جس قوم کے لوگ اس طرح کے دیومالائی قصے کہانیاں سنانے والے کو سر پر چڑھالیں۔تو انجام وہی ہوتا ہے جو اس دور کے لوگوں کا ہورہا ہے۔خصوصا پاکستانیوں کا۔
نہ ایمان نہ عمل۔۔۔چِلا لگائو۔جنت میں جائو۔
صرف دو دن پہلے کی بات ہے۔کہ سامنے سڑک پر کھڑی ایک کار کو دیکھ کر ایک لڑکا جو دیوبندی تھا اُس نے کہنا شروع کردیا کہ لگتا ہے اس کار میں مولانا طارق جمیل صاحب ہیں بس یہ کہنا تھا کہ لوگ اس کار کے گرد جمع ہوگئے جب قریب گئے تو پتا چلا کہ یہ تو کوئی اور ہے۔بے چارے شرمندہ ہوکر سر نیچے کئے ہوئے واپس ہوئے۔پاکستان میں دین بس یہی رہا ہے کہ قرآن وسنت کو چھوڑو۔شخصیت کے پیچھے بھاگو!!!
اللہ ہمیں ان سے بچائے اورصحیح قرآن وسنت کا دین اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین