• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

من پسند نیکی مقبول نہیں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
من پسند نیکی مقبول نہیں

تین اصحاب کا واقعہ بخاری شریف ج:۲، ص:۷۵۷میں موجود ہے کہ انہوں نے عبادت اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور زیادہ ثواب حاصل کرنے کا طریقہ اپنی طرف سے طے کر لیا ، ایک نے کہا کہ میں آئندہ ساری زندگی روزانہ روزے رکھوں گا، دوسرے نے کہا کہ میں آئندہ ساری رات کو قیام کروں گا، تیسرے نے کہا کہ میں آئندہ شادی نہ کروں گا (تا کہ عبادت دلجمعی سے ہو) یہ بظاہر ان کے نزدیک عبادت کے طریقے تھے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے عمل ، لیکن ان کی یہ خواہشات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور کتاب و سنت کے خلاف تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقےسے مطابقت نہیں رکھتی تھیں اس لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ان نیک خواہشات والے اعمال پر اپنی نبوی اور محمدی مہر سے تصدیق نہیں فرمائی سوچنا چاہئے کہ کیا یہ کام نیکی کے نہیں تھے۔ نماز پڑھنا ، نیکی ہے روزہ رکھنا نیکی ہے، نیکی کو بے فکری کے ساتھ کرنے کیلئے بہتر تجویز، یہ بھی بظاہر اچھی سوچ ہے مگر یہ دربار نبوی میں قبول کیوں نہیں ہوئیں۔

آخر واضح ہوتا ہے کہ چونکہ یہ طریقے خلاف سنت اور خلاف اسوہ حسنہ تھے اس لئے رد کر دئیے گئے حالانکہ قرآن سے اور اسوہ حسنہ سے پہلے اس کی رکاوٹ اور ممانعت ہرگز نہیں تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کے ساتھ جانے کا حکم فرمایا۔ لشکر تو چلا گیا مگر عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اپنی نیک خواہش اور چاہت کو سامنے رکھ کر لشکر کے ساتھ فوری طور پر روانہ نہ ہوئے کہ ایک تو آج جمعہ ہے لشکر والے چونکہ مسافر ہیں ان پر جمعہ فرض نہیں رہے گا شاید کہیں جمعہ پڑھیں یا ظہر، اگر پڑھیں گے تو کسی امتی کے پیچھے، وہ بھی مسجد نبوی میں نہیں مگر میں جمعۃ المبارک کی سعادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کر کے حاصل کروں گا اور یہ جمعہ مسجد نبوی میں ادا ہو گا جس میں ایک نماز جمعہ پڑھنے سے دس ہزار جمعوں کا ثواب ملے گا یعنی تینوں اضافی ثواب حاصل کرکے لشکر کے ساتھ جا ملوں گا۔ لشکر کے جہاد والا ثواب بھی مجھے مل جائے گا۔ اس صحابی نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نما زپڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :ما منعک ان تغدو مع اصحابک کہ تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح صبح سفر پر کیوں نہیں چلا گیا تجھے کس چیز نے روکا؟ اس صحابی نے جواب دیا : قال اردت ان اصلی معک ثم الحقہم کہ میں نے سوچا کہ جمعہ آپ کے ساتھ مسجد نبوی میں پڑھوں (تا کہ زیادہ ثواب حاصل کرلوں) پھر لشکر والوں کے ساتھ جا ملوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما ادرکت فضل غدوتہم ۔(ترمذی ابواب الجمعة باب السفر یوم جمعہ ص:۶۹) کہ اب اگر تو ساری دنیا خرچ دے میرے کہنے پر جو لوگ صبح صبح چلے گئے ہیں تو بھی تو ان کے ثواب کو حاصل نہیں کر سکتا ، دیکھو کتنی پیاری سوچ تھی اس صحابی رضی اللہ عنہ کی اور کتنے بڑے ثواب کو حاصل کرنے کا شوق تھا کہ وہ جہا د کا ثواب جو وہ حاصل کریں گے میں وہ بھی حاصل کر لوں گا اور یہ ثواب مسجد نبوی کے اندر جمعہ پڑھنے والا وہ حاصل نہیں کر سکیں گے میں یہ بھی حاصل کر لوں گا پھر ان کے ساتھ جا ملوں گا۔

