کچھ عرصہ میں رو بہ زوال ہو گیا۔
تیرہویں صدی میں اس فتنہ نے پھر سر اٹھایا۔ پیدائش کی جگہ برصغیر پاک و ہند تھی۔ سرسیداحمد خاں، عبداللہ چکڑالوی، احمد دین امرتسری، اسلم جیراجپوری اس کے علمبردار بنے اور غلام احمد پرویز نے اسے ایک منظم مکتب فکر کی بنیاد دی۔
رفتہ رفتہ علم فروش اور بے ضمیر علماء اور عقلیت کے چاک پر نو بہ نو پیکر تراشنے والوں اور تفقہ کی خراد پر شریعت کے مقاصد اور تقاضوں کو چھیلنے اور مخالفِ دین امور کو اِسلامی رنگ میں رنگنے والوں کی مارکیٹ کھل گئی۔
مستشرقین میں ولیم میور اور گولڈزِ یہر نے حدیثوں کو مشکوک بنانے کا بیڑا اُٹھایا۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ حدیث لکھنے کا کام نبیﷺکی وفات کے نوے سال بعد شروع ہوا۔ منکرینِ حدیث نے کہا کہ حدیثیں دو سو برس بعد لکھی گئیں۔ لہٰذا احادیث حجتِ شرعیہ نہیں۔
علمائے ربانیین میں سب سے پہلے امام شافعی a نے اس فرقہ ضالہ کی طرف خصوصی توجہ کی اور الرسالۃ میں قرآن حکیم سے احادیث نبویہ کا مستند اور قابل حجت ہونا ثابت کیا اور دسویں صدی میں جلال الدین سیوطی a نے خاص اسی موضوع پر مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ کے نام سے مستقل کتابچہ تصنیف کیا۔ اس کے بعد بے شمار علماء نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ قرآن ایمان باللہ اور اس کے ساتھ ہی ایمان بالرسول کے حکم سے بھرا پڑا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بحق الوہیت اور نبی پر بحق نبوت و رسالت ایمان لانا فرض ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا فرض ہے اسی طرح رسولﷺکے احکام کو ماننا بھی فرض ہے۔
منکرینِ حدیث منصب نبوت کی حقیقت و عظمت اور جلالت ہی سے بے خبر تھے، اسی وجہ سے انھوں نے احادیثِ رسول کی حجیت سے انکار کر دیا، ان کے نزدیک احادیث مفتریات کا انبار ہیں۔
یہ چودہ قرون کے محدثین و مفسرین کے استہزاء و تمسخر پر تلے ہوئے ہیں اور ان کی تحمیق و تجہیل میں ان کا قلم مسلسل رواں دواں ہے۔
زیر نظر کتاب کا مقصد احادیث کی حجیت کو ثابت کرنا اور منکرینِ حدیث کے اشکالات و اعتراضات کا ازالہ کرنا ہے۔

حافظ جلال الدین القاسمی
فاضل دارالعلوم دیوبند،ایم اے میسور یونیورسٹی
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حدیث کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت
.
: جس طرح قرآن حکیم وحی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے ۔
.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, أَنَّهُ قَالَ : ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ ، يَقُولُ : عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ ! فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ ! وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ ! أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ ، وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ, إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا ، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ, فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ ۔ ( ابوداؤد السنته فى لزوم السنة ، ح 4604)
.
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”خبردار ! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے ۔ عنقریب ایسے ہو گا کہ ایک پیٹ بھرا (آسودہ حال) آدمی اپنے تخت یا دیوان پر بیٹھا کہے گا کہ اسی قرآن کو اختیار کر لو ، جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھو ۔ خبردار ! تمہارے لیے پالتو گدھے ، نیش دار درندے اور کسی ذمی ( کافر) کا گرا پڑا مال اٹھا لینا حلال نہیں ، الا یہ کہ اس کا مالک اس سے بے پروا ہو ۔ اور جو کوئی کسی قوم کے پاس جائے تو ان پر واجب ہے کہ اس کی مہمانی کریں ، اگر وہ اس کی مہمانی نہ کریں تو اسے حق حاصل ہے کہ اپنی مہمانی کے مثل ان سے بذریعہ طاقت حاصل کر لے ۔“
.
یعنی اپنے پالتو گدھے کی حرمت قرآن سے منصوص نہیں اس کی حرمت کا علم حدیث نبوی سے ہی ہوگا ۔
.
جو لوگ حجیت حدیث کے منکر ہیں ان سے سوال کیا جائے گا کہ آپ قرآن مجید کو جو اللہ تعالیٰ کا کلام تسلیم کرتے ہیں تو اس کا کلام اللہ ہونا آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ اگر آپ کا جواب یہ ہو کہ اس کا کلام اللہ ہونا قرآن سے معلوم ہوا تو یہ مکابرہ ہے کیونکہ اس صورت میں جو دعویٰ ہے وہی دلیل ہے اور یہ صریح غلطی ہے کیو نکہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ان میں کو ن سی دلیل تھی کہ ان کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ۔ اور نہ پھر یہ تسلیم کرلیجیے کہ قرآن کا کلام اللہ ہونا حدیث سے معلوم ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.
درحقیقت جو شخص حدیث کا منکر ہو وہ قرآن مجید کے کلام ہونے کا بھی منکر ہے کیونکہ قرآن بغیر حدیث کے حجت نہیں بن سکتا ۔ جس طرح کوئی شخص رسول کے بغیر اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح بغیر کلام رسول ، کلام اللہ تک رسائی ناممکن ہے ۔
.
ہر شخص مانتا ہے کہ کلام کی بعض خصوصیات ہوتی ہیں جو کاغذ پر نہیں آسکتیں بلکہ ان کا تعلق لب ولہجہ سے ہوتا ہے اس کی مثال کے لیے اردوکا ایک جملہ سامنے رکھ لیں وہ یہ جملہ ہے : ” کیا بات ہے ۔ “ جملے کا لب و لہجہ بدلنے سے اس کا معنی بدل جائے گا ۔ اس جملے کو کبھی استفسارِ حال کے لیے ، کبھی تعجب کے لیے ، کبھی تعظیم شان کے لیے اور کبھی تحقیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اب اگر یہ جملہ کاغذ پر لکھ کر کسی شخص کو بھیج دیں تو کیا وہ شخص صرف اس جملے کو پڑھ کر متکلم کی مراد سمجھ لے گا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں بلکہ جو کچھ وہ سمجھے گا وہ اس کی اپنی مراد ہوگی ۔
.
