• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موبائل کمپنی کے لون (سود) کو حنفی بریلوی نے جائز قرار دے دیا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
موبائل کمپنی کے لون (سود) کو حنفی بریلوی نے جائز قرار دے دیا !!!

موبائل کمپنی جو خود لون[قرض] کے نام سے لوگوں کو پیسے دے رہی ہے حنفی بریلوی نے اس لون[قرض] کو لون[قرض] ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی نفس کی خاطر سود کو سروس چارج کے نام سے جائز قرار دے دیا .حنفی بریلوی نے بھی وہ ہی فتوی دیا جو سودی نظام کے ہامی افراد سود کو جائز کرنے کے لے کہانیاں بناتے ہیں۔

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
نقد، قسطوں اور ادھار پر خریدی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں فرق تو جائز ہے۔ جیسے اگر کوئی دکاندار ایک مشین نقد سو روپے کی فروخت کرے، قسطوں پر ایک سو دس روپے کی اور مطلقاً ادھار پر ایک سو بیس روپے کی تو یہ جائز ہے۔ (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں)

خریداری صرف اشیاء کی نہیں بلکہ خدمات (سروسز) کی بھی ہوتی ہیں۔ جیسے ایک مزدور اپنی خدمات فروخت کرتا ہے۔ بیع کے مندرجہ بالا اصول پر وہ بھی اپنی سروسز کے مختلف ریٹ مقرر کرسکتا ہے۔ جیسے اگر روز کے روز مزدوری کی اجرت سو روپے مقررہو۔ لیکن اگر مزدوری کرانے والا یہ کہے کہ میں تمہاری اجرت ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو مزدور اپنی یومیہ مزدوری کی اجرت ایک سو دس روپے روزانہ طلب کرسکتا ہے (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔

موبائل کمپنی سے ہم ”ٹاک ٹائم“ خریدتے ہیں۔ مثلاً ہم دس روپے دے کر دس منٹ بات کرنے کا ٹائم ”نقد“ خریدتے ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس نقدی نہ ہو اور موبائل کمپنی ہمیں ” ٹاک ٹائم“ ادھار فروخت کرے تو وہ دس منٹ کی قیمت ساڑھے دس روپے یا اس سے زائد بھی لے سکتی ہے۔ (پیشگی طے کر کے)

واضح رہے کہ سود کا اطلاق ”یکساں شئے“ کے تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے تبادلہ پر نہیں۔ جیسے ایک کلو کھجور کے بدلہ سوا کلو کھجور لینا۔ سو روپے کرنسی نوٹ کے بدلہ ایک سو دس روپے کرنسی نوٹ لینا یہ سب سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک کلو گوشت کے بدلہ دو کلو گندم لینا، ایک گرام سونے کے بدلہ دس گرام چاندی لینا یا ایک ڈالر کے نوٹ کے بدلہ میں سو روپے کے نوٹ لینا سود نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نقد، قسطوں اور ادھار پر خریدی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں فرق تو جائز ہے۔ جیسے اگر کوئی دکاندار ایک مشین نقد سو روپے کی فروخت کرے، قسطوں پر ایک سو دس روپے کی اور مطلقاً ادھار پر ایک سو بیس روپے کی تو یہ جائز ہے۔ (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں)

خریداری صرف اشیاء کی نہیں بلکہ خدمات (سروسز) کی بھی ہوتی ہیں۔ جیسے ایک مزدور اپنی خدمات فروخت کرتا ہے۔ بیع کے مندرجہ بالا اصول پر وہ بھی اپنی سروسز کے مختلف ریٹ مقرر کرسکتا ہے۔ جیسے اگر روز کے روز مزدوری کی اجرت سو روپے مقررہو۔ لیکن اگر مزدوری کرانے والا یہ کہے کہ میں تمہاری اجرت ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو مزدور اپنی یومیہ مزدوری کی اجرت ایک سو دس روپے روزانہ طلب کرسکتا ہے (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔

موبائل کمپنی سے ہم ”ٹاک ٹائم“ خریدتے ہیں۔ مثلاً ہم دس روپے دے کر دس منٹ بات کرنے کا ٹائم ”نقد“ خریدتے ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس نقدی نہ ہو اور موبائل کمپنی ہمیں ” ٹاک ٹائم“ ادھار فروخت کرے تو وہ دس منٹ کی قیمت ساڑھے دس روپے یا اس سے زائد بھی لے سکتی ہے۔ (پیشگی طے کر کے)

واضح رہے کہ سود کا اطلاق ”یکساں شئے“ کے تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے تبادلہ پر نہیں۔ جیسے ایک کلو کھجور کے بدلہ سوا کلو کھجور لینا۔ سو روپے کرنسی نوٹ کے بدلہ ایک سو دس روپے کرنسی نوٹ لینا یہ سب سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک کلو گوشت کے بدلہ دو کلو گندم لینا، ایک گرام سونے کے بدلہ دس گرام چاندی لینا یا ایک ڈالر کے نوٹ کے بدلہ میں سو روپے کے نوٹ لینا سود نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات


 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
صورت مسئولہ میں اسی قسم کا کاروبار ہے، مختلف موبائل کمپنیاں اپنا کاروبار چمکانے کیلئے اس طرح کی سہولیات صارفین کو دیتی ہیں۔ مثلاً:
٭ جاز کمپنی 10 روپے کا بیلنس دے کر 13.20 روپے کاٹتی ہے۔
٭ یوفون کمپنی 30 روپے دے کر 34 روپے واپس لیتی ہے۔
٭ ٹیلی نار والے 40 روپے دے کر 45.12 روپے وصول کرتے ہیں۔اور اسے سروس چارجز کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق یہ سود ہے
یہاں لفظ ”بیلنس“ غلط العوام ہے۔ موبائل کمپنیاں ”10 روپے کا بیلنس“ نہیں دیتیں ہیں۔ موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو پیسے نہیں دیتیں۔ ان کا کام صارفین سے پیسے لینا ہے، پیسے دینا نہیں۔ وہ اپنی ”سروسز“ یا ”ٹالک ٹائم“ فروخت کرتی ہیں، اور عوام سے پیسے لیتی ہیں۔ اکثر نقد اور کبھی کبھار ادھار۔

مفتیان کرام کو جب مسئلہ درست طریقے سے پیش ہی نہ کیا جائے تو درست جواب کیسے ملے گا؟

علمائے کرام سے گذارش ہے کہ وہ ذیل کے بیانات کی شریعت کی روشنی میں تصدیق یا تردید کریں:
  1. مصنوعات کی نقد قیمت کم اورقسطوں یا ادھار خریداری کی قیمت زیادہ لینا جائز ہے۔ (پیشگی بتلا کر) ۔۔ درست یا غلط
  2. مصنوعات کی طرح خدمات (سروسز) کی اجرت بھی، نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ لی جاسکتی ہے۔ (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔۔ درست یا غلط
  3. سود کا اطلاق "یکساں شئے" کے باہمی تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے باہمی تبادلہ پر نہیں۔ ۔۔ درست یا غلط
  4. موبائل کمپنی سے ہم بالعموم نقد "ٹاک ٹائم" مقررہ قیمت پر خریدتے ہیں۔ یہی ٹاک ٹائم ہم جب کبھی ادھار خریدتے ہیں، تو زائد ریٹ پر خریدتے ہیں۔ (نقد اور ادھار، دونوں کا ریٹ طے شدہ اور دونوں فریقوں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے)۔ جائز یا ناجائز
انس
خضر حیات
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
پس تحریر: میرا موبائل کمپنی بزنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میں موبائل کمپنیز سے کبھی ادھار ٹاک ٹائم خریدتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بخوبی معلوم ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت ایسا کرتی ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ پر حرمت کا فتویٰ دینے سے پہلے زیر بحث بزنس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ تاکہ متضاد فتاویٰ نوجوانوں کو کنفیوز اور دین سے مزید دور نہ کرنے کا سبب نہ بنے۔ ہمارے نوجوان ویسے ہی علمائے کرام کے ”عجیب و غریب فتووں“ سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔

جیسے آج کل علماء کا ایک گروپ ”صرف جیو ٹی وی“ دیکھنا حرام قرار دے رہا ہے۔ گویا ان کے نزدیک بقیہ چینلز دیکھنا جائز ہے۔ جبکہ دوسرا گروپ اس فتویٰ کی مخالفت کر رہا ہے۔ کرنٹ ایشوز پر فتویٰ سازی ایک نہایت نازک مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے انفرادی فتووں کی بجائے کوئی اجتماعی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
زیر بحث مسئلہ میں یوسف ثانی صاحب نے جو وضاحت پیش کی ہے ، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا ۔
لیکن دوسری طرف اس کے سود ہونے کی رائے محترم شیخ رفیق طاھر صاحب کی ہے ۔ جوکہ ماشاءاللہ پختہ عالم دین ہیں وہ اپنی بات کی بہترین وضاحت اور دفاع کرسکتے ہیں ۔
ہم اسی جگہ جہاں ان کا فتوی لگایا گیا ہے ، ان کی طرف سے وضاحت کے منتظر ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یوسف ثانی بھائی ھم سب دین کے طالب علم ہیں لہذا اس مسلے میں علماء کرام کیا کہتے ہیں ھمیں اس کو دیکھنا چاھیے - کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرے ایک جاننے والے(سکائی لینڈ واٹر پارک کا مالک )نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ میزان بینک والے مجھے بزنس بڑھانے کے لئے کسی اسلامی طریقے سے لون دینا چاہتے ہیں تو مآپ ذرا میرے ساتھ انکے پاس جا کر انکے دلائل پوچھ کر بتا دیں پھر ہم میکڈونلڈ کے ساتھ انکی مین برانچ میں گئے تو انکے دلائل سے یہی پتا چلا کہ یہ سارا کھیل اللہ کو دھوکا دینے کے لئے بنایا گیا ہے مثلا گاڑی کی لیزنگ میں انھوں نے دلائل دئے تو میں نے قسطیں نکالنے کا طریقہ پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ تو ہم باقی بینکوں کو دیکھ کر اور اپنا IRR یعنی Internal rate of return دیکھ کر نکالتے ہیں یعنی یخادعون اللہ والذین امنوا والی بات- جیسے یہودیوں نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے کیا تھا-خیر انکے دلائل کے رد کی تفصیل پھر کبھی- ابھی انکی سوچ بتانی تھی- یہی سوچ اگر اس موبائل لون میں سروس چارجز کی اصطلاح میں بھی پائی جائے تو پھر یہ ناجائز ہے ورنہ درست- یعنی قانون کی اصطلاح میں حقیقت کو جاننے کے لئے ہمیں Lifting the corporate veil کا کام کرنا ہو گا یعنی حیلہ کے پیچھے اصل صورت حال دیکھنا ہو گی کہ کیا واقعی انکی سروس کاسٹ آ رہی ہے جس پر وہ سروس چارجز لے رہے ہیں جو وہ اور موقعوں پر بھی ایسے ہی لیتے ہیں