لیکن تم نے دیکھا کہ اس کی سوچ اور شوق اپنی جگہ پر دھرا کا دھرا رہ گیا، اور خود کتنے بڑے ثواب سے الٹا محروم ہو گیا یہ نقصان اس کا فقط اس بنا پر ہوا کہ اس نے ایک خاص وقت میں ایک خاص نیکی کرنے کا اپنی طرف سے طے کر لیا تھا جس کی اجازت اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی آدمی نے چھینک ماری اور الحمد للہ کے ساتھ والسلام علی رسول اللہ کی ملاوٹ بھی کر دی تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وانا اقول الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ ولیس ہکذا علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ علمنا ان تقول الحمد للہ علی کل حال ۔(ترمذی ابواب الادب باب ما یقول العاطس اذا عطس ج:۲، ص:۹۸) کہ الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ میں بھی کہتا ہوں مگر اس خاص موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کہنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ نے ہم کو چھینک کے موقعہ پر صرف الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے ہیں یعنی یہ جو تو نے اس وقت اضافی جملہ ساتھ جڑ دیا ہے اس موقعہ پر یہ محمدی تعلیم نہیں ہے گویا یہ خلاف سنت ہے۔ اگر اپنی طرف سے اپنی چاہت کو مدنظر رکھ کر دین میں اضافہ کیا جا سکتا ہو تا یا بدعت حسنہ بھی ان کے ہاں کوئی چیز ہوتی، تو صحابی رسول رضی اللہ عنہ اس آدمی کو ہرگز نہ ٹوکتے کہ چلو سنت نہیں تو بدعت حسنہ تو ضرور ہے۔ اگر آج کا بدعتی ذہن رکھنے والا وہاں کوئی ہوتا تو جھٹ صحابی رسول کو کہہ دیتا کہ حضرت اس میں خرابی کیا ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کہنے سے روکا ہے؟۔

تو جب سنت سے ثابت عمل میں اپنی طرف سے خاص موقعہ پر اضافہ و زیادتی منع ہے تو جہاں اول سے آخر تک اپنی طرف سے زیادتی ہی زیادتی ہو جیسے میلاد منانا وہ تو بطریق اولیٰ منع ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہی صحابی کسی موقعہ پر ایک مسجد میں جاتا ہے تا کہ نماز ادا کریں ، اذان ہوتی ہے اذن کے بعد وہ موذن تثویب شروع کر دیتا ہے یعنی آؤ نماز کی طرف کہنے لگ جاتا ہے تو حضرت عبد اللہ مذکور نے اپنے ساتھی کو فرمایا کہ مجھے اس مسجد سے واپس باہر لے چلو کیونکہ یہ مسجد بدعتی کی ہے اور اس میں نماز ادا کئے بغیر مسجد سے چلے گئے (ترمذی باب ماجاء فی التثویب فی الفجر ص: ۲۷، ج:اول ابوداؤد باب فی التثویب ص:۷۶ج: اول)

نماز کیلئے بلاوا اذان کے اندر ہوتا ہے حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح گویا اس آدمی نے تعلیم محمدی کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اپنی طرف سے بطور بدعت حسنہ کے اضافہ کر دیا بطور تنبیہ صحابی مذکور نے ان لوگوں کو بزبان حال سمجھایا کہ میں تمہاری اس بدعت پر راضی نہیں ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بدعت ہر اس عقیدہ اور عمل کو کہاجاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے خلاف ہو، آپ کے زمانہ میں اس کا وجود نہ ملتا ہو بلکہ وہ بعد کی ایجاد اور پیداوار ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (بخاری ج:اول ،ص:۳۵مسلم جلد: دوم ص:۷۷) یعنی جس شخص نے ہمارے دین کے معاملہ میں نئی بات نئی رسم نکالی جو ہمارے دین میں موجود نہیں ہے تو وہ رسم نیا کام مردود ہے۔ بخاری جلد : دوم ص:۱۰۹۲میں ہے: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد۔ کہ جو ایسا عمل کرتا ہے جس پر ہمارا حکم یا ہمارا عمل نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ابوداؤد جلد:دوم ص:۳۷۹میں ہے: من صنع امرا علی امر غیرنا فہو رد۔ کہ جو ایک کام کرتا ہے جو ہمارے دین اور عمل کے خلاف ہے یا ہمارے غیر کے موافق عمل کرتا ہے پس وہ عمل مردود ہے۔

