• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم کا برتاؤ مخالفین کے ساتھ

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم


مولاناثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ
کا برتاؤ مخالفین کے ساتھ
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۶۸ ؁ء ۔ ۱۹۴۸ ؁ء) نے اپنی زبان و قلم سے علم کی ، دین کی اورانسانیت کی جو عظیم الشان خدمت انجام دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں پر وقتاً فوقتاً لکھا جاتا رہتا ہے۔زیر نظر تحریر میں مولانا کی زندگی کے ایک خاص گوشہ پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جس کا مقصد ایک طرف مولانا کے اخلاق عالیہ اور خصائل حمیدہ کو اجاگر کرنا ہے تو دوسری طرف نئی نسل بالخصوص دعوت وعمل سے وابستہ حضرات کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے ، اس لیے کہ ذیل میں مندرج واقعات ومعاملات میں ان کے لیے عبرت و موعظت کا کافی سامان موجود ہے۔
مولاناکی حیات وخدمات سے متعلق معمولی جانکاری رکھنے والا ہر فرد بخوبی واقف ہے کہ آپ کی پوری زندگی فرق ضالہ اور ادیان باطلہ کی تنقید وتردید میں گزری۔ان ادیان وفرق کے علما اور حمایتی حضرات سے قلمی ولسانی مباحثے ومناظرے آپ کے شب وروز کا معمول تھے۔مگر ان سے تمام تر علمی ومذہبی اختلافات کے باوجودعام معاملات میں ان کے ساتھ آپ کا سلوک کریمانہ اور تعامل حد درجہ شریفانہ ہوا کرتا تھاجس سے وہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے ۔اس تعلق سے میں نے چند مثالیں جمع کی ہیں، اور بیان کرنے والوں ہی کی زبان میں انہیں من وعن نقل کر دیا ہے جس کی خاطر کچھ طوالت کو بھی انگیز کرنا پڑا ہے جس کا عام طور پر میں عادی نہیں ہوں۔ان میں سے زیادہ تر مثالیں’’بزم ارجمنداں‘‘مؤلفہ مولانا محمد اسحاق بھٹی سے ماخوذ ہیں ،اس کے علاوہ’’اہل حدیث ‘‘امرتسر اور ’’محدث ‘‘بنارس،سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
(۱) قاتلانہ حملہ کرنے والے مجرم کے اہل خانہ کی مالی امداد
معروف مؤرخ وسیرت نگار مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:
’’ اسلام کے خادم مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ پر ۴؍ نومبر ۱۹۳۷ء ؁ کو خود ان کے شہر امرتسر میں قاتلانہ حملہ ہوا ، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کی زند گی کو تو محفوظ رکھا ، لیکن زخم نہایت شدید آئے ۔ شرح اس متن کی یہ ہے کہ امرتسر کے ایک مذہبی فرقے کی طرف سے یکم؍ ۲؍۳؍نومبر ۱۹۳۷ء ؁ کو ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں بعض مقرروں نے اہل حدیث کے خلاف تقریریں کیں ، بالخصوص مولانا کا نام لے کر جو ش جذبات میں کئی ایسی باتیں کہہ دیں جن سے اشتعال پھیل گیا ۔