چنانچہ اگر یہ شخص تعجب کی حالت میں ہوگا تو اسے تعجب کے لیے سمجھے گا اور اگر استفسار حال کا غلبہ ہوگا تو اسی کے لیے شاعر نے بہت اچھا کہا: ہے ۔
.
؎گرمصور صورت آں دلستاں خواہد کشید
.
لیک حیرانم کہ نازش راچساں خواہد کشید
.
مصور تو محبوب کی صرف صورت بناسکتا ہے لیکن محبوب کے ناز وانداز کو لفظوں میں کیسے ڈھال سکتا ہے ! اس کے علاوہ ایک اور چیز ”عرف“بھی ہے یعنی کلام میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اہل زبان کے پاس ہی رہ کر سمجھا جاسکتا ہے ۔
.
انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کے ایک شہر میں ایک صاحب ایک انگریز کلکٹر کے میر منشی تھے ۔ کلکٹر اگرچہ انگریز تھا مگر اسے یہ زعم تھا کہ وہ اردو بہت اچھی طرح جانتا ہے چنانچہ وہ میر منشی سے کہا: کرتا کہ ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں ۔ بیچارے منشی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے کیونکہ ملازمت کا سوال تھا ۔ ایک دن کلکٹر نے کسی بات پر جوش میں آکر میز ہر مکا مارتے ہوئے کہا: منشی جی ! یقیناً ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں ۔ اس بار منشی کو بھی جوش آگیا انہوں نے سوچ لیا کہ ملازمت رہے نہ رہے اسے جواب دے ہی دوں گا انہوں نے بھی میز پر مکا مار کر کہا: صاحب بہادر ! آپ اردو کی ابجد بھی نہیں جانتے ۔ یہ سن کر انگریز کلکٹر بڑا حیران ہوا اور کہا: کہ تم میرا امتحان لے لو ۔ تو منشی جی نے کہا: ۔ اگر میں آپ کا امتحان لوں گا تو آپ بغلیں جھانکنے لگیں گے ۔ اب صاحب بہادر واقعی بغلیں جھانکنے لگا کہ اس کا کیا مطلب ہو ! بہت غور کیا مگر خاک سمجھ آتی ۔ آخر اس نے کہا: منشی جی ! مجھے تین دن کی مہلت دو ، میں اس کا مطلب بتا دوں گا ۔ منشی جی نے کہا: تین دن نہیں سات دن کی مہلت لے لیئجے ۔ الغرض نے اس لفظ کو لغت میں تلاش کیا ۔ مگر لغت میں کیا ملتا ۔ لغت میں ”بغل“ مل گیا ”جھانکنا“ مل گیا مگر مفہوم نہیں ملا ۔ آخر سات دنوں کے بعد اس نے کہا: اسکا مطلب ہے کہ ہاتھ کو اٹھا کر بغل کو دیکھ لیا جائے ۔ میر منشی ہنس پڑے تب کلکٹر نے پوچھا: پھر اس کا مطلب کیا ہے ؟ میر منشی نے کہا: اس کا مطلب آپ کو میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ اب آپ کبھی اردو دانی کا دعویٰ نہیں کریں گے ۔ چنانچہ اس نے اقرار کیا تو منشی نے بتایا کہ دراصل یہ جملہ تحیر سے کنایہ ہے یعنی اگر کلکٹر کا میں امتحان لوں تو وہ حیرت میں پڑ جائیں گے ۔
.
الغرض کلام کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جو عرف سے متعلق ہیں ۔ غیر اہل عرف انہیں نہیں سمجھ سکتا اسی طرح قرآن مجید میں بہت سی اسی چیزیں ہیں جنہیں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ۔ لہذا وہ لوگ جو قرآن مجید کو سمجھنا چاہیں وہ اہل عرف کی طرف رجوع کریں ۔ اس کی بہترین مثال سورۃ بنی اسرائیل کی یہ آیت ہے :
.
«وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا» (17/بنی اسرائیل : 29)
.
” اور اپنا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا نہ رکھیں اور نہ اسے بالکل ہی کھول دیں کہ پھر آپ ملامت کیے ہوئے در ماندے ہوکر بیٹھ جائیں ۔ “
.
آیت کریمہ میں ہاتھ کو گردن سے باندھنا بخل سے کنایہ ہے اور اسے بالکل ہی کھول دینا فضول خرچی سے کنایہ ہے ۔
.
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حجیت حدیث کے دلائل
.
پہلی دلیل :
.
«حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ، فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ» (2/البقرۃ : 239 ۔ 238)
.
”نمازوں کی حفاطت کرو بطور خاص درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے ادب سے کھڑے ہوجاؤ لیکن جب امن ہوجائے تو پھر اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اللہ نے تمھیں سکھا یا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے “
.
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ کوئی درمیانی نماز ہے مگر قرآن سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ درمیانی نماز کون سی ہے ؟حدیث درج ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصر کی نماز ہے :
.
عن علی رضی اللہ عنہ قال : لما کان یوم الاحزاب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ”مَلَأَ اللّٰہُ قُبُوْرَہُمْ وَبُیُوْتَھُمْ نَارًا ، کَمَا حَبَسُوْنَا وَ شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ“
.
(مسلم ، المساجد ، الد ليل لمن قال : الصلاة الوسطي ھي صلاة العصر ، ح 627)
.
” سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ ان کی قبروں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے کیونکہ ان کی وجہ سے ہم درمیانی نماز نہ پڑھ سکے ۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا ۔“
.
نیز آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت امن میں نماز کو کوئی خاص طریقہ ہے اور وہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے مگر قرآن پڑھ جائیے نماز کا طریقہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔ معلوم یہ ہوا کہ نماز کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور زریعے سے سکھایا ہے اور بلا تامل کہا: جاسکتا ہے کہ وہ یہی ذریعہ ہے جسے حدیث کہا: جاتا ہے ۔
.
دوسری دلیل :
.
«يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ»(النساء : 11)
.
” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا اگر صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو ان سب کو کل ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہوتو اسے نصف حصہ ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.
آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اگر لڑکے نہ ہوں اور دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں دو تہائی ملے گا اور ایک تہائی باقی بچ جائے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے نصف ملے گا اور نصف باقی رہے گا ۔ آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ باقی بچا ہوا حصہ (یعنی صورت میں ایک تہائی اور دوسری صورت میں نصف) کہاں تقسیم ہوگا؟ اس کا کیا مصرف ہے ؟اس مصرف کا ذکر قرآن میں نہیں ہے لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ ایک اور وحی آتی تھی ۔
.
تیسری دلیل : «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ» ( 42 /الشوریٰ : 51)
.
” اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے (1) وحی کے ذریعے (2) پردے کے پیچھے سے یا (3) وہ اللہ کسی فرشتے کو بھیجے پھر وہ اپنے حکم سے اس چیز کی جو وہ چاہے اس پر وحی کرے بے شک اللہ بے حد بلند اور کمال حکمت والا ہے ۔ “
.
اس آیت میں کسی نبی اور رسول تک احکام الہیٰ کے پہنچنے کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں : 1- براہ راست وحی کے زریعے ۔ 2-پردے کے پیچھے سے براہ راست کلام-3- اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نبی اور رسول پر اترے اور اسے احکام الہٰی پہنچائے ۔
.
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید ان تین قسموں میں سے کون سی وحی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ :
.
«وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ» (26/الشعراء : 194 - 192)
.
” اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے اسے روح الامین لے کر نبی کے دل اترا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں ۔ “
.
مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن وحی کی تیسری قسم ہے اب وحی کی دو قسمیں باقی رہ جاتی ہیں ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ان کا استعمال ہوا ہے اور وہ حدیث ہی کے نزول کے بارے میں ہوسکتا ہے ۔
.
منکرین حدیث کی طرف سے یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ قرآن کے ساتھ اگر حدیث کو بھی حجت شرعیہ مان کیا جائے تو اس سے شرک فی الحکم لازم آئے گا یہ لوگ عام طور ہر اپنے مؤقف کی تائید میں یہ آیتیں پیش کرتے ہیں :
.
1- «إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ» (46/الاحقاف : 9)
.
”میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے “
.
2- «اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ» (7/الاعراف : 3)
.
” اس چیز کی اتباع کرو تمھارے رب کی طرف سے تمہارے طرف نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دیگر سر پرستوں کی پیروی نہ کرو ۔ “
.
3 ۔ «وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا» (18/الکھف : 26)
.
” اور وہ اپنے فیصلے میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ “
.
اعتراض کی وضاحت یہ ہے کہ نبی وحی کی ہی اتباع کرتا ہے اور تمام انسانوں کو بھی بشمول نبی کے یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی صرف وحی کی اتباع کریں دوسروں کی اتباع نہ کریں نیز اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کے علاوہ کسی اور کی بات بھی حجت شرعیہ ہے تو لازم آئے گا کہ حکم یعنی قانون سازی اور دستور سازی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرلیا گیا اور یہی تو شرک فی الحکم ہے ۔
.
یہ اعتراض اس وقت قابل قبول ہوسکتا تھا جب حدیث کو حجت شرعیہ مانتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام کرتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے :
.
«وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ» (69/الحاقة : 46 - 44)
.
”اور اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتے تو ضرور ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے پھر ضرور ان کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔ “
.
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ» ( 53/النجم 4 ۔ 3)
.
” اور نہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے “
.
نطق (رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات) تو وحی ہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔
.
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت شرعیہ ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”حکم“ یعنی قانون اللہ تعالیٰ بناتا ہے کیونکہ اس نے فرمایا :
.
«شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ» (42/الشوریٰ؛13)
.
”یعنی دستور حیات اسی نے بنایا ہے “
.
«إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ» (/12یوسف 40)
.
”حکم صرف اللہ کا ہے “
.
نبی اس قانون الہٰی کی تبلیغ پر مامور ہوتا ہے کبھی اس قانون کی تبلیغ اللہ تعالیٰ کی زبان میں کرتا ہے وہ قرآن ہے اور کبھی اپنی زبان میں کرتا ہے وہ حدیث ہے اس سے شرک فی الحکم کہاں لازم آیا ؟ شرک فی الحکم تو اس وقت لازم آتا جب قانون سازی کا حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی دے دیا جاتا اور یہ عقیدہ رکھا جاتا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قانون بناتا ہے اسی طرح نبی بھی قانون بناتا ہے جبکہ نبی جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کرتا ہے ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
تبیین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی مثالیں :
.
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اصل کلی ہے اور حدیث اس کا بیان ہے اس بیان کے بغیر قرآن کے مضمرات اور اس کی مراد کا انکشاف دشوار ہے قرآن کے الفاظ و معانی دونوں من جانب اللہ ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں میں مدعی نہیں بلکہ ناقل اور امین ہیں ۔ یعنی نزول الفاظ جمع الفاظ حتیٰ کہ اقراء الفاظ اور شرح مطالب اور بیان معانی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے فرمایا گیا :
.
«إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ» ( 75 القيامة 17-19)
.
”بے شک اس ( قرآن ) کا جمع کرنا (سینوں میں اور سفینوں میں) اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے پس ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں پھر اس کا واضح کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے “ ۔
.
ایک مقام پر یوں فرمایا گیا : «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ» (16-النحل : 44)
.
” اور ہم نے آپ کی طرف اس ذکر (قرآن)کو نازل کیا تاکہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کردیں تاکہ وہ لوگ غور و فکر کریں ۔ “
.
مذکورہ بالا آیت پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں کتاب نازل کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور اس کی تبیین کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے اور بیان کے ذریعے متعین شدہ مراد اور مفاہیم ومعانی کے دائرہ میں محدود رہ کر قرآن کے مخاطبین اپنی فکر سے کام لیں یہ قید در حقیقت قرآن مجید کو بازیچہ اطفال بنانے سے باز رکتھی ہے اور کسی کج فکر کو یہ موقع نہیں دیتی کہ قرآن کی آیتوں کو جو معنی چایئے پہنائے ۔
.
مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا» ( 5/المائدة : 38)
.
”چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔ “
.
