• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

انٹرویو​
سرپرست ماہنامہ رشد حضرت مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾ جہاں جماعت اہل حدیث کے سرپرست علماء میں سے ہیں، وہیں ان کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو قرآن و علوم قرآن کے احیاء کا جذبہ عرصہ دراز سے اپنے سینہ میں سموئے ہوئے ہیں۔ اُن کی شدت احساس کا یہ عالم ہے کہ تقریبا پچھلی نصف صدی میں کبھی تو انہوں نے جماعت اہل حدیث میں اِحیائے تجوید وقراء ات کے لئے شیخ المشائخ قاری عبدالوہاب مکی﷫کی خدمات جامعہ لاہورالاسلامیہ میں حاصل کیں، توکبھی شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری﷾ اور شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾کا تعاون حاصل کیا۔ آخر کار ان کے جذبہ خالصہ کا نتیجہ بتوفیق ایزدی یوں سامنے آیاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زیرسرپرستی برصغیر پاک و ہند میں شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾کے تعاون سے ایک جدید نظام ِتعلیم کی بنیاد قائم کی۔ کلِّیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیۃ وہ علمی تحریک ہے، جس کی بدولت علماء اور قراء کے نصاب ِتعلیم کو یوں سمو دیا گیا ہے کہ اب آہستہ آہستہ پاکستان میں عالم غیر قاری اور قاری غیر عالم کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، لیکن حافظ صاحب کے جذبے ابھی جوان ہیں۔ وہ احساس رکھتے ہیں کہ کلِّیۃ القرآن الکریم کی تحریک صرف ’علوم قراء ات‘ کے فروغ کی تحریک بننے کی بجائے احیائے فکر قرآنی وعلوم قرآن کی جامع صورت اختیار کرے۔
پاکستان میں اس مبارک تحریک کا آغاز کس طرح ہوا، کن مشکلات سے گذرتے ہوئے یہ سفر طے ہوا، نیز ابتداء میں بانی ادارہ کے اس تحریک سے اَصل عزائم کیاتھے اور وہ کہاں تک پورے ہوئے، کون سی کمیاں باقی رہ گئیں جنہیں آئندہ جدوجہد کے اہداف میں سامنے رہنا چاہئے وغیرہ جیسے اہم اُمور کے سلسلہ میں ماہنامہ ُرشد کے قراء ات نمبر کے لئے انٹرویو پینل کے سامنے حضرت حافظ صاحب﷾نے اپنے تفصیلی خیالات کا اظہار فرمایاہے، جسے ہم تحریک کلِّیۃ القرآن کے وابستگان کے لئے مشعل راہ خیال کرتے ہوئے بطور خاص شائع کررہے ہیں۔ انٹرویو پینل ڈاکٹرقاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر مادر اِدارہ کلِّیۃ القرآن، لاہور)، کامران طاہر﷾ (سینئرریسرچ سکالر مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور)، حافظ نعیم الرحمن ناصف﷾(نائب مدیر ’رُشد‘) اور عمران اسلم ساجد﷾ پر مشتمل تھا۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: حفاظ گروپ اور مدرسہ رحمانیہ کا پس منظر کیا ہے؟