جلسے کے دوسرے دن یعنی ۴؍نومبر ۱۹۳۷ء ؁ کو ان الزامات کا جواب دینے کے غرض سے جو ایک فرقے کے مقرروں کی طرف سے عائد کیے گئے تھے ، وہاں کی مسجدمبارک میں جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ جلسے میں شرکت وتقریر کے لیے نماز عصر کے بعد چار بجے کے قریب مولانا ثناء اللہ مرحوم اپنے پوتے مولوی رضاء اللہ اور بعض دیگر حضرات کے ساتھ بذریعہ تانگہ مسجد کو روانہ ہوئے - جب تانگہ مسجد مبارک کے قریب پہنچا اور مولانا نے تانگے سے اتر کر ایک شخص ڈاکٹر محمد اسحاق سے مصافحہ کیا تو اچانک قمر بیگ نامی ایک نو جوان نے تیز دھار تبر ( گنڈا سے)سے مولاناپرحملہ کر دیا ، ضرب اتنی شدید تھی کہ عمامہ وکلاہ کٹ گئے اور سر مبار ک سخت زخمی ہو گیا اور تیزی سے خون بہنے لگا ۔ اتنے میں حملہ آور نے دوسرا وار کیا جو ان کے چہرے اور پیشانی پر پڑگیا ۔
مولانا زمین پر گر پڑے ، پھر فوراً سنبھلے اور اٹھ کر بیٹھ گئے-زخموں سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے، اور تمام جسم اور لباس لہو سے سرخ ہو گیاتھا- اس حالت میں جوپہلا جملہ ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا: ’’فزت ورب الکعبۃ‘‘
(رب کعبہ کی قسم میں اپنے مقصد میں کامیا ب ہو گیا )
اس کے بعد عربی کایہ شعر پڑھا ؂ ھل انت الا اصبع دمیت
و فی سبیل اللہ ما لقیت
خون کی کثرت دیکھ کر باربار یہ دعا کرتے تھے- ’’اللّٰہم احشرنی فی المقتولین‘‘ (اے اللہ ! قیامت کے دن میرا حشر شہیدوں کے ساتھ کیجیو)
ایک روایت کے مطابق یہ شعر بھی پڑھا : اگر آں صنم زیر ستم پئے کشتن من بے گناہ
لقد استقام بسیفہ ولقد رضیت بما رضا
حملہ آور بھاگ گیا اور پولیس نے ڈاکٹری معائنے کے بعد رپورٹ درج کر لی ، مگر ملزم چوں کہ روپوش تھا اور تلاش کے باوجود پولیس کو نہیں مل سکا اس لئے مقدمہ نہ چل سکا ۔ آخر کچھ عرصے کے بعد وہ کلکتے سے پکڑا گیا اور ۲۷؍جنوری ۱۹۳۸ء ؁ کو پولیس اسے امرتسر لائی ، مقدمہ چلا اور ۱۶؍اپریل ۱۹۳۸ء ؁ کو اسے چار سال قید بامشقت کی سزا ہو ئی ۔ اس اثناء میں مولانا صحت یاب ہو چکے تھے ۔ مولانا کا یہ مقدمہ میاں عبدالعزیز مالوا ڈہ نے لڑا تھا اور اس کی فیس نہیں لی تھی ۔
یہاں یہ عر ض کر نا ضروری ہے کہ حملہ آور قمر بیگ کے خلاف مولانا مقدمہ دائر کرنے کے حق میں نہیں تھے ، لیکن جب ملزم روپوش ہو گیا تو مختلف تنظیموں نے ہند وستان کے طول وعرض میں جلسے اور میٹنگیں کر کے اس فعل شنیع کی مذمت کی اور حکومت سے ملزم کی گرفتاری اور اسے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا اور بے شمار مقامات سے متعلقہ حکام کو تاریں دی گئیں ۔ اس نتیجے میں پولیس مزید حر کت میں آئی ، ملزم گرفتار ہو ا اور عدالت کی طرف سے مستوجب سزا ٹھہرا ۔