یہاں لفظ ”بیلنس“ غلط العوام ہے۔ موبائل کمپنیاں ”10 روپے کا بیلنس“ نہیں دیتیں ہیں۔ موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو پیسے نہیں دیتیں۔ ان کا کام صارفین سے پیسے لینا ہے، پیسے دینا نہیں۔ وہ اپنی ”سروسز“ یا ”ٹالک ٹائم“ فروخت کرتی ہیں، اور عوام سے پیسے لیتی ہیں۔ اکثر نقد اور کبھی کبھار ادھار۔
میرے خیال میں ایسا نہیں جیسا آپ سوچ رہے ہیں بلکہ اس طرح کچھ اہل علم اس فرق کو بھی سود ہی مانتے ہیں (میرا موقف بھی انہیں کے ساتھ ہے)
میرا برادر ان لاء یوفون کے مین آفس اسلام آباد میں فراڈ وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے سافٹ وئیر ماہر ہے اس سے معلومات لی ہیں تو بتایا ہے کہ ہم یہ صرف سروس چارجز لیتے ہیں اور اسکے اوپر کوئی IRR کا اطلاق وہ نہیں کرتے میں نے پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے مگر کیا واقعی اسکے پیچھے آپ کی سروس کاسٹ بھی کوئی آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آپ یہ سب لے رہے ہوتے ہیں
تو اس نے کہا کہ ہاں اسی طرح ہم RBT چارجز وغیرہ بھی لیتے ہیں اور یہ ساری سروسز (بشمول یو لون) کو ہم نے آؤٹ سورس کروایا ہوتا ہے یعنی باہر سے کمپنی کو اسکا ٹھیکہ دیا ہوتا ہے پس انکو اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں جسکی وجہ سے ہم چارجز لیتے ہیں اس میں دنوں کا لحاظ ہم نہیں رکھتے
پس اگر واقعی ایسا ہے تو اس سے سود کا حکم ختم ہو سکتا ہے البتہ شبہ ہونے کی وجہ سے بچنا افضل ہی رہے گا (یہ تب ہو گا جب اوپر والی معلومات درست ہوں) واللہ اعلم
یہ ہماری طرف سے معلومات تھیں جن کو راسخ العلم علماء دیکھ کر حقیقت بتا سکتے ہیں
مصنوعات کی نقد قیمت کم اورقسطوں یا ادھار خریداری کی قیمت زیادہ لینا جائز ہے۔ (پیشگی بتلا کر) ۔۔ درست یا غلط
اس میں اختلاف ہے میرے نزدیک غلط

مصنوعات کی طرح خدمات (سروسز) کی اجرت بھی، نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ لی جاسکتی ہے۔ (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔۔ درست یا غلط
واللہ اعلم

سود کا اطلاق "یکساں شئے" کے باہمی تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے باہمی تبادلہ پر نہیں۔ ۔۔ درست یا غلط
موبائل کمپنی سے ہم بالعموم نقد "ٹاک ٹائم" مقررہ قیمت پر خریدتے ہیں۔ یہی ٹاک ٹائم ہم جب کبھی ادھار خریدتے ہیں، تو زائد ریٹ پر خریدتے ہیں۔ (نقد اور ادھار، دونوں کا ریٹ طے شدہ اور دونوں فریقوں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے)۔ جائز یا ناجائز
خالی جنس ایک ہونے نہ ہونے کی بات نہیں ہوتی بلکہ نقد اور ادھار کو بھی دیکھا جاتا ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
Top