مولانا: ہمارے دینی کام کی ابتداء تو ہمارے دادا میاں روشن دین ﷫ سے ہوئی۔ انہیں والدین سے بے پناہ دولت ملی، مگر وہ سنبھال نہ سکے۔ جب دولت ضائع کر بیٹھے تو انہیں احساس ہوا کہ سنبھل کر چلنا چاہیے۔ اس سلسلے میں دین کا شوق ہوا تو دین کا علم پڑھنے کے لیے ’لکھو کی‘ میں چلے گئے۔ اگرچہ روشن دین نام تو والدین نے رکھا تھا، لیکن اس میں غالباً اللہ کی حکمت یہ تھی کہ ان سے دین کو روشن کرنے کا کام لینا تھاـ۔ انہوں نے دین کا محور قرآن مجید کو سمجھا، اس لیے اللہ نے جب انہیں حج کی سعادت بخشی تو حج میں انہوں نے ملتزم پر جو دعاکی وہ یہ تھی کہ
’’اے اللہ! میری اولاد کو قرآن کا حافظ اور محافظ بنا دے۔‘‘
حج سے واپس آکر انہوں نے اپنی اولاد کے لیے یہ کوشش شروع کر دی کہ پہلے ان کو قرآن حفظ کروایا جائے اور پھر بعد میں قرآن مجید کی تعلیمات سے آشنا ہوں۔ ان کا یہ شوق اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں اس طرح پورا کیا کہ پھر ان کی اولاد کے اندر حفظ کا سلسلہ چل پڑا۔ تقریباً ایک صدی سے صورتحال یہ ہے کہ ہمارے خاندان کے اندر قرآن مجید کے حفظ سے تعلیم کی ابتدا ہوتی ہے ۔ ہر لڑکا اور لڑکی پہلے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر وہ کوئی بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میاں روشن دین﷫نے اپنے اکثر لڑکوں کو قرآن مجید حفظ کروایا۔ کمال تو اللہ رب العالمین کی ذات کو ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیک خواہشات کو جب پورا کرتے ہیں تو ان کو کامیابی دیتے ہیں۔ میاں روشن دین ﷫ کی اولاد میں سے پانچ لڑکے حافظ قرآن تھے۔ ان سے سب سے بڑے رکن دین ﷫ہیں، اس کے بعد حافظ عبداللہ محدث روپڑی﷫ ہیں، اس کے بعد حافظ محمد حسین﷫ ہیں(جو میرے والدتھے)، اس کے بعد حافظ عبدالرحمن کمیر پوری ﷫ ہیں۔ ہمارے ایک تایا عبدالقادر﷫ بھی تھے، چونکہ وہ بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے، اس لیے مجھے ان کا پتہ نہیں کہ وہ قرآن کے حافظ بن سکے یا نہیں۔ واضح رہے کہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی ﷫ سے بڑے ہمارے تایا رکن دین ﷫کے ایک بیٹے کا نام بھی عبدالقادر ہے، جو بعد میں ’مناظراسلام‘ کے لقب سے معروف ہوئے اور حافظ عبد القادر روپڑی ﷫ کے نام سے شہرت حاصل کی۔ ابھی چند سال قبل ہی فوت ہوئے ہیں۔ اس طرح سے میرے ایک تایا کا نام بھی عبدالقادر ہے اور تایا زاد بھائی کا نام بھی عبد القادر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم اپنی اُٹھان کمیر پور سے رکھتے ہیں۔ کمیر پور آج کل ضلع امر تسر کا ایک حصہ ہے، جبکہ اس وقت یہ تحصیل ’اجنالہ‘ کا حصہ تھا۔ کمیر پورمیں ہماری درسگاہ چھوٹی تھی، جس نے روپڑ میں جاکر وسیع شکل اختیار کر لی اور یہیں سے ہماری دعوت اور پیغام پورے ہندوستان میں پھیلا۔ اسی اعتبار سے ہم لوگ’روپڑی‘ کہلائے۔ روپڑ میں دینی مشن کے سلسلہ میں چونکہ زیادہ کام ہمارے تایاحافظ عبداللہ محدث روپڑی﷫نے کیا تھا، اس حوالے سے محدث روپڑی ﷫کو روپڑی خاندان کا سربراہ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے روپڑ میں درس گاہ بھی چلائی اور ’تنظیم اہل حدیث‘ کے نام سے رسالہ بھی نکالا اور اسی طرح ان کی بے شمار تصانیف بھی موجود ہیں، جو روپڑ میں شائع ہوتی رہیں۔ اسی طرح وہ روپڑ میں عوام کے لیے بڑے بڑے جلسے اور کانفرنسیں بھی کیا کرتے تھے، جن میں ہندوستان بھر کے علماء شریک ہوتے۔ یہ سلسلہ یوں چلتا رہا۔ حافظ عبداللہ روپڑی ﷫ پاکستان آنے سے پہلے اپنے آپ کو امر تسری کہلاتے تھے، کیونکہ روپڑ میں تو وہ اس وقت تک خود موجود تھے، لیکن جب ہم لوگ روپڑ سے پاکستان آگئے، توہمیں ’روپڑی‘ کہا جانے لگا۔ روپڑ پاکستان بننے سے پہلے ایک تحصیل تھی، لیکن اب یہ ہندوستان کا ایک ضلع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں آپ کو یہ تعارف کروا رہا تھا کہ ہمارے دادا روشن دین کی دعاؤں اور کوششوں سے ہمارے خاندان میں رواج پڑ گیا کہ ہمارا ہر بچہ اور بچی حفظ سے ابتدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کافی کامیاب دکھایا۔ چند سال پہلے روزنامہ جنگ سے کچھ اخبار نویس آئے تو انہوں نے ہمارے خاندان کو اکٹھا کر کے ہم تمام کا انٹرویو کیا تھا اور پھر حفاظ کے نام سے ہمارا تعارف چھاپاجو پورے صفحے پر محیط تھا۔ تو اس اعتبار سے ہمارے خاندان کے اندر حفظ کا شوق کامیاب ہوا۔
ہمارے دادا کا ایک اور جذبہ یہ تھا کہ دین کی جو خدمت کی جائے وہ معاوضے کے بغیر ہو،کیونکہ عوام جس شخص کو محتاج سمجھتے ہیں اس کی بات کا اثر نہیں لیتے۔ اس لیے وہ ہمیشہ تلقین کیا کرتے کہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہوں۔ اگرچہ ابتدا میں بھائیوں کے درمیان محبت پیار ہوتا ہے، اس اعتبار سے ہمارے بزرگ آپس میں اس طرح کا اظہار کرتے کہ جو دین کا کام کرنے والے ہیں وہ دین کا کام کریں اور دوسرے ان کی مدد کریں اور ان کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ،لیکن ہمارے دادا مرحوم اس بات کی نصیحت کیا کرتے تھے کہ انسان دوسرے کا دست نگر نہ ہو۔ اگر وہ دین کا کام بھی کرتا ہے تو بھی موقع ملے تو اسے اپنی معیشت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے دادا کی اولاد میں ہمارے والد حافظ محمد حسین﷫ خاص طور پر اس بات کے علمبردار بنے کہ وہ خود اپنی معاش کا انتظام کریں گے۔ ہمارے والدمرحوم کا نام مولانا محمد حسین بٹالوی﷫ (جو ہمارے دادا کی خاص محترم شخصیت تھی اور جن سے ہمارے دادا کو بڑی عقیدت تھی) کے نام پر رکھا گیا تھا، ورنہ عام طور پر ہمارے چچا اورتایا وغیرہ کے ناموں کے اندر ’عبد‘ کا لفظ موجودہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرحال مذکورہ سوچ سے ہمارے والد مرحوم نے بڑے کام کیے ۔ صابن سازی کا کام بھی ہوا ، پولٹری فارم کا کام بھی ہوا اور اس طرح کے اور کام بھی ہوتے رہے، لیکن پھر انہوں نے اپنا ایک کام ایسا پکا کر لیا، جس کو وہ زندگی کے آخر دم تک انجام دیتے رہے، وہ ٹیکسٹائل کا کام تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو فیکٹری لگائی اس کا نام رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز تھااور کہتے ہیں کہ رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز میں جب کام کی ابتدا ہوئی تو اس وقت میری پیدائش ہوئی تھی۔ اب یہ ہے کہ’رحمانیہ‘ نام میرے نام کی مناسبت سے رکھا گیا یا رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز کی مناسبت سے میرا نام عبدالرحمن رکھا گیا، معلوم نہیں۔ ویسے تو أحبُّ الأسماء إلی اﷲ عبد اﷲ وعبدالرحمن، اس مناسبت سے والد صاحب نے بڑے بھائی کا نام عبداللہ رکھا، جبکہ میرا نام عبدالرحمن ہے۔