صحت یاب ہو نے کے بعد اپریل ۱۹۳۸ء ؁ میں مولانا نے توحید و سنت کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی غرض سے ایک رسالہ ’’نور توحید ‘‘ لکھا اور ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر مفت تقسیم کیا ۔ اس رسالے میں مولانا تحریر فرماتے ہیں:-
اپریل ۱۹۳۸ء ؁ میں میری عمر ستر سال کی ہو گئی ۔ حدیث میں آیا ہے کہ :-
’’اعمارامتيمابین الستین إلی السبعین واقلہم من یجاوز ذلک۔(ترمذی)
(یعنی میری امت کے لوگوں کی عمریں ساٹھ ستر سال کے درمیا ن ہیں ، کم تر لوگ اس سے زیادہ عمر پائیں گے )
فرماتے ہیں:
’’میرے بعض ’’عنایت فرما ؤں ‘‘ نے چاہا کہ میں اس حدیث کے ما تحت بذریعہ شہادت اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں ۔ چنانچہ ۴؍نومبر ۱۹۳۷ء ؁ کوایک نو جوان سے حوروں کا وعدہ دے کر مجھ پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا ، جس کی تفصیل رسالہ ’’شمع توحید ‘‘ میں لکھ چکا ہوں ، مگر قدرت کو منظور تھا کہ میں حد یث کے آخری فقرے میں رہوں۔ اس لئے احباب کی تمنّا ؤں اور دعاؤں سے زندہ ہوں‘‘۔
مولانا مرحو م ٹھنڈے دل کے مالک تھے ۔ انتقام کا جذبہ ان کے قلب وذہن کے کسی گوشے میں نہ تھا۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا اس کے ایام اسیری میں اس کے بیوی بچوں کے لئے پچاس روپئے ماہانہ خفیہ طورسے اس کے گھر پہنچاتے رہے ۔ کیا اس قسم کی مثال کہیں مل سکتی ہے؟ اس دنیا میں مختلف مسالک فقہ سے تعلق رکھنے والے بے شمار علماء موجود ہیں ، سیاسی لیڈروں کی بھی کمی نہیں جو بہت سی جماعتوں سے وابستہ ہیں ، رفاہ عامہ میں دلچسپی لینے والے ہر جگہ بکثرت مل جاتے ہیں ، لیکن مولانا ثناء اللہ جیساصاف دل، جرأت مند ، سچا اور سْچا آدمی کہیں نہیں ملے گا جو قتل کے ارادے سے حملہ کرنے والے کے اہل و عیال کی باقاعدہ مدد کرتا ہے ۔‘‘ (بزم ارجمنداں، ص:۱۸۲۔۱۸۵)
ایک جگہ بھٹی صاحب لکھتے ہیں:
’’ ۱۹۳۷ ؁ ء میں ایک شخص قمر بیگ نے (جس کی تفصیل اوپر مذکور ہوئی ) مولا نا پر قاتلانہ حملہ کیا، ملزم گرفتار کر لیاگیا اور اسے چار سال کی سزاہوئی۔اس کی بیوی بچوں کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا، مولانا کو پتہ چلا تو سخت افسوس کا اظہار کیا اور اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ذریعہ پچاس روپئے ماہانہ خفیہ طور سے اس گھر پہنچاتے رہے۔ فرماتے تھے اگر کوئی غلطی کی ہے تو قمر بیگ نے کی ہے ، ماہانہ دیتے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں، ان کی بہر حال مدد ہونی چاہیے۔قمربیگ رہا ہوکر آیا تو دیکھا کہ گھر کی حالت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، بیوی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ فلاں ڈاکٹر صاحب ۔۔۔پچاس روپئے مولانا ثناء اللہ صاحب کی طرف سے عنایت فرماتے تھے تاکہ اس کے اہل خانہ مالی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔انھوں نے تاکید کی تھی کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔
یہ سن کر قمر بیگ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فعل پر اظہار ندامت کیا ۔ قیام پاکستان کے بعدوہ امرتسر سے پاکستان چلا گیا ،ملتان ہی میں اس کا انتقال ہوا۔‘‘(بزم ارجمنداں،ص:۱۷۸)
(۲)غیر مسلک کے عالم کی عیادت اور مالی مدد
مؤلف مذکور مولانا کے تذکرے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مولانا کے جود وسخا کا ایک واقعہ مولانا محمد بخش مسلم مرحوم نے سنایاجو احناف کے بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ سید حبیب بیمار ہوگئے اور کئی دن صاحب فراش رہے،وہ مسلکاً بریلوی تھے اور روز نامہ سیاست کے مالک اور ایڈیٹر تھے جو لاہور سے شائع ہوتا تھا اور اپنے زمانے کا مشہور اخبار تھا ۔خود سید صاحب کی ملک کے سیاسی ومذہبی حلقوں میں بڑی شہرت تھی۔
سید حبیب فقہی مسلک کے اعتبار سے مولانا ثناء اللہ کے مخالف تھے اور اخبار میں سلسلہ بحث جاری رہتا تھا۔مولانا کو ان کی بیماری کا پتہ چلا تو عیادت کے لیے لاہور تشریف لائے اور ان کے مکان پر پہنچے۔مولانا محمد مسلم بخش نے بتایا کہ اس وقت وہ بھی سید حبیب کے پاس موجود تھے ۔
مولانا ثناء اللہ صاحب نے مزاج پرسی کی ،چند منٹ ان کے پاس بیٹھے اور پھر بقول مولانا محمد بخش مسلم کے ان دونوں سے نظر بچاکرچپکے سے ایک لفافہ سید حبیب کے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ لیکن سید صاحب کو اس کا پتہ چل گیااور بات ظاہر ہو گئی۔سید صاحب نے شکریہ ادا کیا اور لفافہ واپس کرنے کی کوشش کی ،ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔مولانا نے ان کے لیے دعا کی ، انہیں تسلی دی اور اصرار کیا کہ وہ لفافہ رکھ لیں۔ سید صاحب نے وہ لفافہ کھولا تو اس میں سو روپئے کے نوٹ تھے ۔ یہ ۱۹۳۰ء یا اس کے لگ بھگ کی بات ہے اور سو روپئے کی رقم اس دور میں بہت بڑی رقم تھی ۔ بلکہ سو روپئے والے بعض ایسے لوگ بھی تھے جو عام آدمیوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے۔‘‘ (ایضاً، ص:۱۷۸۔۱۷۹)
(۳)دینی انجمنوں اور جماعتوں کی مدد اپنے پریس کے ذریعہ
’’بارہا ایسا ہواکہ کسی جگہ کی انجمن یا کسی دینی جماعت کو، وہ ان کے مسلک کے حاملین کی ہو یا کسی دوسرے مسلک کی ، اشتہارات یا تبلیغی رسائل چھپوانے کی ضرورت پڑی اور بات مولانا کے علم میں لائی گئی ، انھوں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا،اس کی کتابت کرائی ،کاغذ خریدا،اسے اپنے پریس میں چھپوایااور کام مکمل کر کے متعلقہ پارٹی کے حوالے کیا، کسی سے ایک پیسہ وصول نہیں کیا۔‘‘ (ایضا )
(۴)درس میں غیر مسلموں کی شرکت اور استفادہ