آیت مذکور پڑھنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری کا مال کتنی مقدار میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے ؟ نیز ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے ؟ اس کا جواب مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :
.
عن عائشة رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : ”تقطع يد السارق فى ربع دينار“ بخاری ، الحدود ، قول اللہ تعالیٰ :«وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ» ۔ ۔ ۔ ۔ ح 6790 ) ” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں کاٹا جائے گا“
.
مطلق کی یہ تقیید الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہی ہے ۔
.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ» ( 9/التوبة : 108)
.
” البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے “
.
یہ کونسی مسجد ہے ؟ حدیث ذیل میں موجود ہے :
.
عن ابي سعيد الخدري ان رجلا من بني عمرو بن عوف ورجلا من بني خدرة امتر يافي المسجد الذى اُسس على التقوٰي فقال العوفي : ھو مسجد قباء وقال الخدري : ھو مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فاتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالاه عن ذلك فقال : ”ھُوَ مَسْجِدِيْ ھٰذَا وَفِيْ ذٰلِكَ خَيْرٌ كَثِيْرٌ“
.
(مسند احمد 91/3)
.
” سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس مسجد کے بارے میں بنو خدرہ اور بنی عمر بن عوف کے دو آدمیوں نے اختلاف کیا عوفی نے کہا: اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے دونوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ میری مسجد یعنی مسجد نبوی ہے اور اس میں خیر کثیر ہے ۔“
.
یہاں مجمل کا بیان اصل میں بیان قرآن ہے الگ سے کوئی چیز نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ» (4/انساء : 11)
.
”اللہ تعالٰی تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے “
.
اب سوال یہ ہے کہ لڑکا کافر اور باپ مسلم ہو یا اس کے برعکس تو کیا انھیں وراثت ملے گی؟
.
قرآن اس بارے میں خاموش ہے حدیث مندرجہ ذیل میں اس کا جواب ہے :
.
عن اسامة بن زيد رضي الله عنها ان النبى صلى الله عليه وسلم قال ”لَایَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ“ (بخاري الفرائض لا يرث المسلم الكافر ۔ ۔ ۔ ح 6764)
.
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں ہوتا ہے ۔“
.
یہاں عام کی تخصیص الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا : «إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا » (17/بنی اسرائیل : 78)
.
”یقیناً فجر کے اندر قرآن پڑھنا مشہود ہے “ ۔ آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ مشہود سے کیا مراد ہے ؟
.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ”فَضْلُ صَلَاةِ الْجَمِيعِ عَلَى صَلَاةِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا﴾“
.
(بخاري تفسير القرآن قوله ﴿إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ ۔ ۔ ۔﴾ ح 4717)
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو «﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا﴾» (17/بنی اسرائیل : 78)
.
” اور صبح کی نماز بھی (قائم کیجئے) بیشک صبح کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے ۔ “
.
یہاں مبہم تعیین کی گئی کہ مشہود سے مراد یہ ہے کہ فجر کی نماز میں دن کے فرشتے اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں ۔
.
یہاں مبہم کی یہ تعیین الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے جب سورۃ البقرۃ کی آیت (187) «وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ»(سحری) کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہوجائے ۔ “ اتری تو عدن بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :
.
یا رسول اللہ ما الخیط الابیض من الخیط الاسود؟اھما الخیطان قال: ”اِنَّکَ لَعَرِیْضُ الْقَفَا اِنْ اَبْصَرْتَ الْخَیْطَیْنِ“ ثم قال: ”لَا بَلْ ھُوَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَ بَیَاضُ النَّہَارِ“ (بخاری ، تفسیر القرآن ﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا ۔ ۔ ۔﴾ ح 4510 )
.
اللہ کے رسول ! اس سے دو دھاگے ( کالے اور سفید ) مراد ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہاری گدی بہت لمبی چوڑی ہوگی اگر تم نے ان دونوں دھاگوں کو دیکھ لیا ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس سے مراد صبح کا ذب اور صبح صادق ہیں ۔ “
.
پتا چلا کہ اہل زبان ہوتے ہوئے بھی صحابہ کو مراد ربانی سمجھنے میں غلطی ہوجاتی تھی اور انہیں اس کے صحیح مفہوم کو جاننے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا تو ہم رو بد رجہ اولٰی مراد دبانی کو سمجھنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے محتاج ہیں ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
اگر آیت کے کسی اصول کلی سے حدیث نے کوئی جزئیہ مستنبط کیا تو حدیث کو بیان تفریع کہا: جائے گا ۔
.
اگر قرآن کے کسی جزیئے سے حدیث نے کوئی کلیہ اخذ کر کے نمایاں کیا تو حدیث کو بیان استخراج کہا: جائے گا ۔
.
قرآن کے لیے حدیث کسی نہ کسی آیت کے لیے بیان ہے اور یہ بیانات مختلف الانواع ہیں ۔ اگر آیت و حدیث کا بعینہٖ ایک ہی مفہوم ہے تو حدیث کو بیان تاکید کہا: جائے گا ۔
.
اگر آیت کے مختلف محتملات میں سے کسی ایک احتمال کو حدیث نے متعین کیا تو حدیث بیان تعیین ہے ۔
.
اگر آیت کا پیش کردہ حکم مقدار کے لحاظ سے مبہم ہے اور حدیث نے اسے مشخص کیا تو حدیث بیان تقریر ہے ۔
.
اگر آیت کے کسی اجمال کو حدیث نے کھول دیا ہے اور پھیلا دیا تو حدیث بیان تفصیل ہے ۔
.
اگر آیت کے کسی چھوڑے ہوئے مضمون مثلاً کسی قصے کے ٹکڑے کو یا دلیل کے کسی مقدمے کو حدیث نے اس کے ساتھ ملا دیا تو حدیث بیان الحاق ہے ۔
.
اگر کسی آیت کے حکم کی وجہ حدیث نے ظاہر کی تو حدیث بیان توجیہ ہے ۔
.
اگر آیت کے کسی کلیہ کا کوئی جزئیہ حدیث نے ذکر کیا تو حدیث بیان تمثیل ہے ۔
.
اگر حکمِ آیت کی علت حدیث نے واضح کی تو حدیث بیان تعلیل ہے ۔
.