اس طرح ہمارے کام کی ابتدا ہوگئی اور والد صاحب مرحوم اپنی زندگی کے آخری دموں تک جو کام بطورِ معیشت کرتے رہے، وہ ٹیکسٹائل کا کام ہی تھا۔ بعد ازاں ہماری ٹیکسٹائل کی فیکٹری چونکہ جل گئی تھی، اس اعتبار سے یہ تصور پیدا ہوا کہ ایسا کام کرنا چاہیے جس کو آگ نقصان نہ دے۔ لہٰذا پھر ہم نے لوہے کاکام شروع کیا، جس میں ہمارا مخصوص میدان پائپ تھا اور پھر پائپ کی کئی قسمیں ہیں ۔ اس میں پائپ کی ایک قسم وہ ہے جس میں جوڑ نہیں ہوتا۔ ہم نے اس کے لیے کاروبار سیٹ کیا، لیکن تصور وہی تھا کہ دین کا کام کرنے والے اور کاروبار کرنے والے دونوں اس طرح اکٹھے ہوں کہ عوام کی محتاجی نہ ہو، تاکہ عوام میں کوئی دین کا پیغام پھیلے تو عوام محتاج سمجھ کر دین کے پیغام کو ہلکا نہ سمجھیں۔ اب والد مرحوم اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ معیشت اور دینی خدمات اکٹھی ہوجائیں ۔ وہ زندگی میں ہمیں بھی یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ آپ محتاجی سے بچ کر باہم اتفاق کے ساتھ کام کریں تاکہ آپ کا کام عوام میں مؤثر ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعد میں ہماری رحمانیہ ٹیکسٹائل مل(جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ آگ لگنے سے تباہ ہوگئی تھی) کو والد صاحب نے اپنے زمانہ میں درسگاہ کی شکل دے دی تھی، لیکن یہ درسگاہ میرے مدینہ منورہ سے آنے کے بعد صحیح طرح Establish ہوئی۔ اس ادارہ کی ایک مناسبت یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے اندر ایک بہت بڑی درسگاہ تھی، جس کا نام ’رحمانیہ‘ تھا اور دہلی میں یہ درسگاہ تقسیم ہند تک چلتی رہی۔ اس درسگاہ کے اندر تعلیم اور امتحانات کا نظام ہمارے خاندان کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس درسگاہ کے اصل بانی تو ہندوستان کے دوتاجر تھے، بڑے بھائی کا نام عبدالرحمن اور چھوٹے بھائی کا نام عطاء الرحمن تھا، انہوں نے درسگاہ کے عروج کے لیے بہت کام کیا، لیکن تاجر ہونے کے ناطے علمی اور فکری کام ہمارے بز رگوں کے سپرد تھا۔ اس اعتبار سے ہمارے خاندانی کے بانی مبانی چار بزرگ، جن میں چار لوگوں کا نام آتا ہے، یعنی ہمارے تایا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ﷫ ، ہمارے والد حافظ محمد حسین روپڑی ﷫ ، حافظ اسماعیل روپڑی﷫ اور حافظ عبدالقادر روپڑی﷫ وغیرہ امتحان کے سلسلے میں وہاں جایا کرتے تھے۔ رحمانیہ کے نصاب کے بارے میں اگر کوئی کسی قسم کا اعتراض کرتا تو ہندوستان بھر کے علماء کو یہی کہا جاتا تھا کہ آپ بڑے میاں سے بات کریں اور بڑے میاں سے مراد حافظ عبداللہ محدث روپڑی﷫ ہوا کرتے تھے۔ تو ہماری درسگاہ کا نام’ رحمانیہ‘ رکھنے کی دوسری مناسبت یہ تھی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: مدرسہ رحمانیہ سے ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ تک ارتقاء کی مختصر تاریخ بتائیے؟
