• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مجلہ اہلحدیث

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مجلہ اہلحدیث

سہیل انجم
ہندوستان میں اسلامی صحافت کی ترویج و ترقی میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات جلیلہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے ۱۳ نومبر ۱۹۰۳ کو ’’مجلہ اہلحدیث‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو پہلے آٹھ صفحات پر مشتمل تھا اور ہر جمعہ کو نکلتا تھا، بعد کو اسے بیس صفحات کا کر دیا گیا۔ یہ اخبار مسلسل ۴۴ سال تک نکلتا رہا۔ تقسیم ہند کے وقت مولانا کے پاکستان چلے جانے کی وجہ سے بند ہو گیا۔ ’’شیخ ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری: حیات و جہود‘‘ (مصنف مولانا عبد المبین ندوی) کے مطابق ’’مجلہ اہلحدیث کے مجموعی صحافت کی تعداد ۳۵ ہزار سے زائد ہے‘‘۔ فرورری ۱۹۱۹ء میں اخبار پر عتاب شاہی نازل ہوا تو دو شمارے شائع نہیں ہوسکے۔ لیکن مولانا نے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اخبار کا متبادل ’’گلدستہ ثنائی‘‘ شائع کرکے تسلسل و تواتر کو برقرار رکھا۔اگست ۱۹۲۳ء میں بھی دو شمارے شائع نہیں ہوسکے۔
اس اخبار کا مقصد اسلام پر غیر مسلموں کے اعتراضات اور ان کے سوالوں کے جواب دینا اور دین اسلام کی نشر و اشاعت رہا۔ مولانا امرتسری کے مطابق یہ ایک جریدہ ہی نہیں دین و دنیا کے مسائل پر مجمع البحرین ہے۔ اس میں دینی و علمی مضامین شائع ہوتے۔ سیاسی موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا جاتا۔ اس کا انداز بہت دلچسپ تھا۔ دینی مسائل سے متعلق سوالوں کے جواب بھی دیے جاتے۔ اس کے نشانے پر قادیانیت اور آریہ سماجیت رہیں۔ چونکہ مولانا امرتسری مرزا غلام احمد قادیانی اور آریہ سماجیوں سے مسلسل مناظرے کرتے لہٰذا اس رسالے میں بھی ان چیزوں کی جھلک ملتی۔ ا س میں بیرون ہند کے اخبارات میں شائع ہونے والی علمی خبروں کے اقتباسات بھی شائع کیے جاتے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک مقصد جماعت اہلحدیث کی ترجمانی بھی تھا۔ اس اخبار کی لوح گول مہر کی مانند تھی اور اس کے اوپر ایک شعر ہمیشہ لکھا رہتا تھا:
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی بر جاں مسلم داشتن
جبکہ بعض شماروں میں نیچے کی جانب یہ شعر ہوتا:
کیا تجھ سے کہوں حدیث کیا ہے دردانہ دُرجِ مصطفی ہے
یو ں تو تقاضائے وقت کے تحت اس کے مضامین ہوتے لیکن اکثر مضامین کے عنوانات طے ہوتے۔ جیسے کہ افتتاحیہ، شذرات، تفسیر قرآن، قادیانیت، فتاویٰ، رسائل، ملکی اخبارات، خبریں، اعلانات وغیرہ۔ ۴ فروری ۱۹۱۶ کے شمارے کے مضامین کی فہرست یوں ہے: مباحثہ جبلپور کا دوسرا صفحہ، ایک نہیں تین ملا میں مرغی حرام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے متعلق، وہابی پر مقدمہ، اخلاق نبویہ، اسلام اور عقل انسانی، صوبہ مدراس اور وفد اہلحدیث، متفرقات، فتاوے، انتخاب الاخبار اور اشتہارات۔