میدان محشر میں حوض کوثر سے پانی پینے کیلئے ایک قوم آنے لگے گی تا کہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے حوض کوثر سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھائے مگر فرشتے اس قوم کو روک کر دوسری طرف دھکیل دیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ میری امت کے لوگ ہیں (ان کو کیوں روک رہے ہو) تو جواب ملے گا کہ جناب یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی شریعت ، سنت اور طریقہ کے خلاف نئے نئے طریقے ایجاد کئے تھے (یہ لوگ آپ کے حوض کوثر کے پانی پینے کے لائق نہیں) تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: فسحقا لمن غیر بعدی (بخاری کتاب الحوض ج:۲، ص:۹۷۴مسلم شریف کتاب الفضائل باب اثبات حوض نبینا ص:۲۴۹) تو پھر مجھ سے دور ہو جائیں دفع ہو جائیں جنہوں نے میرے بعد میرے دین میں بگاڑ اور تبدیلی کر لی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : من ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم ان محمداً صلی اللہ علیہ وسلم خان الرسالۃ لان اللہ تعالیٰ یقول الیوم اکملت لکم دینکم (الآیۃ) فمالم یکن یومئذ دینا فلا یکون الیوم دینا (الاعتصام للشاطبی جلد اول ص:۴۷) کہ جو شخص اسلام میں نئی بات نئی رسم نکالتا ہے جس کو وہ بدعت حسنہ سمجھتا ہے تو گویا اس نے یہ خیال کر لیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کے پہچانے میں خیانت کی ہے (کہ آپ نے اس بدعت حسنہ کی تعلیم نہیں دی جو آپ کو دینی تھی) کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج کے دن میں نے تم پر دین اسلام مکمل کر دیا ہے لہٰذا جو چیز اس وقت دین نہیں تھی آج بھی وہ دین نہیں ہو سکتی الخ۔

مثلاً پانچ نمازوں کیلئے اذان دینا دین کا کام ہے اور ان اوقات میں اذانیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائیں اور آج بھی دلوائی جاتی ہیں اور عیدین، جنازہ اور استسقاء کی نمازوں میں اذان نہیں دی جاتی تھیں اور آج تک نہیں دی جاتیں گویا پانچوں اوقات میں اذان اور تکبیر کہنا اور عیدین جنازہ استسقاء میں اذان و تکبیر نہ کہنا دین کا کام تھا، آج اگر کوئی نیا بدعتی اٹھ کر کہنا شروع کر دے عیدین و جنازہ اور استسقاء میں اذان بھی اور تکبیر بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ نیکی کے کام ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان و اقامت ان تینوں نمازوں میں کہنے سے روکا نہیں ہے لہٰذا جائز ہے تو جیسے عیدین و جنازہ اور استسقاء میں اذان و اقامت کہنا بدعت ہے اور بدعت حسنہ بھی نہیں ورنہ بدعت حسنہ کے دلدادہ ضرور اس بدعت حسنہ کو بھی رائج کر چکے ہوتے ، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے میلاد نبوی نہیں منایا، اب اگر بدعتی میلاد نبوی مناتے ہوئے اس کو بدعت حسنہ کہے تو وہ بھی بدعت ہو گی بدعت حسنہ نہیں ہو گی، ورنہ ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسئلہ نہ بتا کر دین کے پہنچانے میں سستی، کمی فرمائی ہے۔ نعوذ باللہ۔

تو جب ہمارے مدعا میلاد النبی کی حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ بدعت ہے اور اس کا موجد چھٹی صدی کا ایک فضول خرچ بادشاہ تھا اور اس کو سہارا دینے والا ایک لالچی قسم کا فریبی مکار آدمی تھا۔

اگر یہ بدعت حسنہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں یہ ضرور ہوتی، جب انہوں نے نہیں کیا کہ دین میں اضافہ کا کام تھا دین کا کام نہیں تھا تو ہم کیوں کریں۔

مگر کیا کیا جائے کہ ضد، بدعت کی محبت، سنت اور اسوہ حسنہ سے حسد و عناد نے ان ملاؤں حلوہ خوروں پیٹ کے پجاریوں کو اندھا کر دیا ہے جو ان واضح دلائل کو دیکھنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے اور بدعات کے ایسے شوقین ہو گئے کہ ان کو بدعت کی کڑواہٹ معلوم نہیں ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سعیدی میلادی نے اپنے مرشد کاظمی کے رسالہ میلاد النبی کے پڑھنے کا شوق دلایا تھا مگر جب میں نے اس کو پڑھا تو وہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے بڑا دکان پھیکا پکوان۔ اس لئے دل چاہ رہا ہے کہ اس کی حقیقت ،بھی لوگوں کے سامنے بطور جائزہ بیان کر دی جائے اس لئے سعیدی صاحب کی کتاب کے جواب کے بعد مختصر انداز میں ان شاء اللہ اس کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔ فانتظروا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیامدارس کے جلسے بھی بدعت ہیں

