ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
منکرین صفاتِ باری تعالیٰ پر علماء اہل سنت کا زبردست رد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جہمیہ و معتزلہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں اس طرح کے وہ اللہ کی صفات کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے بلکہ مجازی معنی لیتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے نزدیک اللہ کی مخلوق سے تشبیہ ہوتی ہے۔
یہی نظریہ موجودہ جہمیہ دیوبندیہ کا بھی ہے ان کے نزدیک بھی اللہ کا ہاتھ، چہرہ، آنکھیں، نزول، استواء ماننے سے مخلوق سے تشبیہ ہوتی ہے اس لیے یہ صفات کے حقیقی معنی کا انکار کرتے ہیں اور اپنے حجروں میں بنائے ہوئے صفات کے مجازی معنی اللہ پر فٹ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اللہ پاک نے خود جس صفت سے خود کو وصف کیا ہے وہ ماننا غلط ہے بلکہ ہم جو صفت کا معنی بناتے ہیں وہ ماننا چاہیے، اہل سنت کے نزدیک یہ خالق کے منکر ہیں۔
چنانچہ حافظ ذھبی رحمہ اللہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ متوفی 463 ھ کا بیان ان کی کتاب التمہید سے نقل کرتے ہیں،
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أهل السّنة مجمعون على الْإِقْرَار بِالصِّفَاتِ الورادة فِي الْكتاب وَالسّنة وَحملهَا على الْحَقِيقَة لَا على الْمجَاز إِلَّا أَنهم لم يكيفوا شَيْئا من ذَلِك وَأما الْجَهْمِية والمعتزلة والخوارج فكلهم ينكرها وَلَا يحمل مِنْهَا شَيْئا على الْحَقِيقَة ويزعمون أَن من أقرّ بهَا مشبه وهم عِنْد من أقرّ بهَا نافون للمعبود
"اس بات پر اہل سنت کا اجماع ہے کہ صفات باری تعالٰی کے معنی حقیقی ہیں نہ کہ مجازی، اور کسی کی کیفیت بیان نہیں کرتے ، برخلاف اہل بدعت جمہیہ اور معتزلہ اور خوارج کے وہ سب کے سب (اللہ تعالیٰ کی) صفات سے منکر ہیں اور ان میں کسی کو بھی حقیقت پر حمل نہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کوئی (اللہ تعالیٰ کی)صفات کا اقرار کرے وہ مشبہ ہے، اور وہ صفات کا اقرار کرنے والے اہل سنت ان لوگوں(بدعتیوں) کو معبود کا منکر کہتے ہیں۔"
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بیان نقل کرنے کے بعد حافظ ذھبی رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
صدق وَالله فَإِن من تَأَول سَائِر الصِّفَات وَحمل مَا ورد مِنْهَا على مجَاز الْكَلَام أَدَّاهُ ذَلِك السَّلب إِلَى تَعْطِيل الرب وَأَن يشابه الْمَعْدُوم كَمَا نقل عَن حَمَّاد بن زيد أَنه قَالَ مثل الْجَهْمِية كقوم قَالُوا فِي دَارنَا نَخْلَة قيل لَهَا سعف قَالُوا لَا قيل فلهَا كرب قَالُوا لَا قيل لَهَا رطب وقنو قَالُوا لَا قيل فلهَا سَاق قَالُوا لَا قيل فَمَا فِي داركم نَخْلَة
"اللہ کی قسم ابنِ عبد البر نے بالکل سچ کہا ہے کیونکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویلیں کرتے ہیں اور انہیں مجاز پر محمول کرتے ہیں وہ رب تعالیٰ کی ذات کی نفی و تعطیل اور اس کے معدوم کے مشابہ ہونے کے عقیدہ باطلہ میں مبتلا ہوگئے۔
جیسا کہ حماد بن زید کا قول ہے ، فرماتے ہیں:
جہمیہ(موجودہ دیوبندیہ) کی مثال اس قوم جیسی ہے جو کہے ہمارے گھر میں کھجور کا درخت ہے، ان سے پوچھا گیا:
اس کی شاخیں ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں،
اس کی ٹہنیاں ہیں؟ انہوں نے کہا : نہیں،
اس میں تازہ پھل اور خوشے ہیں؟ جواب دیا نہیں،
اس کا تنا ہے؟ جواب دیا نہیں،
تو اس قوم سے یہی کہا جائے گا: تمہارے گھر میں کھجور کا کوئی درخت نہیں۔"
[العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها، ص: ٢٥٠]
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صفات کی نفی کر رہا ہے وہ اللہ کی ذات کی نفی کر رہا ہے، کیونکہ ایسی کوئی ذات نہیں جس کی صفات نہ ہو، لہذا دیوبندیہ جہمیہ جو صفات باری تعالیٰ کے منکر ہیں درحقیقت یہ ذات باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