• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا عقیدہ

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا عقیدہ

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
شیخ عبدالوہاب بن عبدالجبار الدہلوی (م ١٣٨١ھ) نے لکھا ہے: "(عربی عبارت۔۔۔۔۔۔)"
"(ترجمہ) اور میں ہر رات عشاء کے بعد ان (مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ) کے ساتھ اکٹھا ہوتا تھا، کیونکہ ہمارے محلے کے حرم کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ سوتے تھے۔ پھر میں نے اُن سے ان مسائل کے بارے میں پوچھا جن کی وجہ سے علمائے حدیث اُن کی سخت مخالفت کر رہے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا: وہ شیطانی گروہ آریہ پر عقلی رد کی وجہ سے اس (طرزعمل) پر مجبور ہو گئے تھے، کیونکہ یہ گروہ قرآنی آیات و احادیث کا منکر ہے اور ان کے مقابلے میں بطور الزام اور ساکت کرنے کے لئے سلف صالحین کا طریقہ مفید نہیں بلکہ ان پر رد کے لئے متکلمین خلف یعنی عقلی منطقی و فلسفی دلائل کا طریقہ مفید ہے۔
انہوں نے میرے سامنے ایک مناظرے کا قصہ بیان کیا جس میں وہ موجود تھے۔ یہ مناظرہ مسلمانوں اور شیطان صفت آریہ گروہ کے مابین ہوا تھا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے جمِ غفیر کے سامنے مجلسِ مناظرہ منعقد تھی اور آریہ کا مناظر بیوقوف آدمی اور چالاک عیار حیلہ ساز تھا جبکہ مسلمانوں کا مناظر مشہور عالم لیکن نیک اور سلیم فطرت سادہ انسان تھا، انہوں نے عالم کا نام مجھے نہیں بتایا۔ پھر آریہ کے شیطان مناظر نے اٹھ کر آیات متشابہات میں سے ایک آیت کے بارے میں سوال کیا تو مسلمان مناظر نے جواب دیا کہ اس کا معنی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ پھر اس ملعون شیطان نے فورا کہا: تم اپنی طرف سے اللہ کو مناظرے کے لئے کیوں نہیں بلا لیتے تاکہ وہ تمھاری طرف سے جواب دے؟ اور تم جب اپنی کتاب کے معنی خود نہیں جانتے اور نہ سمجھتے ہو تو لوگوں کو اس کتاب (قرآن) کی طرف کیوں دعوت دے رہے ہو جو تمھارے گمان میں پہیلیوں میں سے ایک پہیلی ہے؟
مسلمان عالم تو خاموش ہو گئے اور وہاں موجود مسلمان اس حالت کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوئے۔
شیخ ثناء اللہ (امرتسری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اس قابلِ افسوس حالت کی وجہ سے میں خاموش نہ رہ سکا تو کھڑا ہو کر جلسہ کے منتظم سے جواب دینے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے آریہ مناظر سے کہا: حضرت شیخ نے جو جواب دیا ہے وہ ان کی ذات کے لحاظ سے صحیح ہے لیکن تم اپنی ناسمجھی کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتے۔ لہٰذا میں تمھاری عقلوں نے لحاظ سے تمھیں جواب دیتا ہوں۔
پھر میں نے متکلمین کے طریقے پر اس آیت کی تشریح بیان کی اور اس آیت پر اس کے اعتراضات و شبہات کے عقلی جواب دئیے تو وہ شیطان ہکا بکا رہ گیا اور مناظرے سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمان (بہت) خوش ہوئے۔
پھر شیخ ثناء اللہ (امرتسری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اس پریشان کن تنگ گلی اور دشوارگزار مقام سے نکلنے کے لئے میں علمِ کلام سے فائدہ اٹھاتا تھا اور مخالفین کو پُڑ (ساکت، لاجواب) کرنے کے لئے میں متکلمین کے دلائل استعمال کرتا تھا، ورنہ میرا بھی وہی عقیدہ ہے جو اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ متشابہات کی تاویل کی ضرورت نہیں اور ان کا معنی اللہ کے سپرد کر دینا چاہئے لیکن (بعض اوقات) ضرورت کی وجہ سے ممنوع کام بھی جائز ہو جاتے ہیں۔
(استفدت من ھولاء المئولفین ص٣١١۔٣١٣ طبع دارالصمیعی الریاض)
تفسیر ثنائی کے شروع میں ہاتھ کی تحریر سے عربی زبان میں ایک بیان لکھا ہوا ہے، جس کا ترجمہ و مفہوم درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
امام (حاکم) عبدالعزیز بن سعود کی زیرِ نگرانی منعقد ہونے والی مجلس شریف میں شیخ مولوی ثناء اللہ حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیخ عبدالواحد غزنوی حاضر ہوئے تو سب نے حاکم ایدہ اللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ علماء کی ایک جماعت کی حاضری میں ان کے درمیان اختلاف کا جائزہ لیں اور ان کے اقوال کا جائزہ لینے کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ شیخ ثناء اللہ نے اپنی تفسیر میں تاویلِ استویٰ اور اس جیسی آیاتِ صفات میں متکلمین کی اتباع کرتے ہوئے جو کچھ لکھا تھا اس سے رجوع کر لیا ہے اور اس باب میں انہوں نے سلف (صالحین) کی اتباع کر لی ہے اور یہ اقرار کیا ہے کہ بلاشبہ یہی حق ہے اور انہوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ یہ بات ان کی تفسیر میں لکھ دی جائے (یا اپنی تفیر میں اسے لکھنے کا التزام کیا ہے) اور شیخ عبدالواحد غزنوی اور ان کے ساتھیوں نے شیخ ثناء اللہ کے حق میں جو کلام کیا تھا، جس ان (شیخ ثناء اللہ) کے خلاف جو اربعین لکھی تھی اُسے جلا دیا جائے اور دونوں (گروہوں) نے اس پر رجوع کر لیا ہے کہ وہ دوبارہ (باہمی) بھائی چارہ قائم کریں گے اور اس کے منافین (امور) سے اجتناب کیا جائے۔
اس بات پر (فریقین میں) قرار (اتفاق) ہوا اور انہوں نے حاکم کے سامنے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اور علماء نے تصدیق کی۔ اس توفیق پر حمد و ثناء اللہ ہی کے لئے ہے اور وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل (کارساز) ہے۔ و صلی اللہ علیٰ محمد و آلہ و صحبہ وسلم۔ ١٣٤٤ھ
(ص٢ قبل ص١، تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن طبع ادارہ احیاء السنۃ گوجرانوالہ)
١٣٤٤ھ کو ١٩٢٥ یا ١٩٢٦ء کا دور تھا۔ ثابت ہوا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے خلاف اربعین وغیرہ کتابوں کے تمام حوالے منسوخ ہیں، لہٰذا بعض آلِ تقلید کی طرف سے یہ منسوخ کتابیں شائع کرنا یا منسوخ حوالے پیش کرنا مردود و باطل ہے۔
مروی ہے کہ ایک مصالحتی مجلس میں مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے اپنی بعض غلطیوں کو تسلیم کیا اور فرمایا: "بمقام آرہ میرے حق میں میری تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن کے بعض مضامین کی وجہ سے علمائے اہلحدیث ہندوستان نے جو فیصلہ صادر فرمایا ہے، میں اس کو مانتا ہوں اور میرا عمل درآمد اس پر رہے گا۔ اگر اس کے علاوہ میری کوئی غلطی، خلاف اصول محدثین اہلسنت و الجماعت ہو، ثابت کی جاوے گی تو مجھ کو اس کے مان لینے میں اور رجوع کر لینے میں بھی تاول و عذر نہ ہو گا۔" (دیکھئے سیرت ثنائی ص٧١٦، مقدمہ برہان التفاسیر ص٤٢)
(ماہنامہ الحدیث حضرو، نمبر ١٠٢)​
 
Top