• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت کے وقت ایسی علامات جو انسان کے اچھے یا برے ہونے پر دلالت کرتی ہیں

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ اسحاق سلفی

https://islamqa.info/ur/184737

اس لنک میں الشیخ محمد صالح المنجد نے لکھا ہے

(البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں)


شیخ اسحاق سلفی مجھے وہ روایت درکار ہیں جس میں ایسی علامات کا ذکر ہو۔
Screenshot_2016-06-23-18-15-23.png
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مجھے وہ روایت درکار ہیں جس میں ایسی علامات کا ذکر ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حسن خاتمہ :
کا مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ کی موت سے پہلے اسے رضائے الہی کیلئے اطاعت نیک اعمال ،اور توبہ کی توفیق میسر آتی ہے ۔
جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے :
سنن الترمذی میں ہے:
عن أنس قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا أراد الله بعبد خيرا استعمله " فقيل:‏‏‏‏ كيف يستعمله يا رسول الله؟ قال:‏‏‏‏ " يوفقه لعمل صالح قبل الموت " قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.
سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کام پر لگاتا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے کام پر لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (2 / 87) ، المشكاة (5288) ، الظلال (397 - 399)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مرنے والے کو اپنے حسن خاتمہ کا علم اس طرح ہوتا ہے :
(إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنة التي كنتم توعدون) فصلت: 30 ،
وهذه البشارة تكون للمؤمنين عند احتضارهم، وفي قبورهم، وعند بعثهم من قبورهم.
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔ (30)
اور فرشتوں کی طرف سے بشارت موت کے وقت ،اور قبر میں ،اور قبر اٹھنے کے وقت ہوتی ہے ؛
اس بات پر نبی اکرم ﷺ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے :
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ» قَالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ: إِنَّا لَنَكْرَهُ المَوْتَ، قَالَ: «لَيْسَ ذَاكِ، وَلَكِنَّ المُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ المَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللَّهِ وَكَرَامَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الكَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَعُقُوبَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ»
عبادہ بن صامت ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے ، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اور عائشہ ؓ یا نبی کریم ﷺ کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی نہیں پسند کرتے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے ، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہشمند ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے ، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے ۔ وہ اللہ سے جا ملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے ، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ‘‘ ( صحیح البخاری ۶۵۰۷ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسروں کیلئے مرنے والے کے حسن خاتمہ کی علامات
(۱) اس کو کلمہ پڑھنے کی توفیق ملتی ہے
أن رسول صلى الله عليه وسلم قال : (من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة) یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ وہ جنت میں جائے گا ۔۔۔رواه الحاكم وغيره
(۲) جو مومن جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ (وقال الالبانی(حسن)
(۳ ) موت کے وقت جبین پر پسینہ آنا
«المؤمن يموت بعرق الجبين» .
(صحيح الجامع الصغير وزياداته) [حم ت ن هـ ك] عن بريدة. المشكاة 1610، أحكام الجنائز ص 35

اسی طرح کچھ مواقع اور مخصوص حالتوں میں موت بھی حسن خاتمہ کی علامت ہوگی
جہاد کے دوران موت ، طاعون سے یا غرق ہونے والے کی موت ،زچگی کے دوران عورت کی موت ، وغیرہ صورتیں؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں)
شیخ المنجد کی اصل عبارت درج ذیل ہے :

أما بعد الموت : فليس هناك من العلامات ما يمكن الاستدلال به على صلاح العبد وتقواه ، وقد يستأنس بما قد يظهر أحيانا على الميت من ابيضاض وجهه ، أو إشراقه بابتسامة رقيقة ، ونحو ذلك إذا كان معروفا في حياته بالصلاح ، إلا أن مثل ذلك لا يكون على سبيل القطع والجزم .
فإذا كان العبد معروفا بالصلاح والتقوى في حياته ، ثم أشرق وجهه وابيض بعد موته كان ذلك مما يستبشر به ويستأنس .
كما أن حسن ثناء الناس عليه بعد موته ودعائهم له من علامات صلاحه ، وكذا حسن الصحبة التي كان عليها في حياته هي من علامات صلاحه .

لیکن موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت موجود نہیں ہے جس سے بندے کے صالح اور متقی ہونے کی دلیل لی جائے ،ہاں البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، یہ بات واضح رہے کہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔
انتہی ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی نشست میں اس سوال پر علامہ البانی کی تحقیق پیش کروں گا ان شاء اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ احکام الجنائز میں لکھتے ہیں :
علامہ البانی احکام الجنائز میں لکھتے ہیں
(8) علامات حسن الخاتمة
( حسن خاتمہ کی علامات )
25 - ثم إن الشارع الحكيم قد جعل علامات بينات يستدل بها على حسن الخاتمة.- كتبها الله تعالى لنا بفضله ومنه - فأيما امرئ مات بإحداها كانت بشارة له، ويا لها من بشارة.
شارع حکیم نے کچھ ایسی نشانیاں بتائی ہیں ، جن کو دیکھ کر مرنے والے کے اچھے خاتمہ پر استدلال کیا جا سکتا ہے،(اللہ اپنے فضل واحسان سے ہمیں بھی وہ نشانیاں عطا فرمائے ) جو بھی ان درج ذیل علامتوں کے ساتھ موت کا پیالہ پیئے ،اس کیلئے حسن خاتمہ کی بشارت ہوگی ،
الأولى: نطقه بالشهادة عند الموت وفيه أحاديث:
1 - " من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة". أخرجه الحاكم وغيره بسند حسن عن معاذ.
وله شاهد من حديث أبي هريرة تقدم في " اللقين " فقرة (أ) ص 10

حسن خاتمہ کی پہلی نشانی موت کے وقت زبان سے کلمہ شہادت پڑھنا،
جیسا کہ امام حاکم وغیرہ نے بسند حسن حدیث معاذ بن جبل ؓ نقل کی ہے کہ : جس کا آخری کلام ۔۔لا الہ الا اللہ ۔۔ہو وہ جنت میں جائے گا ؛
اس پر دوسری حدیث درج ذیل ہے :
2 - عن طلحة بن عبيد الله رضي الله عنه قال: " رأى عمر طلحة بن عبيد الله ثقيلا، فقال: مالك يا أبا فلان؟ لعلك ساءتك امرأة عمك يا أبا فلان؟ قال: لا - (وأثنى على أبي بكر) إلا أني سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا ما منعني أن أسأله عنه إلا القدرة عليه حتى مات، سمعته يقول: إني لاعلم كلمة لا يقولها عبد عند موته إلا أشرق لها لونه، ونفس الله عنه كربته، قال: فقال عمر: إني لاعلم ماهي! قال: وما هي؟ قال: تعلم كلمة أعظم من كلمة أمر بها عمه عند الموت: لا إله الله؟ قال طلحة: صدقت، هي والله هي ".
أخرجه الامام أحمد (رقم 1384) وإسناده صحيح، وابن حبان (2) بنحوه، والحاكم (1/ 350، 351) والزيادة له، وقال " صحيح على شرطهما " ووافقه الذهبي.
سیدنا عمرؓ نے جناب طلحہ بن عبید اللہ کو بوجھل طبیعت دیکھ کر پوچھا اے ابو فلاں ! شاید آپ کو اپنے چچا زاد کی امارت پسند نہیں آئی ؟
وہ کہنے لگے ،نہیں اللہ جانتا ہے ایسا نہیں ،پھر جناب ابوبکر کی تعریف کی ،اور کہنے لگے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی ،
اس کے متعلق میں ان سے سوال کرنا چاہتا تھا لیکن انکی موت نے مہلت ہی دی ،میں ان سے سنا تھا کہ ایک کلمہ ہے جو بندہ اپنی موت کے وقت اگر کہہ لے ،تو اسے نور عطا ہوتا ہے ،اور اللہ اس کی ساری تکلیفیں دور فرمادیتا ہے ، یہ سن کر سیدنا عمر نے کہا میں جانتا ہوں وہ کون ساکلمہ ہے،
طلحہ کہنے لگے وہ کون سا کلمہ ہے ؟ جناب عمر نے کہا یہ وہ عظیم کلمہ ہے جو آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو انکی موت کے وقت پڑھنےکو کہا تھا
یعنی ۔۔لا الہ الا اللہ ۔۔سیدنا طلحہ نے کہا آپ نے درست فرمایا یہی وہ کلمہ ہے (جو موت کے وقت کہنے والے کو مفید ہوتا ہے )
وفي الباب أحاديث ذكرت في " التلقين ".
الثانية: الموت برشح الحبين، لحديث بريدة بن الخصيب رضي الله عنه: " أنه كان بخراسان، فعاد أخا له وهو مريض، فوجده بالموت، وإذا هو بعرق جبينه، فقال: الله أكبر، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: موت المؤمن بعرق الجبين ".
أخرجه أحمد (5/ 357، 360) والسياق له، والنسائي (1/ 259) والترمذي (2/ 128) وحسنه، وابن ماجه (1/ 443 - 444) وابن حبان (730) والحاكم (1/ 761) والطيالسي (808) وقال الحاكم: " صحيح عل شرط مسلم " ووافقه الذهبي! وفيه نظر لا مجال لذكره هنا، لا سيما وأن أحد إسنادي النسائي صحيح على شرط البخاري.

علامہ البانی فرماتے ہیں :
اس باب میں اور احادیث ہیں جو تلقین کے ضمن میں مذکور ہیں ،
اور دوسری نشانی حسن خاتمہ کی یہ ہے کہ موت کے وقت جبین پر پسینہ آئے ،جیسا کہ حدیث بریدہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ وہ خراسان میں اپنے ایک بھائی کی عیادت کو گئے ،وہاں جاکر دیکھا کہ موت کے سیاق میں ہیں ،اور انکی جبین پر پسینہ نکل رہا ہے ،یہ دیکھ کر بریدہ نے کہا ۔۔اللہ اکبر۔۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ موت کی وقت اسکی جبین پر پسینہ آتا ہے ‘‘
وله شاهد من حديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه.
رواه الطبراني في " الاوسط " و " الكبير " ورجاله ثقات رجال الصحيح، كما في " المجمع " (2/ 325).

اس کا ایک شاہد طبرانی میں سیدنا عبد اللہ کی حدیث بھی ہے جس کے رواۃ ثقہ ہیں ،
الثالثة: الموت ليلة الجمعة أو نهارها، لقوله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلم يموت يوم الجمعة، أليلة الجمعة، إلا وقاه الله فتنة القبر ".
أخرجه أحمد (6582 - 6646) من طريقين عن عبد الله بن عمرو، والترمذي من أحد الوجهين، وله شواهد عن أنس وجابر بن عبد الله، وغيرهما، فالحديث بمجموع طرقه حسن أو صحيح (1).
حسن خاتمہ کی تیسری نشانی یہ کہ مومن کو جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن موت آئے ،جیسا کہ
رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ہے :جو مسلم جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن فوت ہوا ،اللہ اس کو فتنہ قبر سے محفوظ رکھے گا ‘‘
اور حسن خاتمہ کی چوتھی نشانی یہ کہ شہادت کی موت نصیب ہو جیسا درج ذیل دلائل سے ثابت ہے ؛
الرابعة: الاستشهاد في ساحة القتال، قال الله تعالى: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (169) فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (170) يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ (171)} [آل عمران: 169 - 171]
وفي ذلك أحاديث:
1 - " للشهيد عند الله ست خصال: يغفر له في أول دفعة من دمه، ويرى مقعده من الجنة، ويجار من عذاب القبر، ويأمن الفزع الاكبر، ويحلى حلية الايمان، ويزوج من الحور العين، ويشفع في سبعين إنسانا من أقاربه ".
أخرجه الترمذي (3/ 17) وصححه، وابن ماجه (2/ 184) وأحمد (131) وإسناده صحيح، ثم أخرجه (4/ 200) من حديث عبادة بن الصامت ومن حديث قيس الجذامي (4/ 200) وإسنادهما صحيح أيضا.
2 - عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: " أن رجلا قال: يا رسول الله ما بال المؤمنين يفتنون في قبورهم إلا الشهيد؟ قال: كفى ببارقة السيوف على رأسه فتنة ".
رواه النسائي (1/ 289) وعنه القاسم السرقسطي في " الحديث " (2/ 165 / 1) وسنده صحيح.
(تنبيه): ترجى هذه الشهادة لمن سألها مخلصا من قلبه ولو لم يتيسر له الاستشهاد في المعركة، بدليل قوله صلى الله عليه وسلم: " من سأل الله الشهادة بصدق، بلغه الله منازل الشهداء وإن مات على فراشه ".
أخرجه مسلم (2/ 49) والبيهقي (9/ 169) عن أبي هريرة.
وله في " المستدرك " (2/ 77) شواهد.
__________
(1) راجع " تحفة الاحوذي "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اور میت کے چہرے پر تبسم
ایک عربی عالم لکھتے ہیں :
ليس هناك نص صحيح صريح ، بأن التبسم عند الموت من علامات حسن الخاتمة ، ولكن هذا يفهم من عدة نصوص ، فإن المحتضر إن كان من أهل السعادة ، فإنه يرى ملائكة الرحمة بيض الوجوه ، معهم أكفان من الجنة ، وحنوط من الجنة ، ثم يأتي ملك الموت فيجلس عند رأسه فيقول : أيتها النفس المطمئنة ، أخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان . رواه أحمد رقم (18534 ) عن البراء رضي الله عنه.
یعنی ایسی کوئی صریح نص تو موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ میت کے چہرے پر تبسم کا ہونا اس کے حسن خاتمہ کی علامت ہے ،تاہم
کچھ نصوص سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے ، ان میں ایک تو سیدنا براء کی طویل حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ اگر مرننے والا نیک آدمی ہو ،تو اس کےپاس رحمت کے فرشتے ،نورانی چہروں والے آتے ہیں ، ان کے پاس اس کیلئے جنت کا کفن ،اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے ، پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں ، اور اس کہتے ہیں : اے پاک جان ! آ نکل ،ہم تجھے رب کی مغفرت اور اس کی رضا میں لے جائیں ،
الی آخرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ سن کر مرنے والا تبسم کرتا ہو اور یہی تاثر اس کے چہرے پر موت کے بعد بھی باقی رہتا ہو تو اس کا امکان ہے ،
اسی طرح سیدنا طلحہ بن عبید اللہ کی حدیث میں وارد ہے کہ :
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إني لاعلم كلمة لا يقولها عبد عند موته إلا أشرق لها لونه، ونفس الله عنه كربته، رواہ احمد فی المسند
ایک کلمہ ہے جو بندہ اپنی موت کے وقت اگر کہہ لے ،تو اس کا رنگ چمکنے لگتا ہے ،اور اللہ اس کی ساری تکلیفیں دور فرمادیتا ہے ،
تو یہاں یہ جو فرمایا کہ اس کا رنگ چمکنے لگتا ہے ،ہوسکتا ہے چہرے کا کھلکھلانا مراد ہو ،یعنی مسکراہٹ والا ،
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
جزاک اللہ خیرا شیخ اسحاق سلفی
 
Top