اگر آیت کے حکم کے خواص حدیث نے کھولے ہیں تو حدیث بیان تاثیر ہے ۔
.
اگر کسی آیت کے حکم کی حدود کو حدیث نے واضح کیا تو حدیث بیان تحدید ہے ۔
.
اگر آیت کے کسی عام کا حدیث نے کوئی فرد مشخص کر دیا تو حدیث بیان تخصیص ہے ۔
.
اگر آیت کے کسی جزئیے کے مشابہ کوئی جزئیہ کسی مشترک علت کی بنا پر حدیث نے پیش کیا تو حدیث کو بیان قیاس کہا جائے گا ۔
.
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم احادیث کو مانتے ہیں مگر ان احادیث کو نہیں مانتے جو عقل میں نہ آئیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کس کی عقل کو معیار بنایا جائے ؟ محدثین کی عقل کو ، فلاسفہ کی عقل کو ، ایک ڈاکٹر ، ایک سائنسدان کی عقل کو یا ایک عام آدمی کی عقل کو؟
.
ایک حدیث ایک شخص کی عقل میں آتی ہے دوسرے کی عقل میں نہیں آتی ، تو اب کس کی عقل کو معیار تسلیم کیا جائے ؟ کیا دین میں عقل معیار ہے یا نقل؟ اگر اس معیار پر ہم قرآن کو پرکھیں اور جو آیت ہماری عقل میں نہ آئے تو پھر اسے بھی تسلیم نہ کریں ۔
.
سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
.
«قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ » (۲۱؍الانبیاء : ۶۹)
.
.

”ہم نے حکم دیا کہ اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور موجب سلامتی ہو جا ۔“
.
یہ بات عقل میں نہیں آتی… کہ آگ کا کام ہے جلانا… وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی کیسے بن سکتی ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو گی ہم اسے نہیں مانیں گے ۔ اگر اس نظریے پر قرآن کو پرکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دو آیتیں بظاہر متعارض نظر آتی ہیں تو کیا ایک آیت کو تسلیم کر کے دوسری کو رد کر دیں گے یا دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو مانیں گے ۔ ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کو مانیں گے تو یہ فارمولہ احادیث کے لیے کیوں استعمال نہ کیا جائے ؟
.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
.
.

« وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً» (۲۵؍الفرقان : ۳۲)
.
”اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن کو ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتار دیا گیا ۔“
.
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ» (۹۷؍القدر : ۱)
.
”ہم نے اس ( قرآن) کو ليلة القدر میں اتارا ۔“
.
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا بتدریج نازل ہوا ہے اور دوسری آیت سے پتا چلتا ہے کہ قرآن یکبارگی اتارا گیا ہے ۔ ہم دونوں آیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو مانتے ہیں ۔
.
یہ کہنا کہ قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے لہٰذا احادیث کو حجت شرعیہ ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
.
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ» (۶۲؍الجمعۃ : ۹)
.
”مومنو ! جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اس کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو ۔“
.
اب بتایا جائے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے ؟
.
کس نماز کے لیے پکارا جائے ؟
.
کن الفاظ سے پکارا جائے ؟
.
جس نماز کے لیے پکارا جا رہا ہے وہ کیسے پڑھی جائے ؟
.
بتائیں ! ان سارے سوالوں کا جواب اور اس کی تفصیل قرآن میں کس جگہ ہے ؟
.
اگر قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے تو بتائیں کہ مرغی حلال ہے یا حرام؟
.
کتا اور گدھا حلال ہیں یا حرام؟
.
میت کو غسل کیسے دیا جائے ؟
.
تجہیز و تکفین کا کیا طریقہ ہے ؟
.
نماز جنازہ کیسے پڑھی جائے ؟
.
نانی ، دادی ، پوتی ، نواسی کی حرمت بنص قرآنی ثابت نہیں تو کیا ان سب سے نکاح جائز ہے ؟ نیز منکوحہ کی موجودگی میں اس کی خالہ اور اس کی پھوپھی سے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن سے ثابت کریں ۔
.
ہم «تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ» (۱۶؍النحل : ۸۹) کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ قرآن میں جو بیان کیا گیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اور حدیث میں احکام کی جو شرح کی گئی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ پس متنِ قرآن اور شرحِ قرآن (حدیث) دونوں میں ہر امر دینی کا تفصیلی بیان ہے ۔

۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
معیارِ تحقیق
.
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے سند میں چند اشخاص کو جوڑ دیا اور کہہ دیا کہ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث ہے ، اور اسے حدیث مان لیا جاتا ہے ، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ حدیث کو جانچنے کے معیارات سو سے زائد ہیں اور ہر معیار پر مستقل تحریری مواد موجود ہے ۔ جب کوئی حدیث ان تمام معیارات سے ٹھیک ٹھاک گزر جائے گی تب اس پر صحت کا حکم لگایا جائے گا ۔
.
مثال کے طور پر علقمی نام کا ایک شخص کہتا ہے کہ یہ حدیث ہے اور سند اس طرح بیان کرتا ہے :
.
عن مالک عن نافع عن ابن عمر عن النبی صلى الله عليه وسلم …
.
جب علقمی اس حدیث کو مذکورہ سند کے ساتھ ذکر کرے گا تو ہر سننے والا سند میں اس کا نام ضرور ذکر کرے گا ۔ علقمی سے آگے کی سند یقیناً معتبر ہے ۔ لیکن حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے علقمی کی تحقیق ضروری ہو گی ۔ اب اگر علقمی کے حالات نہیں ملتے تو روایت مجہول ہو گی اور اگر حالات مل گئے تو دیکھا جائے گا کہ وہ صادق تھا یا کاذب؟ اگر کاذب تھا تو حدیث موضوع ہو گی اور اگر صادق تھا تو اب دیکھا جائے گا کہ وہ حافظہ کی خرابی میں مبتلا تو نہیں ؟ اگر یہ عیب پایا گیا تو حدیث قابل قبول نہیں ہو گی ۔ اگر اس جرح سے بچ گیا تو دیکھا جائے گا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے دیگر شاگرد بھی وہ حدیث روایت کرتے ہیں یا نہیں ۔ اگر معلوم ہو گیا کہ دیگر شاگرد علقمی کے خلاف روایت کرتے ہیں تو علقمی کی روایت شاذ ہو جائے گی ۔ مذکورہ مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی جھوٹے راوی کا محدثین کے معیار تحقیق سے بچنا کس قدر مشکل ہے ۔ لہٰذا محدثین کسی حدیث کو صحیح کہیں تو وہ قطعی الصحت ہے ۔
.