۱۵ نومبر ۱۹۳۵ کے شمارے میں ’’مکتوب مفتوح: بخدمت پنڈت آتمانند صاحب دھرم منڈل بٹالہ‘‘ کے زیر عنوان ایک خط شائع ہوا ہے اور اس پر اخبار کا ایک نوٹ ہے۔ مکتوب نگار لکھتا ہے:
’’بحیثیت خریدار اخبار اہلحدیث امرتسر سے آپ کے مضامین بغور مطالعہ کرنے کے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آپ وید کو بجائے الہامی کتب تسلیم کرنے کے اس کو محض رشیوں کی تصنیف اور تخیلات مانتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ مہابھارت کے زمانہ مابعد کی تصنیف ہیں۔ کیونکہ آپ اس میں بعض ایسے پرشوں کے نام بتلاتے ہیں جن کا تذکرہ مہابھارت میں پایا جاتا ہے۔ ہاں آپ نے بعض نہایت معتبر آریہ سنسکرت داں پرشوں کو بھی اپنا ہم خیال بتلایا ہے۔ لہٰذا اندریں صورت خاکسار بعد طلب معافی آپ سے دریافت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک آج دنیا میں کوئی ایسی مکمل الہامی کتاب بھی موجود ہے یا نہیں جو انسانی دستبرد سے پاک اور انسان کی معاش و معاد کا اس میں مکمل دستور العمل موجود ہو اور ا س کی تحریف کرنا انسانی طاقت سے غیر ممکن ہو اور وہ ہر ایک مذہب کی کمی کو پورا کرنے کی کفیل ہو بلکہ خود اپنی کمالیت کی وجہ سے غیر مذاہب سے اپنے اصول برضا یا باکراہ منوا لے۔ خاکسار نے بعد مطالعہ ادیان مروجہ ایسی مذکورہ الہامی کتاب صرف قرآن شریف کو پایا ہے اور علی وجہ البصیرت یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہو ں کہ منجملہ دیگر معجزات قرآن شریف صرف ایک چشم دید معجزہ دیکھ کر خاکسار نے حیرت زدہ ہو کر اس کو آخری مکمل الہامی کتاب یقین کر لیا ہے اور وہ معجزہ کون سا ہے؟ وہ یہ ہے کہ شہروں میں بہت اور دیہات میں بھی کم و بیش اس کتاب کے حافظ موجود ہیں اور یہ معجزہ صداقت کے بام پر یہاں تک ترقی کر گیا ہے کہ نہ صرف صاحب علم بلکہ اُمی ان پڑھ غیر عربی داں او رنو دس برس کی عمر کے نابالغ حافظ بھی موجود ہیں۔ حافظ ایسے کہ تاریخ کی طرح غیر الفاظ میں بطور خلاصہ کے بلکہ عین الہامی الفاظ میں ایک ایک لفظ ہو بہو صحیح ادا کر سکتے ہیں۔ بعد ازیں آپ کو خاکسار اس کتاب کے مزید غور و مطالعہ کی طرف متوجہ کر کے منتظر جواب ہے۔
خاکسار شیخ غلام حیدر ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر (۸۳ سال عمر) وارد سرگودھا پنجاب۔ ۲۷۔۱۰۔۱۹۳۵‘‘۔
اہلحدیث اخبار کا نوٹ: شیخ صاحب آپ نے فرض تبلیغ ادا کر دیا۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ پنڈت جی کو ہم اور آپ کیا تبلیغ کریں گے ان کو تو ہماری سرکار والا تبار نے مامور بالتبلیغ فرمایا ہوا ہے۔ جس کی تشریح یوں ہے:
پنڈت جی نے مجھ سے زبانی اور جلسہ اہلحدیث بٹالہ میں بیان کیا تھا کہ مجھے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی۔ مجھے فرمایا جاؤ لوگوں کو تبلیغ کرو۔ میں نے عرض کیا حضور آپ کی امت تو خود متفرق ہے۔ میں کس فرقے کی تعلیم کی تبلیغ کروں۔ میرے اس عرض کرنے پر حضور علیہ السلام نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا۔ میں نے دیکھا کہ وہ صورت تو میری نظر سے اوجھل ہو گئی اور اس کی جگہ مولوی ثناء اللہ کی تصویر سامنے آگئی۔ جس سے میں نے سمجھا کہ اصلی تعلیم اسلام اور توحید اس فرقے میں ہے جس میں مولوی ثناء اللہ ہیں۔
