• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موجودہ حکام اور انکے باطل نظام ایک خارجی کی عجیب وغریب بوکھلاہٹ

عمر سعد

مبتدی
شمولیت
جنوری 28، 2017
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
9
موجودہ حکام اور انکے باطل نظام
ایک خارجی کی عجیب وغریب بوکھلاہٹ

الشیخ ابو حذیفہ انصاری حفظہ اللہ
کچھ عرصہ قبل ایک خارجی فکر کے حامل شخص سے واسطہ پڑ گیا۔ میں اسے کافی پرانا جانتا تھا اور اکثر اوقات ہماری حکام، قتال، خروج جیسے موضوعات پر تفصیلی ابحاث بھی ہو چکی تھیں۔ اور ہر مرتبہ وہ مجھے آئندہ دلائل دکھانے کا کہہ کر مجلس کو سمیٹ دیتا۔ اس کے اس رویے پر میں بھی خوش تھا کہ بال ہر مرتبہ اسی کے کورٹ میں رہ جاتا ہے۔
لیکن اس مرتبہ جب واسطہ پڑا تو وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔

مجھے دیکھتے ہی کہتا : کہ جناب ، آج میں آپ کی سب سے بڑی مصروفیت ہوں، میں نے مسکرا کر ٹھیک ہے جناب۔
پھر اس نے بلا تاخیر و تمہید بحث کا انداز اختیار کر لیا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ جناب آپ کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور دیگر کتب احادیث میں امت مسلمہ کو، جن قسم کے حکام کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے اور جس دور کی طرف اشارہ کر کے رہنمائی کی گئی ، ہمیں ان سے ڈیلنگ کرتے ہوئے ، انہیں احادیث مبارکہ سے رہنمائی لینی چاہیئے۔
میں نے کہا : جی بالکل درست، متبع قرآن و سنت کو ایسا ہی زیب دیتا ہے۔

وہ خارجی فکر کا حامل شخص طنزاً مسکرا کر بولا : ارے جناب ، وہ تمام احادیث شرعی حاکم کے بارے میں ہیں!
یعنی کے خلیفہ المسلمین نہ کہ موجودہ بادشاہ و جمہوری (غیر شرعی) حکام کے بارے۔۔۔
وہ اپنے اس فہم پر بڑا خوش تھا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ جیسے میں ابھی اسکے موقف کے حق ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ، اسکا شکریہ ادا کروں گا کہ ، ہاں واقعی میں نے تو کبھی اس جانب سوچا ہی نہیں !
لیکن سبحان اللہ ، بے شک حق اللہ تعالی کے پاس ہے۔
میں نے اسے کہا : کہ برائے کرم مجھے شرعی حاکم کی تعریف زرا کھل کر سمجھا دیں؟

وہ خارجی فکر کا حامل شخص بڑے اطمینان سے گویا ہوا اور کہا:
ارے بھائی ، ایسا حاکم ، جو قرآن و سنت پر عامل ہو اور اپنی ریاست یا ملک میں اسے قائم کرنے والا ہو، اسے شرعی امیر یا حاکم کہتے ہیں، اور صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ یا دیگر کتب میں ایسے ہی حکام کے بارے میں آتا ہے کہ اگر وہ کبھی تم پر ظلم بھی کر بیٹھیں یا حق تلفی کریں یا کوڑے برسائیں تو ان پر صبر کرنا۔
اور جو قرآن و سنت اور شریعت کے خلاف یا علاوہ چلے وہ غیر شرعی حاکم ہے، اور یہ احادیث انکے بارے ہر گز نہیں !
سبحان اللہ، اس کی یہ تعریف اور تشریح سن کر میں مسکرانے سے نہ رک پایا۔
وہ میری مسکراہٹ سے تھوڑا سا گھبرایا اور بولا:
جناب، یہ ہنسی آپ کے منہ شیطان ڈال رہا ہے!
میں نے کہا : لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔(ویسے درحقیقت تھا ایسا ہی، کیونکہ مجھے خود اسی نے ہنسایا تھا)

بہرحال ، میں نے موضوع سے ہٹنے اور اس ذاتی وار کا جواب دینے کی بجائے، گفتگو کو آگے بڑھایا۔
میں نے اسے کہا : کہ او اللہ کے بندے کیا تو نے وہ احادیث پڑھی ہیں ؟؟؟

وہ کہتا : ہاں بالکل، کیا آپ صرف خود کو ہی اس قابل سمجھتے ہو!
میں نے کہا: جناب! ترش مزاجی کی ضرورت نہیں۔ مجھے آپ کی تشریح سے لگا کہ جیسے آپ نے وہ احادیث سرے سے دیکھی ہی نہیں ہیں!
وہ بولا کیا مطلب؟
میں نے کہا :کہ جناب ، نوٹ فرمالیں، جو تعریف آپ نے شرعی حاکم کی کیں ہیں ، وہاں موجود اکثراحادیث انکے بارے تو ہے ہی نہیں!
بلکہ آپ کی تعریف کے مطابق ، وہ تمام ‘‘غیر شرعی حکام‘‘ اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے پر وارد ہوئی ہیں؛
پھر میں نے اسے مختلف روایات کے اقتباسات دکھلائے:
1۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ»
ایک مسلمان پر سمع واطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے او نہ ماننا۔
(بخاری 7144، مسلم: 1839 الفاظ مسلم کے ہیں)
2۔ حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
(مسلم:1847)
3۔ علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»
سلمۃ بن یزید الجعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا:
اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔

(مسلم:1846)
4۔ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا:
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم:1854)
پھر میں نے کہا : کہ ان روایات میں جن حکام کا ذکر ہے، وہ آپ کی تعریف و تشریح کے مطابق غیر شرعی ہوئے، جبکہ اسلام کے مطابق وہ مسلمانوں کے حاکم ہی رہے اور انہی سے برتاو کے بارے اسلام نے باقاعدہ رہنمائی کی ہے۔
وہ اچانک پریشان ہوا، ہوتا بھی کیوں نا؟ اس کا خوشنماء فہم جل کر بھسم ہو چکا تھا۔
اس نے فورا اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملانے لگا۔
جب کسی نے آگے سے فون اٹھایا تو اس نے ایک ہی سانس ساری صورتحال سے آگاہ کیا ، جو ابھی ابھی اس پر بیتی!سبحان اللہ ، فون پر دوسری جانب موجود شخص بھی کوئی بلا شاطر خارجی تھا۔
اس نے اس موضوع پر یکسر پینترا بدلتے ہوئے اس خارجی فکر کے حامل شخص سے کہا کہ آپ ان سے کہو کہ حاکم چلیں جیسا بھی ٹھیک ہے، ہمیں اس کے ساتھ شریعت کے مطابق ہی چلنا چاہیے لیکن یہاں مسئلہ حاکم کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا نہیں ہے۔۔۔۔اور نہ ہی ہم اس بنیاد پر ان کی تکفیر اور ان سے جنگ کرتے ہیں، بلکہ ہماری لڑائی تو اس “باطل نظام ” کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے قائم کر رکھا ہے اور مسلط کر رکھا ہے۔ اور جتنی بھی احادیث ہیں وہ حکام کے بارے ہیں مگر نظام کا ان میں تذکرہ نہیں ہے!

سبحان اللہ !
جب اس شخص نے فون بند کر کے دوبارہ اپنی گھبراہٹ سنبھالتے ہوئے مجھ پر یہ سوالات داغے تو یقین کیجئے، اس مرتبہ میں مسکرایا نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ میرا تو قہقہ ہی نکل گیا۔

بہرحال ، میں نے مشکل خود کو قابو کرتے ہوئے اس سے التماس کی کہ چلیں مجھے یہ بتا دیں کہ باطل نظام کی تعریف کیا ہوتی ہے؟؟؟
وہ خارجی فکر کا شخص جھٹ سے بولا:
وہ نظام جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، کافروں کی خواہشات کے مطابق ہو وغیرہ وغیرہ
میں کہا : آپ کی تعریف تو ٹھیک ہے مگر آپ اور آپ کے فون پر موجود ‘‘ خفیہ شیخ‘‘ کی عقل لگتا ہے گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔

اتنے میں وہ غصے سے بولا کہ آپ ذاتیات پر حملے کی بجائے، اس بات کا جواب دیں۔
میں نے کہا : اللہ نے ہمیشہ حق کو ہر دور میں واضح کیا ہے، اور آج تم پر ان شاء اللہ میں بھی اپنے رب کی توفیق سے واضح کر دیتا ہوں۔
میں پھر وہی احادیث مبارکہ اس کو دکھائیں اور وہ مقامات دکھائے، جہاں باقاعدہ اسکے مطابق ‘‘غیر شرعی‘‘ حکمرانوں کے علاوہ اسی کی تعریفات کے عین مطابق باطل نظاموں کا بھی تذکرہ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ایک عام مسلم مومن کو حاکم سے کیسا برتاو رکھنا چاہیے، اس جانب خوب رہنمائی کی گئی ہے۔
میں نے اسے مذکورہ مقامات دکھلائے:

عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
(مسلم:1847)

قَالَ ﷺ : «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»
قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟

قَالَ ﷺ : «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»

آپﷺ نے فرمایا: ایسے لوگ (حاکم) پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟
آپﷺ نے فرمایا:

حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا سارا مال لے لے۔ پھر بھی تم اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔۔۔۔۔۔۔
(مسلم:1847)
3۔ ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا:
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم:1854)
میں نے کہا جناب ، اپنی آنکھیں اور دماغ کھول کر دیکھ لیں کہ رسول اللہ ﷺ ، جہاں حکام کے خود فاسق و فاجر اور ظالم ہونے کا بتلا رہے ہیں ، وہی انکے نظاموں کو بھی واضح فرما رہے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر دیگر نظاموں پر حکومتیں چلائیں گے۔ آپ ﷺ نے حتی کہ یہاں تک فرما دیا کہ ان کے دل شیطان کے ہوں گے، یعنی وہ شیطانی طریقہ کار اور نظاموں کو نہ صرف دلدادہ بلکہ انہیں مسلط بھی کریں گے۔
لہذا ، آپ کے دونوں ہی دعوے (حاکم غیر شرعی ہے پھر بعد میں نظام باطل ہے، اس لئے ہم انکی اطاعت سے نکلتے ، انکی تکفیر اور پھر خروج کرتے ہیں ) بے دلیل اور نفسانی خواہشات پر مبنی ہیں اور اسلام ان سے بری ہے۔
اور پھر میں نے اسے یہ رسالہ ” حکام وقت کی اطاعت احادیث نبویہ کی روشنی میں “ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، کہ جاؤ اور اسے پڑھو، زندگی رہی تو آئندہ ضرور ملاقات ہوگی۔اللہ حافظ

مضمون کا لنک: http://alfitan.com/2016/08/29/موجودہ-حکام-اور-انکے-باطل-نظام-ایک-خار/
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
اسلام و علیکم؛ شریعت کی حقیقت اور حکومتی نظام کے متعلق ایک مختصر مگر امید ہے دو جامع مضامین۔ مطالعہ کے بعد آرا٫ سے ضرور آگاہ فرمائیے گا۔ اس حاکم کے خلاف خروج کے مسئلہ کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں اگر انسان اپنی نیت کا اخلاص بر قرار رکھ سکے۔ خوارج صرف حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے علمبردار نہیں تھے مگر آج صرف خوارج کی صرف اسی صفت کو ہر ناپسندیدہ شخص پر چسپاں کر دیا جاتا ہے؛ جیسا کہ امریکہ ہر ناپسندیدہ شخص پر دہشت گرد ہونے کی صفت چسپاں کر دیتا ہے۔
 

اٹیچمنٹس

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@فرقان الدین احمد صاحب! آپ ہر تھریڈ میں اپنی تحریر کی فائل پیسٹ کر دیتے ہیں! اگر وہ تھریڈ سے متعلق ہے، تو اسے آپ یہاں یونیکوڈ میں پیش کیجئے!
اس حاکم کے خلاف خروج کے مسئلہ کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں اگر انسان اپنی نیت کا اخلاص بر قرار رکھ سکے۔
اور یہ خلافت و اقامت دین کا نعرہ لگانے والے اکثر شریعت کے قواعد و ضوابط سے اس قدر لا علم ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی خانہ ساز شریعت کے لئے متحرک ہیں!
آپ نے اپنی تحریروں میں سوال جواب کا انداز اپنایا ہے! اب وہ سوال آپ نے از خود قائم کیئے ہیں، یا کسی نے آپ سے کیئے ہیں، آپ ہی جانتے ہیں!
میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں!
یہ بتلایئے کہ امور حکومت کا تعلق امور معاملات سے ہے یا امور عبادات سے؟
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
تحریر اپ لوڈ کرنے کی وجہ صرف دوبارہ فارمیٹینگ دوبارہ کرنے کی تکلیف سے بچاو ہے۔ امید ہے آپ معاف فرمایئں گے۔

میں آپ کی بات سے متفق ہوں؛ مگر دوسری طرف دین کے لیے غیرت کھانے والوں کو بھی ایک ہی اصطلاح میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ہاتھ سے برائی نہ روکنے کی استطاعت کے باوجود اس کو زبان سے برا کہنا اور دل سے برا جاننا بھی دین ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک فاسق حکمران کے خلاف بھی خروج جائز ہے اگر اتنی طاقت ہو کہ کامیابی کا امکان ہو۔ اس طاقت کا پہلا جز دل میں مسئلہ کا ادراک اور پھر زبان سے اس کی تبلیغ؛ ورنہ تو ہماری مثال بنی اسرائیل کے اس عابد و زاہد کی سی ہوگی جس پر اللہ نے سب سے پہلے عذاب کا حکم دیا۔

یہ سوالات ان تمام مختلف تحریروں کا نچوڑ ہیں جو اس موضوع کے متعلق میرے ذاتی مطالعہ میں رہیں؛ میرا قطعی یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ حتمی ہیں مگر ان کے علاوہ اگر کوئی سوال آپ کے ذہن میں ہے تو فرمائیے۔

