انس نضر صاحب!
اب جو بات میں لکھنے لگا ہوں برائے مہربانی بغیر ناراض ہوئے اس پر غور فرما لیجیئے گا۔ میں پورے خلوص اور دیانت اور اپنی نیک نیتی سے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ " اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایک ہی بات ہے۔ اللہ کی کتاب میں جتنی آیات قل سے شروع ہوتی ہیں وہ سب کی سب رسول کی اطاعت ہی تو ہیں۔
اللہ، براہ راست بھی خطاب کرتا ہے۔ جیسے " يَا أَيُّهَا النَّاسُ ۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ ، یا بنی آدم وغیرہ وغیرہ۔ یہ احکامات اللہ کی اطاعت ہیں اور رسول کے زریعہ بھی احکامات دیتا ہے جو "قل " سے شروع ہونے والی آیات میں موجود ہیں یہ رسول کی اطاعت ہیں اور اللہ کی بھی اطاعت ہیں۔ کیونکہ اللہ ہی رسول سے کہلوارہا ہے"۔ لہذا ، اللہ اور رسول کی اطاعت ایک ہی چیز ہے۔
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی "
"قل" سے شروع ہونے والی آیات کی اطاعت کریں، یہ اللہ کی اطاعت ہو جائے گی۔
امید ہے انشاء اللہ یہ بات واضح ہو گئی ہوگی۔
سوال نمبر 1: آپ کے کہنے کے مطابق ’قل‘ کے بعد اللہ کا نہیں، بلکہ نبی کا کلام ہوتا ہے، تو درج ذیل آیات میں ’قل‘ کے بعد کس کا کلام ہے اور اس کلام میں ’حاضر‘ کے صیغوں سے کسے مخاطب کیا جا رہا ہے؟؟؟ (اس کے بعد میں نے سات آیات کریمہ پیش کیں جن میں ’قل‘ کے بعد بھی رسول کا کلام مراد ہی نہیں لیا جا سکتا تھا، پھر اپنی اس بات کو اختصار سے لکھا)
خلاصہ یہ کہ آپ کے نزدیک براہ راست آیات اللہ کی طرف سے ہیں لہٰذا وہ اللہ کا کلام ہیں، انہیں تسلیم کرنا اللہ کی اطاعت ہے؟
جبکہ جو آیات قل سے شروع ہوتی ہیں وہ سب کی سب نبی کریمﷺ کا کلام ہیں، انہیں تسلیم کرنا رسول کی اطاعت ہے؟؟؟
یعنی قرآن کریم سارا اللہ تعالیٰ کی کلام نہیں۔ اس میں کچھ اللہ کی کلام ہے اور کچھ کسی اور کی؟؟؟ نعوذ باللہ من ذلک
انس نضر صاحب!
یہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ " قل" کے بعد اللہ کا نہیں بلکہ نبی کا کلام ہوتا ہے؟ پہلے آپ اس کی وضاحت فرمائیں کہ یہ خود ساختہ بھیانک الزام آپ کیوں لگا رہے ہیں؟ اسکے بعد ہی کوئی سنجیدہ گفتگو ہو سکے گی۔ کیونکہ میں نے "قل " کے بعد والی کوئی بات یا احکام کو اطاعت رسول اور اللہ کی اطاعت کہا ہے، رسول کا کلام نہیں۔
مسلم صاحب! آپ کی بھی سمجھ نہیں آتی، آپ کی کوئی ایک بات تو ہے نہیں۔ اور ہو بھی کیسے سکتی ہے، کیونکہ آپ اصل کو تو چھوڑ چکے ہیں تو اب باقی ٹامک ٹوئیاں ہی رہ جاتی ہے، جو آپ اپنی ناقص عقل اور کم علمی کی بناء قرآن کریم کے نام پر پیش کرتے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے ہمیں اللہ کی طرف سے قرآن کریم اور اس کے علاوہ اُترنی والی وحی (حدیث مبارکہ) دونوں کی خبر دی۔ آپ نے فرمانِ الٰہی
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ ﴾ ... النساء: 150 کے مصداق اپنی مرضی سے ایک بات کو مان لیا، دوسری کا انکار کر دیا، جسے اللہ تعالیٰ نے صریح کفر قرار دیا ہے۔
اب یہاں دیکھ لیجئے! آپ نے خود ہی فرمایا کہ
اللہ، براہ راست بھی خطاب کرتا ہے۔ جیسے يَا أَيُّهَا النَّاسُ ۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ ، یا بنی آدم وغیرہ وغیرہ۔ یہ احکامات اللہ کی اطاعت ہیں اور رسول کے زریعہ بھی احکامات دیتا ہے جو "قل " سے شروع ہونے والی آیات میں موجود ہیں یہ رسول کی اطاعت ہیں اور اللہ کی بھی اطاعت ہیں۔ کیونکہ اللہ ہی رسول سے کہلوارہا ہے
اللہ کی کتاب میں جتنی آیات قل سے شروع ہوتی ہیں وہ سب کی سب رسول کی اطاعت ہی تو ہیں۔
ان کوٹیشنز کا کیا یہ واضح مفہوم نہیں کہ اللہ کا براہ راست خطاب تو اللہ کا کلام ہے جبکہ ’قل‘ کے بعد اللہ ہی رسول سے کہلوا رہا ہے اس لئے وہ رسول کا کلام ہوا، لہٰذا انہیں ماننا رسول کی اطاعت ہے۔
ورنہ اگر ’قل‘ کے بعد بھی اللہ کی ہی کلام ہے، تو اسے ماننا رسول کی اطاعت کیسے ہوئی؟؟؟
اب آپ نے بالکل نئی بات کر دی کہ ’قل‘ کے بعد کلام تو اللہ کا ہی ہوتا ہے، لیکن اطاعت رسول کی ہوتی ہے۔ لیکن سوال تو پھر ادھر کا ادھر ہی ہے کہ کیسے؟؟؟ اللہ کی کلام کو ماننا اللہ کی اطاعت تو ہو سکتی ہے، رسول کی اطاعت کیسے؟؟؟ کس دلیل کے ساتھ؟؟؟
اگر تو آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ
چونکہ یہ قرآن کریم ہمیں رسول پاکﷺ کے ذریعے ملا ہے، اور رسول کریمﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، جو مجھ پر وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے۔ اسے مانو اور اس پر عمل کرو، نہیں تو نجات نہیں ہوگی۔
تب پھر پورا قرآن ماننا ہی رسول کی اطاعت ہوئی، صرف ’قل‘ والی آیات رسول کی اطاعت کیوں اور باقی آیات اللہ کی اطاعت کیوں؟؟؟ اس فرق کی دلیل کیا ہے؟؟؟
اور پھر یہاں ایک نیا سوال ابھرتا ہے کہ اگر صرف رسول کریمﷺ کے کہنے پر ہی ہم نے قرآن کو اللہ کی کلام مانا ہے، تو پھر انہی رسول کریمﷺ کے کہنے پر ہم دوسری وحی (حدیث مبارکہ) کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟؟؟
- مسلم صاحب کا ہمیشہ سے انداز یہ ہے کہ دوسروں کی پوسٹ پوری پڑھتے ہی نہیں، یا اگر پڑھتے ہیں تو جس کا جواب ان کے زعم میں انہیں آتا ہے، وہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی اہم ترین سوالوں سے ویسے ہی صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ (جیسے حدیث کی حجیت والی پوسٹ میں کتنے ہی سوال ابھی تک مسلم صاحب کی نظر کرم کے منتظر ہیں لیکن وہ ان کا جواب دینے کی بجائے ہر نئی پوسٹ میں حدیث پر اعتراض کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔)
میں نے پچھلی پوسٹ میں باقاعدہ تین سوالات کیے تھے، نمبر لگا کر، تاکہ مسلم صاحب صرف اپنی مرضی کی بات کا جواب نہ دیں بلکہ تینوں کے متعلق اپنا موقف واضح کریں، لیکن انہوں نے اپنی عادت کے مطابق دوسرے دو پوائنٹس (سوال نمبر 2 اور 3) کو چھیڑا تک نہیں۔
میں وہ دو سوال دوبارہ دہرا دیتا ہوں کہ
1. مسلم صاحب کو اتنا تو تسلیم ہے (جیسا کہ ان کی حالیہ پوسٹ سے ظاہر ہے) کہ کچھ آیات چونکہ اللہ تعالیٰ ’قل‘ کہہ نبی کریمﷺ سے کہلوا رہے ہیں لہٰذا انہیں ماننا نبی کریم اطاعت ہے، اس کا منطقی اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیگر لوگوں سے جو کچھ کہلوایا ہے انہیں ماننا انہی کی اطاعت ہونا چاہئے۔
مثلاً سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹی اور ہدہد کا ذکر فرمایا جنہوں انبیاء کرام سے علم غیب کی نفی کی، ہدہد نے تو قومِ سبا کے شرک کی مذمت کی اور توحید کی دعوت پیش کی۔ سوال یہ ہے کہ ان باتوں کو ماننا اللہ کی اطاعت ہے یا ہدہد اور چیونٹیوں کی؟؟؟
﴿ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ ... سورة النمل: 18
﴿ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (٢٢) إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ (٢٣) وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ (٢٤) أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (٢٥) اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩ ﴾ ... سورة النمل: ٢٦
کہ ’’کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس (ہدہد) نے آ کر کہا "“میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں میں سَبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں (22) میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمران ہے اُس کو ہر طرح کا ساز و سامان بخشا گیا ہے اور اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے (23) میں نے دیکھا ہے کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے" شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے (24) کہ اُس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو (25) اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، جو عرش عظیم کا مالک ہے۔‘‘
2.
کیا نبی کریمﷺ نے اپنی پوری زندگی میں قرآن کریم کے ’قل‘ کے بعد والی کلام کے علاوہ کوئی کلام نہیں کی؟؟ اگر کی ہے، مثلاً کسی صحابی کو کوئی حکم دیا یا کسی فعل سے روکا تو وہ حکم تسلیم کرنے کو رسول کی اطاعت کرنا کہا جائے گا یا نہیں؟؟؟ کیا رسول کی اس حکم کی اطاعت اللہ کی اطاعت نہیں؟؟؟
آسان الفاظ میں کہ قرآن کے بارے میں تو ہمیں رسول کریمﷺ نے بتایا کہ میں اللہ کا نبی ہوں، مجھ پر قرآن (اللہ کی کلام) اترتا ہے، اس کو مانو اور اس پر عمل کرو۔
كيا یہ حکم تسلیم کرنے کو رسول کی اطاعت کرنا کہا جائے گا اور کیا رسول کا یہ حکم اللہ کی اطاعت نہیں؟؟؟