بتائیے! ایسے صاحب کو ہم اور آپ کیا تبلیغ کریں گے جو خود دربار نبوی میں پہنچ چکے ہیں۔ ہاں اب ہمارا فرض یہ ہے کہ مقلب القلوب سے دعا کریں: اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے۔
یکم نومبر ۱۹۳۵ کے شمارے میں ’’ملکی مطلع‘‘ کالم کے تحت ’’مسجد شہید گنج لاہور‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون میں اخبار لکھتا ہے: ’’جب سے لاہور میں سکھوں نے مسجد مقبوضہ کو شہید کیا ہے مسلمان طبقہ سخت رنجیدہ خاطر ہو گیا ہے۔ سچ تو ہے کہ آج تک اس بارے میں جو کچھ بھی مسلمانوں نے کیا جنون کی حالت میں کیا۔ کبھی نافرمانی اختیار کی، کبھی گولیاں کھائیں، کبھی گفتگوئے مصالحت کی طرح ڈالی۔ یہاں تک کہ کبھی نادر شاہ کی فوج کی طرح آپس میں ہی لڑ پڑے اور خوب لڑے۔ ہمارے خیال میں یہ سب کچھ دیوانہ وار معشوق کی تلاش میں حرکتیں تھیں جو کامیابی کی طرف راہنما نہ ہوئیں۔ یہاں تک کہ پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری نے اس تحریک کی قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ اس وقت سے تو ہم بالکل ناکامی کا یقین کر بیٹھے۔ مگر محض اتفاق کی وجہ سے خاموش رہے۔ چنانچہ پیر صاحب کے ایک ہم مذہب و ہم مشرب نے بھی اس بارے میں ہماری تعریف کی کہ ہم نے حسب ضرورت اتفاق قومی کو ملحوظ رکھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کا بیان مصداق ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں۔ اس کے بعد اخبار نے خواجہ حسن نظامی کی اس سلسلے میں ایک تحریر نقل کی ہے جس میں خواجہ صحاب نے لکھا ہے: ’’مولانا ثناء اللہ صاحب پیشوائے فرقہ اہلحدیث سے کسی شخص نے پیر جماعت علی شاہ صاحب کی نسبت کچھ سوالات کیے تھے۔ انھوں نے جواب دیا کہ مسجد شہید گنج کا معاملہ ختم ہو جائے تب جواب دوں گا۔ اس واقعہ سے مولانا ثناء اللہ صاحب کی دور اندیشی اور قومی اتحاد کی محبت ظاہر ہوتی ہے‘‘۔
ا سکے بعد اخبار اہلحدیث لکھتا ہے: ’’چنانچہ آج تک بھی خاموشی سے پیر صاحب کی رفتار دیکھ رہے ہیں۔ بعد فراغت حسب موقع اظہار واقعات کریں گے۔ انشاء اللہ۔ خدا خدا کر کے اب کارکن مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہو گیا ہے کہ حکومت کی نافرمانی نہ کی جائے۔ چنانچہ بدایوں کے جلسہ میں جو زیر صدارت پیر صاحب موصوف ہوا یہ طے ہوا کہ مسج دلاہور کے بارے میں حکومت کی نافرمانی نہ کی جائے۔ کیا کیا جائے؟ پہلا کام یہ کیا جائے کہ ہر جمعہ کو مسجد ڈے (یوم مسجد) منایا جائے۔ اس روز انہدام مسج دکا واقعہ ذکر کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ مزید پروگرام کے لیے ۸ نومبر کو لاہور میں مسجد شوریٰ ہوگی۔ یہ تو ہوئی آج تک کی کارگزاری کی مختصر روداد۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ گزشتہ واقعات اور ھریق کار مسلم پبلک کے سامنے رکھ دیں تاکہ مذکورہ مجلس شوریٰ کے ممبران اور مسلم کارکن جو قدم اٹھائیں وہ بحکم قرآن مجید ’’ذکرہم بایام اللہ‘‘ واقعات گذشتہ کو ملحوظ رکھ کر اٹھائیں۔ چنانچہ واقعات گذشتہ یہ ہیں:
(۱) شاردا ایکٹ ابھی بل کی صورت میں پیش تھا کہ ہر صوبہ بلکہ مہر شہر کے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم پاس ہوا۔ پاس ہو جانے پر تو ازحد شورش ہوئی۔ ہر طرح کی آئینی کوشش ہوئی مگر نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا جواب یہی مل سکتا ہے کہ شاردا ایکٹ بحال رہا اور مسلمان اپنا فرض ادا کر سکے۔ مگر مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔
(۲) دوسرا ایجی ٹیشن رسالہ ’’رنگیلا رسول‘‘ کی بابت شروع ہوا اور خوب زور شور سے ہوا۔ بڑے بڑے جلسے ہوئے، اخبارات میں مضامین کی بھرمار ہوئی بلکہ حکومت نے مقدمہ بھی چلایا۔ ابتدائی عدالت میں پبلیشر (شائع کنندہ) کو سزا بھی ہوئی۔ مگر ہائی کورٹ میں سزا معاف ہو گئی اور رسالہ آزاد قابل فروخت رہا۔ یہ اور ا س جیسے کئی ایک اور ایجی ٹیشن ہوئے جو اس سے زیادہ نتیجہ خیز نہ ہوئیکہ چند روز چہل پہل رہی اور: حریفاں بادہا خوردند و رفتند
آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے گھروں میں آرام کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تحریک جاری نہ رکھی جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ گذشتہ تحریکات کو ملحوظ رکھ کر قدم اٹھایا جائے۔ جو نسخہ بیمار کو پہلے مفید نہیں ہوا اس کو استعمال کرنا وقت ضائع کرنا ہے‘‘۔
مولانا کی زندگی بے حد مصروف تھی۔ان کا بیشتر وقت تصنیف وتالیف، خطابت اور مناظروں میں صرف ہوتا۔ان کے حریف بھی ان کی بے پناہ علمیت اور انداز تحریر وتقریر کے معترف تھے۔اکثر مناظروں میں برمحل اشعار کے حوالے دے کر تقریر کو پرلطف بنادیتے۔ ان کا آخری مناظرہ۲۴؍مئی۱۹۴۴ء کو امرتسر میں دہلی کے مشہور آریہ سماجی پنڈت رام چند سے ہوا تھا۔ مولانا ثناء اللہ اپنے نام کے ساتھ امرتسری ضرور لکھا کرتے تھے کیونکہ ان کے ایک ہمنام مولوی ثناء اللہ پانی پتی بھی عالم حدیث تھے۔ ریاست نابھہ میں اکالیوں پر عتاب نازل ہوا تو امرتسر میں سکھوں کے ایک اجتماع سے مولانا امرتسری اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے بھی خطاب کیا۔ڈاکٹرکچلو ماہنامہ ’’تنظیم‘‘ کے سرپرست و مدیر تھے۔ وہ تحریک آزادی میں شامل تھے۔ اکثر جلسوں میں تقریریں کرتے۔ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔
’’اہل حدیث‘‘ کے ۱۳؍اکتوبر ۱۹۲۳ء کی اشاعت کے صفحہ گیارہ پران کی جو تقریر شائع ہوئی اس کا لب لباب ملاحظہ ہو: ’’آپ نے سول نافرمانی کا ریزولوشن پاس کرکے مجھے یقین دلایا کہ آپ بالکل تیار ہیں۔ یہ ایسی تحریک ہے کہ اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو جس قدر تکلیفیں ہیں سب دور ہونی شروع ہوجائیں گی۔میرے ماجھے کے فوجی جوآج تک گورنمنٹ کے دائیں بازو بنے ہوئے تھے آج دیش کے لیے تیار ہیں۔ حیوان طاقت میں مضبوط ہیں لیکن جو کچھ عقل سے انسان کرسکتا ہے حیوان نہیں کرسکتا۔ جوش بڑی اچھی چیز ہے لیکن ایک جوش اندھا بھی کردیتا ہے۔ مثلاً لوگ خون خرابے کرڈالتے ہیں۔ لیکن ایک جوش ٹھنڈا بھی ہوتا ہے۔ جوش ہو تو ٹھنڈا جوش ہو اور وقت پر نکلے۔ یہ جوش ہی قوموں کو بناتا ہے۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ جوش کو بڑھائیں لیکن نظام کے ساتھ رکھیں۔ایسا نہ ہوکہ جوش قابوسے نکل جائے اور کام بگڑجائے۔ اس لڑائی کے لیے ایک ضروری بات یاد رکھو کہ ایک مرد اور عورت ملازم وغیرہ سمجھ لے کہ اپنے اللہ کی راہ میں ملک کی خدمت کے لیے اس وقت اگر آپ کام کریں گے تو فتح آپ کی ہوگی۔ مولانا محمد علی جوہر دونوں بھائی سردار ولبھ بھائی پٹیل، سی آر داس منگل سنگھ بابو، راجندر پرساد اور میرے نہایت عزیز پنڈت جواہرلال نہرو یہ آٹھ سول نافرمانی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ ہمارا کام یہ ہوگا کہ ہندوستان کے کونے کونے میں جاکر لوگوں کو تیار کریں۔ بھرتی شروع کردیں۔تلک سوراجیہ فنڈ کے لیے چندہ جمع کریں۔جس وقت ملک تیار ہوجائے روپے کے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ برٹش مال کا بائیکاٹ کریں اور اعلان کریں کہ ہم لڑائی کے لیے تیارہیں۔ سرکار ہم سے صلح کرے یا دیش کو خالی کرے۔نابھہ کا معاملہ اب اکیلے سکھوں کا نہیں رہا بلکہ ملک کا مشترکہ سوال بن گیا ہے اور اگر گورنمنٹ اپنے رویہ پر قائم رہی تو کانگریس پوری طاقت کے ساتھ سکھوں کا ساتھ دے گی۔‘‘
۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ کے شمارے میں خبر درج ہے: ’’شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی طرف سے وائسرائے ہند کے نام تاردیا گیا ہے کہ جیتو(ریاست نابھہ) میں اکالیوں کو بھجن گانے اور گرنتھ صاحب کا پاٹھ کرنے سے روکنے کے لیے پولیس اور فوج نے محاصرہ کرلیا ہے اور۱۳ ستمبر کی صبح سے اب تک بھوکے ہیں ۔ خوراک اور پانی لانے کی سخت ممانعت ہے۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت کی بھی اجازت نہیں۔ گوردوارہ کمیٹی اس سلوک کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اگر کوئی جانی نقصان ہوا تو حکومت کو مجرم قرار دیا جائے گا۔‘‘ ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۳ء کے صفحہ چار پر’’ انتخاب الاخبار‘‘ کے زیر عنوان چیدہ چیدہ خبریں دی گئی ہیں اور ان خبروں کاانتخاب الانتخاب ملاحظہ ہو:’’مولانا محمد داؤد غزنوی ۱۱؍اکتوبر کی شام اپنی معیادِ قید ختم کرکے روہتک جیل سے امرتسر پہنچے ۔ خلافت کمیٹی کے ارکان نے ریلوے اسٹیشن پر ان کا خیر مقدم کیا اور جلوس نکالا۔‘‘
مولانا امرتسری نے جون ۱۹۰۷ کو قادیانت کے رد کے لیے ماہنامہ ’’مرقع قادیان‘‘ جاری کیا۔ اپریل میں اس کا اعلان آیا تھا۔ انھوں نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ کو مرزا غلام احمد قادیانی سے مباہلہ کیا تھا جس میں مرزا نہ کہا تھا کہ جو سچا ہوگا وہ زیادہ دن جیے گا جو غلط ہوگا اس کی موت پہلے ہو جائے گی۔ مرزا کی موت اس کے کچھ دنوں کے بعد ہو گئی اور مولانا ۱۹۴۸ تک زندہ رہے۔ اس کی موت کے بعد انھوں نے اکتوبر ۱۹۰۸ میں اسے بند کر دیا۔ انھوں نے ۱۹۳۱ میں اسے پھر جاری کیا۔ دو سال تک نکالا اور پھر اس کے صفحات کو مجلہ اہلحدیث میں ضم کر دیا۔