اور آپ کے آخری سوال کے جواب سے پہلے میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ آپ معاملات اور عبادات میں سے کس کو شریعت سے باہر سمجھتے ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تحریر اپ لوڈ کرنے کی وجہ صرف دوبارہ فارمیٹینگ دوبارہ کرنے کی تکلیف سے بچاو ہے۔ امید ہے آپ معاف فرمایئں گے۔
لیکن اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ اس سے دوسرے تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں!!
میں آپ کی بات سے متفق ہوں؛
کچھ واضح نہیں ہوا کہ کس بات سے متفق ہیں؛ غالباً اس بات سے؛
اور یہ خلافت و اقامت دین کا نعرہ لگانے والے اکثر شریعت کے قواعد و ضوابط سے اس قدر لا علم ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی خانہ ساز شریعت کے لئے متحرک ہیں!
مگر دوسری طرف دین کے لیے غیرت کھانے والوں کو بھی ایک ہی اصطلاح میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ہاتھ سے برائی نہ روکنے کی استطاعت کے باوجود اس کو زبان سے برا کہنا اور دل سے برا جاننا بھی دین ہے۔
اب آپ دیکھیں! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کرنے والے بھی اسی ''غیرت'' کے تحت ہی دوسرے مسلمانوں پر گستاخی کا فتویٰ صادر کرتے ہیں! اور درحقیقت انہیں خود اسلامی عقائد کا درست علم نہیں ہوتا!
لہٰذا یہ ''غیرت'' کا معاملہ اتنا آسان نہیں! ہر ایک اپنے مؤقف کو ''دینی غیرت'' قرار دیتا ہے۔ لیکن در حقیقت دین کا ہے اور دین کی غیرت کیا ہے، یہ قرآن و سنت کے دلائل سے ہی معلوم ہوگی!
دوم کہ باطل کو باطل لکھنا کہنا، اور جاننا، الگ بات ہے، لیکن باطل کے سدد باب کے لئے طریقہ بھی شریعت کے موافق ہونا لازم ہے!
اگر حاکم و حکومت میں کوئی خرابی ہے بھی، تو اس کے لئے شریعت نے ہمیں جو احکام دیئے ہیں، ہم اس کے پابند ہیں، نہ کہ جس پر کسی کی ''غیرت'' ابھارے !
امام ابو حنیفہ کے نزدیک فاسق حکمران کے خلاف بھی خروج جائز ہے اگر اتنی طاقت ہو کہ کامیابی کا امکان ہو۔ اس طاقت کا پہلا جز دل میں مسئلہ کا ادراک اور پھر زبان سے اس کی تبلیغ؛
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خروج کے قائل ہونے کے مؤقف پر امام ابو حنیفہ پر سخت جرح بھی کی گئیں ہیں!
امام صاحب کے مؤقف کو اہل سنت کے علماء نے رد کیا ہے!
اور آپ علمائے اہل سنت کی جانب سے مردود قرار دیئے جانے والے مؤقف پر خروج کی تحریک کی بنیاد رکھ کر لوگوں کو پہلے اس مردود مؤقف کا قائل بنانا چاہتے ہو!
ورنہ تو ہماری مثال بنی اسرائیل کے اس عابد و زاہد کی سی ہوگی جس پر اللہ نے سب سے پہلے عذاب کا حکم دیا۔
نہیں! ایسا نہیں! خروج نہ کرنے سے بنی اسرائیل کے عابد وزاہد کی مثال ہونا نہیں ٹھہرتا، بلکہ حق و باطل کو بیان نہ کرنے اور دوسروں کو نصحیت نہ کرنے سے ان کی مثل ہونا ٹھہرے گا!
یہ سوالات ان تمام مختلف تحریروں کا نچوڑ ہیں جو اس موضوع کے متعلق میرے ذاتی مطالعہ میں رہیں؛ میرا قطعی یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ حتمی ہیں مگر ان کے علاوہ اگر کوئی سوال آپ کے ذہن میں ہے تو فرمائیے۔
جی! اسی لئے کہا تھا کہ یونیکوڈ میں تحریر فرمائیں، تو ہم عرض کریں!
اور اسی وجہ سے آپ سے ایک سوال کیا ہے!
اور آپ کے آخری سوال کے جواب سے پہلے میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ آپ معاملات اور عبادات میں سے کس کو شریعت سے باہر سمجھتے ہیں؟
جی ! میں آپ کے سوال کا جواب دے دیتا ہوں!
نہیں ! میں معاملات اور عبادات کو شریعت سے باہر نہیں سمجھتا!
اب ان شاء اللہ آپ میرے سوال کا جواب عنایت فرمائیں گے:
یہ بتلایئے کہ امور حکومت کا تعلق امور معاملات سے ہے یا امور عبادات سے؟
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
جناب نیت کا احوال تو صرف اللہ سبحان و تعالٰی ہی جانتا ہے اور اگر یہ سوئے ظن ہے تو میں پیشگی اللہ سبحان و تعالٰی اور آپ سے معافی کا طلب گار ہوں، مگر آپ کی گفتگو کے مزاج کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اندازہ ہوتا ہے کہ سیکھنے سکھانے کے بجائے آپ محض بحث مباحثہ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں؛

۱۔ آپ آج کل کے عام لوگوں کی طرح لوگوں کے عمومی رویے کو اپنی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ دین میں ماخذ کی حیثیت نہیں رکھتا۔