سعیدی۔ (تنبیہ): اگر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے میں ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدعت و ضلالت ہے تو پھر تمہارے اجتماعات کانفرنس سیرت کے جلسے جلوس، اور دستار بندیاں اور دیگر مذہبی اور سیاسی تقریبات بطریق اولی بدعت و ضلالت ہیں کیونکہ یہ پروگرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام و چاروں ائمہ اور تابعین وغیرہ کے دور میں ہرگز نہیں تھے۔ جبکہ ذکر میلاد ہر دور میں ہوتا رہا (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۸)

محمدی
جواب: ان کانفرنسوں، جلسوں وغیرہ میں اور تمہارے عید میلاد کے جلسوں جلوسوں جشنوں کے منانے میں فرق ہے۔ اگر بالفرض کوئی جماعت، کوئی مدرسہ، سارے سال میں کوئی کانفرنس کوئی جلسہ کوئی دستار بندی نہ کرائیں تو کوئی بھی ان کو برا بھلا نہیں کہتا اور کوئی ان کو گستاخ رسول دشمن رسول ، دشمن کانفرنس، دشمن جلسہ، دشمن دستار بندی نہیں کہتا ہے۔ بالفرض ایک سال انوار العلوم ملتان کا کوئی سالانہ جلسہ منعقد نہ ہواور دستار بندی کا پروگرام ترک کر دیاجائے تو کوئی بریلوی کاظمی ابن کاظمی کو یہ نہیں کہے گا کہ جناب آپ یہ جلسہ اور یہ دستار بندی کا پروگرام ترک کر کے دشمن دین، دشمن اسلام ، دشمن خدا و رسول بن گئے ہو۔

ہاں جو جماعت تمہاری طرح عید میلاد نہیں مناتی جلوس نہیں نکالتی جلوس میں شامل نہیں ہوتی وہ تمہارے نزدیک دشمن دین دشمن رسول، دشمن میلاد و دشمن اسلام ہے۔

بالفرض مدرسہ انوار العلوم کے اساتذہ اور طلباء و منتظمین ایک سال عید میلاد النبی نہ منائیں اور اس کے جلسہ و جلوس میں شریک نہ ہوں۔ حضرت کاظمی بن کاظمی اس میں شرکت نہ فرمائیں تو لوگ کہنا شروع کر دیں گے کہ دال میں کالا کالا ہے کوئی کہے گا یہ کہ روش اہل سنت کی نہیں ہے کوئی کہے گا کہ یہ طریق محبت رسول کے خلاف ہے کوئی کہے گا کہ کاظمی ابن کاظمی نے دشمن رسول والا کردار ادا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ فرق ہے میلاد کے جلسے و جلوس میں اور انوار العلوم کے سالانہ جلسہ و دستار بندی کے پروگرام میں۔ گویا انوار العلوم کے سالانہ جلسے اور دستار بندیاں یہ صرف مدرسہ کی کارکردگی دکھانے اور تعاون حاصل کرنے کیلئے منعقد کئے جاتے ہیں مگر میلاد النبی کے جلسے اور جلوسوں میں یہ بات نہیں ہوتی اس کو تو نمازو روزہ حج و زکوٰۃ والی حیثیت یا اس سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

تو ہمارے جلسوں کانفرنسوں، تمہارے جلسوں کانفرنسوں اور میلاد النبی کے جلسوں جلوسوں میں فرق واضح ہو گیا کہ تم اور ہم جلسے کانفرنسوں ، دستار بندیوں کو دین اسلام کا جز نہیں سمجھتے مگر تم میلاد کے جلسوں و جلوسوں جشنوں کے منانے کو جزء اسلام سمجھتے ہو۔ انوار العلوم کے سالانہ جلسہ پر اگر کوئی نہ جائے تو کوئی اعتراض نہیں مگر انوار العلوم کے میلاد النبی کے جلسہ جلوس میں اگر کوئی میلادی نہ جائے تو اعتراض ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جن دیوبندی غیر مقلد مولویوں نے میلاد شریف منایا

سعیدی: (تنبیہ دوم): جن دیوبندی غیر مقلد مولویوں نے میلاد شریف منایا یا اس کو جائز قرار دیا اور اس کے منانے کا حکم دیا ہے وہ بدعتی گمراہ ہوئے یا نہیں۔ اگر وہ گمراہ نہیں تو اہل سنت مسلمانوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم پلک جھپکنے سے پہلے ان پر ضلالت و بدعت وغیرہ کا فتویٰ لگا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہو (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۹)

محمدی
اول: ہمارے کسی اہلحدیث نے جشن میلاد نہیں منایا اور نہ ایسے میلاد کو جائز قرار دیا ہے اور نہ اس کے منانے کا حکم دیا ہے لہٰذا وہ نہ بدعتی ہوئے اور نہ گمراہ بلکہ انہوں نے تو صاف صاف کہا ہے کہ مجرد ذکر ولادت شریف سن کر رہنا، دہر میں بیٹھ کر خوش ہو لینا اور پیروی کی فکر نہ کرنا بلکہ بدعات منکرات میں آلودہ رہنا کچھ مفید نہ ہو گا بلکہ سبب ہلاکت ٹھہرے گا۔ ایسی فرحت خشک ہرگز مصدق دعویٰ محبت خدا و رسول نہیں ہو سکتی الخ (الشمامۃ العنبریہ ص:۱۰۴) دلیل الطالب کی عبارت پہلے گزر چکی ہے کہ نواب صدیق حسن کے نزدیک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم رسمی طور پر منانا بے ثبوت ہے ہمیں اس کا ثبوت نہ کتاب اللہ سے اور نہ سنت رسول اللہ سے نہ قیاس سے نہ استدلال سے ملا بلکہ سب متفق ہیں کہ یہ عمل مولد خیر القرون کے کسی زمانہ میں نہیں تھا اور ان کا اجماع ہے کہ عمل مولد کا اختراع کرنے والا سلطان مظفر کو کبری حاکم اربل ہے جو ۷۰۰میں تھا اور کسی مسلمان کو اس کے بدعت ہونے میں انکار نہیں (دلیل المطالب ص:۴۰۶)

دوم: تمہارے بڑے بڑے بزرگ جنہوں نے جشن میلاد نہیں منایا اور نہ ایسے جلوسوں میں شرکت کی، کیا وہ بھی دشمن رسول ، دشمن میلاد تھے؟ اگر وہ دشمن رسول ، دشمن میلاد نہیں تھے تو اہلحدیث (جو حقیقی اہل سنت ہیں) مسلمانوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم پلک جھپکنے سے پہلے ان پر دشمن رسول دشمن میلاد کا فتویٰ لگا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جلالپور پیر والہ میں عید میلاد النبی کے جلوس کی ابتداء

ہمارے جلالپور پیروالہ میں حضرت حافظ صاحب کی مشہور گدی چلی آ رہی ہے جن کا نام حافظ فتح محمد صاحب تھا، انہوں نے بھی میلاد نہیں منایا اور نہ انہوں نے جلوس نکالا اور نہ انہوں نے میلاد کے جلوس کی قیادت کی، وہ فوت ہو گئے اور ان کے پہلے گدی نشین میاں سعید احمد صاحب کو میں نے دیکھا تھا ان کے زمانہ میں جلالپور پیر والہ میں نہ میلاد ہوتا تھا اور نہ جشن میلاد کا جلوس نکالا جاتا تھا اور نہ جلوس میں شرکت کر کے جلوس کی قیادت کرتے تھے ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے گدی نشین جناب میاں فتح محمد صاحب قادری جو حال موجود ہیں ان کو گدی نشینی سنبھالنے کے بعد کئی سالوں تک دیکھا نہ تو انہوں نے جلالپور پیر والہ میں میلاد منایا اور نہ جلوس نکالا اور نہ کسی ایسے جلوس کی قیادت کی۔ جلالپورپیر والہ کی تاریخ میں پہلے پہل جس نے میلاد منایا اور جلوس نکالا اور اس کی اول اول قیادت کی وہ تھے حکیم محمد ابراہیم بریلوی صاحب (جواب فوت ہو چکے ہیں) جن کی مسجد شریف، حافظ فتح محمد صاحب کی مسجد کے تھوڑا آگے بجانب مشرق گلی میں واقع ہے جو مسجد حکیم صاحب والی مشہور ہے۔ یہ حکیم صاحب بچوں کو ناظرہ قرآنِ مجید پڑھاتے تھے انہوں نے میلاد کا پہلا جلوس جب نکالا ، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب میں مدرسہ دار الحدیث محمدیہ واقعہ جامع مسجد اہلحدیث جہانشاہ والی جلالپور پیروالہ محلہ خواجگان ،میں پڑھتا تھا تو میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب مذکور بیس پچیس طلباء کے آگے میلاد کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے مسجد اہلحدیث مذکور کے سامنے سے نعرہ بازی کرتے ہوئے گزرے، اس میں نہ میاں فتح محمد صاحب قادری تھے اور نہ ان کے چھوٹے بھائی جناب میاں بشیر احمد قادری اور نہ کوئی دوسرا بریلوی جماعت کا مذہبی آدمی شریک جلوس نظر آیا۔ صرف حکیم مذکور آگے آگے اور بیس تیس طلباء ان کے پیچھے پیچھے تھے یہ جلوس مرکزی جامع مسجد اہلحدیث سے گزر گیا۔
 
Top