انھوں نے ایک ایک اور اخبار ’’مسلمان‘‘ کے نام سے مئی ۱۹۰۸ میں نکالا تھا۔ جس کا مقصد آریوں، عیسائیوں اور ہندووں کے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ دو سال کے بعد انھوں نے اسے ہفتہ وار کر دیا۔ اسے بھی قارئین میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ مولانا عبد المبین ندوی کے مطابق جولائی ۱۹۱۳ میں انھوں نے اس کی ذمہ داری شیخ علیم الدین امرتسری کو تفویض کر دی۔ وہ اسے چلا نہیں سکے جس کے نتیجے میں بند ہو گیا۔
مولانا بڑے وسیع القلب انسان تھے۔ ایک بار۱۹۳۷ء میں ایک شخص قمر بیگ نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اسے عدالت سے چار سال قید سخت کی سزا ہوئی۔ مولانا کو پتہ چلا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ کیونکہ قاتلانہ حملہ کرنے والا مالی لحاظ سے بے حد کمزور تھا۔مولانا موصوف نے قمر بیگ کی بیوی بچوں کو پوشیدہ طور پر ہر ماہ پچاس روپے ماہانہ بھجوانے شروع کردیے اور کہا کہ قمر بیگ نے جرم کیا لیکن اس کے بیوی بچوں کا کیا قصور ہے۔
مولانا کی سخاوت کی ایک اور مثال پیش ہے: ضلع گجرات پنجاب کے اخبار نویس سید حبیب جو لاہور سے روزانہ سیاست نکالتے تھے۔ مولانا کے خلاف اکثر زہر افشانی کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ صاحب فراش ہوئے تو مولانا ان کی عیادت کے لیے گئے اور ایک لفافہ ان کے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ جس میں معقول رقم تھی۔
ایک بار مولانا کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ، علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا اور بیساکھیوں کے سہارے چلنے پھرنے لگے۔۱۹۴۷ میں جب پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تو مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کے نادر کتب خانے کی حفاظت کے لیے معقول انتظام کیا لیکن اس سے قبل ہی علم وادب کا خزانہ خاکستر ہوچکا تھا۔ فساد کے وقت مولانا کے اکلوتے صاحبزاد۔ عطاء اللہ ٹھیکری پہرہ دے رہے تھے کہ ایک دستی بم ان کے قریب آکر پھٹا جس سے وہ سخت زخمی ہوگئے اور بعد ازاں دم توڑدیا۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری کا اخبار ۱۹۴۷ تک جاری رہا۔ مولانا تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے اور وہیں ۱۹۴۸ میں ان کا انتقال ہوا۔ ۱۹۵۰ میں جماعت اہلحدیث کی ایک مقتدر شخصیت حافظ حمید اللہ نے اس کی اشاعت ثانی کا فیصلہ کیا۔ ادارت کے لیے ان کی نگاہ مولانا سید تقریض احمد سہسوانی پر جا کر ٹھہر گئی۔ انھوں نے اخبار ’’اہلحدیث‘‘ کو زندہ کرنے میں بڑی فراخ دلی اور کشادہ دستی کا مظاہر کیا۔ اس کے لیے انھوں نے خاصی رقم مخصوص کر دی تھی۔ اخبار کا دفتر مولانا محمد جوناگڑھی کی کوٹھی میں قائم ہوا جو کہ پہلے اخبار محمدی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ مولانا سہسوانی اخبار اہلحدیث کے تاحیات ایڈیٹر رہے۔ نامساعد حالات کے باوجود یہ اخبار دہلی سے کافی دنوں تک نکلتا رہا۔ اس کے معاون مدیر حکیم عبد الشکور شکراوی تھے۔
مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی یو پی کے قصبہ سہسوان ضلع بدایوں میں۱۹۰۲ میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ستمبر ۱۹۷۱ میں سہسوان بدایوں میں ہوا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سہسوان میں ہوئی۔ اس کے بعد کچھ تعلیم مرادآباد میں حاصل کی۔ وہاں انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مرادآباد سے دہلی آکر مولانا محمد جوناگڑھی کے مدرسہ محمدیہ اجمیری گیٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے علاوہ دوسرے مدرسوں سے بھی انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ حکیم اجمل خاں کے طبیہ کالج سے کامل الطب و جراحت کی ڈگری لی۔مولانا محمد جونا گڑھی سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ اس لیے انھوں نے مکتبہ محمدی اور اخبار محمدی کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں۔ مارچ 1941 میں اچانک مولانا جوناگڑھی کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ’’اخبار محمدی‘‘ کی ادارت اور مکتبہ محمدی کی ذمہ داری ان کے سر آگئی۔ اخبار محمدی ایک مذہبی رسالہ تھا جس میں مولانا جوناگڑھی کے مضامین کے اقتباسات زیادہ شائع ہوتے تھے۔۱۹۴۷ کے پر آشوب دور میں یہ اخبار بند ہو گیا تاہم مکتبہ قائم رہا۔
حکیم مولانا عبد الشکور شکراوی ۱۸۸۰ میں فیروز پور نمک میوات، ہریانہ میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۱ کو شکراوہ میوات میں ہوا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے مدرسہ مسجد بنگلہ والی نظام الدین (موجودہ مرکز تبلیغی جماعت) میں تعلیم پائی۔ ان کی فراغت مدرسہ عالیہ عربیہ فتحپوری دہلی سے ہوئی۔ انھوں نے طب کی تعلیم خاندان عزیزی کے مشہور طبیب حکیم عبد الرحمن خاں لکھنؤ سے حاصل کی۔ دہلی میں قیام کے دوران مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تقریر اور ان کے مناظروں نے ان پر خاصا اثر ڈالا۔ وہ۱۸۵۷ کے مجاہدین کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا وزیر خاں کو نوح میں انگریزوں نے پھانسی دی تھی۔ ا س کے علاوہ ان کی جائداد بحق سرکار انگلشیہ ضبط کر لی گئی تھی۔ وہ ’’اخبار اہلحدیث‘‘ کے وہ تاحیات مدیر معاون رہے۔ بعد کو دو تین سال تک ان کے بیٹے حکیم اجمل اس کے مدیر رہے۔ ا س کے بعد انھوں نے ’’مجلہ اہلحدیث‘‘ کے نام سے ۱۹۷۸ میں ایک ماہنامہ شروع کیا جو تا دم تحریر میوات، ہریانہ سے نکل رہا ہے۔ یہ ماہنامہ مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا حکیم عبد الشکور شکراوی کی یادگار کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔
 
Top