خبر واحد کی حجیت قرآن سے
.
«وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ» (۲۸؍القصص : ۲۰)
.
” اور ایک شخص شہر کے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا ۔“
.
غور کریں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس ایک شخص کی خبر پر گھر چھوڑ کر مدین کی طرف نکل پڑتے ہیں ۔
.
«وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ» (۲۷؍النمل : ۲۲)
.
” اور میں آپ کے پاس شہر سبا کی ایک تحقیقی خبر لایا ہوں ۔“
.
مذکورہ بالا آیت میں صرف ہدہد کی خبر کو قرآن نے یقینی خبر کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد اگر محتف بالقرائن ہو تو یقین کا فائدہ دیتی ہے ۔
.
خبر واحد کی حجیت حدیث سے
.
عن عبداللہ بن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ”اِنَّ بِلَالًا یُنَادِیْ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِی ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ“
.
(بخاری ، الاذان ، الاذان بعد الفجر ، ح : ۶۲۰)
.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں ۔“
.
امام بخاری رحمه الله کی فقاہت دیکھئے وہ اسی حدیث سے خبر واحد کی حجیت پر استدلال کرتے ہیں ۔ استدلال کی وضاحت یہ ہے کہ نماز جو افضل العبادات ہے ایک آدمی کی اذان یعنی ایک آدمی کے بلاوے پر مسجد میں آنا لازم قرار دیا گیا تو دیگر معاملات میں ایک آدمی کی خبر کو حجت کیوں نہیں تسلیم کیا جاسکتا؟
۔۔۔۔جاری ہے
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
احادیث کی حفاظت کا عملی اہتمام
.
منکرینِ حدیث ایک اور اعتراض بڑے شدومد سے کرتے ہیں کہ اگر حدیث کا دین میں کوئی مقام ہوتا اور دینی معاملات میں اسے مستقل حجیت حاصل ہوتی تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی اہتمام کے ساتھ حدیث بھی لکھوا لیا کرتے جس اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی ہر آیت و سورہ لکھوا لیا کرتے تھے ۔ اب جس شئے کو قلم بند کر کے دوسروں تک پہنچانے کا باقاعدہ التزام نہیں کیا گیا اسے ہمیشہ کے لیے ایک واجب الاتباع قانون کا درجہ کیسے دیا جاسکتا ہے ؟
.
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کے موجبِ حجت و استناد اور لائقِ اتباع ہونے کے لیے اس کا مکتوب و محرر ہونا شرط لازم نہیں ۔ آخر قرآن کی وحی بھی تو تحریری نہیں بلکہ زبانی ہی نازل ہوتی تھی ، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے :
.
«لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ» (۷۵؍القيامة : ۱۶)
.
” آپ اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں کہ اسے جلدی حاصل کرلیں ۔“
.
یعنی جبریل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوراً یاد ہو جاتی تھی ۔ پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنے حافظے اور یادداشت ہی سے اسے املا کراتے تھے اور ظاہر ہے کہ نزول اور کتابت کے درمیان کچھ وقفہ ایسا ضرور گزرتا ہو گا جبکہ حفاظت وحی کا انحصار صرف حافظے اور قرأ ت پر ہوتا ہوگا ۔
.
نیز حدیث نام ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر کا ۔ رہا قول کا معاملہ تو اسے یاد کرنے کی ضرورت ہے اور صحابہ کی زبان عربی تھی اور ان کا حافظہ انتہائی قوی تھا ۔ حدیثوں کو یاد رکھنا ان کے لیے چنداں مشکل نہ تھا ۔ رہا فعلِ رسول صلى الله عليه وسلم کا معاملہ تو اسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس پر عمل کرنا کافی تھا جیسے نماز کیسے پڑھی جائے ۔ اس کی پوری ہیئت عمل سے ہی یاد ہو جاتی تھی ۔
.
اب رہا تقریرِ رسول صلى الله عليه وسلم کا معاملہ ، تو اسے بھی یاد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ واقعات ہیں جو آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے پیش آئے اور آپ صلى الله عليه وسلم خاموش رہے ۔
.
نیز احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ صحابہ میں احادیث کی کتابت ہوتی تھی ۔ اس سلسلے میں مشہور کتابیں یہ ہیں :
.
صحيفه على ۔ صحيفه وائل بن حجر ۔ صحيفه سعد بن عباده ۔ صحيفه جابر بن عبدالله ۔ صحيفه انس بن مالك ۔ صحيفه عبدالله بن عباس ۔ صحيفه صادقه (جو عبداللہ بن عمرو بن عاص نے مرتب کیا تھا ۔ ) صحيفه عمر بن خطاب ۔ صحيفه عثمان ۔ صحيفه عبدالله بن مسعود ۔ مسند ابوهريره ۔ روايات سيده عائشه ۔ صحيفه عمرو بن حزم ۔ صحيفه صحيحه از ابوهريره ؎ ۱
.
خلاصہ یہ نکلا کہ حدیث کے حفاظت کے طریقے جو اختیار کئے گئے وہ تین تھے :
.
۱ : کتابت( لکھنا)
.
۲ : حفظ ( زبانی یاد کرنا)
.
۳ : تعامل (یعنی ہر شعبہ زندگی میں احادیث پر عمل کا اہتمام کرنا)
.
یہ تینوں طریقے عہدِ رسالت سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ۔
.
زیادہ تر عمل میں آنے والی احادیث کی تعداد متن حدیث کے لحاظ سے تقریباً ایک لاکھ ہے اور اسانید و طرق کے لحاظ سے ان کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے اور حجۃ الوداع میں صحابہ کرام کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین ماہ زندہ رہے ، اتنے عرصے میں کتنے ہزار صحابہ کا اور اضافہ ہوا؟اس حساب سے تو ایک صحابی کے حصے میں ایک حدیث بھی نہیں آتی ۔
.
.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
.