’’تصنیفی اور صحافتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ مولانا اپنی مسجد میں نماز فجر کے بعد روزانہ درس قرآن مجید دیتے تھے ، درس میں قرآن کے رموز ونکات دلنشیں اسلوب میں بیان کرتے اور معترضین کے اعتراضات اور غیر مذاہب کی اسلام پر نکتہ چینیوں کے مدلل جواب دیتے ۔درس کے وقت وہ اپنے پاس ایک چھڑی رکھتے تھے، کسی شخص کو اونگھتایا سویا ہوا دیکھتے تو چھڑی ہلا دیتے اور وہ چوکنا ہو کر بیٹھ جاتا۔
درس قرآن میں پڑھے لکھے بعض غیر مسلم بھی شریک ہوتے تھے،وہ لوگ مسجد میں ایک طرف ہوکر بیٹھ جاتے اور مولانا کے افکار وخیالات غور سے سنتے ، اگر کوئی بات ان کے نزدیک حل طلب ہوتی تو درس کے بعدانتہائی احترام سے پوچھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے‘‘۔ (ایضاً ،ص:۱۶۰)
(۵)آریہ ایڈیٹر کی عیادت بذریعہ خط
’’آگرے سے اس دور میں آریوں کا ایک ہفتروز ہ اخبار نکلتا تھا ، جس کا نا م ’’آریہ مسافر‘‘ تھا ۔ اردوزبان کے اس اخبار میں مولانا کے ان مضامین کا جواب دیا جاتا تھا جو اخبار ’’اہل حدیث‘‘ میں آریہ اور ہندومذہب کے بارے میں لکھے جاتے تھے ۔ ۔۔۔ ’’آریہ مسافر ‘‘ کے ایڈیٹرکا نام پنڈت بھو جدت تھا ۔ وہ بیمار ہو ئے تو مولانا نے ایک خط لکھ کر ان کی مزاج پرسی کی تھی ۔ مولانا کا یہ خط اخبار ’’آریہ مسافر‘‘ میں چھپا تھا اور پنڈت بھو جدت نے اس پر مولانا کا شکریہ ادا کیا تھا‘‘۔ (ایضاًص:۱۹۰)
(۶)آریہ عالم کی عیادت
آریہ عالم دھرم پال لکھتے ہیں کہ :
’’ جب مولوی نورالدین صاحب قادیانی نے رسالہ ’’نورالدین‘‘ کے ذریعے اور مولوی ثنا ء اللہ امرتسری نے ’’ترک اسلام ‘‘ کے ذریعہ اسلام اور ملاازم کے درمیان خط ممیز کھینچ دیا تو میری تصانیف کی قیمت ایک دیا سلائی کی رہ گئی ، میرے اعتراض کا جواب دینے میں ’’نورالدین‘‘ کے مصنف کا نشانہ علمی معلومات کی بدولت بے خطا ہوتا ، مگر’’ترک اسلام ‘‘ کا وار زیادہ ستم ڈھاتا ، جب کہ وہ میرے قلعے کو جومیں سخت جدوجہد کے ساتھ تفسیروں کی بناء پر تعمیر کرتا تھاصر ف اتنا سافقرہ مسمار کر ڈالتا کہ :
’’ تفسیر کا جواب تفسیر لکھنے والوں سے لو قرآن مجید اس کا ذمہ دار نہیں ہے‘‘۔
اس ایک فقرہ نے میرے ’’ترک اسلام ‘‘ اور میری دوسر ی تصنیف ’’تہذیب اسلام ‘‘ کو چھلنی کر ڈالا اور میں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ ’’نورالدین‘‘ کے مصنف کے ساتھ تو بحث چل سکتی ہے ، مگر ’’ترک اسلام ‘‘ کے مصنف کے ساتھ جو ملاازم کا سرے سے منکر ہے بحث کا چلنا مشکل ہے ، اور لطف یہ ہو ا کہ ’’ نورالدین‘‘ کے مصنف نے میرا مقابلہ میں دوبار ہ قلم نہ اٹھایا ، حالانکہ میں آرزومند تھا کہ اس کے ساتھ بحث کا سلسلہ جاری رہے ، لیکن ’’ترک اسلام ‘‘ کے مصنف نے ’’تہذیب الاسلام ‘‘ کے جواب پر پھر قلم اٹھایا تو میں نے ’’ترک اسلام‘‘ کے مصنف کے مقابلہ میں دوبارہ قلم اٹھانے سے انکار کر دیا ، اس طرح ہماری پہلی جنگ کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ (المسلم صفحہ نمبر ۳۹۳ بابت ماہ دسمبر۱۹۱۴ء ؁ )۔
’’میری گذشتہ ایک سال کی بے ایذا زند گی نے میرے مسلمان بھائیوں کے دلوں پر بھی میرے لئے اس قدر محبت پیدا کردی کہ جب ان کو میری بیماری کا حال معلوم ہوا تو وہ جوق در جوق میرے پاس آنے لگے ، ان میں مولانا ثناء اللہ کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے ، مولوی صاحب کے ساتھ تحریری دست پنجہ توسالہاسال تک ہوتا رہا ، مگر رودررو ہونے کا غالباً یہ پہلا موقع تھا ، جس کو ایک مبارک موقع ہی سمجھنا چاہیے خواہ وہ بیماری کی شکل ہی میں نمودار ہوا ۔
مولوی صاحب فطرتاً خوش مذاق اصحاب سے ہیں ، اس لئے سمجھنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف ’’ترک اسلام ‘‘ اور ’’تہذیب اسلام ‘‘ بلکہ’’ نخل اسلام‘‘ کا مصنف بستر مرض پر پڑا ہو اہے ، اور دوسری طرف ’’ترک اسلام ‘‘ اور ’’تغلیب اسلام ‘‘ بلکہ ’’ تبرا سلام ‘‘ کا مصنف اس کے سرہانے بیٹھا اس کی تیمارداری کر رہا ہو وہاں اگر ملکو ت السمٰوات والارض دلی مسرت سے یہ شعر پڑھ ر ہے ہوں :
شکر ایزد کہ میاں من واو صلح فتاد حوریاں رقص کناں ساغر شکر انہ زدند
تو کوئی عجب بات نہیں ۔
اس سے پہلے میرا یہ خیال تھا کہ مولوی ثنا ء اللہ جو احمدیہ فرقہ کے ساتھ ملانوں جیسی چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے وہ خود کو ئی کٹھ ملا ہو گا ، یہی وجہ تھی کہ باوجو د ان کی کوشش کرنے کے میں کبھی ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا ، لیکن پہلی ملاقات ہی میں معلوم ہو گیا کہ مولوی ثناء اللہ ایک خوش مزاج ، خوش مذاق ، خوبصورت اور خوب سیرت جنٹل مین ہے ، اور قدرت نے اس کو ایک دل ربا ادا دی ہے ، سچ تو یہ ہے کہ اس ’’ابن یعقوب‘‘ کودیکھ کر مجھے اپنے دل کو تھامنے میں بڑی دقت پیش آئی،مولوی ثناء اللہ ہرتیسرے روز میری خبر لینے کے لئے لاہور پہونچتے تھے ‘‘۔ ( ’اندر‘صفحہ ۹۲ بابت ماہ دسمبر ۱۹۱۲ء )(یہ غازی محمود کا ایک ماہانہ میگزین تھا)۔
کچھ مدت بعدمجھے دوبارہ ملا ازم کو رگڑنے کا خیال ہوا،اس دفعہ میں نے کتب تاریخ سے مدد لی،اور ’’نخل اسلام ‘‘ کے نام سے جلی سٹری ہوئی کتاب شائع کی،آریہ سماج کے اخباروں نے اس کتاب کا نہایت زوردار الفاظ میں ریویو کیااور مسلم اخبارات نے اس کے خلاف شورمچایا،میں چاہتا تھا کہ پرانے ٹائپ کے لوگ میرے مقابلہ میںآئیں تاکہ مجھے اس بات کے جاننے کا موقع ملے کہ وہ ان باتوں کا کیا جواب رکھتے ہیں ، لیکن میری بد قسمتی اس دفعہ بھی وہی ’’ترک شیرازی ‘‘ یہ کہہ کر کہ :-
’’قرآن مجید یا اسلام تواریخ یا تفاسیر کا جواب دہ نہیں ‘‘۔
’’نخل اسلام ‘‘ (میری ایک اورکتاب کا نام ) کو ’’تبر ا سلام ‘‘ (مولانا کی طرف سے اس کا جواب ہے) مار کر چلتا ہے ، اس طرح پرانے ٹائپ کے جن ملانوں کو رگڑنے کے لئے میں نے یہ دو سری کوشش کی تھی وہ پھر بچ گئے ، آخر کار جب میں نے دیکھا کہ ملاازم کے ماننے والے تو میدان میںآتے نہیں اور جو میدان میں آتے ہیں وہ ملا ازم کو ماننے والے نہیں ہو تے تو میں نے ان تمام مباحث کا قطعی فیصلہ کر ڈالا ، اور’’ تَرک اسلام‘‘ سے لے کر اپنی آخری تصنیف تک جس قدر کتابیں تھیں ان سب کو میں نے ۱۴؍جون ۱۹۱۱ء ؁ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا (اور اپنے مسلمان ہو نے کو اعلان کردیا )۔(المسلم صفحہ نمبر ۳۹۳ بابت ماہ دسمبر۱۹۱۴ء ؁ )۔
(ملاحظہ ہو: ماہنامہ محدث، بنارس :مئی،جون ۱۹۹۳ ؁ء ص:۶۲۔۶۴)
(۷) سخت کلامی اور غیر شائستہ زبان سے پرہیز:
’’ مولانا مرحوم بہت پیاری زبان لکھتے اور بولتے تھے ، نہایت صفائی سے بات کرتے اور دلکش الفاظ میں اظہار مدعا کرتے ۔ وہ انتہائی شائستہ مزاج ، شگفتہ کلام اور شستہ بیان عالم دین تھے ۔ تحریرمیں روانی ، ،تقریر میں تسلسل ، بات چیت میں نکھار اور دوسرے کی سخت سے سخت گفتگو سننے کا حوصلہ اور برداشت کرنے کا سلیقہ ان کے وہ اوصاف تھے جو انہیں سب سے ممتاز کرتے تھے انہوں نے جس طریقے سے اسلام کا دفاع کیا ، جس ڈھنگ سے دین کی تبلیغ کی اور جس نہج سے مخالفین اسلام پر حملے کیے ، اس میں کوئی ان کاحریف نہ تھا۔ مقابلے میں وہ کبھی اضطراب اور گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے ۔ حواس ہمیشہ قابو میں رکھے نہایت اطمینان سے دوسرے کی بات سنی اور انتہائی سکون سے اپنی سنائی۔
منا ظرے میں وہ خوب چہکتے تھے ، اپنی مدافعت بھی پوری قوت سے کرتے اور حملہ بھی بھر پور طریقے سے کرتے ، لیکن اس میں قرآن کے حکم وَجَادِلہُمْ بِالَّتِيْ ہِیَ اَحْسَنُ (کہ اے پیغمبر !مخالفین اسلام سے بہترین طریق سے مجادلہ کرو)پر ہرصورت میں عمل پیرارہتے تھے۔
وہ اپنی بات کرتے تھے ،کسی کادل نہیں دکھاتے تھے۔ان کے پیش نظر اسلام کی تبلیغ اوردین کی ترویج تھی ، کسی کوبرابھلاکہنااورسب وشتم پراترآناہرگزان کا طریقہ نہیں تھا ۔وہ قرآن کے اس ارشاد کو ہر موقعے پر پیش نگاہ ر کھتے تھے،جس میں مسلمانوں کومخاطب کرکے فرمایا گیا ہے :
( وَلَا تَسُبّوا الذِّیْنَ یَدْعُونَ مِن دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبّوا اللّٰہ عدوًا بِغَیْرِعِلْمٍ )
’’یعنی جو لوگ خدا کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارتے ہیں، تم ان کے معبودوں کو گالیاں نہ دو ، ورنہ وہ بھی حد سے متجاوز ہوکر بے سوچے سمجھے خدا کو برا بھلا کہنے لگیں گے ‘‘۔ (الانعام:۱۰۸) ( بزم ارجمنداں )
جوابی تحریروں میں سنجیدگی کے التزام اور سخت کلامی سے اجتناب کے اصول کا اندازہ لگانا ہو تو قارئین مولانا کی درج ذیل تحریروں کو غور سے پڑھیں:
(۱) ’’نامہ نگار( الفقیہ،جو پنجاب سے شائع ہونے والا بریلوی جماعت کا مشہور ترجمان تھااس کے نامہ نگار مراد ہیں)نے حسب عادت شریفہ جماعت اہل حدیث کے حق میں جو القاب لکھے ہیں،مثلاً: بد دیانت،بد امانت،بدکار،دروغ گو،دغاباز،وغیرہ،اسی طرح ’العدل‘(فرقہ دیوبندیہ کاترجمان)مورخہ ۴؍اگست(۱۹۲۹ء)میں شیریں مقا ل مولوی عبد الجبارڈربوی نے ارکان اہل حدیث پر غیظ وغضب کا اظہار کیا ہے،ان سب کا جواب دینے سے ہم خود بھی قاصر ہیں،شیخ سعدی مرحوم بھی ہمیں مانع ہیں، اس لیے ہم اتنا کہتے ہیں: بدم گفتی وخر سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا
(اخبار اہل حدیث، امرتسر،۲۴؍ربیع الاول۱۳۴۸ ؁ھ مطابق ۳۰؍اگست ۱۹۲۹ ؁ء،ص:۲)
(۲) مولانا مرتضی حسن دیو بندی نے اخبار ’’العدل‘‘ میں تقلید کے موضوع پر قسط وار مضمون شائع کیا تھا جس میں اہل حدیثوں کے لیے جا بجا سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا، مولانا امرتسری اپنے ’’اہل حدیث‘‘ میں اس کا قسط وار جواب دے رہے تھے،اس جواب کی نویں قسط میں مولانا ایک نوٹ لگا کر لکھتے ہیں:
’’ ناظرین اہل حدیث مولانا مرتضی کی سخت کلامی سے گھبرا کر سخت مضامین بھیج رہے ہیں ،ان کو صبر کرنا چاہیے، ایسے سخت مضامین کا درج ہونا گو ان کے نزدیک’’جزاء سیءۃ مثلہا‘‘کے ماتحت جائز ہے، لیکن ’’اہل حدیث ‘‘ کی روش کے خلاف ہے، پس ایسے اصحاب صبر سے جواب سنتے جائیں....‘‘
(اخبار اہل حدیث، امرتسر،۸؍محرم الحرام۱۳۴۶ ؁ھ مطابق ۸؍جولائی۱۹۲۷ ؁ء۔ص:۱)
(۸)فریق مخالف کے مناظر کو بعد از مناظرہ قیام وطعام کی دعوت:
’’وہ اس درجے عالی ظرف اور بلند اخلاق تھے کہ اگر ان کے شہر امرتسر میں کسی جگہ سے کوئی صاحب ان سے مناظرہ کرنے آتے تو مناظرے کے بعدمجمع عام میں انھیں دعوت دیتے کہ وہ ان کے یہاں قیام کریں اور انھیں مہمان نوازی کا موقع دیں ۔
وہ اہل حدیث مسلک کے عالم تھے ، لیکن غیر مسلموں اور مخالفین اسلام سے وہ صرف اہل حدیث حضرات ہی کی طرف سے مناظرہ نہیں کرتے تھے ، دو سرے فقہی مسلک کے اہل علم بھی ان کی خدمات حاصل کرتے اور غیر مسلموں کے مقابلے میں ا ن کولے جاتے تھے۔
میرے ایک مرحوم دوست میجر محمد حسین بابری نے بتایا کہ ایک مرتبہ لاہور کی مسجد وزیرخا ں کے اصحاب انتظام نے ایک عیسائی پادری سے مناظرہ طے کرلیا ، لیکن انھیں اپنے فقہی مسلک یعنی احنا ف کے بریلوی حضرات سے کوئی ڈھب کا منا ظر نہ مل سکا تو ان کے چند آدمی فوری طور سے مولانا ثنا ء اللہ صاحب کے پاس امرتسر پہنچے اور مناظرے کے لیے انھیں لاہور لے کر آئے ۔ بہت بڑامجمع تھا ۔ مناظرہ ہو ا اور مولانا کامیاب رہے ۔ پھر اسی وقت واپس امرتسر تشریف لے گئے ۔ بقول میجر بابر ی کے اہل حدیث حضرات پر تو مولاناکا اثر تھا ہی غیر اہل حدیث بھی ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ ‘‘(بزم ارجمنداں، ص:۱۶۵۔۱۶۶)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اسعد اعظمی؍جامعہ سلفیہ، بنارس

 
Top