۲۔ علما٫ ِحق اپنی اپنی علمی سطح کی بنیاد پر جو باہم اختلاف کرتے ہیں وہ قطعی طور پر ہم "مقلدین " کے لیے اِس بات کی حجت نہیں ہے کہ ہم ان میں کسی کی بھی شان میں گستاخی کریں کیونکہ ایک تو یہ بذات خود موانع حصول علم ہے اور دوسرا ہمارا رسول اللہﷺ کی حدیث کی بنیاد پر ایمان ہے کہ مجتہد کے غلط اجتہاد پر بھی اُس کو ایک اجر ہے تو آخر آج وہ کون سی اہم دین کی خدمت ہے جس کے پیش نظر ہم حضرت حسین﷜ ؛ امام ابو حنیفہ﷬ اور زید بن علی﷮ جن کا تعلق خیر القرون سے ہے، ان کے موقف کو اتنی سختی سے رد کریں کے ان کے اجتہاد کو "مردود" جیسے القاب سے نوازیں اور ان کو علمائے اہل سنت کی فہرست ہی میں سے نکال دیں۔ انبیاء﷩ کے بعد آپ سلف و خلف کے کس عالم کے متعلق دعوی فرما سکتے ہیں کہ اُس کے تمام اجتہاد دو اجر کے مستحق اور تمام مسلمانوں کے لیے باعث حجت ہیں ۔ میں نے اِسی فورم پر ایک اور تھریڈ پر بھی علما٫ کے متعلق آپ کے رویے پر پریشانی کا اظہار کیا تھا اور اللہ سبحان و تعالٰی سے اِس مسئلہ پر آپ کی سوچ کی درستگی کا طلب گار ہوں کیونکہ خوارج کی بیان کردہ صفات میں سے ایک صفت علمائے حق پر طعن زنی بھی تھی۔

۳۔ اگر آپ واقعی سنجیدہ ہوتے تو آپ کے اعتراضات کا جواب[نظام کی حقیقت؛ سوال نمبر ۷] اور آخری سوال کا جواب [شریعت کی حقیقت؛ سوال نمبر ۱] کی صورت میں ان دونوں اپ لوڈ کی ہوئی فائلوں میں موجود تھا؛ مگر جیسا کہ میرے یونیکوڈ میں تحریر نہ کرنے کی وجہ سے آپ کے افسوس سے ظاہر ہے کہ آپ کا نقطہ نظر محض اپنے آپ کو فورم کا سرگرم رکن رکھنا ہے چاہے اِس میں کسی فریق کو فائدہ ہو یا نہ ہو۔

جہاں تک "مردود" کی اصطلاح کا تعلق ہے تو علما٫ اِس کا استعمال اُس عمل یا فتویٰ پر کرتے ہیں جس کا کوئی اصل شریعت میں نہ ہو؛ جب کہ یہ مسئلہ قطعی طور پر اس زمرہ میں نہیں آتا اور اس مسئلہ کے اصولی دلائل پر کسی سلف و خلف کے عالم حق کو اختلاف نہیں ہے ؛ اصل اختلاف مصالح اور مفاسد کی ترجیح پر ہے ورنہ دوسری صورت میں تو جن اہل سنت کے علما٫ کا آپ سہارا لے رہے ہیں ان پر ہی یہ الزام آتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ بھی کسی اور کی اطاعت کو جائز سمجھتے ہیں۔