؎ ۱ صحیفہ صحیحہ کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ نے مرتب کیا تھا ، جس میں تمام وہ احادیث ہیں جو اُنھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیں ۔ اس صحیفہ کو صحیفہ ہمام بن منبہ بھی کہا: جاتا ہے ۔ اس میں ۱۳۹ حدیثیں ہیں ۔ اس مجموعے کا اردو ترجمہ اور شرح کئی اداروں نے شائع کی ہے ۔ اس کی ایک شرح راقم الحروف بھی حوالۂ قرطاس کر رہا ہے جو ماہنامہ دعوۃالتوحید ، اسلام آباد میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے ۔ (شہبازحسن)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عہد رسالت میں حدیث کی کتابت و حفظ کا ثبوت
.
عن عبداللہ بن عمرو قال : کنت اکتب کل شیء اسمعہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارید حفظہ فنھتنی قریش وقالوا : اتکتب کل شیء تسعمہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر یتکلم فی الغضب والرضا ، فامسکت عن الکتاب ، فذکرتُ ذلک الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاومأ باصبعہ الی فیہ فقال : ”اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ مَایَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ“
.
(ابوداؤد ، العلم ، فی کتاب العلم ، ح : ۳۶۴۶)
.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہر چیز جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا لکھ لیا کرتا تھا تاکہ میں اسے زبانی یاد کر لوں تو قریش نے مجھے روکا اور کہا: کہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا ہے لکھ لیتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ۔ کبھی غصے میں بولتے ہیں اور کبھی خوشی میں بولتے ہیں ۔ تو میں لکھنے سے رک گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دہن کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : ”لکھو ۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس (زبان) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔“
.
رہی یہ روایت :
.
عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ”لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَالْقُرْاٰنِ فَلْیَمْحُہُ وَحَدِّثُوْا عَنِّیْ وَلَاحَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ“ (مسلم ، الزھد ، الثبت فی الحدیث…ح : ۳۰۰۴)
.
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھ سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ لکھا ہے وہ اسے مٹا دے اور مجھ سے بیان کرو کوئی حرج نہیں اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا: وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے ۔“
.
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ مت لکھو ۔ تو آپ کا یہ حکم عارضی تھا تا کہ قرآن و حدیث کے درمیان امتیاز رہے ۔
.
”وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِيْ اِسْرَائِيْلَ“ حدیث کا یہ ٹکڑا ایسی اسرائیلی روایات پر محمول ہے جو مسکوت عنھا ہیں یعنی ایسی اسرائیلی روایات جن کی شریعت میں تصدیق کی گئی ہو نہ تکذیب ۔ لیکن جو روایات شریعت سے متصادم ہیں وہ مردود ہیں ۔
.
منکرین حدیث حدیثوں کو اس لئے نہیں مانتے کہ حدیثوں میں باہم اختلاف ہے ۔ دیکھا جائے تو اس طرح کا اختلاف قرآن میں بھی موجود ہے ۔ قرآن میں ایک آیت ہے :
.
«الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم» (۳۶؍یٰس : ۶۵)
.
” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے ۔“
.
ایک اور آیت میں ہے :
.
« يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» (۲۴؍النور : ۲۴)
.
” جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں گواہی دیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں بھی ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے ۔“
.
پہلی آیت میں ہے کہ منہ پر مہر لگنے کی وجہ سے زبان بند ہو جائے گی اور دوسری آیت میں ہے کہ زبانیں گواہی دیں گی ۔ ذرا سوچئے جب زبانیں بند ہو جائیں گی تو گواہی کس طرح دیں گی؟
.
« تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ» کا مفہوم
.
قرآن میں جب ہر شے کی وضاحت ہے تو حدیث کی ضرورت کیا ہے ؟ قرآن کی آیت کے اس ٹکڑے « تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ» (۱۶؍النحل : ۸۹) کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن میں جو کچھ بیان ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور احادیث نبویہ میں جن احکام کی شرح کی گئی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ پس متن قرآن اور شرح قرآن (یعنی حدیث) دونوں میں ہر امرِ دینی کا تفصیلی بیان ہے ۔
.
تفصیلا «لِّكُلِّ شَيْءٍ» کا مفہوم
.
ایک اشکال یہ ہے کہ قرآن میں جب ہر مسئلے کی تفصیل ہے تو حدیث کی کیا ضرور ت ہے ؟
.
آیت (۶؍الانعام : ۱۵۵) کے مذکورہ ٹکڑے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ قرآن نے دین کے بنیادی اصول اور مہمات شریعت بغیر کسی ایچ پیچ کے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے تاکہ اشتباہ و ابہام کا کوئی شائبہ نہ رہے ۔ لفظ ” کل “ حقیقی استغراق یعنی ایسا عموم جو تمام افراد کو شامل ہو ، کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ کل ایسا ہے جیسے سورۃالنمل کی اس آیت «وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ» (۲۷؍النمل : ۲۳) ” اسے ہر چیز دی گئی تھی ۔“ ؎ ۱
.
ملکہ سبا کو ہر چیز دی گئی تھی یعنی سلطنت کے تعلق سے تمام لوازمات دیئے گئے تھے کیونکہ سلیمانؑ کے پاس لوازماتِ حکومت ملکہ سبا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے ۔
.
؎ ۱ لفظ کل کے مزید قرآنی استعمالات کے لیے مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کیجیے : سورۃ البقرۃ : ۲۶۰ ۔ اٰل عمرٰن : ۹۳ ۔ یوسف : ۷۹ ۔ الرعد : ۱۶ ۔ النحل : ۶۹ ۔ الکہف : ۵۴ ، ۷۹ ۔ الحج : ۲۷ ۔ النمل : ۱۶ ۔ الزمر : ۶۲ ۔ حم السجدۃ : ۲۱ ۔ الاحقاف : ۲۵ ۔ (شہباز حسن)
۔۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
احادیث کے ضعیف و موضوع ہونے پر اعتراض
.
منکرین حدیث یہ اعتراض بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ بعض احادیث تو موضوع ہیں اور بعض ضعیف حالانکہ قرآن میں اس طرح کا اختلاف نہیں ۔ اس کی کوئی آیت ضعیف یا موضوع نہیں کہی جاسکتی ۔ اس لحاظ سے حدیث کا مواد غیر مکمل ہی نہیں بلکہ تحریف سے بھی پاک نہیں ہے ۔ جبکہ جو چیز حجت شرعیہ اور ماخذ دین ہو ، اس کا خالص اور ملاوٹ سے پاک ہونا ضروری ہے ۔
.
