• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت کی اطلاع کیسے لکھیں ؟

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
موت وحیات کا مالک اللہ ہے ۔ انسان وقت پر ہی مرتا ہے ۔ وقت سے پہلے کسی کی موت نہیں آتی ۔ کسی کی آہی نہیں سکتی اور جس کے مرنے کا وقت آ جائے تو ٹل ہی نہیں سکتی ۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی اختیار کام نہیں کرتا ، کربھی نہیں سکتا ۔ اب آئیے موت کی اطلاع دینے سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جائیں ؛
1۔ عام طور سے موت کی اطلاع لکھتے ہوئے ہم مرنے والے کا نام بعد میں اور میت کے کسی مشہور قریبی رشتہ دار کا نام پہلے لکھتے ہیں ۔ اس سے التباس کا خطرہ رہتا ہے ۔ پہلے مرنے والے کا نام لکھیے اور پھر لکھیے کہ وہ فلاں صاحب کے فلاں تھے اس لیے کہ موت کی اطلاع پڑھتے ہی کوئی بھی انسان تھوڑی گھبراہٹ اور جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں پوری اطلاع پڑھنے سے قبل پہلے جملے سے ہی مفہوم نکال لیتا ہے ۔ مثلا اس طرح لکھا جانا چاہیے ' زید کا انتقال ہوگیا ، وہ مشہور ادیب بکر کے بڑے بھائی تھے " ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے کرم فرما مولانا ابونصر ندوی کے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا تھا ، تب ابونصر صاحب جامعہ امام ابن تیمیہ میں تھے اور ہم بھی وہیں تھے ۔ ہم نے اس کی اطلاع اپنے ایک سینيئر دوست کو لکھ کر دی اور انہوں نے اسے قومی تنظیم میں چھپوادیا ۔ دوسرے دن جب " انتقال پرملال " چھپ کر آیا تو ہم خوش تھے کہ مولانا ضرور دعائیں دیں گے لیکن وہ تو ناراض ہوگئے اور پھر سمجھایا کہ موت کی اطلاع کیسے دی جاتی ہے ۔ وہاں بھی ہم نے وہی غلطی کی تھی کہ پہلے مولانا ابونصرندوی کا ہی نام لکھا تھا یعنی اطلاع کچھ اس طرح تھی " مجلہ طوبی کے معاون مدیر جناب ابونصر ندوی کے بھائی ابوظفر صاحب انتقال کرگئے "
2۔ موت کی اطلاع دیتے ہوئے القاب وآداب کے اظہار میں انصاف کا دامن نہيں چھوڑنا چاہیے ۔ مرنے والوں سے ہمدردی بہت فطری ہے لیکن پھر بھی انصاف بہر صورت ہر جگہ مطلوب ہے ۔ ایسےالقاب وآداب تو بالکل استعمال نہ کیے جائیں جن سے شخصیت کی تعریف کی بجائے استہزاء کی کیفیت پیدا ہوتی ہو ۔
3 ۔ ہم مسلمان ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر شخص اپنے وقت پر ہی مرتا ہے ۔ بے وقت کوئی مرہی نہیں سکتا ۔ ہندی اور انگریزی والوں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دھڑ لے سے ایسے جملے استعمال کرنے لگے ہیں ۔ افسوس اس کا ہے کہ اس استعمال کے بعض علما بھی شکار نظر آتے ہیں ۔
اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔
ساگر تیمی کی وال سے
 
Top