اگرچہ بظاہر گفتگو سے آپ کا انداز عالمانہ تو نہیں ہے مگر پھر بھی شرح عقیدہ طحاویہ تالیف علامہ ابن ابی العز الحنفی ترجمہ مولانا محمد صادق خلیل سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ شاید آپ بات کو سمجھیں۔
----------------------------------------------------------------------
"متقدمین علما٫ کا علم قلیل تھا لیکن اس میں برکت زیادہ تھی اور متاخرین علمی بحثوں میں الجھ گے اور ان کا دائرہ وسیع ہو گیا تو بظاہر اگرچہ ان کا علم کثیر نظر آ رہا ہے لیکن اس میں برکت کم ہے۔
تمام لوگ سلف صالحین کے علمی مقام سے ناواقف ہیں، ان میں تکلف نہ تھا۔ متاخرین ان سے کہیں کم درجہ پر فائز تھے، ان میں تکلف تھا نیز وہ فروع سے اشغال رکھتے تھے، جبکہ سلف صالحین اصول کا خیال رکھتے ہیں؛ ان کی روشنی میں قواعد کا انضباط کرتے ہیں اور ان کے انضباط میں کسی قسم کی لچک گوارا نہیں کرتے ہیں وہ ہر میدان میں بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔"
----------------------------------------------------------------------
اور آخری بات کہ میں نے ساری عمر اپنے آپ کو اپنی کم علمی اور جہالت کے سبب اِس طرح کے بحث مباحثہ سے دور رکھا تو اِسی نظریہ کے پیش نظر میں آئندہ اِس پورے فورم پر آپ کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پیشگی معذرت کرتا ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور آخری بات کہ میں نے ساری عمر اپنے آپ کو اپنی کم علمی اور جہالت کے سبب اِس طرح کے بحث مباحثہ سے دور رکھا تو اِسی نظریہ کے پیش نظر میں آئندہ اِس پورے فورم پر آپ کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پیشگی معذرت کرتا ہوں۔
آپ کے مراسلہ کا جواب تو بعد میں لکھتا ہوں،مگر آخری بات پر عرض ہے کہ اگر آپ حقیقی سوال کا جواب نہیں دے سکتے تو پھر اپنے خود ساختہ سوالات اور جواب کے سلسلہ سے یہاں گمراہی پھیلانے سے بھی گریز کریں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب نیت کا احوال تو صرف اللہ سبحان و تعالٰی ہی جانتا ہے اور اگر یہ سوئے ظن ہے تو میں پیشگی اللہ سبحان و تعالٰی اور آپ سے معافی کا طلب گار ہوں، مگر آپ کی گفتگو کے مزاج کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اندازہ ہوتا ہے کہ سیکھنے سکھانے کے بجائے آپ محض بحث مباحثہ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں؛
آپ نے سوئے ظن سے بڑھ کر تہمتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے!
میرے بھائی! میرا مزاج باطل کو لیپا پوسی کرکے درست باور کرانا نہیں!
اور میرے بھائی! ہم نے آپ سے ایک سیدھا سا سوال کیا ہے! اگر آپ کو معلوم ہے تو بتلادیں، اور نہیں معلوم تو کہہ دیں کہ آپ کو نہیں معلوم!
۔ آپ آج کل کے عام لوگوں کی طرح لوگوں کے عمومی رویے کو اپنی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ دین میں ماخذ کی حیثیت نہیں رکھتا۔
میں نے کہاں اس امر کا ارتکاب کیا ہے؟
کہ لوگوں کے عمومی عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہو؟
یہ میرا مراسلہ نمبر 2525 ہے، ان مراسلوں میں سے کہیں سے ایک اقتباس پیش کردیں!
۲۔ علما٫ ِحق اپنی اپنی علمی سطح کی بنیاد پر جو باہم اختلاف کرتے ہیں وہ قطعی طور پر ہم "مقلدین " کے لیے اِس بات کی حجت نہیں ہے کہ ہم ان میں کسی کی بھی شان میں گستاخی کریں کیونکہ ایک تو یہ بذات خود موانع حصول علم ہے ا
میرے بھائی! آپ مقلدین کے لئے ہی نہیں ہمارے لئے بھی علماء کا باہمی اختلاف کسی عالم کی گستاخی کرنے کا جواز نہیں!
اور دوسرا ہمارا رسول اللہﷺ کی حدیث کی بنیاد پر ایمان ہے کہ مجتہد کے غلط اجتہاد پر بھی اُس کو ایک اجر ہے تو آخر آج وہ کون سی اہم دین کی خدمت ہے جس کے پیش نظر ہم حضرت حسین﷜ ؛ امام ابو حنیفہ﷬ اور زید بن علی﷮ جن کا تعلق خیر القرون سے ہے، ان کے موقف کو اتنی سختی سے رد کریں کے ان کے اجتہاد کو "مردود" جیسے القاب سے نوازیں
دیکھیں میرے بھائی! امام صاحب کے مناقب بیان کرنے سے امام صاحب کا باطل مؤقف درست نہیں ہو جائے گا!
اور مجتہد کا اجتہاد باطل ہونے کے باوجود بھی مجتہد کو ایک اجر ہے، لیکن کسی مجتہد کے باطل اجتہاد کا بطلان معلوم ہونے کے باوجود اس باطل اجتہاد کی پیروی حرام ہے!
اور دوسرے علماء پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو اس بطلان سے آگاہ کریں، اور باطل اجتہاد کو مردود قرار دیں!
اور آپ کو اس لفظ ''مردود'' پر اتنی پریشانی کیوں ہے؟
مردود کا مطلب ہے جو مقبول نہ ہو اور رد کر دیا گیا ہو!
مزید کے یہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کےخروج سے متعلق مؤقف کو علمائے اہل سنت نے مردود قرار دیا ہے، یہاں امام ابو حنیفہ کو نہیں بلکہ ان کے مؤقف کو مردود کہا گیا ہے، اس میں امام صاحب کی کوئی گستاخی نہیں!
رہی بات خیر القرون کی، تو یاد رہے کہ جہم بن صفوان ، واصل بن عطاء، جابر جعفی، وغیرہ بھی اسی خیر القرون کے زمانے میں گزرے ہیں!
آپ جہم بن صفوان اور واصل بن عطاء کے مؤقف کو خیر القرون کی محبت میں قبول کر لیجیئے! ہم سے تو یہ نہ ہوگا!
ور ان کو علمائے اہل سنت کی فہرست ہی میں سے نکال دیں۔
کس نے یہاں امام ابو حنیفہ کو اہل سنت کی فہرست سے نکالا ہے؟
انبیاء﷩ کے بعد آپ سلف و خلف کے کس عالم کے متعلق دعوی فرما سکتے ہیں کہ اُس کے تمام اجتہاد دو اجر کے مستحق اور تمام مسلمانوں کے لیے باعث حجت ہیں ۔
جس اجتہاد کا میں قائل ہوں، میں اس کے بارے میں یہی مؤقف رکھتا ہوں کہ یہ اجتہاد حق و ثواب ہے، اور اور وہ مجتہد اس میں دہرے اجر کا مستحق ہے!
میں کسی اجتہاد کو تقلیداً اختیار نہیں کرتا!
میں نے اِسی فورم پر ایک اور تھریڈ پر بھی علما٫ کے متعلق آپ کے رویے پر پریشانی کا اظہار کیا تھا اور اللہ سبحان و تعالٰی سے اِس مسئلہ پر آپ کی سوچ کی درستگی کا طلب گار ہوں
جی بہتوں کو مجھ سے یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے، کہ میں عقیدت کے بت، کہ جس کی وہ پوجا کرتے ہیں، ان پر ضرب لگاتا ہوں!
کیونکہ خوارج کی بیان کردہ صفات میں سے ایک صفت علمائے حق پر طعن زنی بھی تھی۔
کل کو آپ محدثین کو خوارج کی اس صفت کا حامل نہ قرار دے دیں، کہ انہوں نے خوب جرح کی ہے!
۔ اگر آپ واقعی سنجیدہ ہوتے تو آپ کے اعتراضات کا جواب[نظام کی حقیقت؛ سوال نمبر ۷] اور آخری سوال کا جواب [شریعت کی حقیقت؛ سوال نمبر ۱] کی صورت میں ان دونوں اپ لوڈ کی ہوئی فائلوں میں موجود تھا؛ مگر جیسا کہ میرے یونیکوڈ میں تحریر نہ کرنے کی وجہ سے آپ کے افسوس سے ظاہر ہے کہ آپ کا نقطہ نظر محض اپنے آپ کو فورم کا سرگرم رکن رکھنا ہے چاہے اِس میں کسی فریق کو فائدہ ہو یا نہ ہو۔
آپ اگر سنجیدہ ہیں تو جواب یہاں تحریر فرما دیں!
میرے بھائی! میں اس فورم پر جس مقصد کے لئے ہوں، وہ میرے ہر مراسلہ کے آخر میں دستخط میں دیکھا جا سکتا ہے!
جہاں تک "مردود" کی اصطلاح کا تعلق ہے تو علما٫ اِس کا استعمال اُس عمل یا فتویٰ پر کرتے ہیں جس کا کوئی اصل شریعت میں نہ ہو؛ جب کہ یہ مسئلہ قطعی طور پر اس زمرہ میں نہیں آتا اور اس مسئلہ کے اصولی دلائل پر کسی سلف و خلف کے عالم حق کو اختلاف نہیں ہے ؛ اصل اختلاف مصالح اور مفاسد کی ترجیح پر ہے
''مردود'' کی اصطلاح کی اس تعریف کا حوالہ مطلوب ہے!
ویسے میں آپ کو پہلے ہی بتلا دوں! میں نے ''مردود'' اصطلاح نہیں ''مردود'' لفظ استعمال کیا ہے!
ورنہ دوسری صورت میں تو جن اہل سنت کے علما٫ کا آپ سہارا لے رہے ہیں ان پر ہی یہ الزام آتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ بھی کسی اور کی اطاعت کو جائز سمجھتے ہیں۔
یہ کیا بہکی بہکی باتیں فرما رہے ہیں؟
میرے بھائی! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ بھی کئی اطاعتیں جائز ہی نہیں لازم قرار دی ہیں! اور وہ سب مشروط ہیں!
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، وَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَأَرَادَ نَاسٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّا قَدْ فَرَرْنَا مِنْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا: «لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ: «لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.
زبید نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ایک شخص کو ان کا امیر بنایا، اس (امیر) شخص نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا: اس میں داخل ہو جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کر لیا اور کچھ لوگوں نے کہا: ہم آگ ہی سے تو بھاگے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان لوگوں سے جو آگ میں داخل ہونا چاہتے تھے، فرمایا: "اگر تم آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔" اور دوسروں کے حق میں اچھی بات فرمائی اور فرمایا: "اللہ تعالیٰ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت صرف نیکی میں ہے''
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ، وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ)
صحیح مسلم: کتاب: امور حکومت کا بیان (باب: گناہ کے کاموں کے علاوہ دوسرے کاموں میں حکام کی اطاعت اور گناہ کے کاموں میں اطاعت کی حرمت)
اگرچہ بظاہر گفتگو سے آپ کا انداز عالمانہ تو نہیں ہے مگر پھر بھی شرح عقیدہ طحاویہ تالیف علامہ ابن ابی العز الحنفی ترجمہ مولانا محمد صادق خلیل سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ شاید آپ بات کو سمجھیں۔
انداز بیان گر چہ میرا شوخ نہیں ہے!
انداز کو آپ نظر انداز کیجئے، اور دلیل کی بات کیجئے!
"متقدمین علما٫ کا علم قلیل تھا لیکن اس میں برکت زیادہ تھی اور متاخرین علمی بحثوں میں الجھ گے اور ان کا دائرہ وسیع ہو گیا تو بظاہر اگرچہ ان کا علم کثیر نظر آ رہا ہے لیکن اس میں برکت کم ہے۔
تمام لوگ سلف صالحین کے علمی مقام سے ناواقف ہیں، ان میں تکلف نہ تھا۔ متاخرین ان سے کہیں کم درجہ پر فائز تھے، ان میں تکلف تھا نیز وہ فروع سے اشغال رکھتے تھے، جبکہ سلف صالحین اصول کا خیال رکھتے ہیں؛ ان کی روشنی میں قواعد کا انضباط کرتے ہیں اور ان کے انضباط میں کسی قسم کی لچک گوارا نہیں کرتے ہیں وہ ہر میدان میں بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔"
جی! آپ بھی اس کا خیال رکھیں! اور حق و باطل میں لچک گوارا نہ کریں!

اب تک ہوئی آپ کی مجھ ہرزہ سرائی! خیر کوئی بات نہیں!

مگر میرے سوال کا جواب کہاں ہے؟
یہ بتلایئے کہ امور حکومت کا تعلق امور معاملات سے ہے یا امور عبادات سے؟
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے مراسلہ کا جواب تو بعد میں لکھتا ہوں،مگر آخری بات پر عرض ہے کہ اگر آپ حقیقی سوال کا جواب نہیں دے سکتے تو پھر اپنے خود ساختہ سوالات اور جواب کے سلسلہ سے یہاں گمراہی پہیلانے سے بھی گریز کریں!
برادر محترم سوالات ہمیشہ خود ساختہ ہی ہوتے ہیں مگر جوابات دلیل کی بنیاد پر مبنی ہوتے ہیں؛ اگر آپ اپنے حقیقی سوالات کسی دستی کتاب [Manual]سے کر رہے ہیں تو وہ دستی کتاب [Manual] پوسٹ کر دیں۔ اگر آپ کو میرے جوابات میں کوئی گمراہی ملی ہے تو میرے پر آپ کا احسان عظیم ہو گا کہ اس کو واضح کریں مگر نئے خود ساختہ حقیقی سوال نہ فرمائیں۔
میں نے علم حاصل کرتے وقت ہمیشہ کوشش کی کہ مندرجہ ذیل حدیث میرے سامنے رہے اور انشا٫ اللہ آپ مجھے اس سے ہٹا نہیں سکتے؛
حضرت کعب ابن مالک﷜ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا "جس آدمی نے علم کو اِس غرض سے حاصل کیا کہ اُس کے ذریعے علماء پر فخر کرے، بیوقوفوں سے جھگڑے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا"۔ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [جامع ترمذی] [مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث ۲۱۸ ]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
برادر محترم سوالات ہمیشہ خود ساختہ ہی ہوتے ہیں مگر جوابات دلیل کی بنیاد پر مبنی ہوتے ہیں؛ اگر آپ اپنے حقیقی سوالات کسی دستی کتاب [Manual]سے کر رہے ہیں تو وہ دستی کتاب [Manual] پوسٹ کر دیں۔ اگر آپ کو میرے جوابات میں کوئی گمراہی ملی ہے تو میرے پر آپ کا احسان عظیم ہو گا کہ اس کو واضح کریں مگر نئے خود ساختہ حقیقی سوال نہ فرمائیں۔
جناب عالی ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو خود ساختہ سوال و جواب والی بات بھی سمجھ نہیں آئی!
اور میں نے آپ کی کچھ تحریر پڑھنے پر آپ سے سوال کیا ہے، کہ آیا آپ کو معلوم بھی ہے !
میں نے علم حاصل کرتے وقت ہمیشہ کوشش کی کہ مندرجہ ذیل حدیث میرے سامنے رہے اور انشا٫ اللہ آپ مجھے اس سے ہٹا نہیں سکتے؛
حضرت کعب ابن مالک﷜ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا "جس آدمی نے علم کو اِس غرض سے حاصل کیا کہ اُس کے ذریعے علماء پر فخر کرے، بیوقوفوں سے جھگڑے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا"۔ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [جامع ترمذی] [مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث ۲۱۸ ]
لیکن یہاں تو آپ خود بیوقف چھوکروں میں شمار ہوتے نظر آتے ہو!

اب ادھر ادھر کی بات چوڑیں اور بتلائیں کہ:
امور حکومت کا تعلق امور عبادات سے ہے یا امور معاملات سے؟
 
Last edited:
Top