مولانا:جب میں نے اس درسگاہ کو Establish کیا تو میں نے کوشش کی کہ اس درسگاہ کو ’رحمانیہ‘ کی شکل پر استوار کیا جائے توچونکہ رحمانیہ بڑی نمایاں درسگاہ تھی، اس لیے میرا عزم بھی یہ تھا کہ ’ مدرسہ رحمانیہ‘ جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت اپنا اُس طرح کا وجود باقی نہ رکھ سکا تھا (اگرچہ نام کے اعتبار سے بعد ازاں یہ کراچی میں کوشش کی گئی تھی کہ اس کا وجود باقی رکھا جائے) تو ہماری یہ کوشش تھی کہ’ رحمانیہ‘ لاہور میں قائم کریں۔ جس طرح ہندوستان میں ’رحمانیہ‘ سے طلباء اور اساتذہ کا ایک ترجمان نکلا کرتا تھا، جس کا نام ’محدث‘ تھا اسی طرح ہم نے ’رحمانیہ‘ لاہور سے بھی ایک مجلہ ’محدث‘ کے نام سے عرصہ چالیس سال قبل جاری کردیا۔
انسان کا اپنا مزاج ہر کام میں اثر انداز ہوتا ہے، چونکہ میرا مزاج یا تو تدریسی تھا یا تحقیقی، اس اعتبار سے میں نے جب تدریسی کام کیا تو محسوس کیا کہ تدریسی کا م کو اعلیٰ پیمانے پر کرنے کے لیے تحقیقی کام بھی کریں۔ اگرچہ میں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھا کرتا ہوں کہ انسان اگر فرش پر سے چھت پر جانا چاہے تو اس کو سیڑھی کے ذریعے جانا پڑتا ہے اور یہی طریقہ درست ہے۔ اگر چھلانگ لگائے گا تو گرنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اس لیے سیڑھی کے ذریعے جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے میں نے پہلی کوشش یہ کی کہ جب ’رحمانیہ‘ درسگاہ کھولی تو اس وقت بعض مصلحین کے اندر بڑی خواہش پائی جاتی تھی کہ مدرسوں کے اندر درجہ بندی ہونی چاہیے ، چنانچہ میں نے ’رحمانیہ‘ درسگاہ کو ثانوی تک رکھا اور یہ کوشش کی اس میں ثانوی تعلیم کو منظم کیا جائے۔ ثانوی تعلیم کے بعد انسان جب عملاً کام کرتا ہے تو ایک چیزبڑی اہم ہوتی ہے کہ اسے ساتھی کیسے ملتے ہیں۔ اس لیے کہ انسان کے پاس جس طرح کے ساتھی ہوں گے وہ اسی طرح کا کام کرسکے گا، تو مجھے مولانا صادق خلیل﷫ ملے اور اسی طرح میرے ساتھیوں میں حافظ ثناء اللہ مدنی﷾، مولانا عبدالسلام کیلانی﷫ اور اسی طرح کے دیگر اہل علم اشخاص شامل ہوئے، تو میں نے ’رحمانیہ‘ کو آگے بڑھانے کے لیے ابتدا میں تو صرف اعلیٰ کلاسیں کھولیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ اعلیٰ کلاسیں دو طرح کی تھیں: ایک تو ہمارے دینی نظام تعلیم کی اعلیٰ کلاسیں اور دوسرا چونکہ یہ ضیاء الحق مرحوم کا دورسامنے تھا، اس نے نفاذِ شریعت کا نعرہ لگایا تھا اور کہا کہ ہم ایسی عدالتیں کھولیں گے جو شریعت کے مطابق کا م کریں گی، تو ہم نے چاہا کہ یہاں کے قانون دان طبقے کی بھی اسلامی تربیت ہونی چاہیے، پھر دونوں کا مزاج چونکہ بالکل مختلف ہوتا ہے، دینی نصاب کا مزاج الگ جبکہ قانون دان طبقے کا مزاج الگ ہوتا ہے، اس لیے ہم نے ان دونوں کاموں کو الگ الگ نصاب بنا کر کرنے کی کوشش کی۔ اُس وقت ہمارا کام ثانوی مرحلے پر مدرسہ رحمانیہ کا تھا اور جو اعلیٰ تعلیمی درجے کے لیے ہم نے سوچا تو چونکہ انسان کے سامنے Goal (مقاصد)ہوتے ہیں تو ہم نے Goal کے طور پر نام تو’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ رکھا، البتہ اس کے ذیل میں اس وقت دوچیزیں مزید شامل کیں: ایک تو کلِّیۃ الشریعۃکی ابتدا کر دی اور دوسرا ہم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو پڑھانے اور ٹریننگ دینے کا کام ’ المعہد العالی للشریعۃ والقضاء‘ کے نام سے شروع کیا۔
اس وقت جب ہم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو تربیت دینا شروع کی توہماری کوشش تھی کہ یہ لوگ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب میں بالخصوص اوردیگر ملکوں میں جاکر پڑھیں۔ اس کام کے لیے ہم نے رابطے بھی کیے۔ اس اعتبار سے ہم نے مدرسہ کا نام جب ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کا نام رکھا تویہ عربی انداز کو سامنے رکھتے ہوئے رکھا۔ عام طور پر پاکستان میں یہ اندازنہیں ہے۔ پاکستان میں اگر یہ نام بولا بھی جاتا ہے تو عموماً جامعہ اسلامیہ، لاہور کے نام پر بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں لوگ یا تو جامعہ اسلامیہ، لاہور کے نام سے پکارتے رہے یا کسی نے ہماری ثانوی تعلیم سے رحمانیہ لیا اور اُدھر سے جامعہ لیا تو ’جامعہ رحمانیہ‘ کہہ دیا۔ پاکستان میں ہمارا تعارف جامعہ اسلامیہ، لاہور یا جامعہ رحمانیہ، لاہور کے نام سے زیادہ ہوتا رہا اور عرب ممالک میں ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کے نام سے پھیلا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں نے آپ کو مختصر سا یہ بتایا ہے کہ’ مدرسہ رحمانیہ‘ سے ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ تک ہماری ارتقاء کی کیا تاریخ ہے، لیکن میں ایک بات مکمل کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے جب کاروبار کو ترقی دی تو اس وقت ہم نے سوچا کہ ہمارا کاروبار خواہ کوئی بھی ہو، ہم کام ’حفاظ گروپ‘ کے نام سے کریں گے۔ اس اعتبار سے پھر ہمارا تعارف ’حفاظ گروپ‘ کے نام سے ہونے لگا۔ اس طرح ہمارا کاروباری تعارف’ حفاظ گروپ‘ کا ہے اور ہمارا دینی کام’ رحمانیہ‘ کے نا م سے آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، لیکن میں نے آپ کو بتایا کہ ابھی تک ہمارا کام ’رحمانیہ ‘کے نام سے ہی پاکستان وہندوستان میں متعارف ہے۔ لوگ ’جامعہ لاہور اسلامیہ‘ کے بجائے ’جامعہ رحمانیہ‘ کہہ دیتے ہیں۔ ہم بھی جب ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ لکھتے ہیں تو اس کے ساتھ بریکٹ میں ’رحمانیہ‘ کا لفظ لکھ دیتے ہیں، تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ’ جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ سے کونسا ادارہ مراد ہے۔
 
Top