جواب یہ ہے کہ بلا شبہہ حدیث کے مجموعوں میں مختلف اقسام کی احادیث درج ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے مابین امتیاز کرنا مشکل ہے ۔ جس شخص کو حدیث اور فن حدیث سے معمولی سی بھی واقفیت ہے وہ یہ جانتا ہے کہ محدثین نے صحیح اور قابل اعتماد احادیث کا بڑا حصہ ضعاف اور موضوعات سے الگ کر دیا ہے اور انہوں نے حدیث کی نقد و جرح کے وہ تمام اصول و قوانین بھی بیان فرما دیے ہیں جن سے کام لے کر انہوں نے احادیث کو جانچا ہے ۔ اس فنی تحقیق کی مثال دنیا میں کوئی قوم پیش نہیں کرسکتی ۔ اس کی روشنی میں ہر صاحب علم یہ جان سکتا ہے کہ احادیث کی قوت و ضعف کا فیصلہ کن وجوہ اور دلائل کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔ اگر محدثین کے اس محیرالعقول کارنامے کے بغیر احادیث کا ملا جلا ذخیرہ ہم تک پہنچتا اور ہمارے پاس صحیح کو غیر صحیح سے ممتاز کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا تو یہ امر بلا شبہہ باعثِ تشویش ہوسکتاتھا ۔ لیکن موجودہ صورت میں پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ۔ پھر مزید موجبِ اطمینان امر یہ ہے کہ جن احادیث کی صحت یا ضعف پر امت کی اکثریت کا اتفاق ہے ۔ ان کی تعداد ان احادیث کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جن کی صحت و عدم صحت کا معاملہ مختلف فیہ ہے ۔
.
اب اگر کوئی شخص تھوڑی سی مقدار کو مشتبہ سمجھ کر پورے ذخیرے کو ساقط الاعتبار قرار دے دے تو اس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہو گی جو اپنے خزانے کے چند سکوں کو کھوٹا دیکھ کر پورا خزانہ دریا برد کر دے ، یا بازار میں چند جعلی نوٹوں کا چلن دیکھ کر پورے ملک کی کرنسی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کرے ۔ کیا کوئی زیرک اور ہوش مندانسان ایسا عاقبت نا اندیشانہ اقدام کرنے کا تصور کرسکتا ہے ؟
.
امام بخاری رحمه الله معصوم نہیں تھے
.
منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمه الله معصوم نہیں تھے ۔ لہٰذا ان سے خطا ممکن ہے !
.
اس کا جواب یہ ہے کہ امکان خطا اور وقوع خطا میں بڑا فرق ہے ۔ امکان اور چیز ہے اور وقوع اور چیز ۔ ممکن ہے آپ چور ہوں ۔ مگر بغیر ثبوتِ شرعی ایسا کہنا غلط ہے ۔ امام بخاری رحمه الله نے خطا کہاں کی ہے اسے ثابت کیجیے ۔
.
ذرا سوچئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے قرآن کو نہیں لکھا ۔ لکھنے والے اور جمع کرنے والے صحابہ ہی تھے اور صحابہ بھی معصوم نہ تھے ۔ لہٰذا ان سے بھی خطا کے صدور کا امکان تھا ۔ فما ھو جوابکم فھو جوابنا ۔
.
بخاری میں بدعتی راویوں کا اشکال
.
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ بخاری میں بدعتی راوی ہیں ! لہٰذا بدعتی راویوں کی مرویات کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے !
.
اس کا جواب یہ ہے کہ بدعات ایک درجے کی نہیں ہوتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا» (۴۹؍الحجرات : ۶)
.
.

” ایمان والو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو ۔“
.
غور کریں کہ فاسق کے فسق کی وجہ سے جو بے اعتباری پیدا ہوسکتی تھی وہ خبر کی تحقیق کے بعد دُور کی جاسکتی ہے ۔
.
۱ : اگر راوی کی بدعت اس طرح ہو کہ اسے اسلام سے نکال دے تو ایسے بدعتی کی روایت مقبول نہیں کیونکہ قبول روایت کے لیے اسلام شرط ہے ۔
.
۲ : اگر راوی دین و شریعت کے معاملے میں دشمنی کا اظہار کرے اور مسلمانوں سے عناد رکھے اور خواہشات کی پیروی میں اسراف کرے نیز حق کی دلیلوں سے اعراض کرے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ اس کے یہاں دینداری کم ہے ۔ جیسے شراب نوشی ، سود خوری وغیرہ تو ایسا راوی عادل نہیں ، ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں ، کیونکہ قبول روایت کے لیے عدالت شرط ہے ۔
.
۳ : اگر راوی جھوٹ کو حلال جانے تو یا تو کافر ہے یا فاسق اور اگر معذوری بھی سمجھ لیں تو قبول روایت کے لیے صدق (سچائی) شرط ہے اور یہاں سچائی ناپید ہے ، اس لئے ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں ۔
.
.

۴ : ایسا بدعتی راوی کہ اہل علم کا اس کے سلسلے میں تردد موجود ہو ، اہل علم کے نزدیک اسے کافر قرار دینا یا فاسق قرار دینا واضح نہ ہوسکے اور نہ اہل علم نے اسے عادل ہی قرار دیا ہو تو ایسے راوی کی روایت مردود ہے ۔
.
۵ : اگر بدعتی راوی اپنی بدعت کا داعی ہو اور اپنی بدعت کی نشر و اشاعت کرتا ہو اور اس کی دعوت کا تعلق ایسی بدعت سے ہو جس پر محدثین کا اتفاق ہو کہ وہ بدعت ہے تو ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں ۔
.
رہا وہ بدعتی جو اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دیتا اس کی دو شکلیں ہیں ؛ اگر اس کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی ۔ لیکن اگر اس کی عدالت (عادل ہونا) ثابت نہ ہو تو اس کی روایت مردود ہو گی ۔ یہ چند شرائط معلمی کی التنکیل میں موجود ہیں ۔
 
Top